پاک افغان کشیدگی میں اضافہ

پاکستان اور افغانستان کے درمیان کئی ماہ سے چلے آنے والے دو طرفہ تنائو میں گزشتہ ہفتے اُس وقت شدید اضافہ دیکھنے میں آیا جب پہلے پاکستان کی جانب سے افغانستان کے سرحدی صوبے پکتیکا میں جیٹ طیاروں سے بمباری کی گئی، اور پھر جواب میں افغان طالبان اور تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوئوں نے مشترکہ طور پر پاکستان کی سرحدی چوکیوں کو بھاری اور ہلکے ہتھیاروں سے نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز کا کم از کم ایک سپاہی، جب کہ افغانستان کے بھاری جانی نقصان کی اطلاعات گردش کررہی ہیں۔ یہ تازہ ترین سرحدی جھڑپیں اُن حملوں کا تسلسل سمجھی جارہی ہیں جو پاکستان کی سیکیورٹی فورسز پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے مستقل کیے جارہے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے تازہ ترین حملے جو 21 دسمبر کو ہوئے ان میں کم از کم 16 پاکستانی فوجی جاں بحق ہوگئے تھے۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان کے فوجی ذرائع ان اطلاعات کی تصدیق کرچکے ہیں کہ پاکستانی طیاروں نے پکتیکا میں اُن ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے جہاں ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں نے پناہ لے رکھی تھی۔ تاہم افغان طالبان حکومت نے پاکستان پر الزام لگایا ہے کہ ان فضائی حملوں میں خواتین اور بچوں سمیت کم از کم 46بے گناہ شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ جواباً افغان طالبان فورسز نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ڈیورنڈ لائن کے قریب کئی مقامات کو نشانہ بنایا ہے۔

سیاسی تجزیہ کار اور اس خطے کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا ماننا ہے کہ پاکستان جسے کئی دہائیوں سے افغان طالبان کا سرپرست سمجھا جاتا رہا ہے اور پاکستان ان حالات میں جب اسے طالبان پر خاصا اثر رسوخ حاصل تھا، انہیں پناہ، مالی معاونت اور سفارتی حمایت فراہم کرتا رہا ہے تو پھر آخر کیا وجوہات ہیں جنہوں نے دونوں کو ایک دوسرے کے مدمقابل لاکھڑا کیا ہے؟ جب 2021ء میں افغان طالبان نے کابل پر دوبارہ کنٹرول حاصل کیا تو پاکستان نے اپنے تاریخی تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کی امید کی، تاہم لگتا یوں ہے کہ پاکستان میں ٹی ٹی پی کے حملوں میں اضافے نے ان امیدوں پر بہت حد تک پانی پھیر دیا ہے۔ ایسے میں ماہرین کا خیال ہے کہ افغان طالبان کو اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ ٹی ٹی پی کی حمایت جاری رکھیں یا پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو ترجیح دیں۔ طالبان اکثر ان گروہوں سے نمٹنے کے لیے کسی بیرونی مدد کو مسترد کرتے آئے ہیں، جبکہ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ وہ انہیں خود سنبھال سکتے ہیں۔

اس حقیقت کو شاید کوئی بھی نہیں جھٹلا سکتا کہ کوئی بھی فریق صورتِ حال کو مزید خراب کرنا نہیں چاہتا۔ تاہم پاکستانی فوج کو ٹی ٹی پی کے بار بار حملوں کے بعد عوامی اور داخلی دباؤ کا سامنا ہے اور اس کے پاس جوابی کارروائی کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ چاہے افغان طالبان کا اس پر کوئی بھی موقف ہو، اسے کسی بھی ذی شعور کے لیے تسلیم کرنا مشکل ہے۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں ٹی ٹی پی کے مبینہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ پاکستان کی جانب سے مارچ میں بھی اسی طرح کے فضائی حملے ہوئے تھے لیکن اُس وقت افغان حکومت نے براہِ راست جواب نہیں دیا تھا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ تازہ ترین کارروائیوں کو پاکستان اور ایران کے درمیان ہونے والی سرحدی بمباری کے واقعات سے تشبیہ دی جاسکتی ہے، البتہ یہ بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ دونوں فریق اس تنازعے کو کسی بڑی جنگ میں تبدیل کرنے کے متحمل ہرگز نہیں ہوسکتے۔

گزشتہ سال کے اوائل میں ایران کے ساتھ فضائی حملوں کے تبادلے کے مقابلے میں، پاکستان کے افغانستان کے ساتھ کہیں زیادہ اہم مفادات ہیں اور گزشتہ ہفتے کے فضائی حملوں کو ایک پیغام کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے، نہ کہ کشیدگی بڑھانے کی سنجیدہ کوشش کے طور پر۔ امکان ہے کہ دونوں ملک مذاکرات کی میز پر آجائیں گے کیونکہ دونوں کے ایک دوسرے کے ساتھ مخاصمانہ رویّے کا، دونوں کی مخالف کوئی بھی قوت بالخصوص بھارت کے لیے فائدہ اٹھانا کسی کے لیے بھی تعجب کا باعث نہیں ہوگا۔

حیران کن امر یہ ہے کہ تازہ ترین فضائی حملے اُس وقت ہوئے جب افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے محمد صادق کابل میں اعلیٰ افغان عہدیداروں سے ملاقات کررہے تھے۔ یاد رہے کہ گزشتہ دو سالوں کے دوران دونوں ملک اعلیٰ سطحی سفارتی ملاقاتوں میں شرکت کرتے رہے ہیں جن میں گزشتہ سال فروری میں پاکستان کے وزیر دفاع اور آئی ایس آئی کے سربراہ کا دورہ بھی شامل ہے۔ اسی طرح تین ماہ قبل افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے اسلام آباد کا دورہ کیا تھا جہاں انہوں نے پاکستانی آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے بھی بات چیت کی تھی۔ ان کوششوں کے باوجود پاکستان کے اندر تشدد مسلسل بڑھتا رہا ہے۔ پاکستان کی وزارتِ داخلہ کے مطابق سال 2024ء کے پہلے دس مہینوں میں 1500 سے زائد پُرتشدد واقعات میں کم از کم 924 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں 570 قانون نافذ کرنے والے اہلکار اور 351 شہری شامل ہیں۔

سیاسی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ افغان طالبان کو پاکستان کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے نتائج کو سمجھنا ہوگا، انہیں تسلیم کرنا ہوگا کہ وہ اب تحریک آزادی کے جنگجو نہیں ہیں بلکہ ایک حکومت ہیں جن پر اپنے عوام اور ہمسایوں کی جانب سے بڑی ذمہ داریاں ہیں۔ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ افغان طالبان کی بین الاقوامی قانونی حیثیت کی خواہش مزید کشیدگی کو روک سکتی ہے کیونکہ پاکستان کی رضامندی کے بغیر شاید ہی کوئی ملک آگے بڑھ کر طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہوگا۔ حتیٰ کہ افغانستان اگر چین کے ساتھ بھی مضبوط تعلقات چاہتا ہے تو اسے یہ بات سمجھنی ہوگی کہ چین خطے میں پاکستان کا کلیدی اتحادی ہے اور وہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کو کبھی بھی پسند نہیں کرے گا۔

افغانستان کے خلاف چالیس سالہ سوویت اور امریکی جارحیت، حتیٰ کہ برطانوی استعمار کی جارحیت کی تاریخ کو یاد رکھتے ہوئے ہمیں اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ میزائل اور فضائی حملے پاک افغان تنازعے کو حل نہیں کرسکیں گے۔ بعض ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مفاہمت کا ایک قابل عمل راستہ یہ ہے کہ پاکستان کو افغانستان میں اسٹرے ٹیجک گہرائی کے اپنے نظریے سے رجوع کرنا ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ تاریخی طور پر پاکستانی فوج نے مسلح گروہوں کو سرپرستی فراہم کرکے اپنے روایتی حریف بھارت کے خلاف افغانستان میں اثر رسوخ برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے جس میں اسے وقتی فائدہ تو ملا ہے لیکن اس کے بدلے وہ افغان عوام کا اعتماد بہت حد تک کھو چکا ہے۔

ماہرین کے مطابق افغانستان کو بھارت کے خلاف اپنی دشمنی میں ایک مہرے کے طور پر استعمال کرنے کے اس طریقے نے پاکستان کو افغان عوام کے درمیان اپنی قانونی حیثیت سے محروم کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو وہاں موجود جائز مزاحمتی اور دیگر جمہوریت پسند گروہوں کی حمایت شروع کرنی چاہیے جو حکمران افغان طالبان کے خلاف ہیں، لیکن یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب پاکستان پہلے اپنی ماضی کی پالیسیوں پر معافی مانگے جو کہ عملاً ایک مشکل امر ہوگا، کیونکہ اس کا سیدھا سادہ مطلب یہی ہوگا کہ پاکستان ماضی میں افغانستان میں اپنی پراکسیز کے ذریعے یہاں کا امن اور چین برباد کرنے میں ریاستی سطح پر ملوث رہا ہے جس کی پاکستان نہ صرف ہمیشہ سے تردید کرتا رہا ہے بلکہ اسے پاکستان دشمن پروپیگنڈے سے بھی تعبیر کرتا رہا ہے۔