پاکستان کا میزائل پروگرام 4 کمپنیوں پر امریکی پابندی

پاکستانی سیاست و جمہوریت ایک بار پھر بند گلی میں

ایک سال اور گزر گیا، مسلم لیگ(ن) کی حکومت کسی ایک شعبے میں بھی رتی بھر اصلاح نہیں کرسکی۔ رواں صدی کا ربع حصہ گزر چکا ہے، مسلم لیگ(ن) مختلف ادوار ملا کر کم و بیش نو سال وفاق میں حکومت میں رہی، مگر ملک کے مسائل وہیں کے وہیں ہیں۔ ہماری سرحدوں پر خطرات بڑھ رہے ہیں، اندرون ملک داخلی سلامتی ایک چیلنج بنی ہوئی ہے، قومی معیشت حکومت کے اللے تللوں اور ٹیکس چوروں کے ہاتھ چڑھی ہوئی ہے، ملک کے دس کروڑ عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، اور نئے سال کا آغاز بھی مہنگائی کے ہتھوڑے سے ہوا۔ حکومت پیٹرولیم نرخوں میں بلاجواز اضافہ واپس لینے کو تیار ہی نہیں ہے، عام آدمی کے لیے ملک کے ہر شہر کی منڈی میں اجناس کے نرخ مسلسل بڑھ رہے ہیں مگر کاشت کار اور کسان پریشان حال ہیں۔ ان حالات میں ہم نے 2024ء کو الوداع اور 2025ء کو خوش آمدید کہا ہے۔ دعا ہے کہ یہ سال ہمارے لیے بشارتیں اور بہاریں لے کر آئے۔ اقوام عالم کے ممالک کی ترقی دیکھتے ہیں تو پریشانی مزید بڑھ جاتی ہے، جو ملک کبھی صحرا تھے آج دنیا کی بہترین معیشتیں بن چکے ہیں۔ نااہل سول اور فوجی بیورو کریسی متکبر جاگیردار بدعنوان سرمایہ دار اور موروثیت زدہ سیاست دانوں کی حکمرانی نے ہمیں کہاں لاکھڑا کیا ہے؟ پینے کا صاف پانی تک مہیا نہیں ہوا، اناج کی پیداوار میں فی ایکڑ اضافہ کسی دور میں ممکن نہیں ہوا۔2024ء میں مفاہمت، استحکام، ترقی، خوشحالی کے لیے بہت بیانات بھی آئے اور بیانیے بھی… لیکن کوئی ایسا بڑا کارنامہ نہیں ہوا۔ الیکشن نتائج بدلنے پر بھی واویلا ہورہا ہے، لیکن عوام کی بے چینی ختم کرنے کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا۔ پچھلے کئی برسوں سے درپیش سیاسی انتشار سے نجات پائے بغیر نہ سیاسی بے یقینی کا خاتمہ ممکن ہے، نہ مستقل بنیادوں پر معاشی استحکام اور سرمایہ کاری کے راستے کھل سکتے ہیں۔ دہشت گردی کا مسئلہ ایک بار پھر پوری شدت سے اٹھ کھڑا ہوا ہے، ایک شخص کی غلطی کی قیمت قوم اپنے خون سے ادا کررہی ہے۔ جو بھاری نقصان اس کے نتیجے میں قوم کو اٹھانا پڑرہا ہے، اس کی ذمے داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ بلاشبہ سیاسی قوتیں اگر اپنے اختلافات احتجاج اور محاذ آرائی کے بجائے بات چیت سے حل کرنے لگیں تو عسکری قیادت کے لیے بھی اپنی اصل ذمے داریوں پر پوری توجہ دینا ممکن ہوگا۔

حال ہی میں امریکہ نے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائلوں کی تیاری کے حوالے سے پاکستان کے چار اداروں پر پابندی لگادی کہ ان اداروں نے پاکستان کا بیلسٹک میزائل پروگرام آگے بڑھانے میں مدد دی ہے۔ امریکہ کے نائب مشیر برائے قومی سلامتی جان فائنر کا یہ بیان سامنے آیا کہ پاکستان جوہری ہتھیاروں سے لیس طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل تیار کررہا ہے جو اسے جنوبی ایشیا سے باہر کے اہداف بشمول امریکہ کو بھی نشانہ بنانے کے قابل بناسکتے ہیں۔ حکومت نے بھی ردعمل دیا ہے کہ میزائل پروگرام کے سبب ہم پر عائد امریکی پابندیوں کا کوئی جواز نہیں، اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ نئی امریکی حکومت کی طرف سے عمران خان کی رہائی کا مطالبہ بھی سامنے آیا ہے۔ پاکستان کے مخالفین ہمارے میزائل ٹیکنالوجی پروگرام کو میلی آنکھ سے دیکھ رہے ہیںاور ان کی خواہش ہے کہ کسی مسلمان ملک کے پاس ایسی قوت نہ ہو۔ بانی پی ٹی آئی محض بہانہ ہیں، جبکہ اصل نشانہ پاکستان کا ایٹمی اور میزائل پروگرام ہے۔بلاشبہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام دفاعی ضروریات کے لیے ہے، ہمارے میزائل پروگرام پر پابندیوں کا کوئی جواز نہیں۔ ضروری ہوگا کہ دنیا پاکستان کی نزاکتوں کو سمجھے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ اندرونِ ملک سیاسی استحکام کے لیے کام کرے۔ سیاسی مذاکرات کتنے کامیاب ہوسکتے ہیں اِس کا اندازہ حکومت اور اپوزیشن کی بنائی ہوئی مذاکراتی ٹیم اور ان کے بعض رہنمائوں کے بیانات سے لگایا جا سکتا ہے۔ یہ بھی ہماری تاریخ کا المیہ ہے کہ جب بھی سیاست دان مذاکرات کا آغاز کرتے ہیں کچھ قوتیں اُن کی ناکامی کے لیے سرگرم ہوجاتی ہیں، ان میں خود ان جماعتوں کے رہنما بھی شامل ہوتے ہیں، جس سے مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے اور نتیجے میں سیاست ’’بند گلی‘‘ سے باہر نہیں آپاتی۔ آج تو ملک میں’’ہائبرڈ ماڈل‘‘ کے تحت حکومت چل رہی ہے جو مسلم لیگ (ن) اور اُس کے اتحادیوں پر مشتمل ہے۔ اس حکومت نے اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف سے براہِ راست نہ سہی، اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے ذریعے بات چیت کا آغاز کردیا ہے۔ مذاکراتی ٹیموں میں بھی کچھ سنجیدہ لوگ موجود ہیں، مگر ایسے بھی ہیں جو شاید پیش رفت ہونے کی صورت میں معاملات کو خراب کرسکتے ہیں۔ صورتِ حال یہ ہے کہ یہ مذاکرات دونوں جانب سے بی ٹیم کے ارکان کررہے ہیں۔ اس وقت حکومت اور پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی حد تک ہماری سیاست میں نوازشریف، آصف علی زرداری اور عمران خان تین مرکزی کردار ہیں، سیاسی بحران کا حل تلاش کرنے اور جمہوری نظام کا تحفظ کرنے کی ذمے داری ان شخصیات کی ہے۔ حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) 9 مئی کے پیچھے چھپی نظر آتی ہے، پی ٹی آئی کا مطالبہ 9مئی پر عدالتی کمیشن کا ہے۔ تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے معاملے میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ تحریک انصاف نے مشاورت کے بعد دو مطالبات حکومت کے سامنے رکھنے کا فیصلہ کیا ہے:

(1) 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کا قیام

(2) جیلوں میں بند اپنے کارکنوں کی رہائی
یہ مذاکرات 2 جنوری کو ہوں گے۔اس کے باوجود آج کی حقیقت یہ ہے کہ سیاست ایک بار پھر بند گلی میں جاچکی ہے اور اب اسے باہر لانا زیادہ مشکل ہوتا جا رہا ہے، کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں فریق اپنا اپنا سیاسی وزن کھو چکے ہیں اور ایک ’’ہائبرڈ نظام‘‘ کو قبول کرچکے ہیں۔ بدقسمتی سے حکومت اور اپوزیشن دونوں متنازع سیاست کے اس کھیل سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں ہیں۔ تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ ’’مجھے پیغام ملا ہے کہ ہم سے ڈیل کریں، ہم آپ کی پارٹی کو ’سیاسی ،سپیس‘ دیں گے لیکن آپ کو ہائوس اریسٹ کرکے بنی گالہ میں منتقل کردیں گے‘‘۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ’’میں نے اس پیغام کا یہ جواب دیا ہے کہ پہلے باقی تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرو، میں جیل میں رہ لوں گا لیکن کوئی ڈیل قبول نہیں کروں گا‘‘۔ عمران خان کا ڈیل سے متعلق بیان آدھا سچ ہے، پورا سچ یہ ہے کہ یہ پیش کش کے پی کے کے وزیراعلیٰ نے کی تھی کہ اگر عمران خان کو رہا کردیا جائے یا کے پی کے ہائوس اریسٹ کردیا جائے تو وہ ضمانت دیتے ہیں کہ عمران خان حکومت کے لیے کوئی مشکل پیدا نہیں کریں گے۔ عمران خان کا یہ بیان کہ وہ ہائوس اریسٹ کے بجائے جیل میں رہنا پسند کریں گے دراصل علی امن گنڈاپور کو جواب ہے۔

نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نامزد خصوصی ایلچی رچرڈ گرینل نے امریکی ڈیجیٹل پلیٹ فارم کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے نامزد وزیر خارجہ مارکو روبیونے پاکستان کے میزائل پروگرام پر بات کرنے کی تیاری کی ہوئی ہے۔ رچرڈ گرینل نے کہا کہ ایٹمی صلاحیت کے حامل ملکوں سے مختلف انداز میں ڈیل کیا جاتا ہے۔ رچرڈ گرینل کے انٹرویو میں بھی پاکستان کے میزائل پروگرام کے بجائے عمران خان کی رہائی کو زیادہ فوکس کیا گیا ہے جس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ پاکستان کے میزائل پروگرام پر لگائی گئی پابندیوں کا مقصد دراصل بانی پی ٹی آئی کی رہائی کی راہ ہموار کرنا ہے۔ اول تو پاکستان کے میزائل پروگرام پر امریکی پابندی کا کوئی جواز نظر نہیں آتا، پاکستان کی طرف سے یہ تمام تر تیاریاں خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے اور اپنے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے لیے کی جاتی ہیں، جبکہ اس کے مقابلے میں بھارت کے مہلک ہتھیار بالخصوص جوہری ہتھیار نہ صرف غیر محفوظ ہیں بلکہ بھارت ان میں مسلسل اضافہ کرکے خطے میں طاقت کا توازن بھی بگاڑتا نظر آتا ہے، جس کے لیے اُسے امریکہ کی بھرپور آشیرباد حاصل ہے۔ امریکہ کا یہ دہرا معیار ہی خطے میں طاقت کا توازن بگاڑنے کا باعث بن رہا ہے۔

امکان ہے کہ 2025ء اور اس کے بعد بھی امریکہ کی معیشت دنیا کی رہنمائی کرنے والی قوتوں میں سے ایک رہے گی۔ یہ سب فی الحال ایک ہی شخص کے ہاتھ میں ہے۔ ٹرمپ کی ’امریکہ فرسٹ‘ پالیسی ملکی سرحدوں کو پھلانگ کر آگے تک پہنچ جائے گی۔ ٹرمپ کی خواہشات عالمی نظام کو نئے سرے سے ڈھالیں گی۔ خوشحالی، عالمگیریت اور دنیا میں جاری جنگوں کا فیصلہ بڑی حد تک واشنگٹن ڈی سی میں کیا جائے گا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔

گزشتہ ہفتے کی انتہائی اہم خبر افغانستان کے مشرقی صوبے پکتیکا میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے کیمپ بتائے جانے والے چار مقامات پر بمباری کا واقعہ تھا جس میں46 ہلاکتوں کی خبر ہے۔ ان فضائی حملوں میں افغانستان کے اندر متعدد مشتبہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا، جس میں ایک تربیتی مرکز کو ختم کرنے کے ساتھ ہی متعدد طالبان جنگجوؤں کو ہلاک کردیا گیا۔ یہ حملے پاکستان کی سرحد سے متصل صوبہ پکتیکا کے ایک پہاڑی علاقے میں کیے گئے۔ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ اس حملے میں ہلاک ہونے والوں کی کُل تعداد 46 ہے، حملے میں پکتی کا کے ضلع برمال کے علاقے مرغا اور لامان میں کیمپوں کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ حملے ایسے وقت کیے گئے ہیں جب افغانستان کے لیے اسلام آباد کے خصوصی نمائندے محمد صادق کی قیادت میں ایک پاکستانی وفد کابل میں تھا، اور وہاں انہوں نے طالبان کے عبوری وزیر داخلہ سراج الدین حقانی اور وزیر خارجہ امیر متقی سے ملاقات کی تھی۔

گزشتہ ہفتے کی اہم ترین پیش رفت یہ رہی کہ سعودی عرب کو ریکوڈک کے 15فیصد شیئرز فروخت کرنے کے معاملے میں پیش رفت ہوئی ہے، وفاقی کابینہ نے 540 ملین ڈالر میں 15 فیصد شیئرز فروخت کرنے کی توثیق کردی۔ سعودی عرب کو شیئرز بین الحکومتی ٹرانزیکشن ایکٹ کے تحت براہِ راست فروخت ہوں گے، سعودی عرب پاکستان کو دو قسطوں میں 540 ملین ڈالر کی ادائیگی کرے گا، پہلے مرحلے میں 10 فیصد شیئرز منتقل کرنے پر 330 ملین ڈالر ادا کیے جائیں گے، دوسرے مرحلے میں 5 فیصد شیئرز کی منتقلی پر 210 ملین ڈالر ادا کیے جائیں گے۔ سعودی فنڈ برائے ترقی، بلوچستان میں معدنیات کی ترقی کے لیے بھی 150 ملین ڈالر بھی دے گا۔ سعودی عرب چاغی میں بھی معدنیات کی تلاش کے لیے سرمایہ کاری کرنے پر آمادگی ظاہر کرچکا ہے۔ وفاقی اور بلوچستان حکومت کے پاس ریکوڈک منصوبے میں 50 فیصد شیئرز کی ملکیت ہے۔