پاک فضائیہ کی بمباری سے کشیدگی میں اضافہ
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات انتہائی تلخ بن چکے ہیں۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان اُس کے خلاف افغان سرزمین استعمال کرتی ہے، اور وہاں اس گروہ کے تربیتی مراکز ہیں۔ پاکستان کے سابقہ قبائلی علاقوں میں مسلح گروہوں کے خلاف پاکستانی فوج نے مختلف اوقات میں مختلف ناموں سے آپریشن کیے۔ آپریشن ضربِ عضب کے بعد شمالی اور جنوبی وزیرستان سمیت مختلف قبائلی علاقوں سے بڑی تعداد میں وہاں کے لوگ بال بچوں سمیت افغانستان منتقل ہوگئے۔ کہا جاتا ہے کہ مسلح گروہ کے لوگوں نے خاندانوں سمیت افغانستان میں پناہ لے لی۔ یہ دور افغانستان میں امریکی قبضے کا تھا۔ امریکہ کے زیرانتظام حکومت قائم تھی، چناں چہ اس دور میں بھی برابر پاکستان کے اندر سے مسلح کارروائیاں ہوتی رہیں۔
افغانستان سے امریکی افواج کے نکلنے اور طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد حالات کی درستی کی امید بندھی۔ پاکستانی فوج نے طالبان حکومت کے توسط سے کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا آغاز کیا۔ مگر یہ عمل بوجوہ آگے نہ چل سکا۔ پاکستان کے مختلف علاقوں بالخصوص صوبہ خیبر پختون خوا میں مسلح حملوں میں شدت آئی۔
موجودہ افغان حکومت ٹی ٹی پی کی سرپرستی یا اپنی سرزمین کے پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کے الزامات کی نفی اور تردید کرتی ہے۔ کابل حکومت جوابی الزام لگاتی ہے کہ پاکستان کے اندر داعش کے ٹھکانے موجود ہیں جہاں وسط ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والے جنگجو بھی موجود ہیں جو افغانستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں اور متعدد کارروائیاں کرچکے ہیں۔
اسلام آباد اور کابل کے درمیان کشیدگی میں تب مزید اضافہ ہوا جب 24 دسمبر 2024ء کو پاکستان کی فضائیہ نے افغانستان کے علاقے پکتیکا میں ”برمل“ کے مقام پر بمباری کردی۔ پاکستان نے قرار دیا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اور متعدد جنگجو مارے گئے ہیں۔ اس کے جواب میں کابل حکومت کی وزارتِ دفاع کا دعویٰ ہے کہ حملے میں 46 اموات ہوئی ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ جواباً 28 دسمبر 2024ء کو افغان فورسز نے پاکستان کی حدود میں گولے برسائے اور سرحد پر دو طرفہ جھڑپیں ہوئیں۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے دعوے کرچکے ہیں۔ افغان وزارتِ دفاع کے ترجمان نے قرار دیا کہ فرضی ڈیورنڈ لائن کے پار ملک کی جنوب مشرقی سمت میں اہداف کو نشانہ بنایا، اور یہ کہا کہ ہم اسے پاکستانی سرزمین نہیں سمجھتے۔
بظاہر ٹی ٹی پی کا قضیہ حل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس طرح دونوں ممالک متصادم ہوں گے، اور حالات مزید کشیدگی کی طرف جائیں گے۔ نتیجتاً اس کا دائرہ مختلف صورتوں میں افغانستان سے متصل بلوچستان کے سرحدی علاقوں تک پھیل جائے گا۔ ژوب، قلعہ سیف اللہ، چمن، قلعہ عبداللہ کے اضلاع خاص کر متاثر ہوں گے۔ ضلع قلعہ عبداللہ میں سابق افغان کٹھ پتلی صدر اشرف غنی دور کی ملیشیا کے سیکڑوں تربیت یافتہ افراد بس چکے ہیں۔ یہ مسلح لوگ مختلف جرائم میں ملوث ہیں۔ ان افغان مسلح افراد اور مقامی افراد پر مشتمل ملیشیا قائم ہے جو ایک مقامی شخص فیض اللہ کی کمان میں منظم ہے۔ اس ملیشیا کی نگرانی میں ہر سال ضلع قلعہ عبداللہ میں سیکڑوں ایکڑ اراضی پر پوست کاشت کی جاتی ہے۔ چرس، ہیروئن اور آئس کا وسیع دھندہ دھڑلے سے کیا جاتا ہے۔ اس کمانڈر کا بھائی جمعیت علماء اسلام کے ٹکٹ پر مارچ 2024ء کے سینیٹ انتخابات میں سینیٹ کا رکن منتخب ہوچکا ہے۔ 8 فروری 2024ء کے عام انتخابات میں یہ کمانڈر، اس کا مذکورہ سینیٹر بھائی اور ملیشیا عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار زمرک اچکزئی کی حمایت میں سرگرم تھے۔ بعد ازاں اس حلقے کے ضمنی انتخاب میں بھی سرگرم رہے۔ ضلع قلعہ عبداللہ عملاً نو گو ایریا بن چکا ہے۔ یہ ملیشیا مختلف مقامات پر چین ناکے لگاتی ہے، خصوصاً افغانستان اور چمن آنے جانے والی مال بردار گاڑیوں سے بھاری ٹیکس لیتی ہے۔ نہ دینے کی صورت میں ڈرائیوروں کو مارا پیٹا جاتا ہے، ان کی تذلیل کی جاتی ہے، حتیٰ کہ گاڑی سمیت اغوا بھی کرلیا جاتا ہے۔ چوریاں، ڈکیتیاں، اغوا اور بھتہ خوری عام ہے۔ مذکورہ سینیٹر، محمود خان اچکزئی کے بغض میں منتخب کرایا گیا ہے۔ یہ جمعیت علماء اسلام میں شامل ضرور ہے، مگر سینیٹ کا ٹکٹ دینے کی سفارش اوپر سے بھی آئی ہے۔ 26ویں آئینی ترمیم کے موقع پر بھی اگر جے یو آئی مخالفت میں ووٹ دینے کا فیصلہ کرتی تو یہ ووٹ دیتا اور نہ پارٹی سے وفاداری نبھاتا۔ 26ویں آئینی ترمیم کے دوران غائب ہونے کا ڈرامہ بھی رچایا۔ محمود خان اچکزئی نے 8 فروری 2024ء کے انتخابات میں این اے 265 پشین پر مولانا فضل الرحمان کے خلاف انتخاب نہیں لڑا۔ اس طرح مولانا فضل الرحمان بآسانی جیت گئے، وگرنہ مولانا نے تو ڈیرہ اسماعیل خان میں بدترین شکست کے خوف سے یہاں سے الیکشن لڑا۔ مولانا فضل الرحمان نے محمود خان اچکزئی کو اس کا صلہ اُن کے مخالف گھرانے کے مذکورہ شخص کو سینیٹ کا ٹکٹ جاری کرکے دیا۔ دیکھا جائے تو جمعیت علماء اسلام قلعہ عبداللہ میں جرائم اور پوست کی کاشت اور منشیات کے بڑے پیمانے کے کاروبار کے جرم سے وابستہ لوگ مولانا کی جماعت سے وابستہ ہیں۔ غرض یہ ملیشیا اگر افغان حکومت کے خلاف استعمال ہوتی ہے تو لامحالہ یہ جنگ قلعہ عبداللہ تک پہنچ جائے گی۔ نتیجتاً حالات غیر یقینی بن جائیں گے۔ اندیشہ ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی بھی اس میں اپنا حصہ ڈال دے۔
پکتیکا پر فضائی حملے کی تحریک انصاف کے بانی عمران خان اور محمود خان اچکزئی نے مذمت کی ہے۔ افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یو این اے ایم اے) نے بھی کہا ہے کہ اسے مصدقہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ فضائی حملے میں خواتین اور بچوں سمیت عام شہری نشانہ بنے ہیں۔ یو این اے ایم اے نے تحقیقات کی ضرورت پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ فضائی حملہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی تھی۔