ایک خاک نشین باقی بلوچ مغربی پاکستان اسمبلی کا رکن منتخب ہوگیا

مغربی پاکستان اسمبلی میں جہاں بلوچ سردار اور نواب انتخاب جیت کر آئے تھے، وہاں باقی بلوچ بھی اُن کے درمیان موجود تھا۔ اس طرح باقی بلوچ کی سیاسی زندگی کا آغاز ہوگیا تھا۔ اسمبلی میں سردار خیر بخش خان مری اور سردار عطا اللہ مینگل موجود تھے، نبی بخش زہری بھی تھے جو ایک کروڑ پتی شخص تھے، سنگِ مرمر اور دیگرکئی دھاتیں ان کے علاقے میں نکلتی تھی۔ نبی بخش زہری کی شہرت ’ماربل کنگ‘ کے طور پر تھی اور وہ ایوب خان کی پارٹی مسلم لیگ کے ممبر تھے۔ نبی بخش زہری کا سیاسی سفر ہمیشہ اُن لوگوں کے ساتھ رہا ہے جو اقتدار میں تھے۔ ان کی سیاسی زندگی کا سورج اقتدار کی دہلیز پر نمودار ہوتا اور غروب ہوتا۔ پھر وہ قیوم خان کی پارٹی میں شامل ہوگئے، اور ان کی آخری پارٹی پی پی پی تھی۔ وہ باقیؔ بلوچ کے بھی قریب رہے، لیکن باقیؔ ان کی پارٹی میں شامل نہیں ہوئے۔ نبی بخش زہری شیخ مجیب الرحمٰن کے قریب بھی رہے اور فاطمہ جناح کی صدارتی انتخابی مہم میں بھی بھرپور حصہ لیا۔ وہ مشرقی اور مغربی پاکستان میں اُن کے جلسوں میں خطاب کرتے تھے۔ ان جلسوں میں محترمہ فاطمہ جناح اور جنرل اعظم خان بھی تقریر کرتے تھے۔ عوام کی اکثریت ان جلسوں میں شریک ہوتی تھی۔ اُس وقت پاکستان تقسیم نہیں ہوا تھا۔ جماعت اسلامی نے بھی فاطمہ جناح کی حمایت کی۔ مولانا مودودیؒ اُن دنوں جیل میں تھے۔ جبکہ مفتی محمود کی پارٹی جمعیت علماء اسلام نے ایوب خان کی بھرپور حمایت کی۔ ایوب خان نے انہیں کچھ مراعات بھی دیں۔ ایوب خان کنونشن مسلم لیگ بنا چکے تھے اور وہ اس کے صدر بھی تھے۔ اُس وقت ووٹ براہِ راست ڈالنے کی اجازت نہ تھی۔ BD ممبر ووٹ کا حق رکھتے تھے۔ پاکستان میں اُس وقت ان کی تعداد کوئی 80 ہزار تھی۔ BD ممبرز کو عوام منتخب کرتے تھے، اور پھر یہ صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی میں نمائندوں کا انتخاب کرتے۔ اس طرح قومی اور صوبائی اسمبلی وجود میں آتی۔ جناب باقی بلوچ نے بھی انتخاب میں حصہ لیا تھا اور 99 ووٹ لے کر مغربی پاکستان کی اسمبلی میں پہنچ گئے۔ یہاں سے ان کی سیاسی زندگی کا دور شروع ہوا اور یہ اُن کی سیاسی زندگی کا عروج تھا۔ باقی بلوچ اسمبلی میں چھائے ہوئے تھے حالانکہ اُس دور میں نواب خیر بخش مری اور عطا اللہ مینگل موجود تھے، لیکن باقی بلوچ کا طوطی بول رہا تھا۔ وہ طلبہ میں بہت زیادہ مقبول تھے اور خوب صورت اردو میں تقریر کرتے تھے۔ وہ ساری ساری رات تقریر تیار کرتے اور نوٹس لیتے تھے۔ عوامی مسائل پر ان کی گہری نظر تھی۔ وہ اردو میں تقریر کرتے اور ادبی جملوں کا استعمال کرتے۔ وہ شاعر بھی تھے، ان کے کچھ شعر نذرِ قارئین ہیں:

ہر طرف شور ہی شور ہے، ہر سو زمستاں کا جادو جوان
میرے کہسار کی نو میدہ بہارو ابھی سو رہو
غم کی شب کا یہ آغاز ہے تیرگی اور بڑھ جائے گی
سو رہو، سو رہو، میرے ویران دیارو ابھی سو رہو

یہ اشعار ان کی نظم ’’چلتن کی آواز‘‘ سے لیے ہیں، بڑی دل نشین اور سحر انگیز نظم ہے۔

ہم ان کی سیاست کا تجزیہ کررہے ہیں، اور ان کی زندگی کا پیمانہ ان کی اسمبلی کی سحر انگیز تقاریر ہیں جو اُن کی زندگی کا احاطہ کررہی ہیں۔ اہلِ پنجاب ان پر فدا ہوگئے تھے، خاص طور پر نوجوان طلبہ ان کے گرویدہ ہوگئے تھے، وہ ون یونٹ کے زبردست حامی تھے اور اس مسئلے پر دلائل بھی دیتے تھے، جب کہ نیپ اور شیخ مجیب الرحمٰن اس کے سخت مخالف تھے۔ باقی بلوچ مغربی پاکستان اسمبلی میں پہنچے تو ان کے تعلقات اُن تمام سیاست دانوں سے ہوگئے جو اس حصے کی کریم تھے۔ سب سے زیادہ تعلقات مشتاق احمد گورمانی سے تھے۔ مشتاق احمد گورمانی مولانا مودودیؒ کے دور میں جماعت اسلامی میں شامل ہوگئے تھے۔ وہ گورنر رہ چکے تھے اور انتہائی ذہین سیاست دان تھے۔ مشتاق احمد گورمانی ایک لحاظ سے ان کے سیاسی اتالیق تھے۔ باقی بلوچ ان کے بہت قریب تھے اور ان کے مشوروں پر عمل کرتے تھے۔ وہ ملک غلام جیلانی کے بھی قریب رہے۔ جنرل اعظم خان سے بھی ان کا دوستانہ تھا۔ باقی بلوچ اسمبلی میں تقریر کرتے تو چھا جاتے تھے۔ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے کمرے میں مطالعہ کررہا تھا کہ غلام جیلانی میرے کمرے میں آئے اور کہا کہ جنرل اعظم خان نے افطار پر بلایا ہے۔ میں نے کہا مجھے معلوم نہیں ہے، لیکن غلام جیلانی نے میری کتاب بند کردی اور مجھے ساتھ لے لیا۔ افطار کے بعد ان کے ساتھ گیا، وہ اعظم خان کے حامی تھے۔ اس کے بعد ان سے اجازت لی، اور پریس آرڈیننس پر تقریر کرنا تھی تو نثار عثمانی کو تلاش کیا، عرفان چغتائی سے ملنے گیا، وہ دونوں نہیں ملے۔ اس کے بعد پی پی آئی کے دفتر روانہ ہوا، وہ پان کی دکان پر کھڑے تھے، ان کو ساتھ لیا۔ اس کے بعد غلام جیلانی کی طرف گیا۔ ان کے گھر کی گھنٹی بجائی، جونہی گھنٹی پر انگلی رکھی، دھماکوں کی آوازیں آنے لگیں۔ میں سمجھا کہ بچوں کی شرارت ہے، پٹاخے پھوڑ رہے ہوں گے۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ مجھ پر گولیوں کی بوچھاڑ ہوگئی ہے، اور دھماکوں کی آوازیں آنے لگیں۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ بندوق والے میرے تعاقب میں ہوں گے۔ یکایک میں نے اپنی کمر پر بہتا ہوا خون دیکھا، اور صحافی ضمیر قریشی فرش پر پڑا ہوا تھا۔ قریشی نے آہستہ سے کہا ’’باقی صاحب گولیاں چل رہی ہیں‘‘۔ ایک اور دھماکہ ہوا اور گولی قریشی کی زندگی کو چاٹ گئی۔ میںنے سوچا اب یہ لوگ مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ میںنے سالہا سال ان کے آقائوں کا تعاقب کیا تھا تو اب انہوں نے مجھے گھیر لیا ہے۔ میں اپنے حواس میں تھا، اور طے کرلیا تھا کہ موت سے لڑوںگا۔ اب میں اُس طرف چلا جہاں سے گولیاں چل رہی تھیں۔ میں برستی آگ سے گزر کر اپنے کمرے کی طرف جانے کا ارادہ کررہا تھا کہ اچانک میرے سامنے حاجی نور محمد کھڑے تھے۔ گولیاں تھم گئی تھیں، میرے جسم پر خون تھا، لباس پر خون تھا۔ میں بلوچوںکو اُس رات کی کہانی سناتا ہوں اور سوال کرتا ہوں کہ میں ایک پنجابی نواب کالا باغ کو یاد رکھوں یا ان پندرہ سو پنجابیوں کو یاد رکھوں۔ میرے جسم میں تو پنجاب کے ایک ایک کونے کا خون ہے۔

راجا احمد جان بلوچستان کے چیف سیکرٹری ہیں، وہ ڈنکے کی چوٹ پر مجھے دیکھنے آئے اور گھنٹہ بھر میرے پاس رہے۔ میں نے ان کی نوکری کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تو کہنے لگے: مجھے کالا باغ نہیں، اللہ تعالیٰ رزق دیتا ہے۔

ڈپٹی کمشنر مرزا حسین علی دیکھنے آئے، حاجی قیوم جہاز میں آئے۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر حمید احمد خان کمرے میں داخل ہوتے ہی چلاّنے لگے ’’میں نے تم سے کہا تھا کہ انسان بنو، ایسی حرکتیں نہ کرو‘‘۔ پھر بچوں کی طرح طرح رونے لگے۔ 35 دن کے بعد میرا ہوائی جہاز کراچی کے ہوائی اڈے پر اترا تو میں نے دیکھا تاحدِّ نگاہ انسان ہی انسان تھے۔ مجھے ائرپورٹ سے نکلنے میں 45 منٹ لگے۔ ڈرگ روڈ تک لوگوں کا ہجوم تھا۔ مجھ میں تاب نہیں کہ خدا کے سامنے ان لمحوں کا شکر ادا کروں۔

باقی کی داستانِ حیات بڑی دل کش اور حیرت انگیز ہے۔ اتنی ہمدردی پھر کسی بلوچ لیڈر کو نہیں ملی جو باقیؔ کے حصے میں آئی تھی۔ وہ طلبہ اور صحافتی برادری میں بے حد مقبول تھے۔ خوب صورت اردو بولتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہ کتاب ان کی زندگی کی فلم ہے جو قارئین کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ جب اس کتاب کو پڑھیں گے تو آپ اُس دور میں چلے جائیں گے جہاں باقیؔ آپ کو لے جانا چاہتا ہے۔ وہ اپنی کتاب میں اپنے لمحات کو بڑی خوب صورتی سے بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: میں جب مادرِ ملت فاطمہ جناح سے ملنے گیا تو انہوں نے ایسا انتظام کیا کہ صوفے پر نیم دراز ہوکر ان سے باتیں کرتا رہا۔ اس روز کی ملاقات 3 گھنٹے پر پھیل گئی۔ شاید یہ طویل ترین وقت تھا جو انہوں نے کسی سیاسی شخصیت کو دیا۔

ایک اور دل چسپ واقعہ نواب بگٹی کا سنایا۔ انہوں نے بتایا کہ جب ہم فاطمہ جناح سے ملنے گئے تو نواب خیر بخش مری ساتھ تھے، ہم نے بات چیت شروع کی تو انہوں نے ہمیں وقت بہت کم دیا اور ان کا لہجہ سخت تھا، ہم زیادہ دیر نہیں بیٹھے۔ باہر نکلے تو نواب خیر بخش نے کہا کہ محترمہ بہت سخت عورت ہیں اور ہمیں زیادہ بولنے نہیں دیا۔ جب نواب بگٹی نے مجھے ملاقات کا حال سنایا تو خوب ہنسے، اور میں یہ واقعہ ان سے سنتا رہا۔ نواب بگٹی کے سینے میں بہت سے راز تھے۔ ایک رات ان سے محفل جم گئی تو نواب بگٹی نے کہا: تم میرے حالاتِ زندگی لکھو، میرے سینے میں بہت سے راز ہیں، تم کو سب بتا دوںگا، تم میرے پاس ڈیرہ بگٹی آجائو، دو ماہ رہو، تم جو کچھ پوچھو گے بتا دوںگا۔ ان سے ایک بلوچ صحافی کا نام لیا کہ اس کو اپنی داستان سنائیں، وہ کتاب لکھ دے گا۔ نواب نے کہا: نہیں تمہاری تحریر بہت اچھی ہے، تم لکھو۔ اور مجھے اس کا ملال رہے گاکہ نواب بگٹی بہت سے سربستہ راز اپنے سینے میں لیے اس دنیا سے چلے گئے۔ ایک دل چسپ باب جس کو کتاب کی زینت بننا تھا، ادھورا رہ گیا۔ مجھے خود بڑا ملال ہوتا ہے جب ماضی پر نگاہ ڈالتاہوں کہ انسان کے اختیار میں کچھ نہیں ہے، یہ شاید قدرت کا اپنا نظام ہے جو انسان کی گرفت سے آزاد ہے۔

ہم باقی بلوچ کی داستانِ حیات کے بعض دل کش اور تاریخی لمحوں کا ذکر کرتے ہیں جو دل چسپ بھی ہیں اور دل نشین بھی۔ باقیؔ سے تھوڑے بہت تعلقات تھے اس لیے لکھنے میں آسانی ہورہی ہے۔

ایک ایسا ہی دل چسپ باب اور ہے جسے سپردِ قلم کررہا ہوں۔ میں مولانا عبدالحق بلوچ سے ملا جب وہ کوئٹہ آگئے، پھر امیر صوبہ بن گئے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں غیر جماعتی انتخابات میں انہوں نے مکران ڈویژن سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی دو نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ جب وہ کوئٹہ تشریف لائے تو ان سے گزارش کی کہ آپ قومی اسمبلی کی نشست چھوڑ دیں اور صوبائی سیٹ رکھیں، آپ جس قومی اسمبلی میں جارہے ہیں وہاں آپ گم نام رہیں گے، وہاں بڑے بڑے تجربہ کار سیاست دان موجود ہیں، اُن کے سامنے آپ اپنا کردار صحیح ادا نہیں کرسکیں گے۔ لیکن انہوں نے میرے مؤقف کو نظرانداز کردیا۔ وہ جتنا عرصہ قومی اسمبلی میں رہے، وہ مقام حاصل نہیں کرسکے جو باقیؔ کو حاصل ہوا تھا۔ ان کی قومی اسمبلی کی تقاریر میرے سامنے ہیں جو بہت زیادہ متاثر کن نہیں ہیں۔ لیکن جب ہم باقی بلوچ اور مولانا کا موازنہ کرتے ہیں تو ایک سیاست دان کی حیثیت سے باقی بلوچ زیادہ متاثر کن رہے۔ انہوں نے بہترین تقریریں کیں اور عوام کو بھی وہ بہت متوجہ کرنے والی شخصیت تھے۔ مولانا نے ایک ملاقات میں بتایا کہ جنرل قادر بلوچ نے جو اُس وقت گورنر تھے، کچھ لوگوں کو دعوت پر بلایا جن میں ڈاکٹر مالک بلوچ بھی شامل تھے، جنرل صاحب کہنے لگے: جناب گوادر کی آبادی کو 2005ء تک 5 لاکھ تک بڑھایا جائے گا۔ ہم نے کہا: جناب اِس وقت گوادر کی جو آبادی ہے اُس کا کیا بنے گا؟ دوسری بات انہوں نے کہی کہ کوئی 33 میل دور جا کر وہاں گوادر والوں کو بٹھایا جائے گا۔ تو ہم نے کہا یہ اسی سمندر کی امید سے یہاں بیٹھے ہیں، ان کو وہاں لے جائو گے تو کیا سمندر کو بھی اُدھر لے جائو گے؟

تیسری بات جو انہوں نے کہی وہ یہ کہ ترقی ہوگی۔ میں (مولانا عبدالحق) نے کہا کہ دو اچھی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، جن میں ایک کراچی کی ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ کراچی میں مہاجرین یا کسی کو آباد نہیں ہونے دیا جاتا، لیکن وسائل کی تقسیم میں عدم تناسب نے وہ کیفیت پیدا کر دی ہے کہ جو آج بنیادی طور پر اس کے مقامی باشندے تھے بلوچ یا کچھی میمن و سندھی ٹائپ کے لوگ، ان کے علاقوں لیاری اورچاکیواڑہ میں پسماندگی ہے، اور ساری ترقی جو ہے دوسری طرف چلی گئی ہے۔ یہ وسائل کی تقسیم میں عدم توازن اور عدم تناسب کا نتیجہ ہے۔ لیکن جب انہوں نے بلوچ نوجوانوں اور دانشوروں سے خطاب کیا توحیرت انگیز طور پر بہت متاثر کیا، بلکہ ان کی بعض تقریریں تو انہیں جیل میں لے جا سکتی تھیں اور ان کی زندگی کا چراغ بھی بجھا سکتی تھیں۔ لیکن قدرت کا قانون انسان کی سوچ سے بہت اونچا ہے۔ جماعت کے ارکان نے ان کے مطالبات اور انٹرویو کو نہ پڑھا ہے اور نہ غور کیا ہے ورنہ ان کی رکنیت ختم ہو سکتی تھی۔ جو کچھ انہوں نے انٹرویو میں کہا ہے یا تقریریں کی ہیں وہ لازوال اور تاریخی ہیں جن میں بلوچوں کی حقیقی ترجمانی ہے۔
(جاری ہے)