حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا :
’’جو شخص لوگوں کا مال اس نیت سے لے کہ اس کو ادا کرے گا تو اللہ اس کی طرف سے
ادا کرے گا اور جو اس کو تباہ کرنا چاہے تو اللہ تعالیٰ اس کو تباہ کردے گا‘‘۔
(بخاری، جلد اول کتاب الاستقراض حدیث نمبر :2228)
قرآن میں مومنوں کی ایک صفت یہ بیان کی گئی ہے:
(ترجمہ) ’’جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل، بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہائوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔‘‘ (الفرقان 25 :67)
اسلامی نقطہ نظر سے اسراف تین چیزوں کا نام ہے۔ ایک، ناجائز کاموں میں دولت صرف کرنا، خواہ وہ ایک پیسہ ہی کیوں نہ ہو۔ دوسرے، جائز کاموں میں خرچ کرتے ہوئے حد سے تجاوز کرجانا، خواہ اس لحاظ سے کہ آدمی اپنی استطاعت سے زیادہ خرچ کرے، یا اس لحاظ سے کہ آدمی کو جو دولت اس کی ضرورت سے بہت زیادہ مل گئی ہو اسے وہ اپنے ہی عیش اور ٹھاٹ باٹ میں صرف کرتا چلا جائے۔ تیسرے، نیکی کے کاموں میں خرچ کرنا، مگر اللہ کے لیے نہیں بلکہ ریا اور نمائش کے لیے۔ (تفہیم القرآن، سوم، ص464، الفرقان، حاشیہ 83)
بخل اور اسراف کے درمیان راہِ اعتدال
(ترجمہ) ’’نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو اور نہ اسے بالکل ہی کھلا چھوڑ دو کہ ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جائو۔ تیرا رب جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے۔ وہ اپنے بندوں کے حال سے باخبر ہے اور انہیں دیکھ رہا ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل 17: 29۔30)
ہاتھ باندھنا استعارہ ہے بخل کے لیے، اور اسے کھلا چھوڑ دینے سے مراد ہے فضول خرچی۔ آیت 26۔27 کو اس فقرے سے ملا کر پڑھنے سے منشا صاف یہ معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں میں اتنا اعتدال ہونا چاہیے کہ وہ نہ بخیل بن کر دولت کی گردش کو روکیں، اور نہ فضول خرچ بن کر اپنی معاشی طاقت کو ضائع کریں۔ اس کے برعکس ان کے اندر توازن کی ایسی صحیح حس موجود ہونی چاہیے کہ وہ بجا خرچ سے باز بھی نہ رہیں اوربے جا خرچ کی خرابیوں میں مبتلا بھی نہ ہوں۔ فخر اور ریا اور نمائش کے خرچ، عیاشی اور فسق و فجور کے خرچ اور تمام ایسے خرچ جو انسان کی حقیقی ضروریات اور مفید کاموں میں صرف ہونے کے بجائے دولت کو غلط راستوں میں بہادیں، دراصل خدا کی نعمت کا کفران ہیں۔ جو لوگ اس طرح اپنی دولت کو خرچ کرتے ہیں وہ شیطان کے بھائی ہیں۔ (تفہیم القرآن، دوم، ص 611، بنی اسرائیل، حاشیہ 29)
ان دونوں انتہائوں کے درمیان کی راہ، اسلام کی راہ ہے جس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ من فقہ الرجل قصدہ فی معیشتہ (احمد و طبرانی، بروایت ابی الدرداءؓ) اپنی معیشت میں توسط اختیار کرنا آدمی کے فقیہ (دانا) ہونے کے علامتوں میں سے ہے۔ یہ دفعات بھی محض اخلاقی تعلیم اور انفرادی ہدایات تک محدود نہیں ہیں بلکہ صاف اشارہ اس بات کی طرف کررہی ہیں کہ ایک صالح معاشرے کو اخلاقی تربیت، اجتماعی دبائو اور قانونی پابندیوں کے ذریعے سے بے جا صرفِ مال کی روک تھام کرنی چاہیے۔ چنانچہ آگے چل کر مدینہ طیبہ کی ریاست میں ان دونوں دفعات کے منشا کی صحیح ترجمانی مختلف عملی طریقوں سے کی گئی۔ ایک طرف فضول خرچی اور عیاشی کی بہت سی صورتوں کو ازروئے قانون حرام کیا گیا۔ دوسری طرف بالواسطہ قانونی تدابیر سے بے جا صرفِ مال کی روک تھام کی گئی۔ تیسری طرف معاشرتی اصلاح کے ذریعے سے ان بہت سی رسموں کا خاتمہ کیا گیا جن میں فضول خرچیاں کی جاتی تھیں۔ پھر حکومت کو یہ اختیارات دیے گئے کہ اسراف کی نمایاں صورتوں کو اپنے انتظامی احکام کے ذریعے سے روک دے۔ اسی طرح زکوٰۃ صدقات کے احکام سے بخل کا زور بھی توڑا گیا اور اس امر کے امکانات باقی نہ رہنے دیے گئے کہ لوگ زراندوزی کرکے دولت کی گردش کو روک دیں۔ ان تدابیر کے علاوہ معاشرے میں ایک ایسی رائے عام پیدا کی گئی جو فیاضی اور فضول خرچی کا فرق ٹھیک ٹھیک جانتی تھی اور بخل اور اعتدال میں خوب تمیز کرتی تھی۔ اس رائے عام نے بخیلوں کو ذلیل کیا۔ اعتدال پسندوں کو معزز بنایا۔ فضول خرچوں کو ملامت کی اور فیاض لوگوں کو پوری سوسائٹی کا گلِ سرسبد قرار دیا۔ اُس وقت کی ذہنی و اخلاقی تربیت کا یہ اثر آج تک مسلم معاشرے میں موجود ہے کہ مسلمان جہاں بھی ہیں کنجوسوں اور زراندوزوں کو بری نگاہ سے دیکھتے ہیں اور سخی انسان آج بھی ان کی نگاہ میں معزز و محترم ہے۔ (تفہیم القرآن، دوم ص 611، بنی اسرائیل، حاشیہ 29)
یعنی نہ تو ان کا حال یہ ہے کہ عیاشی اور قماربازی اور شراب نوشی اور یارباشی اور میلوں ٹھیلوں اور شادی بیاہ میں بے دریغ روپیہ خرچ کریں اور اپنی حیثیت سے بڑھ کر اپنی شان دکھانے کے لیے غذا، مکان، لباس اور تزئین و آرائش پر دولت لٹائیں۔ اور نہ ان کی کیفیت یہ ہے کہ ایک زرپرست آدمی کی طرح پیسہ جوڑ جوڑ کر رکھیں، نہ خود کھائیں، نہ بال بچوں کی ضروریات اپنی استطاعت کے مطابق پوری کریں، اور نہ کسی راہِ خیر میں خوش دلی کے ساتھ کچھ دیں۔ عرب میں یہ دونوں قسم کے نمونے کثرت سے پائے جاتے تھے۔ ایک طرف وہ لوگ تھے جو خوب دل کھول کر خرچ کرتے تھے مگر ان کے ہر خرچ کا مقصود یا تو ذاتی عیش و تنعم تھا یا برادری میں ناک اونچی رکھنا اور اپنی فیاضی و دولت مندی کے ڈنکے بجوانا۔ دوسری طرف وہ بخیل تھے جن کی کنجوسی مشہور تھی۔ اعتدال کی روش بہت ہی کم لوگوں میں پائی جاتی تھی۔ اور ان کم لوگوں میں اُس وقت سب سے نمایاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب تھے۔ سورۂ فرقان آیت 67 میں یہ بات گزر چکی ہے کہ (رحمان کے اصل بندے وہ ہیں) جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل، بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہائوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔(تفہیم القرآن، سوم، ص464)
اخراجات اور خادم کے حقوق
٭ ایک آدمی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ’’میں ضرورت مند ہوں، میرے پاس کچھ نہیں، اور میری کفالت میں ایک یتیم ہے‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی کہ ’’تم اپنے (ماتحت) یتیم کے مال میں سے ضرورت کے مطابق خرچ کرسکتے ہو لیکن اس میں فضول خرچی نہ ہو، ضرورت سے زیادہ جلدی جلدی خرچ نہ کرو اور نہ ہی اس سے جائداد بنائو۔‘‘(ابو دائود، ابن ماجہ، نسائی۔ عن عبداللہ بن عَمروؓ)
٭ ایک صحابیؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، خادم کو ہم کتنی بار معاف کریں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ پھر انہوں نے اسی سوال کو دہرایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر بھی خاموش رہے۔ جب انہوں نے تیسری بار پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسے ہر دن 70 بار معاف کیا کرو۔‘‘(ابودائود۔ عن عبداللہ بن عمرؓ)