ایران اور یمن پر بھرپور حملہ؟ اسرائیلی فوج نے تیاری شروع کردی

تل ابیب پر حوثیوں کے کامیاب میزائل حملوں سے اسرائیل میں خوف کی لہر دوڑ گئی ہے۔ غزہ نسل کُشی سے اسرائیل کے عام لوگ براہِ راست متاثر نہیں ہورہے تھے، اس لیے کہ یہ چھوٹی سی پٹی بحیرہ روم کے کنارے واقع ہے اور اہلِ غزہ کی میزائل اور ڈرون صلاحیتیں خاصی محدود ہیں۔ لیکن لبنانی مزاحمت کاروں کے میزائل اور ڈرونوں نے اسرائیلیوں کو چھٹی کا دودھ یاد دلادیا، اور آتش گیر ڈرونوں کے تابڑ توڑ حملوں سے اُن کا شمالی علاقہ کھنڈر بن گیا۔ اتوار22 دسمبر کو شمال بحالی ڈائریکٹوریٹ (Northern Rehabilitation Directorate) کے سربراہ، سابق وزیر ہائوسنگ Ze,ve Elkins نے رہائشی عمارات اور بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصانات کی مرمت کے لیے 4 ارب 40 کروڑ ڈالر کا تخمینہ پیش کیا ہے۔ ایلکنز صاحب کے مطابق تعمیرنو میں پانچ سال لگیں گے۔ مکانات برباد ہونے سے 60 ہزار کے قریب اسرائیلی بے گھر ہیں۔ ایک لبنانی ڈرون نے نیتن یاہو کی پُرتعیش نجی رہائش گاہ کی خواب گاہ کی کنڈی بھی کھڑکادی۔ لبنانی مزاحمت کاروں سے جنگ بندی کے نتیجے میں اسرائیلیوں کو اس اعتبار سے راحت نصیب ہوگئی کہ اب شمال کی جانب سے میزائلوں کی بارش رک گئی ہے۔

تاہم ادھر کچھ دنوں سے حوثیوں نے اسرائیلیوں کی نام میں دم کررکھا ہے۔ یمنیوں کا ہدف وسطی اسرائیل خاص طور سے تل ابیب ہے۔ اسرائیل، یروشلم کو اپنا دارالحکومت قراردیتا ہے لیکن امریکہ اور دوسرے چند ملکوں کے سوا ساری دنیا کے لیے تل ابیب ہی اسرائیل کا دارالحکومت ہے جہاں تمام ملکوں کے سفارت خانے ہیں۔ گویا حوثیوں نے قلبِ اسرائیل کو نشانے پر رکھ لیا ہے۔ اس ہفتے پے درپے دو میزائل حملوں نے عوام میں ہیجان برپا کردیا۔ 20 دسمبر کو تل ابیب کے مضافاتی علاقے کا ایک اسکول نشانہ بنا۔ کوئی جانی نقصان تو نہ ہوا لیکن بدحواسی کے عالم میں پناہ گاہ کی طرف بھاگتے ہوئے جو بھگدڑ مچی اُس میں طبی عملے سمیت پانچ افراد زخمی ہوگئے۔ اس حملے کے بعد اسرائیلیوں نے یمن کے دارالحکومت پر خوفناک فضائی حملہ کیا۔ فوج نے عوام کو یقین دلایا کہ حوثیوں کی میزائل ٹیکنالوجی تہس نہس کردی گئی ہے۔ حوثی میزائلوں اور ڈرونوں کا باب ختم شد۔ ابھی اسرائیلی فوج کے ترجمان یہ شیخی بگھار ہی رہے تھے کہ تل ابیب کا مرکزی پارک خوفناک دھماکے سے گونج اٹھا۔ شام کے وقت وہاں تفریح اور کھیل میں مصروف لوگوں نے پناہ گاہوں کی طرف دوڑ لگادی اور ایک دوسرے سے ٹکرانے اور کچل جانے سے 16 افراد شدید زخمی ہوگئے۔ پتا چلا کہ حوثیوں نے آواز سے چار گنا تیز رفتار Hypersonicمیزائل ’’مزاج پرسی‘‘ کو بھیج دیا تھا۔ اسرائیلی فضائیہ نے اعتراف کیا کہ میزائل کے سرپرآجانے تک ان کے طیارہ شکن نظام کو کانوں کان خبر نہ ہوئی اور جب پتا چلا تو تیکنیکی خرابی کی وجہ سے ڈرون کو نشانہ بنانے والے Interceptorsبروقت فائر نہ ہوسکے۔

اسرائیل پر میزائل حملوں کے انتقام کے لیے امریکہ بہادر بھی اپنے لاڈلے کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ گزشتہ کئی دنوں سے امریکی بمباروں نے یمنی دارالحکوت صنعا پر قیامت ڈھائی ہوئی ہے۔ اتوار 22 دسمبر کو حوثیوں نے پہلی بار طیارہ شکن میزائل کا استعمال کیا اور بحیرہ احمر میں تعینات طیارہ بردار امریکی جہاز یوایس ایس ہیری ٹرومن سے اڑان بھرنے والا FA-18 Hornet جہاز مارگرایا۔ امریکی مرکزی کمان نے حوثیوں کے دعوے کو مسترد کیے بغیر کہا کہ یہ جہاز غلطی سے اپنے ہی طیارہ شکن میزائل کا نشانہ بن گیا۔ کمان کے اعلامیے میں کہا گیا کہ دونوں پائلٹ اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوگئے جنھیں امریکی بحریہ نے بحفاظت سمندر سے نکال لیا، جبکہ ایک پائلٹ کو معمولی زخم آئے۔

غزہ حملے کے آغاز سے ہی ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے قدامت پسند اتحادی اسے ایران کا کارنامہ قراردے رہے ہیں۔ ریپبلکن پارٹی کے سینئر سینیٹر لنڈسے گراہم کھل کر کہہ چکے ہیں کہ اگر اسرائیل اپنے قیدی چھڑانا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ ایران کے جوہری اثاثوں، تیل و گیس کی تنصیبات اور ایران کی سیاسی قیادت کو نشانہ بنائے۔ اسرائیلی وزیراعظم کے خیال میں بھی مشرق وسطیٰ کے تمام مسائل کا ذمہ دار ایران ہے جسے fix کیے بغیر علاقے میں امن نہیں آسکتا۔ اپنی حکمتِ عملی کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ جوہری تنصیبات کے خاتمے سے ایران کا فوجی دبدبہ اور تیل و گیس کے وسائل پر ضرب سے ریاست کی معاشی طاقت صفر ہوجائے گی۔ اگر اسی ہلے میں روحانی و سیاسی قیادت کو بھی راستے سے ہٹادیا جائے تو افراتفری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مغرب نواز عناصر کے لیے اقتدار پر قبضہ کرنا آسان ہوگا۔ حسن نصراللہ کے قتل پر نیتن یاہو نے ایرانی روشن خیالوں کو نوید سنائی تھی کہ ان کی توقع سے بہت پہلے تہران ملّائوں کی گرفت سے آزاد ہوجائے گا۔

تل ابیب پر میزائل حملوں کے بعد انھوں نے حوثیوں اور حوثیوں کے ’’سرپرستوں‘‘ کے خلاف بے رحم، منظم و مربوط کارروائی کا عندیہ دیا ہے۔ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے نیتن یاہو نے کہاکہ امریکہ اور اسرائیل سمیت تمام ممالک حوثیوں کو نہ صرف جہازرانی بلکہ عالمی نظم و نسق (World Order)کے لیے بھی خطرہ سمجھتے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جس طرح ہم نے ’’ایران کے شیطانی محور‘‘ (غزہ اور بیروت) کو ریت کا ڈھیر بنادیا، اسی طرح ہم حوثیوں کے خلاف بھی کارروائی کریں گے، طاقت، عزم اور نفاست کے ساتھ۔

یمن اور ایران پر حملے کب اور کس نوعیت کے ہوں گے؟ اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔ لیکن اسرائیل کی عسکری حکمتِ عملی پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یمن پر حملہ دنوں کی بات ہے۔ اس حملے میں اسی قسم کے بنکر بسٹر اور دوسرے ہلاکت خیز بم استعمال کیے جائیں گے جو بیروت کی بلندو بالا عمارات پر گرائے گئے۔ خیال ہے کہ یہ اسرائیل و امریکہ کی مشترکہ کارروائی ہوگی۔ بیک وقت سعودی سرحد پر سعدہ، بحیرہ احمر کی الحدیدہ و عدن کی بندرگاہوں اور بحیرہ عرب کے ساحل پر المکلا اور الغیضہ کو نشانہ بنایا جائے گا۔