تہاڑمیں میرے شب و روز

رودادِ اسیری، رودادِ قید و بند، داستانِ اسیری، احوالِ زنداں، زنداں نامہ.. یہ تمام عنوانات ایک ہی کیفیت کی غمازی کرتے ہیں۔ اس لیے زندانی ادب کا مطالعہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ ’’تہاڑ میں میرے شب و روز‘‘ زندانی ادب میں ایک اہم اضافہ ہے۔ یہ کتاب ’’مائی ڈیز ان پریزن‘‘ کے نام سے منظر عام پر آئی، یہ اس کا اردو ترجمہ ہے۔ افتخار گیلانی کو 2002ء میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی نقل و حرکت اور تعداد کے متعلق جاسوسی کے الزام میں پولیس نے ان کے گھر سے گرفتار کرکے تہاڑ جیل میں قید کیا تھا۔ ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے احتجاج پر حکومت نے الزامات واپس لے لیے اور افتخار گیلانی کو جنوری 2003ء میں باعزت بری کردیا گیا تھا۔ یہ کتاب اسی گرفتاری کے بعد جیل میں پیش آنے والے دردناک واقعات کا خلاصہ ہے۔ مصنف نے اپنی اس کتاب میں بڑے سلیس انداز میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ تہاڑ جیل میں ایک قیدی کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے۔ تہاڑ جیل میں انہیں حکم دیا گیا کہ ٹوائلٹ صاف کرو۔ وہ لکھتے ہیں کہ ٹوائلٹ کسی بس اڈے کے سرکاری پاخانے کی طرح متعفن اور غلیظ تھا، میں اسے صاف کرنے کے لیے کسی کپڑے کی تلاش میں اِدھر اُدھر نظر دوڑانے لگا تو حکم دیا گیا کہ اپنی شرٹ اتار کر اسی سے صاف کرو۔ حکم ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

کتاب میں جہاں کئی واقعات ایسے ہیں جنہیں پڑھ کر آنکھیں نم ہوجاتی ہیں، وہیں کئی ایسے ہیں جنہیں پڑھ کر قہقہہ لگائے بغیر نہیں رہا جاسکتا۔ افتخار گیلانی نے اپنی اس کتاب میں اس بات کی شہادت دی ہے کہ آزادی کی مشعل تب تک فروزاں رہے گی جب تک ایسے لوگ ہمارے درمیان موجود ہیں جو مصلحتوں کی آڑ میں آزادی کے پر نوچنے والوں کو بے نقاب کرنے کا حوصلہ اور عزم رکھتے ہیں، جو یہ مانتے ہیں کہ زندگی اور آزادی سماج، حکومت یا آئین کے بخشے ہوئے تحفے نہیں بلکہ ہر فرد کا فطری حق ہیں۔

اس کتاب میں میڈیا ٹرائل پر بھی ایک خاص مضمون ہے جس میں میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ رویّے کو اجاگر کیا گیا ہے۔ افتخار گیلانی کہتے ہیں کہ بھارت میں بیش تر میڈیا آرگنائزیشن غلط باتوں کو حقیقت بناکر نشر کرتی ہیں تاکہ ایک خاص رائے عامہ ہموار کی جاسکے، یہی میرے ساتھ ہوا تھا۔ میرے خلاف بلاتحقیق رپورٹیں شائع کی گئیں جن سے میری مشکلات اور بڑھ گئی تھیں۔

اس کتاب کی خوبی یہی ہے کہ جیل کے تمام واقعات بڑے سادہ انداز میں پیش کیے گئے ہیں۔ افتخار گیلانی نے شکایت کے بجائے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ جمہوری ملک میں انصاف، سچائی اور فرد کی آزادی کو دبایا نہیں جاسکتا۔ انہوں نے اپنے اوپر عائد کیے گئے الزامات کو غلط ثابت کرتے ہوئے بتایا کہ وہ قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں۔