گریٹر اسرائیل کا منصوبہ:کیا پایہ تکمیل تک پہنچنے والا ہے؟

پاکستان کو اسرائیل اب ایک سنگین خطرے کے طور پر دیکھ رہا ہے

یہ سوال اب ہر اُس فرد کے ذہن میں ہے جو مشرق وسطیٰ، اسرائیل اور فلسطین سے نہ صرف دلچسپی رکھتا ہے بلکہ اس کے بارے میں معلومات رکھتا اور؎؎ بدلتے حالات کے بارے میں بھی غور و فکر کرتا ہے۔

7اکتوبر 2023ء سے قبل بظاہر پورا مشرق وسطیٰ سکون میں تھا۔ یہ خاموشی موت کی سی خاموشی تھی، کہ اسرائیل سالانہ ہزاروں فلسطینیوں کو من گھڑت الزامات کے تحت نہ صرف قید کررہا تھا بلکہ تشدد کی مختلف وارداتوں میں ان کو شہید بھی کررہا تھا۔ عالم عرب بحیثیتِ مجموعی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے درپے تھا اور سعودی عرب میں بھی بیک چینل ڈپلومیسی کامیاب ہوچکی تھی۔ وہ عالمِ عرب جو 1948ء میں ریاست اسرائیل کے قیام، 1956ء، 1967ء اور 1973ء میں اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف چار جنگیں لڑچکا تھا اب ہتھیار ڈال چکا تھا، اور اس سب کو Neutralization یعنی غیر متعلق ہونے کا نام دیا گیا۔

اس تمام صورتِ حال میں عرب اسپرنگ کا تجزیہ کیے بغیر بات مکمل طور پر سمجھنا ناممکن ہے، کہ جس میں مشرق وسطیٰ میں قائم بادشاہتوں کے خلاف منطقی ردعمل نے ان بادشاہتوں کو تو ختم کردیا، لیکن ان کی جگہ مزید انتشار یا پھر مزید آمرانہ قوتوں نے جگہ پالی۔ اس سب میں مغرب نے عرب اسپرنگ کی پُرزور حمایت اس وجہ سے کی کہ آمرانہ دور کا خاتمہ ہوا اور جمہوریت کی راہ ہموار ہوئی، لیکن مغرب کے اپنی ہی دہرے معیارات جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹ کر مصر میں آمروں کو مسلط کرتے رہے اور ان کے لیے جواز بھی گھڑتے رہے تاکہ ان کے مفادات کو خطرہ نہ ہو۔ لیبیا، مصر، تیونس، اور اب شام میں بھی ”عرب بہار۔ 2“ کا جو نیا دور ہے اس میں بھی مغرب میں ایک جانب شادیانے بج رہے ہیں تو دوسری جانب اسرائیل کو کھل کر شام میں بمباری کی مکمل اجازت ہے۔ اب نہ تو Cross Border Terrorism اور نہ ہی بین الاقوامی سرحدی خلاف ورزیوں کا کوئی نعرہ بلند ہوتا سنائی دیتا ہے۔

مشرق وسطیٰ پہلی عرب بہار 2011ء کے بعد Neutralization کے جس دور میں داخل ہوا تھا اب اس کا دوسرا اور شاید آخری دور چل رہا ہے۔ یہ سب کچھ محض دعویٰ نہیں بلکہ اس کے کھلے ثبوت اب خود میڈیا میں موجود ہیں۔ بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے اور HTS کی دمشق کی جانب پیش قدمی کے دور میں اسرائیل نے شام کی فضائیہ کو مکمل طور پر تباہ کردیا اور اسرائیلی ڈیفنس فورس کے مطابق شام کے لانگ رینج میزائل بھی 90 فیصد تباہ کیے جاچکے ہیں۔ گولان کی پہاڑیوں پر بفرزون میں اسرائیل کا قبضہ ہے اور یہاں سے دمشق کا فاصلہ محض 27 کلومیٹر ہے کہ جہاں سے بہت آسانی سے دمشق کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔

لبنان کی صورتِ حال اس سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے کہ جہاں 60 روزہ جنگ بندی کو 30 دن مکمل ہوچکے ہیں، اور یہ جنگ بندی اُس وقت عمل میں آئی جب لبنان کی مزاحمتی تنظیم حزب اللہ کی اعلیٰ سطحی قیادت کو اسرائیل نے پے در پے حملوں میں شہید کردیا تھا۔ اُس کے بعد سے لبنان میں اسرائیل کے قبضے اور پُرتشدد کارروائیوں کے بعد ایران و دیگر ممالک نے بیک ٹریک سے اس معاہدے کی راہ ہموار کی۔ اس کی ایک اور بنیادی وجہ اسرائیل کا بہت سے محاذ بیک وقت کھولنا بھی تھا جس کے نتیجے میں غزہ، لبنان اور یمن تین جانب سے مزاحمت سے اسرائیل کو شدید جانی نقصان ہورہا تھا۔ اس لیے اسرائیل نے ایک اہم ہدف حزب اللہ کی قیادت کو نشانہ بنانے کے بعد اس عارضی جنگ بندی پر سمجھوتہ کیا۔ اب جبکہ اس جنگ بندی کو تادم تحریر 30 روز ہوچکے ہیں تو اسرائیلی اخبار Haartez نے 26 دسمبر 2024ء کو تجزیہ نما خبر میں اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل 60 روز کی عارضی جنگ بندی کے بعد بھی جنوبی لبنان میں موجود رہے گا۔ اس مقصد کے لیے وہ یہاں چوکیاں قائم کررہا ہے۔ اخبار نے لکھا کہ یہ فیصلہ اس وجہ سے کیا گیا کہ جنگ بندی کے معاہدے کی 120 مرتبہ خلاف ورزیاں کی گئیں کہ جس میں حزب اللہ کے افراد ملوث تھے، جبکہ لبنانی فوج کو اس عرصے کے دوران جو اقدامات کرنے تھے وہ اس سے بھی قاصر رہی۔ لیکن حیرت انگیز طور پر اخبار نے یہ بات نہیں بتائی کہ اس عارضی جنگ بندی کے دوران بھی جنوبی لبنان میں عام شہریوں کا قتل عام جاری رہا اور جوابی ردعمل میں بہت سے اسرائیلی فوجی بھی ہلاک ہوئے۔ اب یہ بات تقریباً طے شدہ ہے کہ اسرائیل اب جنوبی لبنان پر بھی قابض ہوگیا ہے اور یہ قبضہ لامحدود عرصے کے لیے ہے۔

غزہ میں اسرائیل کی موجودگی کو 14 ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا ہے لیکن تاحال وہ اپنا ایک بھی مغوی بازیاب نہیں کروا سکا۔ اسرائیل نے قیدیوں کی رہائی کے معاہدے کو تین بار منطقی انجام تک پہنچنے سے قبل سبوتاز کیا، اور اب جبکہ اسرائیل میں خود ان مغویوں کے حوالے سے شدید ردعمل موجود ہے، مغویوں کے لواحقین حکومت کو اپنے پیاروں کی واپسی میں ناکامی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں، اور وہ اس ضمن میں بین الاقوامی سطح پر بھی اپیل کرچکے ہیں کہ ان کی حکومت کو قیدیوں کی رہائی کے معاہدے پر مجبور کیا جائے۔ اس شدید دباؤ میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ایک بار پھر خفیہ مذاکرات کا آغاز کیا۔ مذاکرات کا یہ دور قطر میں ہوا جہاں حماس کی عدم موجودگی میں ان کے نمائندے کے طور پر کسی اور نے مذاکرات کیے۔ ان مذاکرات میں مغویوں میں شدید بیمار اور ضعیف العمر خواتین و حضرات کو قیدیوں کے تبادلے سے مشروط طور پر رہا کرنے پر ایک حد تک کامیابی ہوئی ہے۔ تاہم حماس نے تمام مغویوں کو یک طرفہ و غیر مشروط طور پر چھوڑنے سے انکار کردیا ہے۔

اسرائیلی اخبار The Jerusalem Post نے 26 دسمبر 2024ء کی اشاعت میں حماس اور اسرائیل دونوں کو قیدیوں کی رہائی کے مذاکرات میں عدم پیش رفت پر مورد الزام ٹھیرایا ہے۔ اخبار کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم آفس نے حماس کی جانب سے مذاکرات کو اسرائیل کی جانب سے مسترد کرنے کا بیان جاری کیا۔ حماس نے مغویوں کی رہائی کے بدلے مکمل سیز فائر، غزہ سے اسرائیل کے مکمل فوجی انخلا اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی شرائط رکھی ہیں جن کو اسرائیل تاحال ماننے سے انکاری ہے۔ تاہم اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اسرائیلی پارلیمنٹ کینیسٹ میں اپنے پالیسی بیان میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ حماس سے مذاکرات جاری ہیں اور اس میں پیش رفت ہورہی ہے۔ نیتن یاہو نے کہا کہ وہ مذاکرات اس وجہ سے کررہے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے اہداف حاصل کرلیے ہیں جس میں حزب اللہ و حماس کی قیادت کا خاتمہ شامل ہے۔ اسی خطاب میں اسرائیلی وزیراعظم نے مزید کہا کہ شام کی صورتِ حال پر ان کی مکمل توجہ ہے اور اسرائیل کو شام کی جانب سے کوئی خطرہ نہیں۔

انسانی زندگی بچانے کی آخری امید کمال عدوان اسپتال کو بھی اسرائیل نے مکمل طور پر تباہ کردیا ہے۔ اس سے قبل اسرائیل غزہ کے تمام اسپتالوں کو تباہ کرچکا ہے۔ کمال عدوان اسپتال اس سلسلے کی آخری قسط تھی۔ اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اس اسپتال پر حملے کو بنیادی انسانی حقوق کے چارٹر کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے کہا کہ اسرائیل کے حملوں میں اسپتال کے اہم ترین شعبہ جات کو چھاپوں کی آڑ میں جلا کر تباہ کردیا گیا۔ اسپتال پر حملے کی سنگینی کو واضح کرتے ہوئے آرگنائزیشن نے کہا کہ اس وقت 60 ہیلتھ ورکرز اور 25 مریضوں کی حالت شدید تشویشناک ہے، اسپتال میں زیر علاج مریضوں کو اسپتال چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا ہے۔ اسپتال کے عملے نے بتایا کہ جبالیہ کیمپ میں موجود یہ اسپتال سالِ گزشتہ سے اسرائیلی محاصرے میں تھا، اب اس کو مکمل طور پر تباہ کردیا گیا ہے، اسپتال کے عملے کے پانچ اہلکاروں کو اسرائیل نے ہلاک کردیا، جبکہ اسپتال کے ڈائریکٹر حسام ابوصفیہ کو بھی اسرائیلی افواج نے گرفتار کرلیا۔

26 دسمبر 2024ء کو اسرائیل نے کمال عدوان اسپتال کے قریب ایک ٹی وی کی وین پر حملہ کرکے پانچ صحافیوں کو ہلاک کردیا۔ یہ ٹی وی وین محفوظ جگہ پر کھڑی تھی اور اس پر واضح طور پر پریس بھی درج تھا۔ ان تمام صحافیوں کا تعلق ٹی وی چینل القدس ٹوڈے سے تھا جو وہاں کوریج کے لیے موجود تھے۔

ایک جانب آگ و خون کا بازار گرم ہے کہ جہاں نہ تو انسانی جان، بنیادی انسانی حقوق کے چارٹر اور آزادیِ اظہارِ رائے کی کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر برائے اسپیشل مشن رچرڈ گرینل کو غزہ کی سنگین صورتِ حال، بنیادی انسانی حقوق اور بین الاقوامی سرحدوں کی خلاف ورزیاں نظر آسکیں، بلکہ ان کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں اس سے زیادہ دلچسپی محسوس ہوئی تو انہوں نے عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کردیا۔ یہ مطالبہ امریکہ کی جانب سے رہائی کا پہلا باضابطہ مطالبہ ہے۔ اس سے قبل کوئی ایسی بات منظرعام پر نہیں آئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ کی موجودہ حکومت نے اچانک پاکستان کے میزائل پروگرام پر سنگین خدشات کا اظہار کرتے ہوئے چار پاکستانی کمپنیوں کو بلیک لسٹ کردیا اور ان پر الزام عائد کیا کہ وہ پاکستان کے حارجانہ میزائل پروگرام میں اس کی مددگار ہیں۔

اگر عالمی تناظر میں اس بات کو دیکھا جائے تو پاکستان کے میزائل پروگرام سے کسی کو خطرہ ہوسکتا ہے تو وہ بھارت ہے۔ لیکن بھارت کے میزائل پروگرام بھی پاکستان سے مماثلت رکھتے ہیں، لہٰذا خطے میں طاقت کے توازن کے لیے یہ ضروری ہے۔

امریکہ کی جانب سے میزائل پروگرام پر عائد پابندیاں اس خدشے کو جنم دیتی ہیں کہ عالمِ اسلام کی واحد ایٹمی طاقت پاکستان کو اسرائیل اب ایک سنگین خطرے کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ کی فوجی طاقتوں کو ملیا میٹ کرنے، ایران اور حزب اللہ کی جانب سے مزاحمت کو کم ترین سطح پر لانے کے بعد، پورے مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف اگر کوئی مزاحمت کرسکتا ہے تو وہ پاکستان و ترکیہ ہی ہیں۔ لہٰذا یہ سب کچھ متوقع تھا اور اسرائیل کی نظریں اب ان دو ممالک پر ہیں کہ جہاں وہ براہِ راست نہیں لیکن کسی کے ذریعے سے دباؤ ڈال کر اور اندرونی خلفشار سے ان دونوں کو پابند کرنے کی کوشش کرے گا۔ بظاہر اسرائیل کے لیے گریٹر اسرائیل کا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچنے کو ہے۔ غزہ، جنوبی کنارہ، گولان کی پہاڑیاں، اور جنوبی لبنان اس کے قبضے میں ہیں۔ عالم ِاسلام کے زیادہ تر حکمران اس کے آگے بے بس ہیں یا پھر پسِ پردہ ہاتھ ملا چکے ہیں۔ اب صرف تین ممالک راہ میں ہیں جن کو قابو کرنا ہے۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس وقت جو کچھ بھی جاری ہے وہ گریٹ گیم کا حصہ ہے، اور اس گریٹ گیم کا خاتمہ گریٹر اسرائیل کی تکمیل ہے جو کہ اب چند قدم کے فاصلے پر ہے۔ پاکستان پر پے در پے امریکی دباؤ، دھمکیاں اور ہتھیاروں پر پابندی امریکہ کے لیے نہیں بلکہ کسی اور کے لیے ہیں۔ دنیا بھر میں نیا سال کچھ نئے مناظر ضرور لے کر آئے گا، شاید کہ یہ نیا سال عالم ِاسلام کے بہت سے قائدین کے چہروں پر پڑے نقاب بھی الٹ دے۔ گریٹر اسرائیل کا منصوبہ اس کے بغیر مکمل نہیں ہوگا کہ پاکستان، ایران و ترکیہ کو معاشی، سیاسی، سماجی، اخلاقی اور عسکری طور پر تباہ کیا جائے۔ جو کوئی بھی اس میں اپنا کردار ادا کرے گا وہ یقیناً مظلوم فلسطینیوں کے خون سے غداری کا مرتکب ہوگا۔