2024ء سندھ میں سماجی و اقتصادی ترقی نہیں ہوسکی

معروف کالم نگار اور دانش ور پروفیسر ڈاکٹر اسماعیل کنبھر نے بروز اتوار 29 دسمبر 2024ء کو کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد میں اپنے زیر نظر کالم میں جو خامہ فرسائی کی ہے اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دل چسپی کے لیے پیشِ خدمت ہے۔

’’پاکستان کی اقتصادی ترقی کا زیادہ تر دارومدار زراعت پر ہے جس کا ملک کی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) میں حصہ 19.5فیصد بنتا ہے، اور ملک کی 64 فیصد آبادی بھی اسی سیکٹر سے وابستہ ہے۔ اس طرح سے مجموعی طور پر ملک کے 38.5 فیصد انسانی وسائل کی قوت براہِ راست اس شعبے سے وابستہ ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی 79.61 ملین ہیکٹر اراضی (رقبے) میں سے 23.70 ملین ہیکٹر رقبے پر زرعی پیداوار ہوتی ہے اور اس میں زیادہ سے زیادہ زیرِ کاشت آنے والی زمین پنجاب اور سندھ میں واقع ہے۔ زراعت ہی وطن ِ عزیز کا وہ واحد سیکٹر ہے جو لگ بھگ 25 کروڑ انسانی آبادی کی خوراک پوری کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے کروڑوں جانوروں کو بھی خوراک مہیا کرتا ہے۔ زراعت پاکستان کی ایگرو بیسڈ انڈسٹریز کو بھی خام مال فراہم کرنے کا باعث ہے۔ گویا اس طرح سے ملک کے67 فیصد سے زیادہ دیہی علاقوں میں رہائش پزیر افراد کا انحصار زراعت پر ہی ہے۔

سندھ کی اقتصادی، معاشی اور سماجی ترقی میں شعبۂ زراعت کا کردار بہت اہم ہے۔ سندھ میںکپاس، گنا، چاول، گندم، سرسوں کے بیج اور دالوں کی فصل کے علاوہ آم، کیلے، امرود، کھجور اور سبزیاں ملکی سطح پر مجموعی قومی پیداوار کے ساتھ ساتھ ملک کی خوراک کی ضروریات کی تکمیل کے لیے اہمیت کی حامل ہیں، جب کہ معیاری فصلوں اور پھلوں کی پیداوار کو بیرونِ ملک فروخت کے لیے بھیج کر زرمبادلہ بھی کمایا جاتا ہے۔ البتہ قدرتی کے ساتھ ساتھ اپنے ہی ہاتھوں کی پیدا کردہ آفات اور موسمی تبدیلیوں کے باعث بارشوں کا بروقت نہ ہونا، قحط کی سی صورتِ حال، پانی کی قلت، درجۂ حرارت کی کمی بیشی اور بوقتِ ضرورت خالص اور اصلی بیجوں کے ساتھ کھاد اور فصلوں پر ہونے والے گردن توڑ اخراجات، فصلوں کی مناسب قیمت کا نہ ملنا، اور حکومت کی غیر ذمہ داری جیسے عوامل نے سندھ کی زراعت کو شدید نقصان سے دوچار کیا ہے۔ یہی نہیں، ان اسباب کی بنا پر بڑے زمینداروں سے لے کر متوسط، چھوٹے اور بے زمین ہاریوں کا معیارِ زندگی بھی بہت بری طرح سے متاثر ہوا ہے، جس کے نتیجے میں سندھ میں اصل پیداوار حاصل کرنے والے کسان مالی مشکلات جھیلنے کے ساتھ ساتھ غربت کی لکیر سے بھی کہیں نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بلاشبہ شعبۂ زراعت کی حیثیت پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی سی ہے جو وطنِ عزیز کے اقتصادی پہیّے کو گردش دے رہی ہے اور اسے رواں دواں رکھے ہوئے ہے۔ سندھ پاکستان کا ایک ایسا زرعی مالیاتی خطہ ہے جو زرعی پیداوار میں ملک میں دوسرے نمبر پر ہے، اور ملک کے کُل 14.09 ملین ہیکٹر رقبے میں سے 5.76 ملین ہیکٹر رقبے پر زرعی پیداوار کاشت کیا کرتا ہے۔ سندھ کی معاشی ترقی کا تمام تر دارومدار زراعت پر ہے۔ سندھ کی اہم فصلیں مثلاً گندم، کپاس، گنا اور چاول کے علاوہ پھلوں اور سبزیوں کی فصل مثلاً 90 فیصد کیلے کی پیداوار، 85 فیصد مرچ کی پیداوار، 55 فیصد کھجور، 40 فیصد پیاز، 35 فیصد سے بھی زائد آم کی پیداوار ہماری قومی پیداوار میں اہم کردار کی حامل ہیں۔ تیل کے حصول کے لیے کاشت کردہ بیج، مال مویشیوں کا چارہ اور گھاس، اور دالوں کی فصلیں بھی سندھ کی زراعت کا اہم حصہ ہیں۔ سندھ کی قومی پیداوار اور ایگرو بیسڈ انڈسٹریز کے ساتھ صوبے اور ملک کی مقامی غذا اور خوراک کی ضروریات کے ساتھ گڈویلیو ایڈیشن کے ساتھ گڈ ایکسپورٹ کی وجہ سے سندھ نہ صرف ملکی کاروباری ضرورت کو پورا کر سکتا ہے بلکہ مقامی اور ملکی سطح پر شعبہ زراعت میںکام کرنے والے مزدوروں اور آبادگاروں کے ساتھ ساتھ پیداوار استعمال کرنے والے شہری بھی خوش حال ہوسکتے ہیں۔

سندھ ملک کی دُم (Tail) میں واقع صوبہ ہے، اس لیے اگر ملک میں سیلابی صورتِ حال پیدا ہوتی ہے تو اس کی تباہ کاریاں بھی سب سے زیادہ سندھ ہی کو بھگتنا پڑتی ہیں، اور اگر ملک میں کبھی خشک سالی یا قحط کی سی صورتِ حال پیدا ہوتی ہے، تو اسے بھی سب سے زیادہ سندھ ہی کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ تقسیم ہند سے قبل کی مثال دی جائے تو پانی کی تقسیم اس طرح تھی کہ متحدہ پنجاب یعنی اُس وقت ہندوستان میں شامل پنجاب اور اپنا پاکستانی پنجاب دونوں مشترکہ طور پر تمام دریائوں میں سے 48 فیصد پانی اٹھایا کرتے تھے جب کہ صرف سندھ ہی تنِ تنہا 48 فیصد پانی حاصل کیا کرتا تھا۔ اس میں اُس وقت پاکستان میں بہنے والے دریائوں کے ساتھ وفاق اور پنجاب کی جانب سے بھارت کو فروخت شدہ تینوں دریائوں کا پانی بھی شامل ہوا کرتا تھا۔ لیکن اب تو صورتِ حال یہ ہے کہ پنجاب کے دو حصوں میں منقسم ہوجانے کے بعد پنجاب کے حصے کا جو پانی کم ہونا چاہیے تھا وہ اب اُسے دوگنا اضافہ کرکے حاصل کررہا ہے، جب کہ سندھ کا حصہ کم کرکے اسے اس حد تک گھٹا دیا گیا ہے کہ نہ 1991ء کے معاہدے کے مطابق کوٹری سے نیچے سمندر کے لیے حسبِ ضرورت پانی ملتا ہے اور نہ ہی سندھ کو اپنے حصے کا پورا پانی میسر ہوتا ہے کہ سندھ کے آبادگار بغیر کسی پریشانی کے اپنی زمینوں پر فصل کاشت کرسکیں۔

سندھ اس وقت ہمہ جہت مسائل کا سامنا کررہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سندھ ملک کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں بہت زیادہ مشکلات اور تکالیف کا سامنا کررہا ہے اور آگے چل کر اسے ابھی مزید دشواریوں کو جھیلنا پڑے گا۔ جب بھی سیلاب آتا ہے، سندھ کے لوگ ہی سب سے زیادہ دربدر ہوتے اور نقصان برداشت کرتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات بھی سب سے زیادہ سندھ ہی پر مرتب ہوتے ہیں۔ ادارتی ناانصافیاں بھی سندھ کو بھگتنی پڑتی ہیں، بیرونِ صوبہ سے لوگوں کی سب سے زیادہ یلغار بھی سندھ ہی پر ہوتی ہے جس سے مقامی آبادی کا توازن بگڑ کر رہ گیا ہے۔ وسائل اور پانی کی تقسیم پر ہر دور میں سندھ کے ساتھ ناانصافی برتی جاتی ہے۔

2024ء میں سندھ کو کوئی بھی بڑا ترقیاتی منصوبہ نہیں دیا گیا اور نہ ہی آگے چل کر اسے کسی بڑی ترقی کے حصول کی کوئی امید ہے، جو تھوڑے بہت منصوبے جاری تھے وہ بھی بدنظمی کی وجہ سے پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکے ہیں۔ بدعنوانی کی دیمک ترقی کے لیے جاری منصوبوں کو کھا جاتی ہے، اس پر مستزاد سندھ کی بقاء کے واحد ذریعے دریائے سندھ کے پانی کو لوٹنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ اگر خدانخواستہ یہ کوششیں کامیاب ہوگئیں تو سندھ اس صورت میں مکمل طور سے تباہی سے ہم کنار ہوجائے گا۔

سال 2020ء میں کورونا کی وبا، 2020ء اور 2021ء میں ٹڈی دل کے حملے کے ساتھ ایل بی او ڈی اور آر بی او ڈی میں پڑنے والے شگاف، اور سال 2022ء میں سیلابی بارشوں کی وجہ سے سندھ کا زرعی اور سماجی ڈھانچہ مکمل طور سے معاشی تباہی سے دوچار رہا۔ اسی طرح سال 2023ء اور 2024ء میں سیلابوں اور دیگر اسباب کے نتیجے میں پہنچنے والے نقصانات نے سندھ کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے نہیں دیا۔ عالمی بینک کی طرف سے چلنے والے امدادی منصوبے کے تحت سیلاب متاثرین کے گھروں کی تعمیر بھی مکمل نہیں کی جاسکی، بلکہ سندھ کی زراعت کے ساتھ ساتھ سندھ کا انفرا اسٹرکچر اور زرعی صنعتی ترقی بھی پروان نہیں چڑھ سکی۔

سندھ کو اس کے حصے کا پانی منصفانہ طور پر نہ ملنے کی وجہ سے سندھ کا صحرا بھی بڑھتا چلا جارہا ہے۔ سندھ کی زرخیز زمینیں بنجر ہوتی چلی جارہی ہیں۔ پنجاب کے مقابلے میں سندھ کی فصل کی فی ایکڑ لاگت بڑھنے کے باعث سندھ کے آبادگار، ہاری، کسان فصلوں پر ہونے والے اپنے اخراجات تک پورے نہیں کرپاتے۔ صنعتی شعبہ ہو یا پھر کوئی اور شعبہ… وہاں انڈسٹریل یونٹ کا مالک اپنی پیداوار کی قیمت یا نرخ خود ہی مقرر کرتا ہے، لیکن سندھ کی زراعت کا المیہ یہ ہے کہ آبادگار اپنی پیدا کردہ فصل کی قیمت کا تعین خود نہیں کرسکتے، اور وہ مڈل مین یا آڑھتی کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔

سندھ میں آبادی میں اضافے کی سالانہ شرح 2.41 فیصد ہے۔ 2022ء میں کُل آبادی 56.3 ملین تھی جو 2050ء تک 95.7 ملین تک پہنچنے کا امکان ہے۔ 2050ء تک پاکستان عالمی طور پر آبادی میں بہت زیادہ اضافے کے حامل آٹھ ممالک میںشامل ہوگا۔

سال 2024ء میں بھی سندھ میں سماجی اور اقتصادی ترقی کا پہیہ آگے کی سمت رواں نہیں ہوسکا جس کی اہم وجہ زراعت اور اس سے وابستہ مسائل، موسمی تبدیلیاں، شرح آبادی میں اضافہ، اور تعلیم اور عوامی صحت کے شعبوں کی کارکردگی کا معیار بہتر نہ ہونا ہے۔

اس وقت سندھ میں غربت، بے روزگاری، صنفی عدم مساوات، معیارِ تعلیم کی کمی نے سندھ کی اقتصادی اور سماجی ترقی کو نہ صرف روکا ہے بلکہ سندھ کی غربت میں بھی اس بنا پر اضافہ ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی اداروں کے ساتھ ساتھ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی رپورٹس کے مطابق سندھ میں 40 فیصد سے زائد اہلِِ سندھ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

موجودہ گلوبل ولیج اور مصنوعی ذہانت کے دور میں بھی ہماری زراعت تاحال جدید ٹیکنالوجی کی مدد حاصل نہیں کرسکی ہے، جس کی وجہ سے ہماری زراعت اور سماجی ترقی کی رفتار سست ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ سالِ نو میں ہماری زراعت اور سماجی ترقی بہتر رُخ اختیار کرے گی۔‘‘