چودہری انوارالحق کی حکومت کے 20 ماہ

آزادکشمیر میں وزیراعظم کی تبدیلی کا ایک اور تیر خطا ہوگیا
آزاد کشمیر میں تبدیلی کی خواہش کسی عملی کوشش میں ڈھلے بغیر ہی اُس وقت ٹائیں ٹائیں فش ہوکر رہ گئی جب مظفرآباد کے نواح میں اسمبلی میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے ایک اجلاس میں تمام فریق اس نتیجے پر پہنچے کہ آزادکشمیر میں تبدیلی برائے تبدیلی کا پنڈورا باکس نہیں کھولا جا سکتا اور وزیراعظم انوارالحق ہی انتخابات تک اپنا کام جاری رکھیں گے۔ اس اجلاس میں تمام پارلیمانی جماعتوں کے علاوہ وزیراعظم چودھری انوارالحق بھی شریک تھے۔ ظاہر ہے تبدیلی پسندوں نے یہاں اپنی شکایتوں کے دفتر کھولے اور وزیراعظم نے اپنا مقدمہ لڑا۔ یوں دوطرفہ مؤقف سننے کے بعد ثالث پارٹی نے اپنا فیصلہ سنایا۔ اس کے ساتھ افواہوں اور قیاس آرائیوں کا ایک سلسلہ اختتام کو پہنچ گیا۔ بقول غالب ؎

بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرہ تو ایک قطرۂ خوں نہ نکلا
غالب کا یہ شعر بھی حسب ِحال ہے ؎
تھی خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پُرزے
دیکھنے ہم بھی گئے پہ تماشا نہ ہوا

اس کوشش کی ناکامی کے بعد وزیراعظم انوارالحق نے پُراعتماد ہوکر ایک پریس کانفرنس میں اپنی فتح کا اعلان کیا اور یکسو ہوکر اپنی پالیسیوں پر عمل درآمد کا عزم دہرایا۔ اُن کے ساتھ پریس کانفرنس میں جہاں پی ٹی آئی فارورڈ بلاک کے ارکان موجود تھے، وہیں اتحادی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے ارکان بھی پہلو میں براجمان تھے، جس سے صاف لگ رہا تھا کہ انوارالحق حکومت پر ایک اور وار ناکام اور ایک اور تیر خطا ہوگیا ہے۔ انوارالحق کی تبدیلی کے خواہش مندوں میں سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد خان، قائدِ حزبِ اختلاف چودھری محمد یاسین اور سابق وزیراعظم راجا فاروق حیدر خان کے نام نمایاں تھے۔ اس قطار میں کئی اور پردہ نشین بھی کھڑے تھے۔

آزادکشمیر میں کچھ عرصے سے وقفے وقفے سے تبدیلی کی خواہش بہت سے دلوں میں کونپل بن کر پھوٹ پڑتی ہے مگر ہر بار اس تبدیلی کا کوئی ٹھوس جواز نظر نہیں آتا، بلکہ اس خواہش کا عنوان فقط ’’تبدیلی برائے تبدیلی‘‘ہوتا ہے۔ موجودہ اسمبلی دوبرس کے دوران تین چہرے بدل چکی ہے، جن میںعبدالقیوم نیازی اور سردار تنویر الیاس کے بعد انوارالحق شامل ہیں، اس کے باوجود عوام کے بنیادی مسائل اپنی جگہ موجودہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تبدیلی کی یہ کوشش بھی کئی جماعتوں کے اندر وجہِ نزاع بن کر رہ گئی۔ پی ٹی آئی تو پہلے ہی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی تھی، مگر تبدیلی کی خواہش پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن میں بھی ایک دراڑ کا باعث بن کر رہ گئی تھی۔ ان میں ایک دھڑا اسٹیٹس کو توڑنے کا مخالف تھا، جبکہ دوسرا دھڑا تبدیلی کی خواہش دلوں میں بسائے ہوئے عالم ِغیب سے کسی مدد کا منتظر تھا۔ جب کسی معاملے کی بنیاد اصولی نہ ہو تو پھر حالات یونہی تقسیم در تقسیم کی طرف جاتے ہیں۔ آزادکشمیر میں چہروں کی تبدیلی اب سیاسی رسم ورواج بن کر رہ گئی ہے۔ ہر اسمبلی سے ایک دو وزرائے اعظم برآمد کرنا ضروری جان لیا گیا ہے۔ ایسے میں ہر سیاسی شخصیت اپنی سی وی اُٹھائے اسلام آباد کی راہداریوں کے چکر کاٹنے لگتی ہے۔ وزیراعظم چودھری انوارالحق کی سربراہی میں آزادکشمیر میں اِس وقت جو حکومت قائم ہے وہ تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز کی مشترکہ اور مخلوط حکومت ہے۔ پی ٹی آئی فارورڈ بلاک اس کا سب سے اہم عنصر ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی اس حکومت کے دوسرے اجزائے ترکیبی ہیں۔ مسلم کانفرنس اور جموں وکشمیر پیپلزپارٹی بھی نیمے دروں نیمے بروں حکومت کے ساتھ ہیں۔ پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی بھی حکومت کے لیے شاخ ِ زیتون تھامے ہوئے ہے۔ اس طرح آزاد کشمیر میں اس وقت تمام سیاسی جماعتوں کی حکومت قائم ہے۔ افہام و تفہیم کی اس مثالی فضا میں تبدیلی کی خواہش تو کی جا سکتی ہے مگر کسی ایک نام پر متفق ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ ہر دل میں یہ خواہش پیدا ہونا فطری ہوتا ہے کہ اگر کوئی اور وزیراعظم بن سکتا ہے تو وہ خود کیوں نہیں؟ روایتی سیاست میں ہر شخص کا میرٹ اپنی ذات سے شروع ہو تا ہے۔ ایسے میں جب کسی شخص کے خلاف کوئی ٹھوس الزام بھی نہ ہو، بدعنوانی کا کوئی واقعہ بھی نہ ہو، تو ایسے میں چہروں کی تبدیلی کی خواہش زیادہ وزن حاصل نہیں کرسکتی۔ وزیراعظم چودھری انوارالحق کے بیس ماہ کئی مشکل اور بڑے فیصلوں سے عبارت ہیں۔ انہوں نے خود کو انتقامی سیاست سے دور رکھا، بڑی حد تک مالیاتی ڈسپلن قائم کرنے کی کوشش کی۔ آزادکشمیر جیسے کرپشن کے لیے آزاد خطے میں مالیاتی ڈسپلن شیر پر سواری کا دوسرا نام ہے۔ چودھری انوارالحق نے اپنے عرصہِ اقتدار میں کئی ایسے فیصلے کیے جو روایتی جکڑ بندیوں کا شکار سیاسی وزیراعظم نہیں کرسکتا تھا۔ ان پر جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے احتجاج سے اچھے انداز سے ڈیل نہ کرنے کا ایک ایسا الزام عائد کیا جارہا تھا جو قومی منظر میں قطعی مضحکہ خیز تھا۔ حکومت نے اپنے عوام کے اوپر گولی نہ چلا کر نااہلی نہیں بلکہ بہترین حکمت عملی کا مظاہرہ کیا۔ بصورتِ دیگر یہاں بھی تشدد کے سنگین واقعات رونما ہوسکتے تھے، اور یہ زخم پھر تادیر رِس کر ایک ناسور بھی بن سکتے تھے۔ چارجڈ ہجوم کو حکمت و تدبر سے نیوٹرل کرنا، ماحول کو ٹھنڈا کرنا سیاست اور انتظامی معاملات میں بہترین حکمتِ عملی ہوتی ہے۔ کوئی بھی وزیراعظم عوام، طلبہ، مزدوروں، کسانوں یا زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والوں کو احتجاج کرنے سے روک نہیں سکتا۔ آزادکشمیر میں لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے بار بار نکلتے رہیں گے، یہ ان کا قانونی اور آئینی حق ہے۔ جب انہیں محسوس ہوگا کہ قومی لینڈ اسکیپ میں ان کو جائز حصہ نہیں مل رہا تو وہ اپنے حق کے لیے صدائے احتجاج بلند کریں گے۔ یہ قبرستان نہیں، زندہ انسانوں کی بستی ہے، مگر دیکھا یہ جائے گا کہ حکومت کسی بھی احتجاج سے نبٹنے کے لیے کون سی حکمت عملی اختیار کرتی ہے۔ اس لیے موجودہ حکومت نے ایکشن کمیٹی کے احتجاج کو ختم کرنے کے لیے معتدل حکمتِ عملی اختیار کی، جس کی بدولت آزادکشمیر کسی خونیں سانحے کا شکار ہونے سے بچ گیا۔ اس لیے آزادکشمیر میں تبدیلی برائے تبدیلی کی خواہش کا انجام تو ہوگیا ہے مگر اس کی کوئی ضمانت نہیں کہ دوبارہ یہ خواہش دلوں میں انگڑائی نہ لے۔

سابق وزیراعظم سردار تنویرالیاس جو پارلیمانی منظر سے باہر ہیں، اس کوشش کی ناکامی کے بعد بھی کہتے ہوئے پائے گئے ہیں کہ موجودہ نظام اس انداز سے زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ اس سے صاف لگتا ہے کہ تنویر الیاس پارلیمانی منظر سے غائب تو ہوئے ہیں مگر اُن کے دل کے ارمان ابھی بھی جوان ہیں اور مچل رہے ہیں۔ انہیں اپنی مدتِ اقتدار مکمل نہ کرنے کا قلق ہے۔ اس میدان میں انہوں نے برسوں سے بھاری سرمایہ کاری کررکھی تھی، جس کی بدولت وہ پہلے بیرسٹر سلطان محمود چودھری کو وزارتِ عظمیٰ سے دور رکھنے میں کامیاب رہے، بعدازاں عبدالقیوم نیازی کو بھی ہٹانے میں کامیاب ہوگئے، مگر قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ ٹوٹی کہاں کمند… کے مصداق وہ ایک عدالتی تنازعے کا شکارہوئے اور آزادکشمیر کی عدالتِ عالیہ نے انہیں نااہل کردیا، جس کے بعد اُن کے پاس اپنی خواہشات کی سپر ڈالنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔ اس نااہلی کی راکھ پر چودھری انوارالحق کی وزارتِ عظمیٰ کا تاج محل تعمیر ہوا۔ اب تنویر الیاس اس تاج محل پر الفاظ اور وسائل کی سنگ باری کریں تو اس میں کوئی عجیب بات نہیں۔ بہرحال اس بحران سے نکلتے ہی چودھری انوارالحق نے پوری یکسوئی کے ساتھ اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا عزم ظاہر کیا، مگر سوال یہ ہے کہ اپنا ایجنڈا تیار کرنے اور پھر اس پر عمل درآمد کرنے کے لیے آزادکشمیر کے کسی بھی وزیراعظم کے پاس اسپیس کیا باقی ہے؟