تحریک اقامتِ دین کارواں اور میرِ کارواں

اقامتِ دین، غلبہ دین یا تحریک اقامتِ دین.. ان باتوں کے لیے مولانا مودودیؒ نے براہِ راست قرآن اور سیرتِ رسولؐ سے استدلال کیا ہے۔ اسی اقامتِ دین کی تحریک نے عالم اسلام اور پوری مغربی دنیا میں اپنے اثرات قائم کیے ہیں، پوری دنیا میں اسلام نے جو اثرات چھوڑے ہیں ان میں مولانا مودودیؒ کی اقامتِ دین کی تحریک نے ایک نمایاں کردار ادا کیا ہے۔

لیاقت بلوچ نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان اسی جدوجہد کے بارے میں رقم طراز ہیں:

”جماعت اسلامی نے اپنی تاسیس کے بعد اقامت ِ دین، اشاعت ِ دین، خدمت ِ خلق اور سیاسی و جمہوری محاذ پر امانت، دیانت، اہلیت اور خدمت کے لیے مسلسل جدوجہد کی ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ مرحوم و مغفور کی تحریک اور فکر کے پوری دنیا میں گہرے اثرات ہیں۔ اشتراکیت، مغربی سرمایہ دارانہ تہذیب، قوم پرستی اور سیکولرازم و الحاد کے خلاف قرآن و سنت کی روشنی میں دلیل و تبلیغ سے انہوں نے مؤثر اور کامیاب کردار ادا کیا ہے۔ اسلام کے اجتماعی نظام اور فرد، خاندان، معاشرہ اور ریاست پر اسلام کی بالادستی کی حقیقت کو آشکار کیا ہے۔ دنیائے انسانیت کو الحادی تہذیب اور مادہ پرستانہ نظام نے تباہی سے دوچار کردیا ہے۔ جماعت اسلامی نے انسانوں کی فلاح اور انہیںراہِ راحق پر چلانے کے لیے مسلسل جدوجہد جاری رکھی ہے۔

دورِ حاضر میں غلبہ اسلام کی تحریک کو شاہ ولی اللہؒ، جمال الدین افغانیؒ، علامہ اقبال، امام حسن البنا، سید قطب شہید اور دیگر مفکرین نے پروان چڑھایا، لیکن اقامتِ دین کی تحریک کو پروان چڑھانے، وسیع کرنے، مؤثر بنانے اور ہمہ گیر طور پر منظم کرنے میں سب سے بڑا اور نمایاں کردار مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کا ہے۔“

لیاقت بلوچ مزید لکھتے ہیں: ”اقامت ِدین کا کارکن سماج کی بگڑی اقدار کے خلاف کھڑا ہوتا ہے۔ معاشرے میں پھیلی ہوئی غلط فکر، غلط رسوم و روایات، عقائد و نظریات، افکار و تصورات، میلانات و رجحانات اور عزت و ناکامی کے بنائے انسانی پیمانوں سے بغاوت کرتا ہے۔ اس پر معاشرے کی مقتدر قوتوں کا اتنا شدید دبائو ہوتا ہے کہ وہ اس کے مقابلے میں ٹک نہیں سکتا جب تک کہ اس کی پشت پر کوئی ایسی طاقت موجود نہ ہو جو انسانوں سے زیادہ قوی، پہاڑ سے زیادہ مضبوط اور زندگی سے زیادہ اٹل ہو۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس طوفانِ کش مکش میں یکہ و تنہا، بے یارو مددگار نہیں چھوڑتا کہ وہ حزن و غم اور احساسِ ناتوانی سے ہمت چھوڑ بیٹھیں، بلکہ مالکِ کائنات کی رحمت، شفقت اور محبت کا ہاتھ ان پر ہوتا ہے۔

’’تحریک اقامت ِ دین.. کارواں اور میرِ کارواں‘‘ میں دعوت کو موضوعِ بحث بناکر ایک پورا لائحہ عمل پیش کیا گیا ہے۔ یہ کتاب ہر سطح کے کارکن کی ضرورت ہے جس میں جماعتی زندگی کے حوالے سے ہر شعبے کے لیے نہایت عمدہ معلومات ملیں گی، سوچ کے نئے دروازے کھلیں گے، تحریک مزید حرکت میں آئے گی اور ہم اپنے قدم آگے بڑھتے ہوئے پائیں گے۔