وقت زندگی ہے، جس کے درست یا غلط استعمال پر انسان کی فلاح و خسران کا مدار و انحصار ہے ۔ وقت اور عمل کے ملاپ سے زمانہ تشکیل پاتا ہے جس کی قسم کھاتے ہوئے خالق نے مخلوق کو متنبہ کیا ہے کہ ’’قسم ہے زمانے کی، انسان درحقیقت خسارے میں ہے، سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔‘‘ (سورہ عصر)
پیامبرِ انقلاب، شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ نے بھی اس جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے، نہ ناری ہے
وقت ہی کی پیمائش کے لیے انسان نے ثانیہ، لمحہ، منٹ، گھنٹہ، دن، ہفتہ، مہینہ، سال اور صدی جیسے پیمانے ایجاد کیے ہیں، جن سے شاید وقت کو ناپا تو جا سکتا ہے، مگر اسے روکنا ممکن ہے نہ اس کی رفتار کم کی جا سکتی ہے۔ وقت مسلسل رواں دواں رہتا ہے، ہاں انسان کے بس میں اتنا ضرور ہے کہ اپنے خالق کی عطا کردہ توفیق سے وقت کو اپنی اور انسانیت کی بھلائی کے کاموں میں صرف کرے، یا اسے بیکار ضائع کردے یا پھر اپنے ازلی دشمن کے جال میں پھنس کر شیطان کی خوشنودی میں اسے لگا دے۔ بہرحال وقت وہ دولت ہے جس کے ایک ایک لمحے کا حساب رکھا جارہا ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں، ہمارا ایک ایک عمل درجِ رجسٹر ہورہا ہے، اور بلاشبہ ہماری لامتناہی زندگی… حیاتِ ابدی کا دارو مدار اسی روزنامچہ کے مندرجات پر ہے۔ آج پھر وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے روز و شب کا جائزہ لیں کہ عیسوی کیلنڈر کا ایک اور ورق پلٹ گیا ہے، اس حال میں کہ:
نہادِ عصر میں طاغوت کا بسیرا ہے
جمایا ظلم نے دنیا میں پھر سے ڈیرا ہے
2024ء ہم سے اس حال میں رخصت ہوا ہے کہ دنیا میں ظلم و جبر کے سائے پہلے سے زیادہ گہرے ہوچکے ہیں۔ کفر کل بھی غالب تھا، آج بھی اسی کا سکہ چل رہا ہے۔ مسلمان کل بھی مظلوم و منتشر تھے، آج بھی لاوارث اور بے یارو مددگار آسمان کی طرف نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ امتِ مسلمہ کے حکمران بے حسی اور بے بسی کی تصویر بنے یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ کسی میں طاغوت کی مزاحمت کا جذبہ ہے، نہ ہمت۔ فلسطین ہو یا کشمیر، لبنان ہو یا شام، برما ہو یا بوسنیا… دنیا کے ہر کونے میں مسلمانوں کا خون پانی سے بھی ارزاں ہوچکا ہے۔ نام نہاد مہذب دنیا… بڑی طاقتیں ظالموں کی سرپرستی پر یکسو ہیں اور مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے نابود کردینے کے لیے متحد و متفق ہیں۔ ان کے مقابل مسلمان ممالک جنہیں کفر کو للکارنا تھا، مظلوم و مجبور مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنا تھا وہ باہم دگر دست و گریباں ہیں۔ منتشر و متفرق ہی نہیں ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
کا جو خواب آج سے ایک صدی قبل دیکھا تھا، ہنوز اپنی تعبیر کی تلاش میں ہے۔
وطنِ عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حالات کا جائزہ لیں تو یہاں بھی بہتری کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی، حکومت اگرچہ بہت سے دعوے کررہی ہے۔ اسٹاک مارکیٹ کے نئی بلندیوں کو چھونے کی اطلاعات بھی ہیں مگر عملاً آج بھی غربت و بے روزگاری اور گرانی کی حکمرانی ہے، عوام کے لیے دو وقت کی روٹی پوری کرنا محال ہورہا ہے، مہنگائی کا جن حکومتی دعووں کے باوجود ہر طرف دندنا رہا ہے۔ اور اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ اس مہنگائی کا بڑا سبب دیگر عوامل کے علاوہ خود حکومتی اقدامات بھی ہیں جن کی وجہ سے بجلی و گیس کے بل عام آدمی کے لیے ناقابلِ برداشت ہوچکے ہیں، تیل پر عائد حکومتی ٹیکسوں کے باعث اس کی قیمتیں بھی آسمانوں سے باتیں کررہی ہیں اور تمام اشیائے صرف کو مزید مہنگا کرنے کا جواز فراہم کررہی ہیں۔ معاشرتی سطح پر بھی برائیوں، عریانی، فحاشی اور بے حیائی کا چلن عام ہے۔ ذرائع ابلاغ اور حکومت جنہیں ان کی اصلاح کرنا تھی وہ کھلم کھلا ہر پستی کی سرپرستی کررہے ہیں۔ ملکی نظام اداروں کی باہمی آویزش اور کشمکش کا شکار ہے، ہر طاقت ور اور بااختیار ادارہ دوسرے ادارے کی آزادی اور خودمختاری کا خیال رکھے بغیر اس کے دائرۂ کار میں مداخلت کررہا ہے۔ پارلیمان کی جانب سے منظور کردہ چھبیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے دیگر بہت سے امور کے علاوہ پارلیمان نے عدلیہ پر واضح برتری اور بالادستی حاصل کرلی ہے، عدالتِ عظمیٰ کا ازخود نوٹس کا اختیار تک سلب کرلیا گیا ہے، اس سے بھی آگے بڑھ کر اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تعیناتی میں پارلیمانی اور حکومتی نمائندوں کو بااختیار بنادیا گیا ہے۔ سیاست میں مفاہمت کے بجائے انتقام کا جذبہ غالب دکھائی دیتا ہے۔ محاورے کی زبان میں ملک کے نظام کا عالم یہ ہے کہ ’’اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی؟‘‘ ان حالات میں 2025ء کے نئے برس کا استقبال فیض احمد فیض کے ان اشعار سے کیا جائے تو یقینا بے جا نہیں ہوگا:
اے نئے سال بتا تجھ میں نیا پن کیا ہے
ہر طرف خلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے
روشنی دن کی وہی تاروں بھری رات وہی
آج ہم کو نظر آتی ہے ہر ایک بات وہی
آسمان بدلا ہے افسوس نہ بدلی ہے زمیں
ایک ہندسے کا بدلنا کوئی جدت تو نہیں
اگلے برسوں کی طرح ہوں گے قرینے تیرے
کسے معلوم نہیں بارہ مہینے تیرے
جنوری فروری مارچ میں پڑے گی سردی
اور اپریل مئی جون میں ہو گی گرمی
تیرا من دہر میں کچھ کھوئے گا کچھ پائے گا
اپنی میعاد بسر کر کے چلا جائے گا
تُو نیا ہے تو دکھا صبح نئی شام نئی
ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئی
بے سبب لوگ کیوں دیتے ہیں مبارک بادیں
غالباً بھول گئے وقت کی کڑوی یادیں
تیری آمد سے گھٹی عمر جہاں سے سب کی
فیضؔ نے لکھی ہے یہ نظم نرالے ڈھب کی
(حامد ریاض ڈوگر)