جس دن ٹینکر مافیا کا خاتمہ ہوجائے گا شہر سےپانی کا مسئلہ ختم ہو جائے گا
کراچی میں پانی کا بحران برسوں کے خودساختہ مافیا کا پیدا کردہ مسئلہ ہے جس کا اثر شہر کے لاکھوں مکینوں کی روزمرہ زندگی پر پڑ رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں پانی کی فراہمی میں شدید کمی آئی ہے، جس کی وجہ سے شہری شدید مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔ کراچی میں پانی کی فراہمی میں اس کمی کے کئی عوامل ہیں۔
3 دسمبر سے 15 دسمبر تک شہر کو 2 ارب 50 کروڑ گیلن سے زائد پانی فراہم نہیں ہوسکا۔ اس دوران بیشتر علاقوں میں پانی کی فراہمی 12 دن بند رہی، اور شہر کے بڑے حصے کو پانی کی فراہمی متاثر رہی۔ شہری پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں اور مہنگے داموں ٹینکر خرید کر اپنی ضروریات پوری کررہے ہیں۔
اس بحران کی جڑیں یونیورسٹی روڈ پر ریڈلائن کی تعمیرات سے جڑی ہوئی ہیں، جہاں دو مقامات سے شہر کو پانی فراہم کرنے والی 84 انچ کی ڈایا کی لائن پھاڑ دی گئی تھی۔ واٹر کارپوریشن نے 3 دسمبر سے مرمتی کام شروع کیا تھا، جو 8 دن میں مکمل ہوگیا، تاہم ایک مقام سے دوبارہ رساؤ شروع ہوگیا۔ مرمتی کام کا یہ سلسلہ پیر سے دوبارہ شروع ہوا، اور مزید چار دن تک شہر کے مختلف علاقوں میں پانی کی فراہمی متاثر رہی۔
ایم ڈی واٹر کارپوریشن کا اس صورت حال پر کہنا ہےکہ ریڈلائن کی تعمیرات کے دوران پانی کی مرکزی لائن کو بری طرح متاثر کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے شہر میں پانی کی کمی کا سامنا ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام ضروری معلومات اور نقشے ٹرانس کراچی کو فراہم کیے گئے تھے، تاہم اس کے باوجود یہ لائن متاثر ہوئی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مرمتی کام عارضی نہیں بلکہ مستقل بنیادوں پر کیا جارہا ہے تاکہ مستقبل میں ایسی مشکلات کا سامنا نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تو ایک وقتی مسئلہ پیش آیا ہے یا بنایا گیا ہے، لیکن شہر کے پچاس فیصد لوگوں کو پہلے ہی پانی کی فراہمی نہیں ہورہی ہے اور ٹینکر مافیا کا کاروبار عروج پر ہے، انہوں نے پورے شہر کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ ابھی حال ہی میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے برطانوی ہائی کمشنر جین میرٹ کی ملاقات ہوئی۔ کراچی میں پانی کی فراہمی کے مسئلے پر وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ کراچی کی 50 فیصد آبادی کو پینے کے پانی کی قلت کا سامنا ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے حکومت K-4 واٹر سپلائی پروجیکٹ اور نئے حب کینال کی تعمیر پر کام کررہی ہے۔
کراچی میں اگر کہیں پانی مل بھی رہا ہے تو وہ مضر صحت ہے جس کی ایک مثال حال کی ہے جسے دیگ کے چاول کا ایک دانہ سمجھ لیا جائے، باقی دیگ بھی ایسی ہی ہے۔ ایک بین الاقوامی جریدے میں شائع ہونے والی کراچی یونیورسٹی کی تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ کراچی کے علاقے لیاقت آباد ٹاؤن میں فراہم کیے جانے والے پانی میں انتہائی آلودہ دھاتوں کے ذرات اور فضلہ کی آلودگی پائی گئی ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق انٹرنیشنل جرنل آف انوائرنمنٹل کوالٹی میں ”لیاقت آباد ٹاؤن کو فراہم کیے جانے والے پانی کے معیار کا جائزہ واٹر کوالٹی انڈیکس اور جغرافیائی تجزیے کے ذریعے“ کے عنوان سے یہ تحقیق شائع ہوئی ہے۔
کراچی کی آبی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دو اہم ذرائع ہیں: دریائے سندھ اور حب ڈیم۔ دریائے سندھ سے شہر کو یومیہ 646 ملین گیلن پانی فراہم کیا جاتا ہے، لیکن اس کی محدود صلاحیت کی وجہ سے صرف 90 فیصد پانی کینجھر جھیل میں ذخیرہ ہوپاتا ہے، یعنی 580 ملین گیلن یومیہ۔ تاہم اس میں سے 5 فیصد پانی پورٹ قاسم اور اسٹیل مل کو فراہم کردیا جاتا ہے، جبکہ چوری اور رساؤ کی وجہ سے 35 فیصد پانی ضائع ہوجاتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کراچی کو دریائے سندھ سے صرف 358 ملین گیلن یومیہ پانی ملتا ہے۔
دوسرا اہم آبی ذریعہ حب ڈیم ہے، جہاں سے کراچی کو یومیہ 100 ملین گیلن پانی ملتا ہے۔ مجموعی طور پر شہر کو اس وقت روزانہ 458 ملین گیلن پانی فراہم کیا جارہا ہے، جو شہر کی کُل ضروریات کا صرف 41 فیصد بنتا ہے، جبکہ 59 فیصد پانی کی کمی باقی رہ جاتی ہے، یعنی یومیہ 642 ملین گیلن پانی کی کمی ہے۔ یہ صورتِ حال اس بات کی غماز ہے کہ کراچی میں پانی کی کمی نہ صرف ایک وقتی مسئلہ ہے بلکہ یہ ایک دیرینہ اور پیچیدہ بحران بھی ہے۔ شہر کے لاکھوں مکینوں کو روزانہ کی بنیاد پر پانی کی قلت کا سامنا ہے۔ اکثر شہری مہنگے داموں ٹینکر خرید کر اپنی ضروریات پوری کرنے پر مجبور ہیں۔ شہر کے مختلف علاقوں میں پانی کی فراہمی متاثر ہونے سے شہریوں میں بے چینی اور پریشانی کا ماحول ہے۔
اس مسئلے پر جماعت اسلامی کراچی سراپا احتجاج ہے۔ واٹر کارپوریشن کی بدترین کارکردگی، نااہلی اور شہر میں پانی کے بحران کے خلاف نیپا ہائیڈرنٹ پر احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے ہیں جس میں امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان سمیت مقررین کا کہنا تھا کہ کراچی کے شہریوں کو پانی ٹینکروں کے ذریعے نہیں، نلکوں کے ذریعے فراہم کیا جائے، پانی کی لائنوں کی ٹوٹ پھوٹ کی ذمہ داری براہِ راست واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن پر عائد ہوتی ہے، آئے روز پانی کی لائن کی خرابی کے باعث پانی بند کردیا جاتا ہے، عوام مسائل کے حل کے لیے اپنے گھروں سے باہر نکلیں اور جماعت اسلامی کی ”حق دو کراچی“ تحریک کا حصہ بنیں، فارم 47 کی پیداوار حکومت کو عوامی مسائل سے کوئی سروکار نہیں۔ گزشتہ 19برس سے حکومتوں میں شامل جماعتوں کی نااہلی کی وجہ سے آج تک K-4 منصوبہ مکمل نہیں ہوسکا، مسلم لیگ ن کو کراچی سے کوئی غرض نہیں ہے، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم آپس میں نورا کشتی کرتے ہیں اور شہریوں کو بجلی و پانی سے محروم رکھتے ہیں۔ ملیر کینٹ سے جیل چورنگی تک ریڈلائن منصوبے نے عوام کی زندگی کو مشکل بنادیا ہے۔ پیپلز پارٹی گزشتہ 16 سال سے اندرون سندھ سمیت کراچی کے عوام کے ساتھ استحصال کررہی ہے۔ جماعت اسلامی کے سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان نے K-3 منصوبہ مکمل کرنے کے بعد K-4 منصوبہ پیش کیا اور اس کے لیے بجٹ بھی منظور کروالیا۔اس کے بعد مصطفیٰ کمال آئے اور اپنے ”کمالات“ دکھا کر شہر سے اربوں روپے لوٹ کر فرار ہوگئے لیکن K-4 منصوبہ مکمل نہیں کیا۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ فوری طور پرK-4 منصوبہ مکمل کیا جائے،کراچی کا تباہ حال انفرااسٹرکچر بحال کیا جائے۔
مظاہرے کے شرکاء نے مختلف بینر اور پلے کارڈ اُٹھائے ہوئے تھے جن پر ”کراچی دشمنی بند کرو“، ”پانی دو، پانی دو“، ”ہمیں ٹینکروں میں نہیں نلکوں میں پانی دو“، ”97فیصد ٹیکس دینے والا شہر پانی سے محروم، ذمہ دار قابض میئر مرتضیٰ وہاب“، ”پانی دو، جینے دو“، ”ٹینکر مافیا کی حکومتی سرپرستی ختم کرو“، ”واٹر کارپوریشن کے چیئرمین مرتضیٰ وہاب استعفیٰ دو“ سمیت دیگر نعرے اور مطالبات درج تھے۔ مظاہرین نے قابض میئر اور واٹر بورڈ کی نااہلی پر زبردست نعرے لگائے: ”نامنظور نامنظور ٹینکر مافیا نامنظور“، ”پانی دو پانی دو کراچی کے عوام کو پانی دو“، ”گلی گلی میں شور ہے قابض میئر چور ہے“۔ مظاہرین کے مطابق 15 دن قبل پانی کی لائن ٹوٹنے کے باعث شہری پانی کی عدم فراہمی سے پریشان ہیں۔ پانی کی لائن درست کی گئی اور پانی کھولا گیا لیکن پھر سے پانی کی لائن میں مسئلہ آگیا۔ پھر دھابیجی پمپنگ اسٹیشن میں مینٹی نینس کے نام پر پانی کی لائن بند کردی گئی۔ شہر کراچی میں ہائیڈرنٹ مافیا اور ٹینکر مافیا کا راج ہے۔ جماعت اسلامی اہلِ کراچی کا مقدمہ لڑ رہی ہے۔ مظاہرین کا کہنا تھاکہ کراچی ایک جانب سب سے زیادہ ریونیودیتا ہے اور دوسری جانب سب سے زیادہ ایکسپورٹ شہر کراچی کرتا ہے، اس کے باوجود شہریوں کو پانی سے محروم کیا ہوا ہے اور ٹینکر مافیا کے ذریعے کروڑوں روپے کا پانی فروخت کیا جارہا ہے۔ ایم ڈی واٹر بورڈ کہتے ہیں کہ گزشتہ سال ٹینکروں کے ذریعے 1 ارب 62 کروڑ منافع کمایا۔ ایم ڈی واٹر بورڈ کے لیے شرم کا مقام ہے کہ شہریوں کو نلکوں میں پانی دینے کے بجائے ٹینکروں کے ذریعے مہنگے داموں فروخت کررہے ہیں۔
یہ بات بھی درست ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ میں 16 سال سے برسراقتدار ہے لیکن کراچی کو کچھ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ پانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے۔ دنیا کا وہ کون سا شہر ہے جہاں ٹینکروں سے تو پانی ملتا ہو لیکن نلکوں میں پانی نہ آتا ہو؟ کراچی کے شہریوں کا واضح مطالبہ ہے کہ ٹینکروں میں نہیں بلکہ نلکوں میں پانی چاہیے۔ نااہل حکمرانوں نے 19 برس میں کراچی کے لیے ایک بوند پانی کا اضافہ نہیں کیا۔ جس طرح کراچی کے دیگر منصوبوں کی کوئی ڈیڈلائن نہیں ہوتی اسی طرح K-4 منصوبے کی کوئی ڈیڈلائن نہیں ہے۔ K-4 منصوبے میں 650 ملین گیلن پانی تھا جسے 260 ملین گیلن کردیا گیا اور وہ بھی نہیں دیا جارہا۔
کراچی میں پانی کے بحران کے حل کے لیے بنیادی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ شہر کے آبی ذرائع کو بہتر بنانے، رساؤ کو روکنے، اور پانی چوری کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں۔ اس کے علاوہ حب ڈیم اور کینجھر جھیل میں پانی کے ذخائر کو مزید بڑھانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ضروری ہے۔ پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کی حکومت اور متعلقہ اداروں کو شہر کے پانی کے نظام کے لیے کچھ کرنا ہوگا اور اس سلسلے میں سب سے پہلا کام ٹینکر مافیا کا خاتمہ ہے، جس دن یہ مافیا ختم ہوجائے گی شہر کے پانی کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔