مغربی ڈیمو کریسی

مطہری کو پڑھنے کی تیاری کرنے لگا۔ کتابوں کی دکان میں داخل ہوا، ہمت جواب دے گئی۔ پتا چلا کہ مطہری نے بھی سو پچاس کتابیں لکھی ہیں۔ کیا پڑھیں اور کیا چھوڑیں! شہنشاہ کے سنسر کے باوجود یہ لوگ اتنا بہت کچھ لکھ سکے ہیں، اگر انہیں پوری چھوٹ دی جاتی تو نہ جانے یہ مضامینِ نو کا کتنا بڑا انبار لگا دیتے۔ شریعتی اور مطہری میں کئی باتیں مشترک ہیں۔ دونوں خراسانی ہیں، دونوں انقلابی ہیں… دین، فلسفہ اور تاریخ سے واقف۔ خطابت کے فن میں طاق۔ ایک حسینہ ٔ ارشاد میں تقریریں کرتا تھا۔ دوسرا مسجد جواد میں۔ دونوں گرفتار ہوئے۔ زباں بندی کا حکم دونوں کو سنایا گیا۔ دونوں کی کتابوں سے دکانیں بھری ہوئی ہیں۔ میں ایک دکان میں کھڑا مطہری کی لکھی ہوئی کتابوں کے عنوانات اور ان کی فہرست پر غور کرتا ہوں۔ دکان سے باہر نکلا تو میرے پاس ان کی آٹھ کتابیں تھیں: عدل الٰہی، ختمِ نبوت، مقالاتِ فلسفی، دہ گفتار، بیست گفتار، مسئلہ حجاب، نہضتہای اسلامی، پیرامون انقلاب اسلامی۔

میں نے ’دہ گفتار‘ میں درج مطہری کی دس تقریروں میں سے ایک تقریر لفظ بہ لفظ پڑھی اور دوسری تقریر پڑھنے پر مجبور ہوگیا۔ ایک کتاب ساری پڑھ ڈالی تو پھر دوسری خودبخود اٹھالی۔ اس کے بعد تیسری، اور پھر سلسلہ چل نکلا۔ دین کا علم وسیع، فکر نادر، فلسفہ پر حاوی، بیان کا سلیقہ۔ یہ کیسا کھلے دل کا عالم دین ہے کہ جب حوالہ دیتا ہے تو ہیگل، نیوٹن، برٹرنڈ رسل، سارتر، دکارت، شوپنہاور، ول دورنٹ، اقبال اور نہرو کے ساتھ ساتھ ملا نصر الدین اور ہالی وڈکی ڈراؤنی فلموں کے مشہور ڈائریکٹر ایلفریڈ ہچکاک کا ذکر اس انداز سے کرتا ہے کہ علمی سطح کی بلندی میں ذرا بھی فرق نہیں آتا۔

استاد مطہری نے ملا نصر الدین کا ذکر مغربی جمہوریت کے سلسلے میں کیا ہے۔ ملا خچر پر بیٹھے کہیں جارہے تھے، پوچھا: کہاں جارہے ہو؟ کہنے لگے: جہاں یہ خچر لے جائے۔ مغربی جمہوریت ملا نصرالدین کا خچر ہے۔ اکثریت معاشرے کو جہاں چاہے لے جائے۔ کوئی اسے روکنے یا ٹوکنے والا نہیں ہوتا۔ اکثریت چاہے تو جائز کو ناجائز قرار دے دے اور معقول کو نامعقول۔ حرام کو حلال کا مرتبہ بخش دے۔ گناہ کو ثواب کا درجہ عطا کردے۔ جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔ جس جمہوری نظام میں اکثریت کو حسن قرار دیا جائے اور قانون سازی اور کرشمہ سازی میں فرق جاتا رہے اس میں حیوانیت آزاد اور انسانیت اسیر ہوتی ہے۔ جو لوگ اللہ کو فراموش کردیتے ہیں، اللہ ان کو فراموش کردیتا ہے اور اکثریت کے گمان فاسق پر چلنے دیتا ہے تاکہ وہ اپنے انجام کو پہنچیں۔

مغربی ڈیموکریسی کے بارے میں مطہری اور اقبال کے خیالات ملتے جلتے ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ ایک نے خچر کی مثال دی ہے اور دوسرے نے گدھے کی، کہ از مغر دو صد خر فکر انسانے نمی آید (گدھے خواہ دو سو ہی کیوں نہ ہوں، وہ انسان کی طرح سوچنے سے معذور ہیں)۔ اس واضح فرق کے باوجود پاکستان نے مغربی ڈیموکریسی کے خچر پر سواری کی ہے اور بنیادی جمہوریت کے گدھے پر بھی۔ تین چار بار اس بے بس سوار کو رسالے کا تیزگام گھوڑا لے کر بھاگ گیا۔ منزل ہر بار کھوٹی ہوئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اب لوگ گھوڑے سے گدھے یا خچرکسی پر بھی اعتبار نہیں کرتے۔ سارا الزام سواری کے جانور پر رکھتے ہیں۔ اپنا قصور کسی کو نظر نہیں آتا۔

مغربی ڈیموکریسی کے بارے میں ایک نظریہ نواب کالا باغ کا بھی تھا۔ برطانیہ کے سفیر اُن سے ملنے کے لیے آئے۔ مغربی پاکستان کے گورنر کو احساس ہوا کہ سفیر ان کو ڈیموکریسی کے فوائد پر لیکچر دینے کی کوشش کررہا ہے۔ کہنے لگے: میں سنتا رہا۔ جب وہ رکے کہ میرا عندیہ لیں تو میں نے کہا ’’سفیر محترم! کیا آپ نے اس تاریخی حقیقت پر کبھی غور کیا ہے کہ جن دنوں انگلستان میں غیر جمہوری حکومتیں ہوا کرتی تھیں اس ذرا سے خطے نے ساری دنیا میں تہلکہ مچا رکھا تھا۔ چھوٹا سا جزیرہ گریٹ بریطین کہلانے لگا۔ سائنس، ٹیکنالوجی، آرٹ، ادب، ایجادات اور تجارت میں برتری ایک طرف اور آسٹریلیا سے لے کر امریکہ تک پھیلی ہوئی نوآبادیاں دوسری طرف۔ دنیا میں صرف ایک سپر پاور تھی اور اس کا نام برطانیہ تھا۔ آپ جمہوریت کی طرف قدم بقدم بڑھتے چلے گئے اور اسی رفتار سے آپ کے ملک کی عظمت اور اہمیت کم ہوتی چلی گئی۔ نوآبادیاں ہاتھ سے نکلتی چلی گئیں۔ دوسرے ملک تجارت اور ایجادات میں آپ سے آگے نکل گئے۔ آپ کا ملک جو سب کو قرضے فراہم کرتا تھا خود مقروض بلکہ دیوالیہ ہو گیا۔ آپ نے بے شک ڈیموکریسی کو مثالی بنالیا ہے مگر دنیا میں اب آپ کا وقار ہے نہ وقعت۔ برطانیہ آج ایک معمولی اور غیر اہم جزیرہ ہے۔‘‘ (مختار مسعود۔لوحِ ایام)

آج اور کل

وہ کل کے غم و عیش پہ کچھ حق نہیں رکھتا
جو آج خود افروز و جگر سوز نہیں ہے!
وہ قوم نہیں لائق ہنگامہ فردا
جس قوم کی تقدیر میں امروز نہیں ہے!