کچھ باتیں کتاب میلے کی، کچھ مَیلے پن کی

کتابوں کے میلے ملک بھر میں ہوتے ہیں۔ بالخصوص ملک کے بڑے بڑے شہروں میں۔ اِن میلوں میں مرد و زن اور بچوں کی بڑی تعداد موج زن نظر آتی ہے۔ لوگ کتابیں خریدتے بھی ہیں اور کتابوں سے جھولے بھر بھر کے گھر لے جاتے نظر بھی آتے ہیں۔ گمان ہے کہ موقع نکال کر پڑھ بھی لیتے ہوں گے۔ کل سے کراچی میں بھی کتابوں کا ایک میلا لگا ہوا ہے۔ میلا ہندی لفظ ہے۔ اُردو لغات میں بھی یہی املا ملتا ہے۔ مگر نہ جانے کیوں یہ ہندی لفظ ہمارے ہاں عربی اور فارسی قاعدے کے مطابق ’میلہ‘ لکھا جانے لگا ہے۔ جا بجا ’کتاب میلہ‘ ہی لکھا دیکھا ہے۔ ممکن ہے کہ مفتیانِ لغت اس املا کو مباح قرار دے ڈالیں۔ فقہی اصطلاح میں ’مباح‘ اُس کام کو کہتے ہیں جس کا کرنا جائز اور روا ہو لیکن نہ کرنے پر گناہ نہ ہو۔ بعض لوگ ہر کام کو جائز اور روا قرار دینے، یعنی ہر کام کی ’اِباحت‘ کے حیلے بہانے ڈھونڈنے میں لگے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ ’اِباحی‘ یا ’اباحیت پسند‘ کہلاتے ہیں۔ غالباً ایک فرقہ بھی ’اِباحیہ‘ کہلاتا ہے جو ہر فطری کام کے جواز کا قائل ہے۔ شریعت کی پابندیوں سے آزاد ہونے کی کوشش ہی ’اباحیت‘ ہے۔ یہ کوشش ناصرؔ نے بھی کر دکھائی:

آبِ انگور میں اے شیخ تردُّد کیا ہے؟
میرے نزدیک تو آئی ہے اِباحت اس کی

’میلا‘ ہجوم کے معنی دیتا ہے۔ انبوہ، ازدحام اور مجمعِ عام۔ مولوی نورالحسن نیرؔ مرحوم ’’نوراللغات‘‘ میں میلے کے معانی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’سیر، تماشا، کسی خاص جگہ پر ہر قسم کے لوگوں کا باہم مل کر اکٹھا ہونا۔ وہ مقام جہاں تاریخِ معیّنہ پر سال میں ایک بار لوگوں کا جماؤ ہو اور ہر قسم کے دکان دار دکانیں لگائیں۔‘‘

ملک بھر میں صوفیا اور مشائخ کا سالانہ عرس منایا جاتا ہے۔ بعض پیروں کے مزاروں پر میلا بھی لگایا جاتا ہے۔ وہاں لوگوں کا جماؤ بھی ہوتا ہے اور ہر قسم کے دکان دار اپنی اپنی دکانیں لگا لیتے ہیں۔ جو جو کچھ بک سکتا ہے وہاں بیچ دیا جاتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے کہاوتوں اور ضرب الامثال میں یہ شرط بھی رکھی گئی ہے کہ میلے میں جاؤ تو جیب میں دھیلے رکھ کر جاؤ۔ ایک پنجابی ضرب المثل ہے:

’’پَلّے نہیں دھیلا، کردی میلا میلا‘‘

’میلے‘ کا قافیہ اکثر شعرا نے ’اکیلے‘ باندھا ہے۔ شاید ’میلے‘ کا نقیض ’(یا میلے کی ضد)اکیلے‘ ہی ہو۔ بحرؔ بعد از وفات فرماتے ہیں:

ہمیں کیا جو تُربت پہ میلے رہے
یہ سب کچھ ہوا، ہم اکیلے رہے

کسی محفل میں زیادہ لوگ جمع ہو جائیں تولوگ اس محفل کو بھی میلے سے تشبیہ دینے لگتے ہیں۔ ایسی ہی ایک محفل میں مصحفی پہنچ گئے۔ بس اُن کے پہنچنے کی دیر تھی کہ محفل میلے میں تبدیل ہوگئی:

گیا میں اُس کی مجلس میں تو وہ دربان سے بولا
یہ مجلس ہے کہ میلا جو چلا آتا ہے ہر کوئی

مَثَل مشہور ہے کہ ’ایک اکیلا، دو کا میلا‘۔ مراد یہ کہ (میلے میں) تنہا شخص تو تنہائی ہی محسوس کرتا رہ جائے گا، دو ہوں گے تو مل کر لطف اُٹھائیں گے۔ یہ بھی غالباً اُسی مفہوم کی کہاوت ہے کہ ’ایک سے دو بھلے‘۔ ہمارے ہاں تو خیر تیسرے کو بھی بھلا ہی سمجھا جاتا ہے اور اُس کا بھی خیرمقدم کیا جاتا ہے، مگر انگریزوں کے ہاں تیسرا آدھمکے تو اُس کا مصحفی کے محبوب جیسے رویّے سے استقبال کیا جاتا ہے۔ لہٰذا انگریزی کہاوت کچھ یوں ہے کہ “Two’s a company, three’s a crowd”گویا انگریزوں کے ہاں دو کا نہیں، تین کا میلا لگتا ہے۔

جن لوگوں کو میلا پسند نہیں، وہ اس کی ’’میلا ٹھیلا‘‘ کہہ کر تحقیر کرتے ہیں اور اُس میں جانے سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ رندؔ بھی شاید ایسے ہی شرفا میں سے تھے۔ سو اپنے محبوب کی اخلاقی تربیت کرتے ہوئے اُسے سمجھاتے ہیں:

لوگ بد وضع کہیں گے تم کو
میلے ٹھیلے کبھی جایا نہ کرو

’میلا‘ میں سے الف نکال دیجیے تو ’میل‘ بچتا ہے، جس کا تلفظ آپ کو ’ای میل‘ یا ’خیبر میل‘ میں مل جائے گا۔ میل جول کا مطلب ہے باہم اتفاق اور باہم ربط ضبط۔ میلے میں بچھڑ جانے یا بھیڑ میں کھو جانے کا دھڑکا تو لگا ہی رہتا ہے، لیکن میلے ہی میں میل جول کے مواقع بھی مل جاتے ہیں۔ ’میل‘ کا مطلب ملنا، ملاپ یا دوستی ہے۔ ملاپ ہوجانے یا مخلوط ہوجانے کے معنوں میں بھی ’میل‘ بولتے ہیں۔ جیسے اکثر کسی اسٹیشن پر دو ریل گاڑیوں کا میل ہوتا ہے۔ یا جیسے خچر، گھوڑے اور گدھے کے میل سے ہوتا ہے۔ ’میل‘ کے معنی مناسبت اور موافقت کے بھی ہیں۔ مثلاً خواتین کو اکثر یہ پریشانی لاحق رہتی ہے کہ لباس کے رنگ سے دوپٹے کے رنگ کا میل نہیں ہورہا ہے۔ یا جیسے کہا جائے کہ

’’وہ تو ہر وقت ہر شخص پر فقرے چست کرتے رہتے ہیں، اُن سے میری طبیعت میل نہیں کھاتی۔‘‘

اُردو میں ہندی ہی سے آیا ہوا ایک اور ’مَیل‘ بھی ہے ، جس میں میم پر زبر ہے۔ اس کا تلفظ گئو ماتا کے پتی ’بَیل‘ جیسا ہے۔ اس مَیل کو دُور کرنے، چھڑانے یا صاف کرنے کی فکر کی جاتی ہے۔ معنی: گندگی، کیچڑ، چیپڑ یا بدن وغیرہ پر جم جانے والی مٹی۔ اسی سے اسمِ صفت مَیلا بنا ہے۔ اِملا یکساں ہونے کی وجہ سے اگر کہیں صرف یہ لکھا نظر آئے کہ ’’کراچی میلا لگ رہا ہے‘‘ تو اس کا مفہوم اُس وقت تک واضح نہیں ہوگا جب تک بول کر نہ بتایا جائے کہ کوڑے کرکٹ اور گندگی کی وجہ سے کراچی مَیلا لگ رہا ہے یا کراچی کے نام سے کوئی کتاب میلا لگ رہا ہے۔ مَیل کچیل والا ’میلا‘ کثیرالمعانی ہے۔ غبار آلودہ، گدلا، خاک دھول میں بھرا ہوا، غیر مصفا اور گندا، وغیرہ وغیرہ۔ مصحفی کہتے ہیں:

کپڑے پہنے ہوئے رہتا ہوں میں اکثر میلے
پر کسی سے نہیں ہوتے مرے تیور میلے

گندی حرکتوں کی وجہ سے کمینے، رذیل، چور اُچکّے، اُٹھائی گیرے، جواری، اوباش اور بدچلن شخص کو بھی مَیلا کہا جاتا ہے۔ ہمارے شہر کراچی کو ایسے ہی کچھ مَیلوں نے اتنا مَیلا کر دیا ہے کہ اب اپنا شہر دیکھیں تو دِل مَیلا ہونے لگتا ہے۔خیر مٹی میں مل کر تو سب ہی میلے ہو جائیں گے۔ مصحفی نے اس صفت کو اپنی غزل کی ردیف بنا کر کئی مَیلے مَیلے اشعار کہہ ڈالے۔ مطلع تو آپ اوپر پڑھ ہی چکے ہیں:

میں مکدّر جو کبھی مسجدِ جامع میں گیا
میری پرچھائیں سے ہو جائیں گے پتھر میلے
خلعتِ خاک میں عالم ہے جو یک رنگی کا
واں نظر آتے ہیں درویش و تونگر میلے

بات تو’کتاب میلے‘ سے چلی تھی، جو کراچی میں لگا ہوا ہے۔میلا منعقد ہونے کو’میلا لگنا‘اور ’میلا جُڑنا‘ بھی کہتے ہیں ۔ میلے میں جانے یا میلے کی سیر کرنے کو ’میلا کرنا‘ بولا جاتا ہے۔سو ہم بھی ’میلا کرنے‘ کراچی آپہنچے ہیں۔اِن شاء اللہ آج شام چار بجے ’کتاب میلے‘ میں کراچی کے احباب سے میل ملاقات کرنے کا ارادہ ہے۔ خدا اگر کامیاب کر دے۔