آزادکشمیر میں ’’کنگز پارٹی ‘‘کی ضرورت

ملک بھر کی طرح آزادکشمیر میں سوشیو پولیٹکل حالات بدلنے اور سوشل میڈیا کی آمد سے سوچ کے زاویوں میں تبدیلی کے تیز ہونے والے عمل کی راہ روکنے کے دو ہی طریقے باقی رہ گئے ہیں جن میں ایک تو سوشل میڈیا پر مکمل پابندی ہے، مگر اس کا نتیجہ انٹرنیٹ سے محرومی ہے جس کا موجودہ دور میں تصور بھی ممکن نہیں رہا۔ 5 اگست 2019ء کے بعد بھارت کشمیر میں یہ ناکام تجربہ کرکے دیکھ چکا ہے۔ اس عمل کو کچھ طوالت تو دی جا سکتی ہے مگر کسی آبادی کو مستقل طور پر انٹرنیٹ سے محروم رکھا نہیں جا سکتا۔

اس کی دوسری صورت یہ ہے کہ سوچ و فکر کی تبدیلیوں کے عمل پر عوامی اور جمہوری انداز سے بند باندھنے کے لیے ایک مقبول سیاسی جماعت اور ایک پوسٹر بوائے کو سامنے لایا جائے۔ جب سے مقبوضہ کشمیر میں ریاست کی دوسری قدیم جماعت نیشنل کانفرنس اقتدار میں آئی ہے اُس وقت سے آزادکشمیر میں بھی اس منقسم ریاست کی سب سے پہلی قدیم جماعت مسلم کانفرنس کو دوبارہ منظم کرنے کی باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔ مسلم کانفرنس ریاست جموں و کشمیر کی اوّلین جماعت تھی جس کے بطن سے نیشنل کانفرنس نے جنم لیا تھا۔ بدلے ہوئے حالات کی اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے قرعۂ فال مسلم کانفرنس کے نام ہی نکلتا ہے یا یہ ضرورت کسی اور جماعت اور شخصیت سے پوری کرنے کی کوشش ہوتی ہےٍ یہ تو آنے والے وقتوں میں واضح ہوگا، مگر اصولی طور پر اس بات پر اتفاق نظر آتا ہے کہ آزادکشمیر کے بدلے ہوئے حالات میں عوام کی قیادت اور راہنمائی کے لیے ایک نئی سیاسی جماعت کا وجود ناگزیر ہے۔

آزادکشمیر کے سیاسی کینوس پر اس وقت پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، پی ٹی آئی فارورڈ بلاک، مسلم کانفرنس اور جموں و کشمیر پیپلزپارٹی پارلیمانی جماعتوں کے طور پر موجود ہیں۔ یہی جماعتیں چودھری انوارالحق کی وزارتِ عظمیٰ کی چھتری تلے حکومتی بیڑے میں سوار بھی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان جماعتوں میں ایسی کیا کمی ہے کہ ایک نئی سیاسی جماعت کا ڈول ڈالا جانا مقصود ہے؟ وجہ یہ ہے کہ آزاد کشمیر کی یہ تمام سیاسی جماعتیں ایک ہی حکومت کا حصہ بن کر عوام میں اپنی ساکھ متاثر کرچکی ہیں۔

آزادکشمیر کی سیاست کی زمینی حقیقت یہ ہے کہ یہاں عوام کی پسند و ناپسند سے زیادہ سیاست اور اقتدار کے فیصلوں میں اصل عمل دخل اسلام آباد کے حکمت کاروں کا ہوتا ہے۔ اسلام آباد کے حکمت کاروں کی قبولیت ہی مظفرآباد میں عوامی قبولیت کا رنگ اختیار کرتی ہے۔ اسلام آباد کے حکمت کار آزادکشمیر کی حکومت میں شامل جس جماعت پر بھی مستقبل کی کنگز پارٹی کے طور پر ہاتھ رکھیں گے، وہی حکومت بنائے گی۔ اقتدار کی سیاست کی حد تک تو یہ ایک حقیقت ہے مگر جس مقصد کے لیے ایک نئی سیاسی جماعت یا کسی پرانی جماعت کو اپنانے کی ضرورت بڑھ رہی ہے وہ کسی کنگز پارٹی کے ذریعے پورا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ آزادکشمیر میں اس وقت نوجوانوں میں خودمختار کشمیر کی سوچ بہت تیزی سے فروغ پزیر ہے۔ جموں و کشمیر جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے احتجاج کو پُرزور اور پُرشور بنانے میں اس سوچ کے حامیوں کا حصہ بہت نمایاں ہے، بالخصوص پونچھ کے علاقوں میں لبریشن فرنٹ اور نیشنل اسٹوڈنٹس کے نوجوان اس تحریک کو ایک میلے کا سا عوامی رنگ دیتے ہیں۔ ان نوجوانوں کو اگر آزادکشمیر کے انتخابی دھارے میں شرکت کا راستہ ملے تو یہ کسی حد تک آزادکشمیر کی پارلیمانی سیاست کو بھی متاثر کرسکتے ہیں۔

آزادکشمیر میں یہ سوچ فیس بک اور ٹویٹر کی آمد کے باعث نہ پیدا ہوئی، نہ ہی وسعت پزیر ہوئی۔ یہ آزادکشمیر کی دہائیوں پرانی سوچ ہے جس میں آزادکشمیر کی سیاست کے بڑے نام شامل رہے ہیں۔ 1960ء کی دہائی میں معاہدہ تاشقند کے بعد کشمیر کے دونوں حصوں میں پیدا ہونے والی مایوسی نے کچھ نیا سوچنے اور نیا کرنے کا جو احساس پیدا کیا اُس میں یہ سوچ کھل کر سامنے آئی۔ کشمیر کے دونوں حصوں میں محاذِ رائے شماری کا قیام، آزادکشمیر میں سابق صدر اور قائداعظم کے سابق پرائیویٹ سیکرٹری کے ایچ خورشید کی جموں و کشمیر لبریشن لیگ کا قیام، آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم اور پیپلزپارٹی کے بانی لیڈر ممتاز راٹھور اور سابق سفیر پاکستان عارف کمال کی قیادت میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا قیام سوشل میڈیا سے برسوں پرانی کہانی ہے۔ سوشل میڈیا سے پہلے بھی دنیا میں سوشیو پولیٹکل تبدیلیاں رونما ہوتی رہی ہیں۔ بنگلہ دیش کے قیام میں فیس بک اور ٹویٹر کا کوئی کردار نہیں تھا، کشمیر میں موئے مبارک کی بازیابی کی تحریک سمیت ساٹھ اور ستّر کی دہائی کی زوردار احتجاجی تحریکوں میں سوشل میڈیا کا کوئی کردار نہیں رہا۔ اسی طرح آزادکشمیر میں خودمختار کشمیر کی تحریک تحریروں، تقریروں سے ہی آگے بڑھتی رہی ہے۔ سوشل میڈیا نے اس سوچ کو آگے بڑھانے میں صرف چند فیصد کا ہی حصہ ڈالا ہے۔ اس طرح یہ ایک جینوئن سوچ ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ اگر کنٹرول لائن کے دونوں حصوں میں بیک وقت اور کسی تصفیے کے تحت یہ سوچ سامنے آئے تو کچھ مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ صرف آزادکشمیر کی حد تک یہ سوچ پہاڑوں کے درمیان بند ہوکر رہ جاتی ہے۔ اس سوچ کا مقابلہ کسی ایسی سیاسی قوت کے ذریعے ہونا ممکن نہیں کہ جو کنگز پارٹی کے لیبل کے ساتھ سامنے آئے، اور جس کا پوسٹر بوائے بھی کسی لانچنگ پیڈ سے سامنے لایا گیا ہو۔ فطری اور جینوئن سوچ کے مقابلے کے لیے ایک جینوئن جماعت اور شخصیت ہی بروئے کار آسکتی ہے۔ بصورتِ دیگر یہ کوشش ایک ’’مس فائر‘‘ ہی ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ کام سیاسی عمل سے سیاسی انداز میں ہی سامنے آنے والی کوئی قوت اور شخصیت کرسکتی ہے۔ اوپر سے مسلط کرنے کی کوشش سے ایک اور سیاسی جماعت کا اضافہ تو ہوسکتا ہے اور اسمبلی میں چند نشستیں بھی حاصل کی جا سکتی ہیں، مگر اس سے اسمارٹ فون کے حامل آزادکشمیر کے ذہین اور سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے نوجوان کی ذہن سازی ممکن نہیں۔ آزادکشمیر کا نوجوان فیس بک کی کسی پوسٹ یا کسی کتابچے سے شعور حاصل نہیں کرتا، بلکہ وہ اپنے وسائل کے بے دردی سے استعمال، بدعنوانی، میرٹ کی پامالی اور اپنے شہروں کا اپنے بھائیوں اور رشتے داروں کے شہروں برمنگھم، بریڈ فورڈ، نوٹنگھم سے موازنہ کرنے سے شعور کی نمو پاتا ہے۔ اس لیے مسائل کو سمجھ کر ہی ان کا حل نکالا جا سکتا ہے۔

آزادکشمیر میں وزیراعظم چودھری انوارالحق سمیت کوئی بھی سیاسی شخصیت نسلِ نو کے رول ماڈل کے لیے ’’پوسٹر بوائے‘‘ کا کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں، بلکہ زمینی حقیقت اور ضرورت کا عجب تضاد یہ ہے کہ مدمقابل کیمپ یعنی جوائنٹ ایکشن کمیٹی میں کئی ایسی آوازیں اور چہرے صاف نظر آتے ہیں جو پوسٹر بوائے کی ضرورت کو پورا کرتے ہوئے نوجوانوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔