حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : گیارہ قائدانہ اوصاف
دنیا بھر میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر لاتعداد کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اب تک سیرت پر 25 ہزار کے قریب کتابیں لکھی گئی ہیں، اور ہر سال ان کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہ بلاشبہ مسلمانوں کی اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے لازوال محبت اور عقیدت کا مظہر ہے۔ مسلمانوں کی خوش قسمتی ہے کہ وہ سرورِ کائنات، امام الانبیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی ہیں، جن کی دیانت، امانت اور قیادت کو اپنے اور غیر سب تسلیم کرتے ہیں۔
مسلمانوں میں آبادی کے ساتھ ساتھ نمازیوں، حاجیوں، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت و عقیدت میں اضافہ ہورہا ہے۔ آج دنیا کی کُل آبادی کا ایک چوتھائی حصہ مسلمان ہے، تقریباً دو ارب کے قریب مسلمان اس دنیا میں بستے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود دنیا ظلم سے بھر گئی ہے۔ ہر طرف جنگیں، قتل و غارت، اور بدامنی کا راج ہے۔ خود مسلمان ہر میدان میں پیچھے، کمزور، مجبور، اور مظلوم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟
یہ سوال امتِ مسلمہ کے ہر فرد کو پریشان کرتا ہے۔ مختلف اسلامی تحریکوں نے وقتاً فوقتاً یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ پوری دنیا کا بالعموم اور امتِ مسلمہ کا بالخصوص اصل مسئلہ حقیقی قیادت کا فقدان ہے۔ قیادت کے لیے اللہ تعالیٰ کے قوانین اور سننِ الٰہی بھی بتائے گئے ہیں، لیکن اسلامی تحریکیں قیادت کی تیاری میں کس حد تک کامیاب ہوئیں؟ یا مسلم دنیا میں قیادت کی تیاری پر کتنی توجہ دی جاتی ہے؟ یہ سوال تحقیق طلب ہیں۔
البتہ 1947ء کے ایجوکیشن کمیشن سے لے کر 2009ء تک کی تعلیمی پالیسیوں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کے تعلیمی نظام میں قیادت کی تیاری کا احساس نہیں پایا جاتا۔ ہمارے تعلیمی تصورات میں قیادت کا کوئی تصور موجود نہیں۔ جب یہ تصور پالیسی میں شامل نہیں ہوگا تو نصاب اور کتابوں میں کیسے آئے گا؟ دوسری طرف سیرتِ طیبہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روزمرہ معمولات، عبادات کے طریقے اور تاریخی واقعات تو بیان کیے جاتے ہیں، لیکن آج کے دور میں ان سے رہنمائی حاصل کرنے کا عملی طریقہ اختیار نہیں کیا جاتا۔ خصوصاً قیادت اور سیادت کے لیے آپؐ کے اسوہ حسنہ سے رہنمائی لینے کی طرف توبہت کم توجہ دی جاتی ہے۔
نبیل اعظمی صاحب نے اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے کتاب 11 Leadership Qualities That Changed the World لکھی۔ نبیل اعظمی طویل عرصے تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں قیادت کے موضوع پر تدریس کرتے رہے۔ بالآخر انھوں نے تحقیق کرکے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گیارہ ایسے اوصاف کو منتخب کیا جنھوں نے دنیا کو بدل دیا، اور آج بھی ان میں دنیا کو بدل دینے کی صلاحیت موجود ہے۔ تقریباً انھی خصوصیات کو مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے دنیا میں قیادت و سیادت کے لیے الٰہی قوانین اور امام حسن البنا شہید نے سننِ الٰہی قرار دیا ہے۔
نبیل اعظمی مرحوم نے یہ کتاب برطانیہ سے تعلق رکھنے والے قیادت کے معروف پروفیسر جان اڈائر(John Adair) کی کتاب The Leadership of Muhammad سے متاثر ہوکر لکھی ہے۔ جان اڈائر نے کتاب کے پیش لفظ میں درست کہا ہے کہ ”یہ وہی خصوصیات ہیں جنھیں آج کی دنیا میں ہر طرف تلاش کیا جارہا ہے۔“
کتاب میں ان گیارہ اوصاف کی تفصیل سائنسی اور عملی انداز میں پیش کی گئی ہے، جن میں دیانت داری، قابلیت، وژن، دلیری، عدل و انصاف، قوتِ فیصلہ، عجز و انکسار، حکمت، صبر و استقامت، دردمندی، اور روحانی ذہانت شامل ہیں۔ ہر صفت کے لیے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متاثر کن مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ ہر باب کے اختتام پر مختلف نظریات سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی کیس اسٹڈیز معروضی انداز میں پیش کی گئی ہیں۔ یہ کتاب کا ایک اہم اور منفرد پہلو ہے۔ کیس اسٹڈیز کو اس انداز میں پیش کیا گیا ہے کہ وہ قاری کو صرف نظریاتی معلومات تک محدود نہیں رکھتیں بلکہ عملی زندگی میں ان اوصاف کے اطلاق کو بھی نمایاں کرتی ہیں۔ غور و فکر کے لیے سوالات، تحقیق و تجزیے کی عادت کو فروغ دینے کے لیے ہدایات، اور مزید مطالعے کے لیے تجاویز بھی شامل ہیں۔
کتاب میں اختصار اور جامعیت کے ساتھ قاری کو اپنے حصار میں لینے اور عمل پر آمادہ کرنے کی زبردست صلاحیت موجود ہے۔ یہ کتاب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کی روشنی میں تعلیم و تربیت اور قیادت کی تیاری پر ایک مکمل اسکیم آف اسٹڈیز کی حیثیت رکھتی ہے، جس کی مدد سے نصاب تیار کیا جا سکتا ہے اور مختلف درجات کے لیے کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ اسی طرح یہ کتاب تربیتی اداروں کے لیے ٹریننگ مینوئل کی حیثیت رکھتی ہے۔
کتاب کے ترجمے میں اتنی سلاست اور روانی ہے کہ پڑھنے والے کو یہ ترجمہ کم اور طبع زاد تخلیق زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ مترجم اور ادارتی ٹیم نے کتاب کے بعض حصوں کو مقامی کلچر کے مطابق بنا کر اس کی افادیت میں مزید اضافہ کیا ہے۔ البتہ بعض اصطلاحات کے ترجمے اور ترتیب و املا میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔
یہ کتاب تعلیم و تربیت سے وابستہ افراد کے لیے تو ایک قیمتی اثاثہ ہے ہی، لیکن ہر مکتبِ فکر اور زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے مرد و خواتین کے لیے بھی یکساں اہمیت رکھتی ہے۔ یہ ایک شان دار پیش کش ہے جو دلوں کو جھنجھوڑتی اور ذہنوں کو روشنی بخشتی ہے۔ کتاب نہ صرف باطنی حسن سے مزیّن ہے بلکہ معیاری کاغذ اور خوب صورت گردپوش کے ساتھ ظاہری دلکشی کا بھی شاہ کار ہے۔
نبیل اعظمی مرحوم نے یہ عظیم کتاب کینسر جیسے موذی مرض سے نبرد آزما رہتے ہوئے مکمل کی۔ یہ ان کے بے مثال عزم، غیر معمولی لگن اور عظیم سعادت کا مظہر ہے کہ انھوں نے زندگی کی آخری سانسوں تک نہ صرف علم و فکر کے چراغ روشن کیے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں اس شاہ کار کی تکمیل کا شرف عطا کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے۔