ہم ماضی کی طرف کیوں دیکھتے ہیں؟

جن لوگوں کے شعور میں بچپن کی یادیں زندہ رہتی ہیں وہ اپنی فطرت سے اُن لوگوں سے کہیں زیادہ قریب اور ہم آہنگ رہتے ہیں جو اپنے بچپن اور اس کی یادوں کو فراموش کردیتے ہیں۔

غالب نے یادِ ماضی کو عذاب کہا ہے اور اللہ میاں سے ”اپیل“ کی شکل میں دعا کی ہے کہ مجھ سے میرا حافظہ چھین لے۔ خیر غالب کا کیا ہے؟ اُن کے لیے تو حال اور مستقبل بھی عذاب سے کم نہ تھے۔ اَنا کے بچھڑے کو پوجنے کا اس کے سوا کوئی اور نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا۔ تاہم ان حقائق سے قطع نظر یہ امر اپنی جگہ اہم ہے کہ ماضی انسان کے لیے بڑا پُرکشش ہوتا ہے، لوگ پلٹ پلٹ کر اپنے ماضی کو دیکھتے ہیں اور اس میں کھو جاتے ہیں۔ البتہ کچھ لوگ ماضی سے لپٹ کر رہ جاتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ ایک اہم سوال ہے کہ لوگ ماضی کی طرف کیوں دیکھتے ہیں؟ اور بسا اوقات یا اکثر اوقات اسے حال اور مستقبل پر کیوں فوقیت دیتے ہیں؟

اُصولی اعتبار سے یہ سوال ”دانش وروں“ کے لیے ہے، لیکن بی بی سی ٹیلی ویژن کے پروگرام ہارڈ ٹاک میں یہ سوال اسرائیلی رہنما شمعون پیریز سے بھی پوچھا گیا، اور انھوں نے اس کا ایک بہت دلچسپ جواب دیا۔ انھوں نے کہا کہ بات یہ ہے کہ سوچنے کے مقابلے پر یاد کرنا ایک آسان عمل ہے۔ ان کے اپنے الفاظ یہ ہیں :

It is easier to remember than to think

اس کے معنی یہ ہوئے کہ چونکہ ماضی کا تعلق یاد کرنے سے ہے اور حال اور مستقبل کا تعلق سوچنے سے ہے، اس لیے انسان حال اور مستقبل کے مقابلے پر ماضی سے زیادہ متعلق رہنا پسند کرتا ہے۔

یہ ایک بہت پیچیدہ موضوع ہے اور اس کے مختلف زاویے ہیں، مثلاً لوگ کہتے ہیں کہ بات صرف ماضی کی نہیں اچھے یا برے ماضی یا خوشگوار یا ناخوشگوار ماضی کی ہے، ماضی خوشگوار رہا ہو تو انسان کو یاد آتا ہے، ورنہ نہیں آتا، بلکہ جیسا کہ غالب نے کہا ہے کہ یادِ ماضی میرے لیے عذاب بن گئی ہے۔ انسان کا ماضی خوشگوار نہ ہو تو انسان کی طبیعت ماضی کی یاد سے بھی اِبا کرنے لگتی ہے، لیکن ایک رائے یہ بھی ہے کہ ماضی اچھا ہو یا برا، خوشگوار ہو یا ناخوشگوار، بہرحال یاد آتا ہے اور اچھا لگتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ انسانی تجربے کے مختلف دائرے ہیں اور ان میں کسی نہ کسی درجے کی صداقت ہوسکتی ہے۔ لیکن بات ہورہی تھی شمعون پیریز کی، جنھوں نے ماضی، حال اور مستقبل کے حوالے سے دو دائرے کھینچے ہیں۔ ایک دائرہ یاد کا ہے اور دوسرا فکر یا سوچ کا۔

یہ دائرے اور ان میں جھلکنے والا تجزیہ درست ہو یا غلط.. یہ امر بالکل عیاں ہے کہ اس میں فکر کو یاد پر فوقیت دی گئی ہے، اور اس سے یہ بھی صاف ظاہر ہے کہ حال اور مستقبل کو ماضی پر تفوق حاصل ہے۔ یہ صورتِ حال مغرب کی فکر پرستی اور حال پرستی کی آئینہ دار ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ بات درست ہے کہ انسان ماضی کی طرف اس لیے دیکھتا ہے کہ یہ یاد کا مسئلہ ہے اور یاد میں فکر کا عمل شامل نہیں، اس لیے انسان کو ایسا کرنے میں بڑی آسانی ہوتی ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے اور اس بارے میں ہمارے ممدوح پی ڈی او سپنسکی نے بڑی اہم باتیں کہہ رکھی ہیں۔

اوسپنسکی نے ایک بات تو یہ کہی ہے کہ انسان بنیادی طور پر ”مشین“ ہے، اور خود کو یاد کرنا دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ لوگ یہ بات تسلیم نہیں کریں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ خود کو بھول جاتے ہیں اور زندگی بھر فراموش کیے رہتے ہیں۔ اس کا اصرار ہے کہ شعور کی بنیاد یاد کرنے سے پڑتی ہے۔ دیکھا جائے تو اوسپنسکی کے یہاں خود کو یاد کرنے یا یاد رکھنے کا عمل خود آگہی اور خود شعوری کا دوسرا نام ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ مسئلہ تفہیم کے مسئلے سے براہِ راست منسلک ہے۔ انسان کو نہ اپنا سارا ماضی یاد رہتا ہے، نہ سارا ماضی دلکش لگتا ہے۔ اسے ماضی کے گوشے یاد رہتے ہیں یا یاد آتے ہیں، اور یہ گوشے وہی ہوتے ہیں جن کی کسی نہ کسی درجے پر تفہیم ہوچکی ہوتی ہے۔ جس چیز کی تفہیم نہیں ہوتی وہ انسان کو یاد نہیں رہتی۔ اس کی عام طور پر دو صورتیں ہوتی ہیں، مثلاً ایک صورت یہ ہے کہ انسان کو کوئی شدید اور گہرا تجربہ ہوا اور یہ انسان کے شعور پر اپنے نقش چھوڑ گیا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ تجربہ گہرا اور شدید نہیں تھا لیکن اس کا تناظر اہم تھا اور وہ جس ماحول میں ہوا وہ بھی اہم تھا۔ یہ صورتیں شعور کی عام سطح کو توڑ پھوڑ دیتی ہیں اور زندگی کا مشینی عمل درہم برہم ہوجاتا ہے۔ دیکھا جائے تو یہاں خوشگوار اور ناخوشگوار تجربے کی بات ازخود غیر اہم ہوجاتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ماضی کی طرف دیکھنے کے معنی تفہیم کی طرف دیکھنے کے ہیں۔ چونکہ جس چیز کی تفہیم ہوجاتی ہے وہی یاد رہتی ہے، اور جو چیز یاد رہتی ہے وہی اہم ہوتی ہے۔ اس لیے ماضی سے زیادہ متعلق ہونے کے معنی ”اہمیت“ کو اہمیت دینے کے بھی ہیں۔ اس کے برعکس مستقبل ایک راز ہے اور حال ایک مسلسل جاری عمل، جسے ہم جان نہیں سکتے۔

اس حوالے سے دیکھا جائے تو ماضی کا ایک اور پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ ماضی جو کچھ بھی ہے ایک متعین چیز ہے، اور یہ متعین چیز ایک آئینے کا کام انجام دیتی ہے۔ مستقبل نامعلوم اور حال تقریباً نامعلوم حقیقت ہے لیکن ماضی کا آئینہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کے ذریعے ہم حال اور مستقبل کو کسی نہ کسی حد تک جان سکتے ہیں۔ دیکھا جائے تو ماضی ایک سہولت اور ایک رعایت ہے لیکن کچھ لوگوں کے لیے یہ سہولت اتنی ہولناک ہوتی ہے کہ وہ اس کا سامنا نہیں کرنا چاہتے۔ یہ رجحان مکمل آگہی اور شعور سے گریز کا رجحان ہے، اور غالبؔ کے یہاں یہ رجحان اتنا شدید ہے کہ ان کے یہاں معدوم ہوجانے کی خواہش نہایت سنگین صورت اختیار کر گئی ہے۔

ماضی کا ایک حوالہ اور بھی ہے۔ ماضی اور خاص طور پر ماضیِ بعید میں ابتدا اور آغاز کا شائبہ موجود ہوتا ہے، اور آغاز میں واضح اصول ہوتے ہیں، اُصولوں سے تعلق اور انسلاک ہوتا ہے۔ مذہب کے حوالے سے تو یہ بات اتنی عیاں ہے کہ اس کی وضاحت بھی غیر ضروری ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان ماضی پرست ہیں، وہ اپنے ماضی میں کھو گئے ہیں، اس سے اور کچھ نہیں تو تصور کی سطح پر چمٹے رہنا چاہتے ہیں۔ اس عمل میں بھی بہت سے لوگوں کو ”آسانی دکھائی دیتی ہے اور بلاشبہ بعض لوگوں کے لیے اس عمل میں آسانی بھی مضمر ہے۔ لیکن مسلمانوں کا ماضی ان کی ابتدا ہے۔ اس میں رسولؐ ہیں، خلفائے راشدین ہیں، ان کا عہد ہے، تابعین ہیں، تبع تابعین ہیں۔ غرضیکہ مسلمانوں کی جتنی متاع ہے، ان کے ماضی میں ہے۔ مسلمان اس سے کیوں نہ منسلک رہیں، اس سے کیوں نہ چمٹے رہیں؟ لیکن یہ تو مذہبی حوالے کی بات ہے۔ اس حوالے سے قطع نظر کرکے دیکھا جائے تو فرد کے لیے اس کا ماضیِ بعید اس کا بچپن ہے۔ کچھ لوگوں کا بچپن سخت حالات میں گزرتا ہے لیکن اس کے باوجود ان کی بیشتر یادوں کا خزانہ بچپن میں دفن ہوتا ہے۔ جن لوگوں کے شعور میں بچپن کی یادیں زندہ رہتی ہیں وہ اپنی فطرت سے اُن لوگوں سے کہیں زیادہ قریب اور ہم آہنگ رہتے ہیں جو اپنے بچپن اور اس کی یادوں کو فراموش کردیتے ہیں۔ بچپن اتنی بنیادی چیز ہے کہ بڑھاپے تک مار کرتا ہے، اس لیے کہ اس میں صرف ”فکر“ نہیں ہوتی، ”احساس“ بھی ہوتا ہے۔ وہ احساس جو رفتہ رفتہ کند ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہی خود کو بھولنے کا عمل ہے، اور اسے دیکھ کر خیال آتا ہے کہ خود کو یاد رکھنا کتنا دشوار ہے۔ لیکن بہرحال شمعون پیریز نے بات اچھی کہی۔ ہمارا بس چلتا تو اس بات پر ہم انھیں امریکہ کا صدر بنوا دیتے۔