پاکستان کے میزائل پروگرام پر امریکی الزامات

امریکہ غزہ کی نسل کُشی، مغربی کنارے میں صہیونی بستیوں کی توسیع اور اسد حکومت کے خاتمے کے بعد عظیم تر اسرائیل کے قیام کو ممکن بنانا چاہتا ہے، اسی لیے پاکستان پر بھڑک رہا ہے

پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کو امریکہ کے لیے ابھرتا ہوا خطرہ قرار دے کر امریکی حکومت نے دنیا کے ہر معقول شخص کو مضحکہ خیز حیرت کے احساس میں مبتلا کردیا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کے نمائندے کا یہ اندیشہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی 77 سالہ تاریخ اور دونوں ملکوں کی دفاعی صلاحیتوں کے تناظر میں جس قدر غیرحقیقی ہے، دنیا کو کھلی آنکھوں سے دیکھنے والا ہر شخص اس کا بخوبی ادراک کرسکتا ہے۔ پاکستان نے اِن بے سروپا امریکی خدشات پر اصولی مؤقف پیش کردیا ہے اور بیلسٹک میزائل پروگرام پر امریکی تنقید کو سختی سے مسترد کردیا ہے کہ یہ غیر معقول اور تاریخی تناظر سے عاری امریکی سوچ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان بھارت کی جانب سے بڑھتے ہوئے خطرات کے پیش نظر کم از کم ڈیٹرنس کی حکمتِ عملی اپنا رہا ہے اور میزائل صلاحیتوں کو ترقی دینے پر عمل پیرا ہے، جبکہ پاکستان کے میزائل پروگرام پر امریکی اہلکارکے الزامات بے بنیاد، خلافِ عقل اور تاریخی شعور سے عاری ہیں۔ پاکستان کا تزویراتی پروگرام صرف اور صرف جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔ پاکستان کی اسٹرے ٹیجک صلاحیتیں اس کی خودمختاری کے دفاع کے لیے ہیں، اور پاکستانی قوم قابل اعتماد کم سے کم ڈیٹرنس برقرار رکھنے اور ابھرتے ہوئے خطرات سے نمٹنے کی ضرورت کے مطابق اپنی صلاحیتوں کو فروغ دینے کے حق سے دست بردار نہیں ہوسکتی، بہتر یہی ہے کہ میزائل پروگرام پر پاکستان اور امریکہ کے درمیان وسیع مکالمہ ہونا چاہیے اور یہ مکالمہ ہوتا بھی رہا ہے جس میں واشنگٹن کے تحفظات دور کیے جاتے رہے ہیں۔ 2012ء سے امریکی حکام کے ساتھ اس موضوع پر بات چیت ہورہی ہے، پاکستان نے بارہا واضح کیا ہے کہ اپنے تزویراتی پروگرام اور اس سے منسلک صلاحیتوں کو ترقی دینے کا مقصد صرف اور صرف پڑوس سے واضح اور ظاہر ہونے والے خطرے سے تحفظ ہے اور اسے کسی دوسرے ملک کے لیے خطرہ نہیں سمجھا جانا چاہیے، پاکستان کے اسٹرے ٹیجک پروگرام میں کوئی دخل اندازی نہ تو قابلِ قبول ہے اور نہ ہی ممکن ہے۔ امریکی رویّے خصوصاً پاکستان کو امریکہ مخالف ملکوں کے ساتھ نتھی کرنے سے دونوں ملکوں کے تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں جن کی خاطر پاکستان خطے میں بڑی قربانیاں دیتا رہا اور نقصانات اٹھاتا رہا ہے۔ دفتر خارجہ کی ترجمان نے اس امر کو بھی اجاگر کیا کہ میزائل سازی کے شعبے میں بھارت کی کہیں زیادہ تیاریوں کو امریکہ کی جانب سے نظرانداز کرنے اور پاکستان کو ہدفِ تنقید بنانے کی روش علاقائی سلامتی کے لیے خطرات بڑھا رہی ہے، امریکہ اسے تو تسلیم کررہا ہے اور پاکستان کو ناخوشگوار صورتِ حال کا شکار بنارہا ہے۔ یہ صورتِ حال اس لیے بنی کہ امریکہ غزہ کی نسل کُشی، مغربی کنارے میں صہیونی بستیوں کی توسیع اور اسد حکومت کے خاتمے کے بعد عظیم تر اسرائیل کے قیام کو ممکن بنانا چاہتا ہے، اسی لیے پاکستان پر بھڑک رہا ہے۔

اپنے آخری پانچ ہفتوں میں ایک اعلیٰ امریکی سیکورٹی اہلکار نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے بارے میں امریکی خدشات کے بارے میں ایک عجیب و غریب دعویٰ کرکے اپنے اصل عزائم سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ اقوام عالم گواہ ہیں کہ پاکستان دنیا میں کہیں بھی امریکہ کے ساتھ براہِ راست متصادم نہیں ہے، تو وہ امریکہ کو نشانہ بنانے کے لیے بیلسٹک میزائل کی صلاحیت کیوں حاصل کرنا چاہے گا؟ پاکستان کا قومی سلامتی کا پورا نظریہ بھارتی خطرے پر مبنی ہے جو کہ 1948ء، 1965ء، 1971ء کے تنازعات اور کارگل محاذ کے بھڑک اٹھنے کے پیش نظر ایک جائز تشویش ہے۔ پاکستان کے ڈیلیوری سسٹم کی ترقی پر ایسے دعووں اور تھوڑے عرصے میں پابندیوں کے پیچھے جو بھی کہانی ہے، پاکستان اس سے بخوبی آگاہ ہے۔ خیال یہ تھا کہ جب امریکی اہلکار نے امریکہ کو نشانہ بنانے کی ممکنہ صلاحیت کا حوالہ دیا تو اس کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ شاید اسرائیل خطرے میں آسکتا ہے، اس لیے کہ پاکستان فلسطین کی حمایت کرتا ہے۔ لیکن پاکستان کی کسی بھی حکومت نے ’’حمایت‘‘ کے اعلان کے سوا دوسری کوئی سفارتی کوشش نہیں کی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ بھارت کو چین کے مقابلے میں کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ نام نہاد چار فریقی سیکورٹی ڈائیلاگ میں ہندوستان کی رکنیت کا مقصد خطے میں چین کی اقتصادی اور فوجی برتری کو روکنا تھا۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد یہ توقع کی جارہی تھی کہ امریکی سامراج یک قطبی دنیا میں چیلنج کے بغیر رہے گا۔ تب سے چین نے اقتصادی اور فوجی طاقت کے طور پر تیزی سے ترقی کی ہے۔ اس نے پوری دنیا میں امریکی عزائم کو چیلنج کردیا ہے۔ برکس اتحاد کی تشکیل ایک اور بڑا چیلنج ہے۔

اِس سال اکتوبر میں گروپ کے کازان (روس) سربراہی اجلاس کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور چینی صدر شی جن پنگ نے تعلقات بہتر بنانے پر اتفاق کیا تھا۔

اپریل 2024ء میں تین چینی کمپنیوں اور ایک بیلاروسی کمپنی کو پاکستان کو میزائل بنانے کے قابل بنانے والی ٹیکنالوجی برآمد کرنے کی منظوری دی گئی۔ ابھی حال ہی میں ستمبر میں ایک چینی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور کئی دیگر کمپنیوں کو اسی بنیاد پر منظوری دی گئی۔ ان پابندیوں کے اعلان کے بعد امریکی حکومت کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا کہ امریکہ اپنے اتحادیوں پر بھی پابندیاں عائد کرنے سے دریغ نہیں کرے گا۔ تاہم یہ محض دعویٰ ہی ہے۔

امریکی قومی سلامتی کے نائب مشیر نے کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس فورم سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پاکستان نے جدید ترین میزائل ٹیکنالوجی تیار کی ہے جو بڑی راکٹ موٹرز کو فعال کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، پاکستان ممکنہ طور پر اپنے میزائلوں کی رینج کو جنوبی ایشیا سے باہر تک بڑھا سکتا ہے، یہاں تک کہ امریکہ تک بھی پہنچ سکتا ہے۔

پاکستان کے میزائل پروگرام پر امریکی الزامات /میاں منیر احمد
پاکستان نے سنگین سیکورٹی خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے جوہری ارادوں سے بارہا امریکہ کو آگاہ کیا ہے کہ یہ مخالف (بھارت) جوہری ہتھیاروں سے لیس ہے اور پاکستان کو مزید ٹکڑے ٹکڑے کرنے پر بضد ہے، جیسا کہ اس نے 1971ء میں کیا تھا۔ حقائق یہ ہیں کہ بھارت کو 2008ء میں نیوکلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی) کی پابندیوں سے چھوٹ ملی، جس سے اسے مؤثر طریقے سے ان قوانین سے مستثنیٰ قرار دیا گیا جو عدم پھیلاؤ کے معاہدے (NPT) سے باہر ممالک کے لیے جوہری برآمدی کنٹرول پر لاگو ہوتے ہیں۔2016ء میں قوانین پر مبنی حکم سے ایک اور بھی بڑا انحراف ہوا، جب بھارت کو میزائل ٹیکنالوجی کنٹرول رجیم (MTCR) میں رکنیت دی گئی، بھارت اپنی جوہری تنصیبات کے لیے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کے تحفظات کو اپنانے سے گریز کرتا رہتا ہے اور جوہری ذمہ داری کے قوانین سے بچتا رہتا ہے۔ لگتا ہے کہ پاکستان پر پابندیاں لگانا امریکہ میں غلط جگہ پر ’رینج فوبیا‘ کی وجہ سے ہے۔ اس کے ہندوستانی اور دیگر اتحادیوں کی بے چینی سے جُڑی یہ پالیسی غیر منصفانہ طور پر پاکستان کو نشانہ بناتی ہے۔ بھارت کی جانب سے بین البراعظمی بیلسٹک میزائلوں (ICBMs) کی ترقی، جیسے اگنی V جس کی رینج 5,000 کلومیٹر سے زیادہ ہے، نام نہاد بین الاقوامی سلامتی کے لیے خطرے کی گھنٹی نہیں بجاتی۔ اس کے برعکس پاکستان کا سب سے طویل فاصلے تک مار کرنے والا بیلسٹک میزائل شاہین III، 2,750 کلومیٹر کی رینج رکھتا ہے، جو واضح طور پر مخصوص خطرات سے نمٹنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس سے امریکی اتحادیوں سمیت کسی دوسرے ملک کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔