مہنگی تعلیم اور آئے روز فیسوں میں بے تحاشا اضافے کے خلاف اسلامی جمعیت طلبہ نے لاہور کے علاقہ بھیکے وال موڑ پر ’’حقوق طلبہ کنونشن‘‘ کا انعقاد کیا۔ یوں لاہور میں طویل عرصے کے بعد کسی طلبہ تنظیم کی جانب سے بڑی طلبہ سرگرمی نظر آئی جس میں ہزاروں طلبہ نے شرکت کی۔ حقوق طلبہ کنونشن میں امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان، ناظم اعلیٰ اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان حسن بلال ہاشمی سمیت طلبہ رہنمائوں نے شرکت کی اور حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ کنونشن میں پنجاب کے مختلف شہروں سے آئے ہوئے ہزاروں طلبہ و طالبات نے فیسوں میں اضافے کے خلاف شدید احتجاج کیا اور فلک شگاف نعرے لگائے، اس کے ساتھ ساتھ طلبہ رہنمائوں نے طلبہ یونین پر پابندی کو بلاجواز قرار دیتے ہوئے فوری طور پر عدالتِ عظمیٰ کے واضح احکامات کی روشنی میں پابندی کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔
حقوق طلبہ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں سرکاری اسکولوں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلانے کا فیصلہ واپس لیا جائے۔ جماعت اسلامی اس فیصلے کے خلاف بڑی تحریک چلائے گی۔ پنجاب میں ایک کروڑ سترہ لاکھ بچے ایسے ہیں جن کی عمریں اسکول جانے کی ہیں لیکن وہ اسکول نہیں جارہے۔ بجائے اس کے کہ نئے اسکول بنائے جائیں اور سرکار اپنی ذمہ داری نبھائے، سرکار نے 25 ہزار اسکول پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلانے کے لیے دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ پہلے مرحلے میں سرکار 13 ہزار اسکول دے رہی ہے۔ جماعت اسلامی حکومت کے اس عمل کی پُرزور مذمت کرتی ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ غریب اور متوسط طبقے کو سستی اور معیاری تعلیم دے۔ غریب حکومت سے بھیک نہیں مانگ رہا، یہ اُس کا حق ہے کہ اُس کے بچوں کو اسکول ملے جو سرکار کا بھی ہو اور معیاری بھی ہو۔ تعلیم معیاری ہونی چاہیے، یہ نہیں ہونا چاہیے کہ سرکاری اسکول کا مطلب تباہ تعلیم ہو، جہاں گندی بوسیدہ عمارتیں، ٹوٹا فرنیچر اور اساتذہ کی کمی ہو۔ تعلیم کی تجارت کسی بھی صورت میں قابلِ قبول نہیں ہے۔ ہماری چودہ سو سالہ تاریخ میں کبھی بھی تعلیم کو تجارت نہیں بنایا گیا، لیکن ان ظالم حکمرانوں نے آج تعلیم کو بھی تجارت بنادیا ہے۔ یہ جو 13 ہزار اسکولوں کا معاملہ ہے، میں حیران ہوں کہ کل ہائی کورٹ نے بھی پٹیشن کو سننے سے انکار کردیا ہے، ایک بار پھر ہم اس پٹیشن کو فائل کریں گے، جماعت اسلامی تعلیم جیسے حساس شعبے کو یوں نہیں چھوڑے گی۔ ہم اپنے بچوں اور نئی نسل کے مستقبل سے کھلواڑ نہیں ہونے دیں گے۔ ہم عدالتِ عالیہ سے کہنا چاہتے ہیں کہ آپ حکومت کے ایجنٹ کا کردار ادا نہ کریں۔ ہمیں معلوم ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم میں کن منسٹروں اور مولانائوں نے اسٹیبلشمنٹ کی چھتری تلے پناہ لی ہے اور سارا نظام چلایا ہے اور عدلیہ کو اپنے انگوٹھے کے نیچے لینے کی کوشش کی ہے۔ بدقسمتی سے یہ جج حکومت کی جانب دیکھتے ہیں۔ اگر حکومت کام نہیں کرے گی تو جماعت اسلامی عوامی عدالتیں لگائے گی۔ ہم نوجوانوں کی عدالتیں لگائیں گے، طلبہ کی عدالتیں لگائیں گے اور انہیں اپنا کام کرنے پر مجبور کریں گے۔
امیر جماعت اسلامی کا مزید کہنا تھا کہ ہم 13 ہزار اسکولوں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے حوالے کرنے کو قبول نہیں کرتے۔ سرکار کہتی ہے کہ ہم تو ان کو گرانٹ دیں گے اور نگرانی کریں گے۔ اگر یہ نگرانی کررہے ہوتے تو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے حوالے کیوں کرتے! آپ ان کی نگرانی نہیں کررہے بلکہ ظالموں کے حوالے کررہے ہیں۔ یہ سب جھوٹی باتیں ہیں، حکومت اپنے سر سے تعلیم کو بلا سمجھ کر ہٹانا چاہتی ہے کیونکہ یہ تعلیم دشمن ہیں جو تعلیم کو عام کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ حافظ نعیم الرحمان کا مزید کہنا تھا کہ طلبہ یونین کو فی الفور بحال کیا جائے، یہ جمہوریت کی نرسری ہے، طلبہ یونین ختم کرنے سے اسمبلی میں مفاد پرستوں کی اکثریت ہوگئی ہے جو اپنے لیے فیصلہ کرتے ہیں۔ طلبہ یونین علم و دانش کی نرسری ہے، یہ سوچ اور شعور کو پروان چڑھانے کا ذریعہ ہے۔ حکمران چاہتے ہیں کہ ہماری آنکھوں پر پردے ڈال دیں، کان بند کردیں تاکہ ہم دیکھنے اور سننے کے قابل نہ رہ سکیں۔ حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا کہ جب ماضی میں طلبہ یونین کے انتخابات ہوتے تھے تو غریب اور متوسط طبقے کے طلبہ کے لیے تعلیم کے دروازے بند نہیں ہوتے تھے، اس لیے کہ ایک منتخب پلیٹ فارم ہوتا تھا جو طلبہ کی نمائندگی کرتا تھا، اور یونیورسٹی کی جو سینیٹ ہوتی تھی اُس میں یونین کی نمائندگی ہوتی تھی۔ اب تو فیصلے حکمران کرتے ہیں، وائس چانسلرز کی حالت دگرگوں ہوتی ہے، اگر وہ تعلیم کا بجٹ بڑھانے کی بات کرتے ہیں تو ان کو اٹھا کر پھینک دیا جاتا ہے، ان کی اپنی کوئی حیثیت تسلیم نہیں کی جاتی، لہٰذا وائس چانسلرز بھی اپنی نوکری پکی کرنے کے لیے جگہ جگہ حکمرانوں کی طرف دیکھتے ہیں اور انہی سے فریاد کرتے ہیں۔ سرکار کے حکم ناموں میں فیسوں میں اضافہ، ہاسٹل کی فیسوں میں اضافہ، سمسٹر فیس میں اضافہ آئے روز نظر آتا ہے۔ غریب بچے کے والدین پر بوجھ دن بدن بڑھ رہا ہے۔ اگر کوئی نمائندہ تحریک ہو تو یہ ظلم نہیں ہوسکتا۔ کوئی تعلیم کے دروازے غریب اور مڈل کلاس کے لیے بند نہیں کر سکتا۔
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا کہ اسلامی جمعیت طلبہ نے ہمیشہ طلبہ یونین کے الیکشن جیتے۔ دلیل کا جواب دلیل سے دیا۔ مباحثے ہوتے تھے، ادبی محفلیں ہوتی تھیں جن سے شعور پروان چڑھتا تھا۔ مڈل کلاس اور غریب لوگوں کے بچے سرکاری جامعات سے پڑھے اور قیادت کا حق غریب کے بچے کو بھی ملا۔ جب یہ طبقہ سیاست میں مختلف پارٹیوں میں گیا تو سیاست میں بھی عام آدمی کی نمائندگی ہوئی، مڈل کلاس اور غریب کی نمائندگی ہوئی، اوراس کا اثر بھی ملکی سیاست پر نظر آیا۔ اِس وقت آپ تمام اسمبلیوں میں جا کر دیکھ لیں، 70 سے 80 فیصد منتخب ارکان ارب پتی اور کھرب پتی ہیں، کوئی اسٹیبلشمنٹ کے جوتے پالش کرکے فارم 47 کے ذریعے آیا ہے، تو کوئی غریبوں اور کسانوں کا استحصال کرکے آیا ہے۔ جمہوریت کی نرسری طلبہ یونین کا کنکشن کاٹنے والے بڑے مجرم ہیں جنہوں نے غریب اور مڈل کلاس کا راستہ روکا۔ عوام پر مہنگائی بم گرانے والے حکمرانوں کا اپنی تنخواہوں میں اضافہ شرمناک ہے۔ ملک میں مہنگائی بڑھ رہی ہے، عوامی نمائندوں کی تنخواہیں تو بڑھ گئیں لیکن غریب بھوکا مر رہا ہے۔