نیند کیوں رات بھر نہیں آتی؟

پُرسکون اور راحت بخش نیند کا اِس بات سے بنیادی تعلق ہے کہ انسان سونے اور جاگنے کے معمول کو باقاعدگی سے ریگیولیٹ کرے، اچھے ماحول میں سوئے اور متعلقہ اوقات کا پابند رہے

پُرسکون نیند کس ذہن کا ارادہ اور کس دل کی تمنا نہیں؟ دنیا کا ہر انسان زیادہ سے زیادہ پُرسکون نیند کا خواہش مند ہے۔ اگر کسی کو پُرسکون اور بے خلل نیند آتی ہے تو اُس سے زیادہ خوش نصیب کوئی نہیں۔ بے خلل نیند انسان کو فرحت و راحت کے عجیب احساس سے ہم کنار کرتی ہے۔ مگر صاحب! پُرسکون نیند سب کے نصیب میں کہاں؟ بھری دنیا میں کم ہی لوگ ہیں جو ہر اعتبار سے پُرسکون اور بھرپور نیند لے پاتے ہیں۔

بے خلل نیند کے لوازم :
معیاری، پُرسکون اور بے خلل نیند کسی بھی انسان کو مل سکتی ہے مگر اُس کے لیے چند شرائط کا پورا کیا جانا لازم ہے۔ اچھی نیند وہاں آتی ہے جہاں ماحول بہت اچھا ہو۔ نیند کے لیے زہرِ قاتل ہے شور شرابہ۔ جب ماحول میں بہت شور ہو تو انسان ڈھنگ سے سو نہیں پاتا۔

ذہن الجھا ہوا نہیں ہونا چاہیے:
ایسا کوئی بھی انسان کبھی گہری اور پُرسکون نیند کے مزے نہیں لے سکتا جس کا ذہن بُری طرح الجھا ہوا ہو۔ ذہن کی الجھن مختلف معاملات کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے، تاہم اِس پر قابو پانے کا ہنر آنا چاہیے۔ یہ ہنر وہی لوگ سیکھ پاتے ہیں جو سیکھنے پر یقین رکھتے ہیں۔ نیند انسان کی انتہائی بنیادی ضرورت ہے۔ اِسے کسی بھی حال میں داؤ پر نہیں لگایا جاسکتا اور ذہنی الجھن کے رحم و کرم پر تو اِسے کسی بھی صورت نہیں چھوڑا جاسکتا۔

ذہن کو پُرسکون رکھنے کا ہنر سیکھنے پر انسان پُرسکون نیند کی طرف بڑھ پاتا ہے۔ بہت سی ذہنی الجھنیں پُرسکون نیند کی بدولت ایک طرف ہٹ جاتی ہیں۔ یہ دو طرفہ معاملہ ہے، یعنی ذہن الجھنوں سے پاک ہوگا تو اچھی نیند آئے گی، اور اچھی نیند ذہن کو الجھنوں کو دور رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔

ہوا کی آمد و رفت:
اِس نکتے یا بنیادی ضرورت پر کم ہی لوگ دھیان دیتے ہیں کہ پُرسکون نیند کے لیے لازم ہے کہ جہاں انسان سویا ہوا ہو وہاں ہوا کی آمد و رفت متوازن بنائے رکھنے کا معقول انتظام ہونا چاہیے۔

پُرسکون اور فرحت بخش نیند کے لیے تازہ ہوا لازم ہے۔ جہاں انسان سویا ہوا ہو وہاں دونوں طرف کھڑکیاں ہونی چاہئیں، یعنی ایک کھڑکی سے ہوا داخل ہو اور دوسری سے نکل جائے۔ ایسی حالت میں کمرا ٹھنڈا بھی رہتا ہے اور اُس میں حبس بھی نہیں ہوتا۔

ایک زمانے سے ماہرین پُرسکون نیند کے حوالے سے تحقیق میں مصروف ہیں اور آئے دن نئی تحقیق کے نتائج سامنے آتے رہتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ معیاری نیند کا ہماری جسمانی اور ذہنی صحت سے بنیادی اور گہرا تعلق ہے۔ جن لوگوں کو پُرسکون اور بے خلل نیند کے مزے لُوٹنے کا موقع ملتا ہے اُنہیں ذہنی انتشار لُوٹ نہیں سکتا۔ ایسے لوگ جب بیدار ہوتے ہیں تب بالکل ہشاش بشاش ہوتے ہیں اور اپنے معمولات عمدگی سے پایۂ تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔ جامع نیند انسان کو ڈھنگ سے سوچنے اور سمجھنے کے قابل بناتی ہے۔ اگر کسی کی آنکھ بار بار کھل جائے تو جامع اور پُرسکون نیند نہیں مل پاتی، اور یوں انسان بیدار ہونے پر خود کو تھکا ہوا محسوس کرتا ہے۔ تھکن کا یہ احساس دن بھر انسان کو گھیرے رہتا ہے، اور یوں وہ اپنے کسی بھی کام میں سکون محسوس نہیں کرتا۔

آج دنیا بھر میں ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ انسان بھرپور نیند کیسے لے؟ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ انتہائی آرام دہ کمروں میں بھی سکون سے سو نہیں پاتے۔ دُنیا بھر کے تفکرات اُن کے ذہن کو گھیرے رہتے ہیں۔ وہ چاہ کر بھی پُرسکون نیند کے مزے نہیں لے پاتے۔ ایسا بالعموم اُسی وقت ہوتا ہے جب ایجنڈے ادھورے رہ گئے ہوں۔ ایجنڈے یعنی کام۔ جب کوئی کام پورا نہ ہوا ہو یا ڈھنگ سے پورا نہ ہو پایا ہو تو ذہن الجھا رہتا ہے۔ ایسی حالت میں اچھی نیند بھی نہیں آپاتی۔ اس صورتِ حال میں کسی مستند ماہرِ نفسیات سے مشاورت کرنے میں کچھ حرج نہیں۔

بہت سے معاملات جب ذہن کو گھیرے رہتے ہیں تب انسان ڈھنگ سے سو نہیں پاتا۔ ماہرینِ نفسیات بتاتے ہیں کہ ذہن کو کچرے سے پاک کیونکر کیا جائے۔ بہت سے خیالات بے جا طور پر ذہن میں جگہ گھیرے رہتے ہیں۔ بہت سے معاملات کسی بھی کام کے نہ ہونے کے باوجود ہماری نفسی ساخت کا حصہ بنے رہتے ہیں۔ ماہرینِ نفسیات کی مشاورت سے ایسے تمام معاملات سے نپٹ کر ذہن کو آزادی دلائی جاسکتی ہے۔

یومیہ کتنی نیند لازم ہے؟:
ماہرین میں نیند کے دورانیے کے حوالے سے نمایاں اختلافِ رائے پایا جاتا ہے۔ کوئی کہتا ہے یومیہ آٹھ گھنٹے یا اُس سے بھی زیادہ نیند لازم ہے۔ کسی کی نظر میں سات گھنٹے کی نیند کافی ہے۔ کوئی سمجھتا ہے کہ یومیہ 6 گھنٹے کی نیند کافی ہے۔ ماہرین کے اختلافِ رائے کے باعث یہ طے کرنا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے کہ کسی بھی انسان کو بہتر دماغی و ذہنی صحت کے لیے یومیہ کتنے گھنٹے سونا چاہیے۔

نیند کے دورانیے کے حوالے سے ذاتی تجربے کی روشنی میں دی جانے والی آرا اور مشورے بھی دستیاب ہیں۔بہت سی معروف شخصیات کا کہنا ہے کہ کسی بھی انسان کے لیے کتنی نیند کافی ہے اِس کا مدار بہت حد تک اس بات پر بھی ہے کہ وہ کتنی نیند لینا چاہتا ہے۔

جی ہاں، نیند اگرچہ فطری ضرورت ہے، تاہم اِس کا دورانیہ طے کرنے میں متعلقہ فرد کا بھی کردار رکھا گیا ہے۔ ہمارا جسم ہماری اپنی ترجیحات کے مطابق ایڈجسٹمنٹ کرتا رہتا ہے۔ ہم جو کچھ کھاتے پیتے ہیں، وہ رفتہ رفتہ ہمارے جسم کو راس آتا جاتا ہے اور پھر وہ اُن چیزوں کا عادی ہوکر رہ جاتا ہے۔ ہم جتنی ورزش کرتے ہیں ہمارا جسم اُسی کا عادی ہوجاتا ہے۔ بالکل اِسی طور ہم جتنا سونا چاہیں، سو سکتے ہیں۔ ہمارا طے کیا ہوا دورانیہ جسم کو راس آتا چلا جاتا ہے۔ اگر کوئی روزانہ 10 گھنٹے سوئے تو جسم 10 گھنٹے کی نیند مانگتا ہے۔ اگر کوئی 5 یا 6 گھنٹے سوئے تو جسم اُس کے مطابق ایڈجسٹمنٹ کرلیتا ہے۔ بہت سوں کی نیند 5 گھنٹے میں پوری ہوجاتی ہے کیونکہ اُنہوں نے اپنے جسم کی گھڑی کو اُس کے مطابق سیٹ کیا ہوتا ہے۔ ہمارا جسم ہماری ترجیحات کے مطابق خود کو بدلتا رہتا ہے۔ کھانے پینے کی عادات کی طرح سونے اور جاگنے کی عادات کو بھی تابعِ فرمان بنایا جاسکتا ہے۔ انسان اپنے جسم کو ماحول کے مطابق ڈھال سکتا ہے، ایڈجسٹ کرسکتا ہے۔

نیند کے اوقات کا تعین:
کیا کسی بھی وقت سو جانا چاہیے اور کسی بھی وقت اٹھ جانا چاہیے؟ کیا نیند کا کوئی وقت مقرر نہ کرنا درست طریقہ ہے؟ کیا ایسا کرنے سے پُرسکون نیند نصیب ہو پاتی ہے؟ ماہرین کہتے ہیں کہ ہر کام کی طرح سونے کا وقت بھی طے کرنا لازم ہے۔ بہت کم لوگ اس بات کو محسوس کر پاتے ہیں کہ پُرسکون نیند کا تعلق اِس بات سے بھی ہے کہ کوئی شخص اپنے لیے نیند کے اوقات مقرر کرے اور اُن پر عمل کرے۔ اگر روزانہ ایک خاص وقت پر سونے کی عادت ڈالی جائے تو نیند اچھی آتی ہے۔ سونے کے اوقات تواترسے تبدیل کرتے رہنے کی صورت میں انسان ڈھنگ سے سو نہیں پاتا، اور 8، 10 گھنٹے سونے پر بھی جاگنے کے بعد تھکن ہی محسوس کرتا ہے۔

نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اگر کوئی شخص سونے کے اوقات مقرر کرکے اُن پر عمل کرے یعنی اپنے مقررہ وقت پر سو جایا کرے تو کم وقت میں بھی پُرسکون اور فرحت بخش نیند کے مزے لے سکتا ہے۔
ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ انسان کو روزانہ 7، 8 گھنٹے سونا چاہیے لیکن اگرماحول بالکل پُرسکون ہو اور انسان سونے اور جاگنے کے نظام الاوقات مقرر کرلے تو 6 گھنٹے کی نیند بھی کافی ثابت ہوسکتی ہے۔ بے وقت سونے کی صورت میں جسم کو مطلوب سکون اور آرام نہیں مل پاتا۔ ایسی حالت میں انسان جاگنے کے بعد بھی غنودگی اور جسمانی تھکن کی حالت میں رہتا ہے اور اپنے معمولات میں الجھن ہی محسوس کرتا رہتا ہے۔
پاکستان میں نیند کے معاملات الجھے ہوئے ہیں۔ آرام دہ کمروں میں سونے والوں کے ذہن بھی تفکرات بھی گِھرے رہنے کے باعث ڈھنگ کی نیند نہیں لے پاتے۔ مالی مشکلات سے دوچار افراد غربت کے باعث غیر معیاری رہائش اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں اُن کے لیے پُرسکون نیند محض خواب ہوکر رہ جاتی ہے۔ نیند کا ہمارے معمولات اور کارکردگی سے گہرا تعلق ہے۔ دوسرے بہت سے معاملات کی طرح پرسکون نیند یقینی بنانے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ رات دیر تک جاگنے والے اچھی طرح سو نہیں پاتے۔ ایسے لوگ ڈیوٹی کے دوران جھونکے مارتے رہتے ہیں۔ نیند ایسا معاملہ ہے جسے لاپروائی کی نذر نہیں کیا جاسکتا۔