حکومت، پی ٹی آئی اوراسٹیبلشمنٹ مذاکرات

ایک طرف حکومت ہے تو دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ… دونوں ہی پر طاقت کا جنون حاوی ہے

حکومت، پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مفاہمت کے لیے مذاکرات کی ایک اور میز سجادی گئی ہے۔ اگرچہ اس سے پہلے پسِ پردہ کچھ نہ کچھ بات چیت کہیں نہ کہیں چل رہی تھی، مگر یہ عمل کوئی نتیجہ نہیں دے سکا۔ اب باقاعدہ رسمی طور پر پہلے پی ٹی آئی نے حکومت سےمذاکرات کے لیے اپنی سیاسی کمیٹی تشکیل دی اور اب وزیراعظم شہبازشریف نے سردار ایاز صادق کی سربراہی میں حکومتی اتحادی جماعتوں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی ہے جو پی ٹی آئی سے مذاکرات کرے گی۔ یقینی طور پر یہ کام حکومت نے سیاسی تنہائی میں نہیں کیا بلکہ حکومتی کمیٹی کی تشکیل میں اسے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یا دباؤ کا سامنا تھا۔ کیونکہ ایک بات تو طے ہے کہ اصل لڑائی اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان ہے، اور اگر پی ٹی آئی کو کچھ ریلیف ملنا ہے تو اس کا اختیار حکومت سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے۔ یہ بات بھی بہت حد تک واضح ہے کہ موجودہ حالات میں خود حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر داخلی اور خارجی دباؤ ہے کہ وہ پی ٹی آئی سے بات چیت کا راستہ نکال کر مفاہمت کی طرف بڑھیں۔ اس لیے مذاکرات جہاں پی ٹی آئی کی مجبوری ہیں، وہیں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ بھی مشکل میں ہیں کہ انہیں بھی درمیانی راستہ نکال کر آگے بڑھنا ہے۔ کیونکہ پاکستان کی سیاست اور معیشت جمود کا شکار ہیں، اور اس جمود کو توڑے بغیرکسی مثبت نتیجے پر نہیں پہنچا جاسکے گا۔ عمران خان نے حکومت کو اتوار تک کی ڈیڈلائن دی تھی کہ (1) گرفتار لوگوں کی رہائی کو ممکن بنایا جائے، اور (2) 9مئی اور 27نومبر کے واقعات کی چھان بین کے لیے اعلیٰ عدالتی کمیشن تشکیل دیا جائے۔ یہ مطالبات ماننے سے حکومت نے فوری طور پر انکار کردیا ہے۔ عمران خان نے دھمکی دی تھی کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو وہ ملک میں سول نافرمانی کی تحریک شروع کردیں گے، اور اس کی ذمہ دار حکومت ہوگی۔ اب دیکھنا ہوگا کہ مذاکرات کی بات آگے بڑھتی ہے یا سول نافرمانی کی؟ پی ٹی آئی میں ایک بڑا طبقہ مفاہمت اور بات چیت کا حامی ہے اور چاہتا ہے کہ حکومت سے مذاکرات کا راستہ کھلے تاکہ معاملات کو آگے بڑھایا جاسکے۔ لیکن حکومت سمجھتی ہے کہ پی ٹی آئی سے بات چیت میں جو کچھ بھی طے ہوگا اسے عمران خان تسلیم نہیں کریں گے، اور اسی بنیاد پر خواجہ آصف کے بقول عمران خان کی ضمانت کون دے گا کہ وہ مذاکرات کے نتیجے میں ہونے والے فیصلوں پر عمل کریں گے؟

ایک طرف مذاکرات کا کھیل جاری ہے، تو دوسری جانب عمران خان پر دباؤ بڑھانے کے لیے فوجی عدالت نے پی ٹی آئی کے 25 افراد کو 9مئی کے واقعات پر دو سے دس برس کی قید کی سزا سنادی ہے۔ آئی ایس پی آر کے بقول جب تک 9مئی کے ماسٹر مائنڈ یا منصوبہ ساز کو سزا نہیں دی جائے گی انصاف مکمل نہیں ہوگا۔ یقینی طور پر آئی ایس پی آر کا اشارہ عمران خان کی طرف ہے، اس تناظر میں مذاکرات کو دیکھا جائے تو ان کی کامیابی کے کوئی امکانات نظر نہیں آتے۔ اسی طرح حکمران طبقے نے اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ پر پی ٹی آئی سے مذاکرات کا فیصلہ تو کرلیا ہے، مگر دل سے وہ بھی نہیں چاہتے کہ پی ٹی آئی کو سیاسی راستہ دیا جائے۔

حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی اور عمران خان پر دباؤ بڑھاکر اُن کو مذاکرات کے تناظر میں اپنی شرائط پر رام کرنا چاہتے ہیں۔ بنیادی بات اس سیاسی بندوبست اور نظام کی دوبرس کے لیے قبولیت، حکومت گرانے کی کسی بھی قسم کی مہم سے گریز، اور ریاستی اداروں کے خلاف جاری مہم سے دست برداری ہے۔ ان ہی شرائط پر عمران خان کو بنی گالا تک محدود کیا جاسکتا ہے یا ان کو پشاور جیل بھی منتقل کرنے کا آپشن ہے۔ اگر عمران خان اتفاق کریں گے اور سڑکوں اور دھرنوں کے بجائے اپنی سیاسی مہم کو محض پارلیمنٹ تک محدود کریں تو اُن کو بھی دیگر ساتھیوں سمیت ریلیف مل جائے گا۔ عمران خان کے گرد حکومت اور اسٹیبلشمنٹ نے ایک سیاسی جال بنادیا ہے اور ان کا گھیر ا تنگ کیا جارہا ہے تاکہ وہ دباؤ میں آکر سمجھوتے کو ترجیح دیں۔ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے اس مطالبے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ فوری طور پر نئے انتخابات کا راستہ اختیار کیا جائے، اور نہ ہی حکومت اس تجویز کی حمایت کرے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کے حوالے سے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر امریکہ سمیت عالمی برادری کا دباؤ بڑھ رہا ہے اور اس کی کئی شکلیں بھی سامنے آئی ہیں، لیکن اسٹیبلشمنٹ اس دباؤ کے باوجود عمران خان کو فوری طور پر کوئی بڑا سیاسی ریلیف دینے کے لیے تیار نہیں، اور عمران خان بھی ایسا کوئی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں جو اُن کی سیاسی پوزیشن کو کمزور کرے۔ عمران خان بخوبی جانتے ہیں کہ اس وقت حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں پر دباؤ ہے، اور وہ اپنا دباؤ بڑھاکر اپنی شرائط پر بات چیت کرنا پسند کریں گے۔ عمران خان آسانی سے دوبرس کے سیٹ اَپ کو قبول نہیں کریں گے، اورنہ ہی موجودہ حکومت کی حیثیت کو تسلیم کریں گے۔ لیکن عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ اُن پر اپنی ہی پارٹی کا دباؤ بڑھ رہا ہے کہ مفاہمت کی سیاست کو بنیاد بناکر آگے بڑھیں اور پی ٹی آئی کے لیے سیاسی راستہ نکالا جائے۔ پی ٹی آئی کے بہت سے لوگ اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے میں ہیں، اور عمران خان بھی اس بات کو جانتے ہیں، مگر عمران خان یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ لوگ اُن کی شرائط سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کی شرائط پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی میں خاصی گروپنگ بھی دیکھنے کو مل رہی ہے اور پارٹی مجموعی طور پر مختلف حوالوں سے تقسیم نظر آتی ہے۔

دوسری طرف فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل پر بھی دیکھنا ہوگا کہ اب ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا کیا ردعمل آتا ہے۔ بقول پی ٹی آئی، فوجی عدالتیں سویلین کو سزائیں نہیں سنا سکتیں، اور پی ٹی آئی اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان بھی کرچکی ہے۔ اس بقول یہ سزائیں ملک میں انسانی حقوق کے منافی ہیں۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشنز بھی فوجی عدالتوں کے معاملے پر تقسیم نظر آتی ہیں، البتہ فوجی عدالتوں سے جو سزائیں سول افراد کو دی گئی ہیں اس پر عالمی برادری میں کڑی تنقید ہوگی اور حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا جو نئے ردعمل کو جنم دے گی۔ سوال یہ ہے کہ حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات اس ماحول میں کیسے ممکن ہوں گے جب حالات ہی سازگار نہیں، اور نہ ہی کوئی فریق حالات کو سازگار بناکر مذاکرات کی طرف بڑھنا چاہتا ہے۔ طاقت کے زور پر اگر مذاکراتی عمل کو آگے بڑھایا جائے گا تو اس کے مثبت نہیں نکلیں گے، بلکہ یہ عمل فریقین میں مزید بداعتمادی، تعطل اور سیاسی کشیدگی پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔ مذاکرات کی ناکامی کی دوسری وجہ مینڈیٹ سے محروم حکومت کی سیاسی سرپرستی ہے جو کہ سیاسی تناؤ اور سیاسی تقسیم میں مزید گہرائی پیدا کرے گی۔ یقینی طور پر مذاکرات اور بات چیت ہی واحد آپشن ہے، مگر یہ کسی کی حمایت یا مخالفت میں کسی ڈکٹیشن کی بنیاد پر نہیں ہونے چاہئیں۔ لیکن یہاں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی کو سرنڈر کرنے یا اسے نیچا دکھانے کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کررہی ہیں، جو یقینی طور پر پی ٹی آئی میں بھی بڑی قبولیت پیدا نہیں کرے گا۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو اندازہ نہیں کہ ملک کے سیکورٹی کے حالات کہاں چلے گئے ہیں یا وہ کیا بڑا بگاڑ پیدا کررہے ہیں! پیر23 دسمبرکو جنوبی وزیرستان میں دہشت گردوں نے افغانستان سے دراندازی کی کوشش کی جس کے نتیجے میں ہمارے 17جوان شہید ہوئے۔ دن بدن سیکورٹی کے حالات کی سنگینی نے ملک کے سیکورٹی کے معاملات پر بڑے سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ ان حالات کی ایک بڑی وجہ ملک کا داخلی عدم استحکام ہے، اور داخلی حالات میں جو بگاڑ یا سیاسی تقسیم ہے اس کا براہِ راست فائدہ دہشت گرد اٹھا رہے ہیں۔ ایسے میں اگر پی ٹی آئی کی جانب سے بھی سول نافرمانی جیسی تحریک کا اعلان ہوتا ہے تو ملک داخلی طور پر مزید مشکلات کا شکار ہوسکتا ہے۔ خاص طور پر جب بانی پی ٹی آئی کو بھی فوجی عدالت میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا جارہا ہے یا اُن کو عدالتوں سے سزائیں دینی ہیں تو پھر مفاہمت اور مذاکرات کا راستہ تو خود حکومت اور اسٹیبلشمنٹ بند کررہی ہے۔ اگر عمران خان اور بشریٰ بی بی کو عدالتوں سے سزائیں ہوتی ہیں یا ان پر مزید سختی یا ان کو فوجی عدالتوں کی طرف دھکیلا جاتا ہے تو پھر مذاکرات کا آپشن عملی طور پر ختم یا غیر اہم ہوجائے گا۔ پی ٹی آئی میں جو لوگ مذاکرات کی بات کرتے ہیں اُن کو بھی عملی طور پر مایوسی ہوگی کہ مذاکرات کو بنیاد بناکر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں نے ہمیں خراب کیا ہے۔ اس لیے پی ٹی آئی کو دیوار سے لگانے کی پالیسی درست نہیں، اور اس کے ساتھ طاقت کے بجائے سیاسی راستہ اختیار کرنا ہی ملک کے مفاد میں ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ جو لوگ اصل فیصلہ ساز ہیں وہ مفاہمت بھی بزور طاقت ہی کرنا چاہتے ہیں۔ طاقت کی یہی حکمتِ عملی ہمیں مسلسل بحران کی طرف دھکیل رہی ہے مگر ہم سیاسی مہم جوئی اور سیاسی ایڈونچرز سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں۔ ایک طرف حکومت ہے تو دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ… دونوں ہی پر طاقت کا جنون حاوی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی حکمتِ عملی کے بجائے طاقت ہی کا کھیل ہماری بڑی طاقت ہے اور اسی کو بنیاد بناکر ہمیں اپنے سیاسی مخالفین سے نمٹنا چاہیے۔ یہ حکمتِ عملی ملک میں ایک بڑے ردعمل کی سیاست کو جنم دے رہی ہے، اور سیاسی سطح پر پہلے سے موجود تقسیم کو مزید گہرا کررہی ہے۔ ان حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنی سابقہ غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھا جائے، اور وہ کچھ نہ کیا جائے جو ماضی اور آج کی سیاست میں ہورہا ہے۔

دوسری جانب امریکہ کا دباؤ بھی پاکستان پر مسلسل بڑھ رہا ہے، اور نئے امریکی صدر نے جن اہم عہدوں پر نئی سیاسی تقرریاں کی ہیں اُن میں سے بیشتر لوگ پاکستان مخالف اور بھارت یا اسرائیل نواز ہیں۔ اس لیے امریکہ بھی موجودہ حالات میں ہمیں مشکل ٹائم دینا چاہتا ہے اور ہمیں امریکی مفادات کو بھی کسی نہ کسی شکل میں اہمیت دینا ہوگی۔