چھوٹا شہر بڑا آدمی ,استاد العلما قاری نثار احمد منگی المعروف ’’حافظ سندھی‘‘

صوبہ سندھ کا قدیم اور تاریخی شہر شکارپور علم و ادب سمیت مختلف حوالوں سے ایک بے مثال اور منفرد شہر واقع ہوا ہے۔ اس شہر میں ہر دور ہی میں ایسے محققین، علمائے کرام، ادبا، شعرا اور مورخین پیدا ہوتے رہے ہیں جنہوں نے نہ صرف یہ کہ باب الاسلام سندھ کی تاریخ میں اپنا حصہ ڈالا اور نمایاں کردار ادا کیا ہے بلکہ اپنی قیمتی، گراں مایہ اور شان دار خدمات کی بدولت وہ خود بھی نامور کہلائے ہیں۔ بلاشبہ شکارپور ایک ایسا مردم خیز شہر ہے جس میں جنم لینے والی باکمال ہستیوں نے اپنے فکر و فن اور تحقیقی و تخلیقی خدمات سے علم و ادب سمیت ہر شعبۂ زندگی میں یادگار خدمات سرانجام دی ہیں۔ علم اور ادب سے وابستہ علم پرور ہستیوں کی طویل فہرست میں ایک اہم اور نمایاں ترین نام استاد العلماء قاری نثار احمدمنگی المعروف حافظ سندھیؒ کا بھی ہے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے بیک وقت بہت ساری خوبیوں اور اوصافِ حمیدہ سے نواز رکھا تھا۔ وہ ایک معروف عالمِ دین، کتاب اللہ کے حافظ، فنِ قرأت کے ماہر، شعلہ بیان مقرر، باصلاحیت استاد، جرأت مند سیاسی کارکن ہونے کے ساتھ ساتھ صفِ اوّل کے سخن ور بھی تھے۔ شعر و سخن کی دنیا میں انہیں ان کے شاعرانہ نام ’’حافظ سندھی‘‘، جب کہ علمی اور دینی حلقوں میں استاد قاری صاحب کے نامِ نامی سے جانا جاتا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر مَیں اس موقع پر ’’جانا جاتا تھا‘‘ کے بجائے ’’جانا جاتا ہے‘‘ لکھ دوں تو بھی یہ اس لیے جائز اور روا قرار پائے گا کہ حافظ سندھیؒ اپنے علم و حلم، اخلاقِ حسنہ، مہمان نوازی، وضع داری اور ادب پروری کی وجہ سے آج بھی نہ صرف اہلِ شکارپور بلکہ سندھ اور بیرون سندھ موجود اپنے ہزاروں شاگردوں اور لاکھوں چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ ان کی من موہنی اور بے لوث شخصیت کا تذکرۂ دل پزیر آج بھی اکثر و بیشتر مختلف حوالوں سے برپا کردہ علمی اور ادبی مجالس میں ہوتے دیکھ کر تو یہی گمان گزرتا ہے کہ خالصتاً للہیت کی بنیاد پر کام کرنے اور اپنی تمام تر حیاتِ مستعار کو دینِ الٰہی کے فروغ کے لیے وقف کردینے والی شخصیات بظاہر تو اس دنیا سے رخصت ہوجاتی ہیں، تاہم ان کا کیا گیا کام انہیں بعد میں بھی اہلِ دنیا کو یاد رکھنے پر مجبور کردیتا ہے۔ حافظ سندھی نے باوجود دینی اور دنیاوی تعلیم میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے، اور اپنی ساری زندگی میں بار بار ایک سے ایک عمدہ ملازمت اور دنیاوی کیریئر بنانے کے لیے سنہری مواقع میسر آنے کے انہیں ٹھکرا کر سید مودودیؒ کی برپا کردہ اقامتِ دین کی جدوجہد کے لیے خود کو ہمہ تن، سرتاپا وقف کیے رکھا۔ اس کی وجہ سے انہیں نہ صرف دنیا میں نیک نامی ملی اور وہ ہر دل عزیز ہوئے بلکہ اِن شاء اللہ یہ ساری مساعیِ جمیلہ ان کے لیے توشۂ آخرت بھی ثابت ہوں گی۔

راقم نے پہلے پہل قاری نثار احمد منگی کا اسمِ گرامی معروف دانش ور اور ماہر تعلیم، سابق امیر جماعت اسلامی جیکب آباد شہر پروفیسر محمد یونس قریشی حفظہ اللہ کے منہ سے اُس وقت سنا تھا جب میں خود بھی ایک طالب علم تھا اور پروفیسر صاحب موصوف گورنمنٹ ڈگری کالج جیکب آباد میں درجہ یاز دہم (فرسٹ ائر) کے طلبہ کو انگریزی پڑھایا کرتے تھے۔ (واضح رہے کہ راقم پروفیسر صاحب پر بھی ایک تفصیلی تحریر بہ عنوان ’’چھوٹا شہر، بڑا آدمی‘‘ ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ میں لکھ چکا ہے۔) پروفیسر محمد یونس قریشی کے مطابق قاری نثار احمد منگی ایک لاجواب اور بے مثال مقرر ہیں۔ ان کا کہا ہوا مذکورہ تعریفی فقرہ میرے ذہن میں گویا ایک طرح سے چسپاں ہوگیا اور پھر مجھے بھی بالآخر وہ موقع مل ہی گیا جب میں نے قاری صاحبؒ کی کچھ عرصے کے بعد جیکب آباد آمد کے موقع پر بعد نماز عشاء قائداعظم روڈ پر منعقدہ ایک جلسۂ عام میں ان کی تقریر سنی۔ درحقیقت وہ تقریر اتنی عمدہ، بے مثال، اپنے موضوع کی مناسبت سے دلائل اور براہین سے آراستہ و پیراستہ اور ’’شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو‘‘ کے مصداق تھی کہ اتنا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود بھی میری لوحِ ذہن سے محو نہیں ہوسکی ہے۔ مجھے اس امر پر بھی بے حد تاسف ہے کہ میں حافظ سندھی پر یہ تحریر اُن کی زندگی ہی میں باوجود کوشش کے محض اپنے ازلی اور ابدی تساہل کے سبب لکھ سکا اور نہ ہی دلی تمنا کے باوصف جیکب آباد سے محض پون گھنٹے کی مسافت پر واقع اُن سے بالمشافہ ملاقات کے لیے کبھی شکارپور ہی جاکر ان کی خدمت میں حاضر ہوسکا۔ لیکن اب بھلا افسوس کرنے اور پچھتانے سے فائدہ؟ کاش ہم وہ اہم امور اپنی زندگی ہی میں سرانجام دے دیا کریں جن کی بروقت عدمِ ادائی پھر عمر بھر کا ایک طرح سے روگ بن جایا کرتی ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ حافظ سندھیؒ کی شخصیت اتنی ہمہ جہت اور گوناگوں اعلیٰ اوصاف کی حامل، اور ان کی دینی، علمی اور ادبی خدمات اس قدر زیادہ تھیں کہ اس حوالے سے باقاعدہ ایک کتاب بھی مرتب کی جاسکتی ہے۔ تاہم یہاں ان کی شخصیت، خدمات اور فن و فکر کے انہی امور پر اختصار کے ساتھ بحث کی جائے گی جو زیادہ ضروری، اہم اور نمایاں ہیں۔ یہ بھی ایک امر واقع بلکہ تلخ حقیقت ہے کہ حافظ سندھی کو اُن کی زندگی میں وہ مقام نہیں دیا گیا جس کے وہ اپنی بے مثال اور ہمہ گیر خدمات کی بناء پر بجا طور پر حق دار قرار پاتے تھے۔ شاید اس کی ایک بڑی وجہ اُن کی طبیعت اور مزاج میں موجود بے پناہ عاجزی، انکسار اور کسر نفسی بھی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تادمِ حیات نمود و نمائش اور دکھاوے یا ریا سے کوسوں دور ہی رہے۔ یہ سب خامیاں انہیں چھوکر بھی نہیں نہ گزری تھیں۔

قاری نثار احمد منگی المعروف حافظ سندھی 1937ء میں شکارپور کے ایک محلے ’’میر جویدرو‘‘ میں مرحوم محمد حسن منگی نامی ایک حد درجہ نیک اطوار، شریف اور غریب شخص کے گھر میں پیدا ہوئے۔ کسے معلوم تھا کہ آگے چل کر یہ نومولود بچہ علم و فضل کی دنیا میں اہم مقام حاصل کرکے اپنے اہلِ خانہ کا نام روشن کرے گا۔ معصوم نثار احمد نے جب کچھ ہوش سنبھالا اور پڑھنے لکھنے کی عمر تک پہنچا تو اس کے والد مرحوم محمد حسن نے اپنے بیٹے کو بجائے کسی سرکاری اسکول کے، ’’مدرسہ اشرفیہ شکارپور‘‘ میں داخل کروا دیا، جہاں وہ جلد ہی اپنی ذہانت اور فطانت کے سبب اپنے اساتذہ کرام کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ اس مدرسے میں انہوں نے اپنے علمی سفر کی منازل بڑی تیزی اور سرعت سے طے کیں۔ یہاں تک کہ اپنے ہم سبقوں سے وہ بہت آگے نکل گئے۔ ناظرہ قرآن کے بعد انہوں نے کلامِ پاک کو حفظ کیا جس کے بعد قرأت کا سلسلہ مکمل کرکے درسِ نظامی کا نصاب شروع کیا اور تھوڑے ہی عرصے میں مذکورہ مدرسے میں شروعاتی کتب بھی پڑھ ڈالیں۔ اس دورِ تعلیم میں ان کے اساتذۂ کرام میں قاری خان محمد کیہر، استاد عبدالقادر چوہان، مولانا خلیل اللہ ربانی، مولانا عبداللہ مہر کے ساتھ ساتھ مہتمم مرحوم حکیم فضل اللہ سومرو کے اسمائے گرامی بھی شامل ہیں، جس کے بعد انہوں نے اپنی بقیہ تعلیم کی تکمیل استاذ العلماء مولانا محمد اسماعیل عودویؒ کے ہاں کی۔ حافظ سندھی علم سے دیرینہ محبت کی وجہ سے حصولِ تعلیم کی خاطر بعدازاں شاہ ولی اللہ اورینٹل کالج منصورہ (ہالا) حیدرآباد میں داخل ہوئے اور یہاں سے مولوی، مولوی عالم اور مولوی فاضل کے امتحانات دیے، اور ان تینوں ہی امتحانات میں پہلی پوزیشن حاصل کرکے اپنی قابلیت کا زبردست سکہ جما دیا۔ 1972-73ء کے سیشن میں سندھ یونیورسٹی جامشورو کے زیراہتمام منعقدہ ایم اے عربی (فائنل) کے منعقدہ امتحان میں ایسی بے مثال اور یادگار کامیابی حاصل کی کہ ایک طرح سے اساتذہ اور طلبہ سارے کے سارے ہی گویا انگشت بدنداں ہوکر رہ گئے، وہ اس طرح سے کہ انہوں نے ایک ہی وقت میں جہاں شعبہ عربی میں پہلی پوزیشن حاصل کی، وہیں اسی برس ساری آرٹس فیکلٹی میں جس میں بھی ایکسٹرنل اور ریگولر شاگرد شریک تھے، انہوں نے سب سے زیادہ نشانات (مارکس) حاصل کرکے یونیورسٹی میں ٹاپ کیا اور اس کے لیے بھی الگ سے گولڈ میڈل حاصل کیا۔ اس دور میں یونیورسٹی کے اساتذۂ کرام پروفیسر عبدالواحد ہالے پوتو، پروفیسر مدد علی قادری اور پروفیسر غلام حسین جلبانی و دیگر نامور اساتذہ اپنے اِس شاگردِ رشید کی عربی دانی، قوتِ گفتار، مضمون میں مہارت اور اس پر عبور، فنِ قرأت میں مہارت اور بے مثال خوش خطی کی باتیں بڑے تحسین آمیز انداز میں اپنے دوستوں اور شاگردوں کو بتایا کرتے تھے۔ ایم اے عربی کے امتحان میں غیر معمولی کامیابی کے بعد انہیں اسلام آباد اور کراچی میں اعلیٰ سرکاری عہدوں پر ملازمت کی بھی پیشکش ہوئی اور پی ایچ ڈی کرنے کے لیے ان کا نام بیرونِ ملک جانے کے لیے بھی منتخب کیا گیا، لیکن انہوں نے تمام پیش کشوں کو ٹھکراتے ہوئے سلف صالحین کی روایت پر عمل کیا اور تادمِ حیات خود کو دینِ اسلام کی تبلیغ، فریضۂ اقامتِ دین کی ادائی اور قرآنِ حکیم کی تعلیم کے فروغ کے لیے وقف کردیا اور اپنی وفات 24 اپریل 2022ء تک وہ پوری دل جمعی، خلوص اور استقامت کے ساتھ اپنے اُن معمولات پر کاربند رہے جن کا آغاز انہوں نے حصولِ تعلیم کے بعد خوب سوچ سمجھ کر اور کامل یکسوئی کے ساتھ کیا تھا۔ استقامت پر مبنی اس طرح کے فیصلے صرف وہی شخص کرسکتا ہے جس کے اندر ایمان اور دین کی روح راسخ ہوچکی ہو۔ حافظ سندھیؒ نے امارت اور آسائش کی زندگی ترک کرکے افلاس، عسرت اور درویشی کی جس زندگی کو ترجیح دی وہ بلاشبہ اپنی مثال آپ ہے۔ انہوں نے بااختیار سرکاری کرسی کو ٹھکرا کر قرآن پڑھانے کو ترجیح دی اور یوں اپنی ابدی و اخروی زندگی سنوار لی۔ پوری خودداری اور خود اعتمادی کے ساتھ وہ تادمِ آخر بلاشبہ اپنے عہد پر ثابت قدم رہے۔

’’یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے، یہ بڑے نصیب کی بات ہے۔‘‘

باوجود عدم وسائل کے، وہ کسی بھی سائل کو مایوس یا خالی ہاتھ نہیں لوٹایا کرتے تھے۔ صبر، جود و سخا، وضع داری اور مہمان نوازی ان کے خاص اوصاف تھے۔ بہ حیثیت استاد کے انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز مدرسہ ’’مطلع العلوم‘‘ کوئٹہ سے کیا جہاں گو وہ مختصر عرصے کے لیے ہی فرائض سرانجام دے سکے، لیکن عزت بے پناہ حاصل کی۔ مدرسہ ہذا کے مہتمم مولانا عرض محمد مرحوم کے صاحب زادے اور جے یو آئی کے مشہور دینی اور سیاسی رہنما حافظ حسین احمد کی تعلیم کا آغاز بھی اسی مدرسے میں قاری نثار احمد منگھی کے ہاتھوں سے ہوا۔ اپنی والدہ مرحومہ کے حکم پر وہ کوئٹہ چھوڑ کر آگئے اورپھر کچھ ہی عرصے بعد سندھ کی قدیم دینی درس گاہ ’’مظہر العلوم‘‘ کھڈہ کراچی میں پڑھانے لگے۔ گھریلو حالات کی بناء پر انہیں جلد ہی واپس اپنے آبائی شہر شکارپور آنا پڑا جہاں پر انہوں نے اپنی ساری زندگی گزا دی۔ یہیں 1950ء کے لگ بھگ انہوں نے ’’مدرسہ دارالقرآن‘‘ موریانی محلہ میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ اس مدرسے میں انہوں نے عرصہ چالیس برس تک پڑھایا اور سیکڑوں طلبہ نے ان سے استفادہ کیا۔ وہ امیر جماعت اسلامی شکارپور بھی رہے۔ بعدازاں انہوں نے مشتاق مسجد ہزاری در میں ’’ضیا القرآن‘‘ کے نام سے اپنا مدرسہ قائم کیا اور آخری وقت تک اسی مدرسے میں طلبہ کو نورِ علم سے منور کرتے رہے۔ حافظ سندھیؒ کے مدرسے میں دور دور سے مشتاقانِ علم ان سے فیض حاصل کرنے کے لیے آیا کرتے تھے۔ وہ ایک بے مثال مقرر بھی تھے۔ ان کی تقریر میں شعلہ بیانی کے ساتھ ساتھ ادبی چاشنی بھی ہوا کرتی تھی۔ وہ اپنی تقریر میں قرآنی آیات، احادیث اور اسلامی تاریخی واقعات بڑی خوب صورتی کے ساتھ سمویا کرتے تھے۔

حافظ سندھیؒ سنتِ یوسفی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے تحریکِ ختمِ نبوت میں اسیر بھی ہوئے۔ عزیمت اور استقامت ان کی شخصیت کے نمایاں جوہر تھے۔ انہیں اللہ نے تین بیٹے زبیر احمد، خلیل احمد، عزیر احمد اور 4 بیٹیاں عطا کیں۔ اول الذکر دونوں بڑے بیٹے قرآن پاک کے حافظ اور قاری ہیں۔ سارے بچے ماشاء اللہ شادی شدہ، صاحبِ اولاد، نیک اطوار، صالح اور نماز روزے کے پابند ہیں۔

حافظ سندھیؒ کو عربی، سرائیکی، اردو، سندھی اور فارسی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ وہ ایک بے مثال، کہنہ مشق عروضی شاعر بھی تھے۔ ان کی سندھی شاعری کا بیشتر حصہ حمدیہ اور نعتیہ کلام پر مشتمل ہے۔ ان کی حمدیہ، دعائیہ اور نعتیہ شاعری کا ایک مجموعہ 2019ء میں حصہ ’’کلام حافظ سندھی‘‘ کے نام سے مہران اکیڈمی شکاپور کے زیر اہتمام نگران پروفیسر قمر میمن، مرتب برکت اللہ برقؔ خوب صورت اندازمیں چھپ کر پزیرائی حاصل کرچکا ہے، اس پر بھی راقم کا تبصرہ ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ میں شائع ہوچکا ہے۔ حافظ سندھی کو فنِ شاعری پر کامل دسترس حاصل تھی۔ وہ اپنی پُراثر شاعری اور اندازِ بیاں سے مشاعرہ لوٹ لیا کرتے تھے۔ حافظ سندھیؒ کی نماز جنازہ میں ہر مکتبہ فکر سے وابستہ ہزاروں افراد نے شرکت کی۔

’’خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را‘‘ آمین۔