خیبرپختون خوا :دہشت گردی کے بڑھتے واقعات فوجی آپریشن کے خدشات

پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ ریاست کے خلاف مذموم سرگرمیوں، سہولت کاری اور مالی معاونت کرنے والوں کے خاتمے تک ان کا پیچھا کیا جائے گا۔ آرمی چیف نے یہ بیان جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا میں سیکورٹی صورتِ حال اور انسدادِ دہشت گردی کی جاری کارروائیوں پر فورسز کو دی جانے والی بریفنگ کے موقع پر دیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے افسران اور فوجی جوانوں کے ساتھ بات چیت کی اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے والے جوانوں کی ثابت قدمی کو سراہا۔ اس موقع پر آرمی چیف نے کہا کہ شہدا پاکستان کا فخر ہیں اور ان کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاک فوج دہشت گردی اور انتہا پسندی کی تمام شکلوں کو ختم کرنے کے لیے ثابت قدم رہے گی۔ آرمی چیف نے مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے جوانوں کو قوم کے حقیقی ہیرو قرار دیا اور کہا کہ مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے جوانوں کی بہادری پورے ملک کو متاثر کرتی ہے۔ جنرل عاصم منیر نے دہشت گردوں کے تعاقب کے لیے پاک فوج کے عزم کا اعادہ کیا اور کہا کہ پاک فوج قوم کی حمایت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مل کر ملک میں امن واستحکام کی بحالی یقینی بنائے گی۔

واضح رہے کہ آرمی چیف نے یہ دورہ چند روز قبل خیبر پختون خوا کے ضم شدہ قبائلی اضلاع جنوبی وزیرستان اور خیبر میں دہشت گردوں کے خلاف دو مختلف کارروائیوں میں پاک فوج کے 17 اہلکاروں کی شہادت کے فوراً بعد کیا ہے، جس میں 8 دہشت گردوں کے مارے جانے کی بھی اطلاعات ہیں۔ رپورٹس کے مطابق جنوبی وزیرستان میں رات گئے نامعلوم مسلح دہشت گردوں نے مکین سیکورٹی پوسٹ پر حملہ کیا اور ہلکے اور بھاری ہتھیاروں سے آزادانہ فائرنگ کرتے ہوئے 16 اہلکاروں کو شہید کردیا، جب کہ اس حملے میں 8 اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں۔ حملے میں شہید ہونے والوں میں حوالدار ایوب خان (قوم خٹک، گاؤں مکڈ شریف اٹک)، حوالدار ظاہر محمد (قوم بنگش، گاؤں کرڈھنڈ ضلع کوہاٹ)، حوالدار عمر حیات (قوم بنگش، گاؤں سورکل ضلع کوہاٹ)، حوالدار محمد حیات (قوم وزیر، گاؤں جانی خیل ضلع بنوں)، لانس نائیک محمد اسحاق (قوم خٹک، گاؤں منڈا خرم ضلع کرک)، لانس نائیک محصور شاہین (قوم خٹک، گاؤں شکر دره کوہاٹ)، لانس نائیک احسان اللہ (گاؤں تیمر گرہ، دیر)، لانس نائیک لیاقت علی (زیڑان کرم)، لانس نائیک شیر محمد (قوم رانیز کی، گاؤں پیران، ضلع ملاکنڈ)، لانس نائیک حامد علی (قوم پوستوئی، گاؤں اسماعیلہ، ضلع صوابی)، سپاہی فیاض (قوم سواتی، گاؤں اوگی، مانسہرہ)، سپاہی جنید آفریدی، (گاؤں لنڈی کوتل خیبر)، سپاہی محبوب الرحمان (قوم بیٹی، ٹانک)، سپاہی کلیم اللہ (قوم مروت، گاؤں غزنی خیل، لکی مروت)، سپاہی طیب علی (قوم ہزارہ، گاؤں خان پور، ہری پور)، سپاہی جنید (قوم سواتی، گاؤں سنداری، شانگلہ) شامل ہیں۔ جبکہ زخمیوں میں نائب صوبیدار یاسرشاہ، حوالدار قاسم خان، لانس نائیک ولی خان، سپاہی عدنان خان، سپاہی عارف، سپاہی اور سپاہی شہزادخان شامل ہیں۔

اسی اثناء اطلاعات کے مطابق سیکورٹی فورسز نے افغانستان سے دہشت گردوں کے گروہ کی ضلع خیبر کے علاقے راجگال وادی تیراہ میں پاک افغان سرحد پر دراندازی کی کوشش ناکام بناتے ہوئے 4 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا ہے، جبکہ جھڑپ کے دوران خیبر کا رہائشی 22 سالہ سپاہی عامر سہیل آفریدی شہید ہوگیا۔ اس دوران دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن کے سلسلے میں سیکورٹی فورسز نے ضلع ٹانک میں کامیاب آپریشن کرتے ہوئے انتہائی مطلوب دہشت گرد سمیت 7 دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ سیکورٹی ذرائع کے مطابق سیکورٹی فورسز نے ٹانک میں دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیا۔ کامیاب آپریشن کے دوران انتہائی مطلوب علی رحمان عرف مولاناطہ سواتی کو ہلاک کردیا گیا۔ سیکورٹی ذرائع کے مطابق دہشت گرد علی رحمان عرف مولاناطہ سواتی ٹی ٹی پی کے سابق سربراہ مولوی فضل اللہ کا قریبی ساتھی تھا، اس نے 2010ء میں ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار کی تھی اور یہ طالبان شوریٰ کا اہم رکن تھا، اور اسے قاری امجد عرف مفتی مزاحم کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے۔ سیکورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ آپریشن کے دوران ایک دہشت گرد نے گھر میں داخل ہوکر کمرے میں دو بچوں کو یرغمال بنایا، اُس نے فرار ہونے کے لیے خاتون کا لباس پہنا اور دونوں بچوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی، تاہم فورسز دونوں بچوں کی بحفاظت بازیاب کرکے اسے ہلاک کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔ دہشت گردوں کے قبضے سے اسلحہ اور بارود سے بھری گاڑی بھی برآمد ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ بارودی مواد دہشت گردی کی کسی بڑی واردات کے لیے استعمال کیا جانا تھا۔

خیبر پختون خوا کے جنوبی سمت میں واقع آخری بندوبستی ضلع ٹانک سے موصولہ اطلاع کے مطابق ڈی پی او دفتر پر دستی بم حملے میں 3 پولیس اہلکار زخمی ہوگئے ہیں جب کہ پولیس کی جوابی کارروائی پر حملہ آور فرار ہوگئے۔ ڈسٹرکٹ پولیس آفس ٹانک پر دن کے وقت ایک بج کر 10 منٹ پر مسلح افراد نے ہینڈ گرنیڈ سے حملہ کیا، جس سے تین پولیس اہلکار کلیم اللہ، سلیمان اور اسماعیل شدید زخمی ہوگئے۔ ڈیوٹی پر مامور دیگر پولیس اہلکاروں نے جوابی کارروائی کی، تاہم ابتدائی اطلاعات کے مطابق حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ زخمیوں کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال ٹانک منتقل کردیا گیا۔

اس دوران ایک اور اطلاع کے مطابق شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی کے اسسٹنٹ کمشنر کے ڈرائیور اور 2 گارڈز کو گاڑی سمیت اغوا کرلیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سوموار کو صبح 10 بجے کے قریب تحصیل میر علی کے گاؤں ہرمز کے قریب اسسٹنٹ کمشنر کی سرکاری گاڑی اغوا کرلی گئی، پولیس رپورٹ کے مطابق ایک درجن کے قریب نامعلوم افراد نے اُس وقت گاڑی اور گارڈ کو اغوا کیا جب وہ پیٹرول ڈلوانے کے لیے ایک پیٹرول پمپ پر کھڑے تھے، اس دوران ڈرائیور فاروق عزیز اور اسکواڈ کے دو اہلکار سپاہی سید اکبر اور سپاہی نذیر زمان کو گاڑی سمیت اغوا کرلیا گیا۔ ضلعی انتظامیہ اور پولیس اہلکار کھوج لگانے میں مصروف ہیں۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق اس وقت گاڑی میں اسسٹنٹ کمشنر موجود نہیں تھے ورنہ ان کو بھی خطرات لاحق ہوسکتے تھے۔ شورش زدہ جنوبی اضلاع میں سے ایک اور اہم ضلع جنوبی وزیرستان سے آمدہ تازہ اطلاعات کے مطابق نواحی علاقے لوئر میں احمد زئی وزیر قبیلے کے چیف اور قبائلی رہنماء ملک طارق وزیر کو دڑہ غونڈئی کے مقام سے مسلح افراد نے اغوا کرلیا ہے۔ اغوا کے بعد علاقے میں خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی ہے۔ مقامی پولیس اور سیکورٹی فورسز اغوا کاروں کی تلاش میں مصروف ہیں۔ تاحال اغوا کرنے والوں کی شناخت یا اُن کے مقاصد سامنے نہیں آسکے، تاہم مقامی رہنماؤں اور عوام نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ملک طارق وزیر کی بحفاظت واپسی کو یقینی بنایا جائے۔

خیبر پختون خوا کے جنوبی اضلاع میں سیکورٹی فورسز، پولیس اور سرکاری ملازمین سمیت بے گناہ افراد کے خلاف دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے تناظر میں صوبے کی ایپکس کمیٹی نے اپنے حالیہ اجلاس میں… جس میں وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل عمراحمد بخاری، چیف سیکرٹری ندیم اسلم چودھری، انسپکٹر جنرل پولیس اختر حیات خان گنڈاپور اور دیگر اعلیٰ سول و فوجی حکام بھی شریک ہوئے… فیصلہ کیا ہے کہ شرپسندوں سے علاقوں کو پاک کرنے اور ان علاقوں کے رہائشیوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے خیبر اور بنوں کے اضلاع کے کچھ حصوں سے شہریوں کا عارضی انخلاء کیا جائے گا۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ارکان اور اس سے وابستہ تنظیمیں وادی تیراہ کے متعدد علاقوں میں (جن میں ملک دین خیل، قمبر خیل، کمرخیل، سپاه، آدم خیل اور زخہ خیل شامل ہیں( سامنے آئی ہیں۔ اسی طرح اس سال جولائی میں سڑکوں پر عسکریت پسندوں کے گشت کرنے کی وڈیوز بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد سیکورٹی فورسز نے ان علاقوں میں محدود انٹیلی جنس پر مبنی فوجی آپریشن شروع کیا تھا۔ بعد ازاں اس سال اکتوبر میں عسکریت پسندوں کی جانب سے متوازی عدالتیں قائم کرنے اور مقامی تاجروں سے بھتہ وصول کرنے کی اطلاعات بھی سامنے آئی تھیں۔ اس ہفتے کے شروع میں سیکورٹی فورسز نے کرفیو جیسی صورتِ حال کے درمیان وادی میں اپنی پوزیشنیں مضبوط کرلی تھیں، مقامی لوگوں سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنے گھروں کے اندر رہیں اور غیر ضروری سفر سے گریز کریں۔ ذرائع نے یہ بھی اشارہ دیا ہے کہ ضلع بنوں کے جانی خیل علاقے کے کچھ دیہات میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کا مشاہدہ کیا گیا ہے، جس کے بعد سیکورٹی فورسز پر حملوں میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ نومبر میں ضلع بنوں میں سیکورٹی چیک پوسٹ پر خودکش حملے میں ایک درجن فوجی جوان شہید ہوگئے تھے، جب کہ حالیہ مہینوں میں شورش زدہ ضلع میں پولیو ویکسی نیٹرز پر حملے، پولیس اہلکاروں کا اغوا، لڑکیوں کے اسکول پر حملہ اور فائرنگ کے تبادلے جیسے واقعات بھی دیکھنے میں آئے ہیں جن میں تین سیکورٹی اہلکار شہید ہوئے۔

دریں اثناء بنوں کے علاقوں جانی خیل اور بکاخیل میں ممکنہ فوجی آپریشن کے سلسلے میں وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی جانب سے بلایا گیا عمائدین کا جرگہ بھی موخر کردیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ ہاؤس پشاور میں بلائے گئے جرگہ کے لیے 33 عمائدین کا انتخاب کیا گیا تھا جن میں ممبر صوبائی اسمبلی ملک عدنان خان وزیر، سابق صوبائی وزیر ملک شاہ محمد خان وزیر سمیت علماء اور علاقائی عمائدین شامل تھے۔ جانی خیل سے جرگہ ممبر قبائلی سردار ملک مویز خان نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ان سے ضلعی انتظامیہ کی طرف سے رابطہ کیا گیا کہ جرگہ مؤخر کردیا گیا ہے۔ ان مصدقہ اطلاعات کے بعد مقامی لوگوں کی جانب سے یہ خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں کہ شدید سردی کے اس موسم میں کسی بھی ممکنہ آپریشن کا تمام تر خمیازہ مقامی لوگوں اور خاص کر خواتین، بچوں اور ضعیف لوگوں کو بھگتنا ہوگا جو اس سے پہلے بھی مختلف آپریشنوں کے نام پر اپنے گھروں سے دربدر کیے جاچکے ہیں۔ سنجیدہ حلقوں کا مطالبہ ہے کہ ایسے کسی بھی آپریشن سے قبل جہاں پرانے آپریشنوں کے نقصانات اور نتائج کا غیر جانب دارانہ آڈٹ ہونا چاہیے وہاں وہ اسباب اور ہاتھ بھی تلاش کیے جانے ضروری ہیں جن کے باعث دہشت گردوں کی کلیئرنس کے بعد انہیں دوبارہ صوبے کے مختلف علاقوں میں آباد ہونے کا موقع ملا ہے جس کی بھاری قیمت اب مقامی لوگوں کو اس شدید سردی میں نقل مکانی اور فوجی آپریشن سے ہونے والے نقصانات کی صورت میں چکانی پڑے گی۔