مرزا اسداللہ خان غالبؔ (1797ء۔ 1869ء) اردو زبان کے ایک ایسے شاعر ہیں جن کے ذکر کے بغیر اردو زبان کی تاریخ مکمل نہیں کہلا سکتی۔ کلامِ غالب کی مقبولیت و معنویت کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ غالب ؔ کل بھی غالب تھا اور غالبؔ آج بھی غالب ہے۔ بقول آلِ احمد سرور:
’’جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے، غالبؔ کے کلام کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ غالبؔ کی زندگی، ان کی شخصیت اور شاعری، ان کے خطوط اور دیگر تحریروں کے متعلق تلاش و تحقیق اور تحسین و تنقید کا سلسلہ برابر جاری ہے اور شخصیت کی رنگینی اور تصانیف کی جامیعت کے پیش نظر یقین ہے کہ جاری ہی رہے گا۔‘‘
غالبؔ نے کہا تھا:
کوکبم را درِ عدم اوج قبولی بودہ است
شہرت شعرم بہ گیتی بعد من خواہد شدن
(میرے ستارۂ بخت کو عدم میں اوجِ قبول حاصل تھا۔ میری شاعری کی شہرت بھی اس دنیا میں میرے بعد ہوگی۔ یعنی جب مرجاؤں گااور عدم میں چلا جاؤں گا)
لیکن غالبؔ اپنے عہد کے غالباً پہلے شاعر ہیں جنھوں نے اپنی زندگی میں اپنے کلام کی پانچ اشاعتیں 1841ء۔ 1847ء، 1861ء 1862ء اور 1863ء میں دیکھیں۔ غالبؔ نے اپنی زندگی میں اپنے کلام کے مختلف اوقات میں قلمی نسخے بھی ترتیب دیے تھے، جنہیں غالب شناسوں نے ان کے وصال کے بعد تلاش کرکے لوگوں کے سامنے پیش کیا، جن میں ’’نسخہ عرشی زادہ‘‘ (1816ء)، ’’نسخہ بھوپال‘‘(1821ء)، ’’نسخہ رام پور‘‘ (1832ء)، ’’نسخہ شیرانی‘‘(1836ء)، ’’گل رعنا‘‘ (1838ء)، ’’نسخہ کراچی‘‘(1838ء)، ’’نسخہ دبستہ‘‘ (1845ء)، ’’نسخہ کریم الدین‘‘ (1845ء)، ’’نسخہ رام پور جدید‘‘(1855ء) شامل ہیں۔ انھی میں ایک ’’نسخہ حمیدیہ‘‘ بھی ہے۔
’’نسخہ حمیدیہ‘‘ کلام غالب کے 1821ء کے اُس قلمی نسخے کی مطبوعہ شکل ہے جسے مفتی انوارالحق نے 1921ء میں غالب کے دیگر مطبوعہ کلام کو شامل کرکے شائع کرایا۔ غالب کے 1821ء کے اس قلمی نسخے کو ان کے تمام قلمی نسخوں میں خاص اہمیت حاصل ہے، کیوں کہ اس نسخے میں ان کا تقریباً وہ تمام کلام شامل ہے جو انہوں نے پہلے دیوان کی اشاعت کے وقت خارج کردیا تھا۔ اس نسخے کی اشاعت سے جہاں ایک طرف غالب کا ابتدائی کلام سامنے آیا، وہیں دوسری جانب ان کی شاعری کے ارتقائی مراحل کو بھی سمجھنے کا موقع ملا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ غالب کے تمام قلمی نسخوں میں جتنا اِس نسخے پر لکھا گیا ہے، اتنا کسی اور قلمی نسخے پر نہیں لکھا گیا۔ ماہرینِ غالبیات نے نہ صرف مفتی انوارالحق کے مرتب کردہ دیوان پر لکھا بلکہ قلمی نسخے کی کتابت سے لے کر اس کی گمشدگی تک درجنوں مضامین لکھے۔
پیش نظر کتاب ’’دیوانِ غالب قلمی 1237ھ/ 1821ء المعروف بہ نسخہ حمیدیہ (دریافت۔ تحقیق۔ تدوین۔ گم شدگی۔ بازیابی)‘‘ میں ممتاز محقق اور اردو زبان و ادب کے استاد ڈاکٹر داؤدعثمانی نے غالب کے اس قلمی مخطوطے پر تحریر کردہ مضامین و مقالات کو جو اِس گوہرِ نایاب کی دریافت سے لے کر گم شدگی و بازیابی اور اشاعت پر مشتمل ہیں، یک جا کردیا ہے۔
رنگ ِ ادب پبلی کیشنز کے روحِ رواں شاعر علی شاعرؔ رقم طراز ہیں:
’’کون سا ایسا محقق وناقد ہے جس نے غالب کے اس قلمی دیوان کے بارے میں نہ لکھا ہو اور ڈاکٹرصاحب نے اس کی تحقیق کو اس میں شامل نہ کیا ہو! یہ کتاب غالب فہمی اور غالب شناسی کے باب میں ایک نئی آواز ہے۔ یہ کتاب ایک طرف غالب کے قلمی دیوان کی کہانی بیان کرتی ہے تو دوسری جانب ’’دیوانِ غالب جدید المعروف بہ نسخہ حمیدیہ‘‘ کی بھی داستان سناتی ہے۔‘‘
پیشِ نظر کتاب میں نسخہ حمیدیہ سے متعلق درجِ ذیل نامور اہلِ قلم کی ایک سے زیادہ تحریریں شامل ہیں:
سید سلیمان ندوی،مفتی محمدانوار الحق،سیدہاشمی فریدآبادی، ڈاکٹرسید عبداللطیف،حبیب احمد صدیقی،امتیاز علی عرشی، قاضی عبدالودود، ڈاکٹر گیان چند، وجاہت علی سندیلوی،سید احتشام حسین، نادم سیتاپوری، عبدالقوی دسنوی، ڈاکٹر سید حامد حسین، ڈاکٹر ابو محمد سحر، پروفیسر حمید احمد خاں،غلام رسول مہر، عصمت جاوید، ڈاکٹر احمر لاری، پروفیسر جگن ناتھ آزاد، ڈاکٹر سید معین الرحمٰن،ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ڈاکٹر اکبر حیدری، ڈاکٹر انیس سلطانہ، ظفر احمد صدیقی، ملیحہ ہاشمی، مہر افشاں فاروقی۔
اس کتاب کی اشاعت کے حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ ڈاکٹر داؤد عثمانی نے بڑی جستجو اور محنت سے اس کا مواد جمع کرکے اور اسے مرتب کرکے واقعتاً جمع و ترتیب کا حق ادا کردیا ہے۔ آئندہ بھی ان سے اسی طرح کے اور اسی معیار کے مزید کاموں کی توقع کی جاسکتی ہے۔
اس کتاب کی ترتیب وتہذیب پر ڈاکٹر داؤد عثمانی اور رنگِ ادب پبلی کیشنز سے اس کی اشاعت پر شاعر علی شاعر قابلِ مبارک باد اور لائقِ تحسین ہیں۔