فوجی عدالتوں نے 9 مئی کے واقعات کے ملزمان کی پہلی کھیپ کو سزائیں سنا دی ہیں جن پر عمل درآمد بھی شروع کردیا گیا ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کی طرف سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق 9 مئی 2023ء کو قوم نے سیاسی طور پر بھڑکائے گئے اشتعال انگیز تشدد اور جلائو گھیرائو کے افسوس ناک واقعات دیکھے جو پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاہ باب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ نفرت اور جھوٹ پر مبنی سیاسی بیانیے کی بنیاد پر مسلح افواج کی تنصیبات بشمول شہدا کی یادگاروں پر منظم حملے کیے گئے اور ان کی بے حرمتی کی گئی۔ یہ پُرتشدد واقعات پوری قوم کے لیے ایک شدید صدمہ ہیں اور واضح طور پر زور دیتے ہیں کہ کسی کو بھی سیاسی دہشت گردی کے تحت اپنی مرضی دوسروں پر مسلط کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس یوم سیاہ کے بعد تمام شواہد اور واقعات کی باریک بینی سے تفتیش کی گئی اور ملوث ملزمان کے خلاف ناقابلِ تردید شواہد اکٹھے کیے گئے۔ کچھ مقدمات قانون کے مطابق فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے لیے بھجوائے گئے جہاں مناسب قانونی کارروائی کے بعد ان مقدمات کا ٹرائل ہوا… عدالتِ عظمیٰ نے 13 دسمبر 2024ء کو سات رکنی آئینی بینچ کے ذریعے زیر التوا مقدمات کے فیصلے سنانے کا حکم صادر کیا۔ یہ مقدمات عدالتِ عظمیٰ کے ایک سابقہ حکم کے تحت زیر التوا تھے۔ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے پہلے مرحلے میں 25 ملزمان کو سزائیں سنائی ہیں، سزائیں پانے والے ملزمان کو تمام قانونی حقوق فراہم کیے گئے ہیں، فوجی عدالتوں کی جانب سے تشدد اور جلائو گھیرائو کے ان مقدمات میں ملزمان کو دو سے دس برس قیدِ بامشقت کی سزائیں سنائی گئی ہیں اور پندرہ ملزمان کو دس دس سال، دو ملزمان کو چار چار سال، چار ملزمان کو دو دوسال اور باقی چار ملزمان کو نو سال، سات سال، چھ سال اور تین سال قیدِ بامشقت کا حکم سنایا گیا ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے بیان میں مزید بتایا گیا ہے کہ ملزمان نے اعترافی بیانات میں تسلیم کیا ہے کہ تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کی فوج مخالف تقاریر نے ان کی ذہن سازی کی اور تحریک انصاف کے دیگر رہنمائوں نے انہیں نو مئی کو حملوں پر اکسایا۔ نو مئی کے واقعات پر مکمل انصاف اُس وقت ہوگا جب ماسٹر مائنڈ منصوبہ سازوں کو سزا ملے گی، سیاسی پروپیگنڈے اور زہریلے جھوٹ کا شکار بننے والے لوگوں کے لیے یہ سزائیں تنبیہ ہیں کہ مستقبل میں وہ کبھی قانون ہاتھ میں نہ لیں۔ سزائیں پانے والے لوگوں کو اپیل کا حق حاصل ہے۔
9 مئی 2023ء کو تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد تحریک انصاف کے کارکنوں کے احتجاجی مظاہروں کے دوران جو پُرتشدد واقعات ہوئے اور فوجی تنصیبات کو جس طرح نقصان پہنچایا گیا اس کی آئین و قانون پر یقین رکھنے والا کوئی بھی شخص تائید و حمایت نہیں کرسکتا۔ یہ جوکچھ بھی ہوا بہرحال نہایت غلط، خلافِ قانون اور ملک و قوم کے لیے ناقابلِ قبول ہے اور اس میں ملوث ایک ایک فرد کو سزا ملنا بھی ضروری ہے، جیسا کہ فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے پریس ریلیز میں بھی کہا گیا ہے کہ یہ سزائیں دوسرے لوگوں کے لیے تنبیہ یا باعثِ عبرت ہوں گی کہ مستقبل میں وہ کبھی قانون ہاتھ میں نہ لیں۔ تاہم اس ضمن اس امر کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ 9 مئی 2023ء کو جو کچھ ہوا اُس کے بہت سے حقائق تاحال پردۂ اخفا میں ہیں۔ تحریک انصاف ان واقعات کے فوری بعد سے آج تک بار بار اصرار کررہی ہے کہ ان واقعات کی عدالتی تحقیقات کروائی جائیں، مگر تحریک انصاف کے اس نہایت جائز مطالبے پر آج تک سنجیدگی سے توجہ نہیں دی گئی۔ اب حکومت اور تحریک انصاف کے وفود کے مابین جو مذاکرات ہورہے ہیں ان کا بھی ایک اہم نکتہ یہی مطالبہ ہے کہ نو مئی کے واقعات کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنایا جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے اور حقائق قوم کے سامنے آسکیں۔ نو مئی کے واقعات یقیناً ناقابلِ قبول ہیں، تاہم اس ضمن میں یہ سوال آج بھی جواب طلب ہے کہ جب یہ واقعات رونما ہورہے تھے تو امن وامان قائم رکھنے کے ذمہ دار ادارے کہاں تھے؟ ان کی طرف سے ان انتہائی افسوسناک واقعات کو جو دنیا بھر میں ملک کی بدنامی کا باعث بنے، روکنے کے لیے کوئی ٹھوس اور مؤثر کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ ملک بھر میں ان واقعات میں ملوث عناصر کو کھل کھیلنے کی کھلی چھوٹ کیوں دی گئی؟ امن و امان برقرار رکھنے اور ان تنصیبات کی حفاظت کے ذمہ داروں نے توڑپھوڑ کرنے والوں کی مزاحمت اور تنصیبات کی حفاظت کے ضمن میں اپنے فرائض سے غفلت کیوں برتی؟ اور سب سے اہم سوال یہ کہ ان واقعات کے بعد قانون ان اداروں کے فرائض میں غفلت کے مرتکب افسران اور اہلکاروں کے خلاف آج تک حرکت میں کیوں نہیں آیا؟ توڑپھوڑ میں ملوث لوگوں کو سزا دینا تو ضروری ہے مگر کیا فرائض میں کوتاہی کے مرتکب ان سرکاری حکام اور اہلکاروں کا احتساب قانون کا تقاضا اور آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے لازم نہیں؟
جہاں تک فوجی عدالتوں سے نو مئی کے ملزمان کو سزائیں سنانے کا معاملہ ہے اور پھر اس پر یہ دھمکی آمیز بیان کہ ’’مکمل انصاف اُس وقت ہوگا جب ماسٹر مائنڈ اور منصوبہ سازوں کو سزا ملے گی‘‘ جس کی تائید وزیر دفاع کی جانب سے بھی بار بار کی جا رہی ہے… اور اس سے سارے معاملے کے پسِ پشت کارفرما سوچ اور جذبے کی واضح نشاندہی بھی ہوجاتی ہے، سوال یہ ہے کہ اس وقت کیا ملک میں مارشل لا یا فوجی آمریت مسلط ہے جو ملک کے آئینی عدالتی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار کیا جا رہا ہے؟ عوام میں پہلے ہی ملک میں رائج الوقت عدالتی نظام سے متعلق بہت سے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں، ان کی موجودگی میں جب ریاست کا ایک اہم ستون اور منظم ترین تسلیم کیا جانے والا ادارہ بھی ملک کے آئینی عدالتی نظام پر اعتماد کرنے کے بجائے اپنے معاملات میں اپنی عدالتیں لگاکر سزائیں سنانے کو ترجیح دے گا تو کیا یہ عوام کے عدالتی نظام سے متعلق شکوک و شبہات کو تقویت دینے اور عدم اعتماد بڑھانے کا سبب نہیں بنے گا؟ کیا یہ صورتِ حال ملک و قوم کے مفاد میں ہوگی؟ یوں بھی کیا فوجی عدالتوں کا اپنا ماضی اتنا بے داغ ہے کہ قوم ان کے فیصلوں کو بے چوں و چرا مبنی بر انصاف تسلیم کرلے؟ کیا یہ فوجی عدالت ہی نہیں تھی جس نے ملک کے معتبر اور جید ترین علماء میں شمار ہونے والے مفکرِ اسلام و مفسرِ قرآن مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو ’’قادیانی مسئلہ‘‘ نامی کتابچہ تحریر کرنے پر تختۂ دار پر لٹکا دینے کی سزا سنا دی تھی، حالانکہ علمائے امت کا اجماع موجود تھا اور ہے کہ قادیانی دائرۂ اسلام سے خارج ہیں… سید مودودیؒ نے اس حقیقت کو دلائل و براہین سے ’’قادیانی مسئلہ‘‘ میں ثابت کیا تھا۔ پھر سید مودودیؒ اور دیگر علماء کے اسی مؤقف کی ملک کی قومی اسمبلی نے طویل بحث مباحثے کے بعد نہ صرف تائید کی بلکہ ذوالفقار علی بھٹو جیسے ’’ترقی پسند‘‘ اور ’’روشن خیال‘‘ وزیراعظم کے اقتدار میں اس کی روشنی میں قانون سازی بھی کی گئی۔ ایک طرف اجماعِ امت کا یہ عالم تھا کہ تمام مکاتبِ فکر اور باہم بے شمار اختلافات رکھنے کے باوجود تمام مسالک کا متفقہ فیصلہ تھا کہ قادیانی دائرۂ اسلام سے خارج ہیں مگر دوسری جانب اسلامی جمہوریہ پاکستان کی فوجی عدالت اسی حقیقت کو ثابت کرنے پر مولانا مودودیؒ کو چھوٹی موٹی قید یا جرمانہ وغیرہ نہیں، سزائے موت کا مستحق قرار دے رہی تھی، یہ الگ بات ہے کہ اندرون اور بیرون ملک بھرپور احتجاج کے باعث حکومت کے لیے فوجی عدالت کی یہ سزا ’’آسمان پہ تھوکا، منہ پر گرتا ہے‘‘کے مترادف ثابت ہوئی۔ تاہم سوال یہ بھی ہے کہ اس طرح کی عدالتوں کو سیکڑوں لوگوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا جانا انصاف کے تقاضوں کو پورا کر پائے گا؟ خاص طور پر ان حالات میں جب کہ اندرونِ ملک ہی نہیں، بین الاقوامی برادری خصوصاً یورپی یونین وغیرہ کی سطح پر ابھی سے ان فیصلوں کو ہدفِ تنقید بنایا جا رہا ہے۔(حامد ریاض ڈوگر)