سیاسی کھینچاتانی کے 32 ماہ25 سیاسی کارکنوں کو فوجی عدالت سے سزا

حکومت اور اپوزیشن نے اپنے سخت مؤقف پر کچھ لچک دکھائی ہے اور بیک چینل رابطہ قائم کرکے بات چیت کا دروازہ کھولا ہے۔ یہ خبر اور اس کے نتیجے میں شروع ہونے والی بات چیت ملک کے سیاسی نظام کی بہتری کے لیے ایک نقطہ آغاز بن سکتی ہے، اور اسی سے بگڑتے ہوئے معاشی حالات بھی مستحکم ہونے کی امید کی جاسکتی ہے۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق نے پُرجوش پیش کش کی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لیے دفتر اور اُن کے گھر کے دروازے کھلے ہیں۔ حکومت نے مذاکرات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جس میں مسلم لیگ(ن) کے علاوہ پیپلزپارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، مسلم لیگ(ق)، بلوچستان کی باپ پارٹی اور مسلم لیگ (ض) کی نمائندگی بھی موجود ہے۔ تحریک انصاف کی صفوں سے بھی کمیٹی تشکیل دیے جانے کی مصدقہ اطلاعات ہیں۔ اسد قیصر اور دیگر راہنما کمیٹی میں شامل کیے گئے ہیں۔ تحریک انصاف کی جانب سے یہ فیصلہ اس لیے ہوا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، جو صرف اور صرف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بات چیت کے خواہش مند تھے، اب اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹ گئے ہیں، اسی لیے کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ کمیٹی کی تشکیل کے باوجود تحریک انصاف ابھی تک یکسو دکھائی نہیں دے رہی، تاہم حکومت کو ایک موقع دینے کے بہت سے حامی بھی تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی میں موجود ہیں۔ اس گروپ نے سول نافرمانی کی مہم کو مؤخر کرنے کی تجویز دی ہے، تاہم تحریک انصاف چاہتی ہے کہ 9 مئی کے واقعات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے، 26 نومبر ڈی چوک فائرنگ کیس کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے۔

اس حقیقت سے کسی کو بھی انکار نہیں ہے کہ سیاسی انتشار جہاں معیشت کے لیے برا ہے، وہیں حکومت کے لیے بھی اچھا نہیں ہے۔ عمران خان نے مذاکرات کی جانب قدم بڑھانے کے باوجود دھمکی بھی دی ہے اورسمندر پار پاکستانیوں سے کہا ہے کہ اگر حکومت ان کے مطالبات پورے نہیں کرتی تو وہ ’سول نافرمانی کا پہلا مرحلہ‘ شروع کریں گے۔ ان کے دو مطالبات ہیں: (1) سیاسی قیدیوں کی رہائی اور (2) 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کی تشکیل۔ یہ مطالبات ہوں یا نہ ہوں، ہر مسئلے کا حل بات چیت ہی ہے۔

پی ٹی آئی کی حکمت عملی میں تضادات واضح ہیں۔ ایک طرف پارٹی طویل عرصے سے اس بات پر قائم ہے کہ منتخب حکومت سے نہیں بلکہ صرف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بامعنی بات چیت کی جائے گی۔ دوسری طرف سول نافرمانی کی دھمکی، خاص طور پر ترسیلاتِ زر کا بائیکاٹ ناقابلِ عمل ہے کیونکہ بیرونِ ملک مقیم زیادہ تر پاکستانیوں کے لیے ترسیلاتِ زر اختیاری عیش و عشرت نہیں بلکہ اُن کے گھر والوں کے لیے لائف لائن ہیں۔ مغربی ممالک سے تو ملک میں بہت کم زرمبادلہ آتا ہے۔ ایسے میں سیاسی فائدے کے حصول کے لیے غریب گھرانوں کے لیے آنے والے سرمائے کو روکنے کی کوشش کرنا کیا عوام کی فلاح و بہبود کی علامت ہے؟ تحریک انصاف کو ایسی حکمت عملی بنانی چاہیے کہ وہ حکومت کو بامعنی مذاکرات میں شامل ہونے پر مجبور کردے، لیکن ایسا کرنے کے لیے پارٹی کو ایک بالغ سیاسی وجود کے بجائے ایک اشتعال انگیز فرقے کی طرح برتاؤ کرنے کی اپنی عادت کو ترک کرنا چاہیے۔

تحریک انصاف کی طرح مسلم لیگ(ن) میں بھی یکسوئی نہیں ہے، اُس کی صفوں میں بھی تقسیم موجود ہے۔ کچھ راہنما مذاکرات کا مطالبہ کررہے ہیں، جبکہ دیگر سخت مؤقف کے حامی ہیں، جب کہ حکومت کے عقابی عناصر کو یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ اُن کی سختی موجودہ سیاسی حالات کو مزید خراب کرسکتی ہے۔

جہاں تک 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کا تعلق ہے، یہ سنجیدہ اور مکمل تفتیش کے متقاضی ہیں۔ تاہم یہ معاملات عدالتوں سے تعلق رکھتے ہیں، سیاسی گفت و شنید میں بارگیننگ کے لیے انہیں استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ ان واقعات کو مذاکرات سے مشروط کرکے دونوں فریق عدلیہ کے کردار کو کمزور کرنے کی کوشش کریں گے۔حکومت اور اپوزیشن دونوں کو ایک دوسرے پر تحفظات ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک میں سیاست میں مکالمے کا کلچر نہیں ہے، اورشاید یہی وجہ ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد سے اُن کی جماعت دوسال سے مسلسل سڑکوں پر ہے، سیاسی حلقے تحریک انصاف کو مذاکرات کرنے کا مشورہ دیتے رہے، لیکن اس نے خود کو الگ تھلگ رکھنے یا صرف اور صرف اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کی ضد پکڑے رکھی۔ اس کے مسلسل انکار نے موجودہ تعطل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ تاہم مذاکرات کے لیے ایک مستقل اور قابلِ اعتماد پلیٹ فارم پیش نہ کرنے میں حکومت بھی ذمہ دار ہے۔ مذاکرات کی کامیابی کے لیے دونوں کو اپنی موجودہ رویہ کو ترک کرنا ہوگا۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو بداعتمادی اور تصادم کا چکر جمہوری عمل کو نقصان پہنچاتا رہے گا، جس سے ملک کا سیاسی مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔

8 فروری کے انتخابات سے پہلے، پی ڈی ایم حکومت کے 16ماہ سے لے کر نگران حکومت سمیت مجموعی طور پر 22ماہ کا عرصہ بنتا ہے، اور عام انتخابات کے بعد اتحادی حکومت کے اب تک 10مہینے گزرچکے ہیں۔ 32ماہ کے اس عرصے میں ملک مسلسل سیاسی کھینچاتانی کا شکار ہے، جس نے کمزور معیشت کو دیوالیہ پن کے کنارے لاکھڑا کیا، اور بار بار انتہائی سخت شرائط پر غیرملکی قرضوں کا سہارا لینا پڑا۔ حکومتی معاشی ایجنڈے کے حوصلہ افزا نتائج کے دعووں کے باوجود ملک کا سیاسی مستقبل ایک سوالیہ نشان بنا ہوا ہے اور تحریک انصاف کی طرف سے سول نافرمانی کی دھمکی اور اس کے نتیجے میں مفاہمت کی امیدوں پر پانی پھر سکتا ہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی میزبانی کے لیے تیار ہیں، اب ضروری ہوگا کہ فریقین مل بیٹھ کر مذاکرات کا ایجنڈا تیار کریں۔

اسلام آباد میں دوسرا بڑا موضوع9 مئی کے واقعات میں ملوث پائے جانے والے افراد کو فوجی عدالت سے سزا کا ملنا ہے۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات ِعامہ کے اعلامیے کے مطابق فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے سانحہ 9 مئی میں ملوث 25 مجرمان کو 10سال قیدِ بامشقت تک کی سزائیں سنا دیں، تمام مجرموںکو اپیل کا حق حاصل ہے۔ آئی ایس پی آر نے یہ بھی کہا کہ ’’ 9 مئی کے ماسٹر مائنڈ اور منصوبہ سازوں کو آئین و قانون کے مطابق سزا ملنے سے انصاف ہوگا، 9 مئی کے مقدمے میں انصاف فراہم کرکے تشدد کی بنیاد پر کی جانے والی گمراہ کن اور تباہ کن سیاست کو دفن کیا جائے گا، سیاسی پروپیگنڈے اور جھوٹ کا شکار بننے والے لوگوں کے لیے یہ سزائیں تنبیہ ہیں کہ مستقبل میں قانون کو ہاتھ میں نہ لیں،کسی کو سیاسی دہشت گردی کے ذریعے اپنی مرضی دوسروں پر مسلط کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، صحیح معنوں میں مکمل انصاف اُس وقت ہوگا جب 9 مئی کے ماسٹر مائنڈ اور منصوبہ سازوں کو آئین و قانون کے مطابق سزا مل جائے گی، 9مئی کے پُرتشدد واقعات پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاہ باب کی حیثیت رکھتے ہیں، سیاسی پروپیگنڈے اور جھوٹ کا شکار بننے والے لوگوں کے لیے یہ سزائیں تنبیہ ہیں کہ مستقبل میں قانون کو ہاتھ میں نہ لیں۔ نفرت اور جھوٹ پر مبنی سیاسی بیانیے کی بنیاد پر مسلح افواج کی تنصیبات پر منظم حملے کیے گئے اور اُن کی بے حرمتی کی گئی، یہ پُرتشدد واقعات پوری قوم کے لیے ایک شدید صدمہ ہیں، 9مئی کے واقعات زور دیتے ہیں کہ کسی کو سیاسی دہشت گردی کے ذریعے اپنی مرضی دوسروں پر مسلط کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، اس یوم سیاہ کے بعد تمام شواہد اور واقعات کی باریک بینی سے تفتیش کی گئی، ملوث ملزموں کے خلاف ناقابلِ تردید شواہد اکٹھے کیے گئے، کچھ مقدمات قانون کے مطابق فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے لیے بھجوائے گئے، مناسب کارروائی کے بعد ٹرائل ہوا، 9 مئی کی سزائوں کا فیصلہ قوم کے لیے انصاف کی فراہمی میں ایک اہم سنگِ میل ہے، جب کہ متعدد ملزمان کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کی مختلف عدالتوں میں بھی مقدمات زیر سماعت ہیں، دیگر ملزمان کی سزائوں کا اعلان اُن کے قانونی عمل مکمل کرتے ہی کیا جارہا ہے، ریاست پاکستان 9مئی کے واقعات میں مکمل انصاف مہیا کرکے ریاست کی عمل داری کویقینی بنائے گی۔ آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ 9 مئی کے مقدمے میں انصاف فراہم کرکے تشدد کی بنیاد پر کی جانے والی گمراہ اور تباہ کُن سیاست کو دفن کیا جائے گا، 9 مئی کے واقعات پر کیا جانے والا انصاف نفرت، تقسیم اور بے بنیاد پروپیگنڈے کی نفی کرتا ہے، آئین اور قانون کے مطابق تمام سزا یافتہ مجرموں کے پاس اپیل اور دیگر قانونی چارہ جوئی کا حق ہے۔

بہرحال جی ایچ کیو راولپنڈی حملہ کیس میں دس، دس سال قید کی سزا پانے والے 2مجرموں کو اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا ہے۔ اب وہ ہائی کورٹ سے رجوع کریں گے۔ اگرچہ آئی ایس پی آر کے بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ سزائیں ’انصاف کی فراہمی میں ایک اہم سنگ میل‘ کی نمائندگی کرتی ہیں، لیکن قریب سے جائزہ لینے سے کچھ خلا کا پتا چلتا ہے۔ اس میں دائرۂ اختیار کا سوال ضرور اٹھے گا۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ، جسے یہ ٹرائلز کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا، بنیادی طور پر جاسوسی اور خفیہ معلومات کے غیر مجاز افشا سے متعلق ہے۔ فوجی تنصیبات یا جناح ہاؤس پر حملہ کرنا اگرچہ بلاشبہ قابلِ مذمت ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ فوجی عدالتوں کے دائرۂ اختیار میں آتا ہے؟ آئی ایس پی آر کے مطابق ملزمان کو تمام قانونی حقوق فراہم کیے گئے تھے۔ تاہم جب مناسب عمل کے بنیادی اصولوں کے خلاف جانچا جائے تو یہ متضاد معلوم ہوتا ہے۔ کیا فوجی تنظیمی ڈھانچے کے پابند حاضر سروس افسران واقعی آزادانہ فیصلے دے سکتے ہیں؟ 25 افراد کے ناموں کے ساتھ سزاؤں کی ایک سطری وضاحت شاید ہی معقول فیصلوں کی اہل ہو۔ مزید برآں یہ مؤقف کہ مجرموں کا ’اپیل کا حق برقرار رکھا جاتا ہے‘ ایک اہم حقیقت کو نظرانداز کرتا ہے۔ ایف سی جی ایم کی

جانب سے اپیلیں ملٹری اپیل کورٹس اور بالآخر آرمی چیف کے پاس ہوتی ہیں، نہ کہ سویلین عدالتوں کے پاس، جو صرف ان مقدمات کا جائزہ لے سکتی ہیں جیسے کہ بدتمیزی یا کمی، دائرہ اختیار اور ثبوت یا جرم کے نتائج کا دوبارہ جائزہ لینے کی طاقت کے بغیر۔ ملک کے اہم سیاسی اور قانونی حلقوں نے شہریوں کے فوجی ٹرائلز کی مخالفت کی ہے کیونکہ یہ عمل بنیادی طور پر عدل و انصاف کے اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ سپریم کورٹ کے اکتوبر کے تاریخی فیصلے میں اس طرح کے مقدمات کی سماعت کو غیر آئینی قرار دینے سے اس مؤقف کی عکاسی ہوتی ہے۔ جب کہ یہ فیصلہ اپیل پر کالعدم ہے، آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کو فیصلوں کا اعلان کرنے کی اجازت دے دی ہے، جس سے پریشان کن قانونی غیر یقینی صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے۔ فوجی عدالتوں میں عام شہریوں پر مقدمہ چلانے کے بارے میں بنیادی سوالات، اور آیا 9 مئی کے واقعات فوجی دائرۂ اختیار میں آتے ہیں یا نہیں، یہ امر ابھی تک غیر طے شدہ ہے، جو ان سزاؤں کے جواز پر ایک طویل سایہ ڈال رہا ہے۔9 مئی کے واقعات کی سنگینی پر سوالیہ نشان نہیں ہے۔ فوجی تنصیبات پر حملے کے ذمہ داروں کو انصاف کا سامنا کرنا چاہیے، اور عوام فسادات کے حوالے سے سچائی کے مستحق ہیں۔ یہ تقاضا صرف سویلین عدالتوں میں شفاف اور منصفانہ ٹرائل سے ہی پورا ہوسکتا ہے۔