ہرچند کہ ہم عسکری اور سلیم احمد کے ’’مقلد‘‘ ہیں، لیکن اس کے باوجود ہمیں تخلیقی اور علمی پہلوان لڑانے کا کوئی شوق نہیں۔ شوق کی بات سے کوئی غلط فہمی نہ ہو، اس لیے وضاحتاً عرض ہے کہ یہ انتخاب کا نہیں مجبوری کا مسئلہ ہے۔ تخلیقی اور علمی پہلوان لڑانے کے لیے علم، بصیرت اور ذوق کی ضرورت ہوتی ہے اور اتفاق سے یہ تینوں چیزیں ہمارے پاس نہیں۔ پھر پہلوان لڑانے کے لیے اکھاڑے کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ عسکری اور سلیم احمد کا اکھاڑہ ان کی تنقید تھی۔ حُسنِ اتفاق یا سوئے اتفاق سے یہ اکھاڑہ بھی ہمیں میسر نہیں۔ سلیم احمد نے ’’نئی نظم اور پورا آدمی‘‘ میں ن، م راشد اور میراجی کو تمام رومانیوں کے خلاف لاکھڑا کیا اور اختر شیرانی سے فیض تک سب کو چت کردیا۔ ’’غالب کون‘‘ میں انہوں نے میر اور غالب کو لڑایا اور ثابت کیا کہ میر، غالب سے بڑا شاعر ہے۔ رہے عسکری صاحب، تو اُن پہلوانوں کی تعداد شمار کرنا بھی ایک مشکل کام ہے جن کو عسکری صاحب نے باہم زور آزمائی پر مائل کیا۔ البتہ انہوں نے آخری مقابلہ مشرق و مغرب کے درمیان کرایا اور مغرب کی بھد اُڑا کر رکھ دی۔ بعض لوگوں کو عسکری صاحب کی یہ جرأت پسند نہیں آئی، چناں چہ وہ آج تک اس حوالے سے معقول اور نامعقول سوالات اُٹھائے جارہے ہیں۔ ان مثالوں سے صاف ظاہر ہے کہ یہ کام کتنا دشوار ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ منہ کا ذائقہ بدلنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ چناں چہ ہم نے سوچا کہ چلو آج پی ڈی اوسپنسکی اور اپنے میر تقی میرؔ کو بھڑادیں اور دیکھیں کہ کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔
گرجیف اور اس کا شاگرد پی ڈی اوسپنسکی مغربی دُنیا کے ایک مخصوص اور محدود حلقے میں بڑے بڑے ’’علمی انکشافات‘‘ کی علامت بن کر اُبھرے تھے۔ گرجیف اپنے ظہور سے اپنے انتقال تک ایک پراسرار شخصیت تصور کیا جاتا رہا۔ وہ تمام ادیان کا ماہر تصور کیا جاتا تھا اور اُس کے اپنے اعتراف کے مطابق اُس نے حقیقی علم کے ہر چشمے سے فیض اُٹھایا۔ گرجیف زبانی روایت کا آدمی تھا۔ البتہ اُس کے شاگرد اوسپنسکی نے تحریر کی راہ اختیار کی اور اس سلسلے میں اس کے کمال کا یہ عالم تھا کہ گرجیف نے ایک جگہ کہا ہے کہ اسے اوسپنسکی کی تحریر اور بیان کی صلاحیت پر رشک آتا ہے۔
اوسپنسکی کی پہلی کتاب Tertium Organum تھی جو پہلی بار روسی زبان میں غالباً 1910ء کے آس پاس شائع ہوئی تھی۔ اس کے انگریزی ترجمے کا دوسرا ایڈیشن 1922ء میں لندن سے شائع ہوا۔ کتاب کے مترجمین میں سے ایک نے دوسرے ایڈیشن کے لیے ایک تعارف بھی لکھا۔ تعارف میں کتاب کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے اس کا لبِ لباب یہ ہے کہ آئندہ کے لیے یہی کتاب انسانی فکر کی رہنمائی کرے گی۔ مترجم نے کتاب کے بارے میں کئی اور دعوے بھی کیے ہیں جن میں ہمارے آج کے موضوع کے اعتبار سے اہم ترین دعویٰ یہ ہے کہ اوسپنسکی نے ’’محبت‘‘ کے موضوع پر لکھتے ہوئے قلم توڑ دیا ہے۔ مترجم نے کہا ہے کہ اب تک آپ محبت کے بارے میں شوپن ہار اور فرائڈ کے گرد آلود خیالات پڑھتے رہے ہیں اور آپ نے گوئٹے کا ’’ورتھر‘‘ بھی ملاحظہ کیا ہے۔ اب ذرا آپ اوسپنسکی کے خیالات پڑھیے اور دیکھیے کہ اُس نے اس تصور کو کہاں سے کہاں پہنچادیا ہے، اور اس بارے میں کیسی کیسی انکشاف انگیز باتیں کہی ہیں۔
چوں کہ مترجم نے بڑے خلوص سے، جس میں علمی خلوص بھی شامل ہے، اوسپنسکی کے خیالات کو انکشاف انگیز کہا ہے، اس لیے ہم بھی انہیں انکشاف انگیز تسلیم کیے لیتے ہیں۔ مگر یہ باتیں ہیں کیا؟ اوسپنسکی نے محبت کے بارے میں ایک الگ باب قائم کیا ہے اور اس کے لیے 9 صفحات صرف کیے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہاں تمام صفحات کا ترجمہ تو پیش نہیں کیا جاسکتا، البتہ اوسپنسکی کی محبت کے بارے میں اہم باتوں میں سے اہم ترین نکات یہ ہیں:
محبت اور موت ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔ جہاں تک محبت کا تعلق ہے تو فی زمانہ آرٹ تک نے خود کو محبت کے بیان اور اس کے نفسیاتی تجزیے تک محدود کرلیا ہے، حالاں کہ محبت ایک کائناتی یا کائنات گیر مظہر ہے جس کے دائرے میں انسان، یہاں تک کہ انسانیت کی حیثیت بھی محض ایک حادثے کی سی ہے۔ انسان محبت کو اپنا ماتحت بنانے کی کوشش کرتا ہے، لیکن وہ ایسا نہیں کرسکتا۔ محبت کو کوئی چیز اپنا ماتحت اور آلہ کار نہیں بناسکتی۔ البتہ انسان محبت کا آلہ کار بن کر اپنا کائناتی فریضہ انجام دیتا ہے۔ محبت کا مقصد زندگی کا تسلسل ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ کوئی چیز بھی ختم یا ضائع نہیں ہوتی۔ اگر توانائی کا وجود ہے تو وہ یقیناً خود کو کسی اور شکل میں ڈھال لے گی۔ اگر توانائی اِدھر اُدھر صرف ہوتی ہے تو مستقبل کی تشکیل میں بھی صرف ہوگی۔ اس بات کا محبت کے معاملے سے گہرا تعلق ہے۔ موم بتی روشنی دیتی ہے، لیکن روشنی سے زیادہ اس سے گرماہٹ فراہم ہوتی ہے۔ بظاہر موم بتی کی گرماہٹ ضائع ہوجاتی ہے، لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہوتا۔ محبت کا معاملہ بھی یہی ہے۔ محبت مختلف جہات میں تخلیقی سرگرمیوں کی بِنا ہے۔ محبت میں انا پرستی، خودپسندی، دکھاوے اور خودغرضی کے عناصر بھی پوشیدہ ہوتے ہیں لیکن محبت ہر نقاب کے چیتھڑے اُڑا دیتی ہے۔ محبت ایک ایسی آتش ہے جس میں انسانیت اور انسانوں کی عبقریت ارتقا پاتی اور ارتفاع حاصل کرتی ہے۔
اب ایک جملہ انگریزی میں بھی ملاحظہ کرلیجیے۔
In love the most important element is that which absolutely does not exist from the usual worldly, materialistic point of view.
”یہ ایک معروف نفسیاتی حقیقت ہے کہ شدید خوشی اور غم کی کیفیت میں ہر دوسری شے ’’غیر حقیقی‘‘ محسوس ہوتی ہے۔ یہ شعور کی بیداری کا لمحہ ہوتا ہے۔ محبت سب سے طاقت ور جذبہ ہے اور اگر انسان کے اندر داخلی جذبات شدید اور گہرے ہوں تو شعور کی بیداری ایک مستقل حقیقت بن سکتی ہے۔“
یہ اوسپنسکی کے مربوط جملوں کا ترجمہ نہیں ہے بلکہ ہم نے اُس کی بات کے مفہوم کو سمیٹنے کے لیے اُس کے بکھرے ہوئے مافی الضمیر کو آپ کے سامنے پیش کیا ہے۔ اوسپنسکی نے کئی اور باتیں بھی کہی ہیں لیکن ہم نے اُس کے جو خیالات آپ کے سامنے پیش کیے ہیں ان سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ محبت کے بارے میں اُس کے تصورات کی ’’عظمت‘‘ کا حال کیا ہے۔
آپ کہیں گے کہ اوسپنسکی تو اکھاڑے میں آگیا اور اُس نے اپنی عظمت کا اظہار کردیا۔ مگر یہ میر صاحب کہاں ہیں؟ آئیے، انہیں تلاش کریں اور کسی دیوار کے سائے سے انہیں اُٹھاکر لائیں اور کہیں کہ کسی آرام طلب کو محبت سے کیا کام؟ لیجیے میر صاحب مل گئے۔ مگر معاف کیجیے گا! اس وقت اُن کے پاس کہنے کے لیے صرف ایک شعر یعنی دو مصرعے ہیں۔ یہ بڑی پریشان کن بات ہے۔ میر صاحب ایک شعر سے اوسپنسکی کے 9 صفحات کا مقابلہ کیسے کریں گے؟ یہ لیجیے میر صاحب نے اپنی متاع نکال لی ہے اور انہوں نے فرمایا ہے:
محبت نے کاڑھا ہے ظلمت سے نور
نہ ہوتی محبت، نہ ہوتا ظہور
معلوم نہیں اس مقابلے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ لیکن ہمارا خیال تو یہ ہے کہ اوسپنسکی ایک مہذب انسان کی طرح معذرت کرکے اکھاڑے سے باہر نکل گیا ہے اور بلند آہنگ لہجے میں کہہ رہا ہے:
اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
مگر ٹھیریے! یہ ٹھیک ہے کہ میر صاحب کے دو مصرعے اوسپنسکی کے 9 صفحات کو سمیٹتے ہوئے ان سے بہت آگے نکل جاتے ہیں، لیکن بات یہ ہے کہ گھر کی مرغی دال برابر ہوتی ہے۔