انتخابات میں دوسرے نمبر پر بھی نہیں تھے
بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت دستِ شفقت سے قائم ہوئی ہے، یہاں تک کہ وزارتِ اعلیٰ کے لیے میر سرفراز بگٹی پیش کردیے گئے، جن کی قبولیت اور نامزدگی پر پیپلز پارٹی نے چوں تک نہ کی۔ وجہ یہی ہے کہ 8فروری 2024ء کے عام انتخابات میں فارم 45 کے نتائج پاؤں تلے روندے گئے۔ تین سو اور پانچ سو ووٹ والے ان کے امیدواروں کو فارم47میں جتوایا گیا۔ یہ جیت اور حکومت مرہونِ منت ہے، مگر پھر بھی سرفراز بگٹی، پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزراء اور اراکین کی فرمائشیں پوری کرنے کی حتی الوسع کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اوپر کی مہربانی نہ ہوتی تو یہ سرفراز بگٹی کو اس منصب پر ایک لمحے کے لیے بھی برداشت نہ کرتے۔
سرفراز بگٹی کے اردگرد بلیک میلر ہر لمحہ موجود رہتے ہیں، ان میں علی حسن زہری بھی شامل ہیں۔ اب تو پی بی 21 حب پر علی حسن زہری کی جیت کا نوٹیفکیشن بھی جاری ہوگیا ہے۔ نتیجے کی معطلی کے دوران انہیں مشیر برائے صنعت و حرفت مقرر کیا گیا تھا۔ اب بھی اسی محکمے کا قلمدان سونپا جانا اغلب ہے، کیوں کہ حب صنعتی علاقہ ہے اور یہ محکمہ ان کے مطلوبہ مقاصد پورے کرتا ہے۔ علی حسن زہری نے پی بی 21 حب پر سردار صالح بھوتانی کے خلاف الیکشن لڑا تھا، جس کے نتائج پر تنازع کھڑا ہوا۔ عرصہ دس گیارہ ماہ کے تعطل کے بعد بالآخر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 19دسمبر کو ان کی جیت کا اعلان کردیا۔ حالانکہ وہ انتخابات میں دوسرے نمبر پر بھی نہیں تھے۔ سردار صالح بھوتانی کو 16ہزار سے17ہزار ووٹ مسترد کرکے ہرایا گیا۔ سردار صالح بھوتانی اور اُن کے بھائی سردار اسلم بھوتانی کو اس سے پہلے اس حلقے سے شکست نہیں ہوئی۔ انتخابات کے دوران علی حسن زہری نے خوب بدمعاشی بھی دکھائی ہے اور پیسہ بھی پانی کی طرح بہایا ہے۔ ان کا تعارف اور پہچان ہی زمینوں پر قبضہ اور دوسری غیر قانونی حرکات ہیں۔ علی حسن زہری سندھ کے رہائشی ہیں۔ والد نے حب میں ایک چھوٹا سا مکان خرید رکھا تھا۔ آصف علی زرداری کے فرنٹ مین ہیں۔ کماکر دینے والا بندہ ہے۔ یہ ایک مرتبہ زرداری سے بھی ہاتھ کرچکے ہیں۔ اس دوران بلوچستان راہِ فرار اختیار کی۔ اب دوبارہ آصف علی زرداری کے محبوب ٹھیرے ہیں۔ اخبارات میں ان کے بیانات آصف علی زرداری کے ترجمان کے عہدے سے شائع ہوتے ہیں۔ گویا آصف علی زرداری نے انہیں حب اور لسبیلہ میں زمینوں کی الاٹمنٹ اور دوسرے داؤ وغیرہ کے لیے رکھاہے۔ سر پر اُن کا بھی ہاتھ موجود ہے جو جیت کو ہار اور ہار کو جیت میں بدلنے پر قادر ہیں۔ دراصل یہ جیت بھی ان ہی لوگوں کا کارنامہ ہے۔
بھوتانیوں نے بارہا اسمبلی کے فلور پر حب و لسبیلہ میں غیر قانونی سرگرمیوں کی نشاندہی کی تھی۔ یہاں بلوچستان کی ساحلی پٹی، بشمول گوادر کی ارضیات بھی آصف علی زرداری کے پیش نظر ہیں۔ تنازع حب میں سیمنٹ فیکٹری کے لیے ہزاروں ایکڑ زمین پر پیدا ہوا۔ اس پر بھوتانی خاندان معترض تھا، جسے روکنے میں بھوتانی خاندان کامیاب ہوا۔ بھوتانیوں نے ایک ”خطا“ ہنگول کے قدرتی پارک کے تحفظ کی بھی کررکھی ہے۔ ہنگول پہاڑوں اور صحرا پر مشتمل وسیع و عریض قدرتی پارک ہے۔ یہ نایاب جنگلی حیات کا مسکن ہے۔ یہاں ایک منصوبہ زیر غور تھا جو ہنگول پارک کے قدرتی ماحول کے لیے نقصان دہ تھا۔ بھوتانی برادران مخالف ہوئے اور منصوبہ ترک کرنا پڑا۔ نتیجتاً انہیں مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں انتخابات جیت کر بھی ہروانے کی تڑی ملی۔ سردار اسلم بھوتانی پچھلے دور میں رکن قومی اسمبلی تھے۔ ایک بار اسمبلی فلور پر انہوں نے طنزاً کہا تھا کہ اچھا ہوگا کہ کچے کے ڈاکوؤں کو بھی حب بھیج دیا جائے۔
علی حسن زہری کی جیت کے نوٹیفکیشن کے فوراً بعد سرخیل آصف علی زرداری کے پاس پہنچ گئے۔ آصف علی زرداری نے گلدستہ پیش کیا۔ سرخیل آصف علی زرداری کے در پر سرفراز بگٹی اور پیپلزپارٹی کے وزراء، مشیران اور اراکین اسمبلی پیش ہوتے رہتے ہیں۔ یہ جتھہ سرفراز بگٹی کی شکایتیں بھی لگاتا رہتا ہے۔ 21 دسمبر 2024ء کو سرفراز بگٹی، وزراء، مشیران و دیگر نے پھر حاضری دی ہے۔ اس ملاقات میں سرخیل آصف علی زرداری نے سرفراز بگٹی کو یہ ہدایت بھی کردی ہے کہ وہ بدعنوان وزراء اور افسران کے خلاف کارروائی کریں، ساتھ پارلیمانی ارکان کے تحفظات دور کرنے کی ہدایت بھی کردی ہے۔ بدعنوانوں کے خلاف کارروائی کی ہدایت کا یہ بھونڈا مذاق اہلِ بلوچستان خوب جانتے ہیں کہ جو خود بدعنوانی اور بے ایمانی کے ذریعے صوبے پر مسلط ہوئے ہیں، جن کا ہر فرد دو نمبری میں طاق ہے وہ اچھائی کی تلقین کررہے ہیں؟ یعنی بدعنوانی اور غبن کی شہرت اور شناخت کے حامل انسدادِ بدعنوانی کا درس دے رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن آزاد کے بجائے تابع دار ہے۔ سسٹم مقتدرہ، پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی ہدایت پر چل رہا ہے۔ پی بی44 کوئٹہ پر پیپلز پارٹی کے عبید گورگیج نے محض چند سو ووٹ لیے تھے، لیکن انہیں کامیاب کرایا گیا۔ نتیجہ نیشنل پارٹی کے امیدوار عطاء محمد بنگلزئی نے چیلنج کیا۔ نومبر میں عبید گورگیج دوبارہ کامیاب قرار دے دیے گئے۔ پیپلز پارٹی کے علی مدد جتک تو اب بھی احکامات جاری کرتے ہیں، ان کی اسمبلی رکنیت ختم کردی گئی اور سپریم کورٹ کے حکم پر پی بی45 کوئٹہ کے پندرہ پولنگ اسٹیشنوں پر دوبارہ انتخابات ہونے ہیں۔ یہاں الیکشن کمیشن لیت و لعل سے کام لے رہا ہے۔ 19دسمبر کو ہونے والا انتخاب سیکورٹی کا عذر پیش کرکے ملتوی کیا گیا، اب 5 جنوری2025ء کی تاریخ دی گئی ہے۔ ایسا ہی پی بی 36 قلات پر ہورہا ہے جہاں بلوچستان عوامی پارٹی کے ضیاء لانگو کو جتوایا گیا تھا۔ نتیجہ چیلنج ہوا، انتخابات کا دن پھر آگے لے جایا گیا۔ گویا صوبے کے اندر مکروہ کھیل کھیلا جارہا ہے اور صوبے کو بے توقیر کیا گیا ہے۔ علی حسن زہری جیسے لوگ صوبے پر مسلط کیے جائیں گے تو عوام بالخصوص نوجوان گمراہ کیوں نہ ہوں گے؟ بلوچستان میں عوامی فلاح کے منصوبے بھٹو خاندان سے منسوب کیے جاتے ہیں جیسے طلبہ کے لیے اسکالرشپ پروگرام کو بے نظیر بھٹو اسکالرشپ پروگرام کا نام دیا گیا ہے۔ یہ پروگرام اگر آصف علی زرداری کے ذاتی خزانے سے چل رہا ہے تو ضرور منسوب کیا جائے۔ اور اگر یہ رقم عوام کے ٹیکسوں اور صوبائی خزانے کی ہے تو پھر کسی کی سیاست کے لیے اس کے استعمال کی قطعی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔