دنیا بھر میں 9 دسمبر کو ’’انٹرنیشنل اینٹی کرپشن ڈے‘‘ کا انعقاد کیا گیا۔ کیوں کہ بدعنوانی دنیا بھر کی طرح وطنِ عزیز کا بھی ایک اہم ترین اور حد درجہ سنگین مسئلہ ہے، لہٰذا مذکورہ یوم پر ملک اور صوبہ سندھ کی سطح پر بھی اس حوالے سے عوام اور خواص کے اندر بدعنوانی جیسی قبیح ترین اوربہت زیادہ نقصان دہ برائی کے خلاف شعور اجاگر کرنے کے لیے قدم اٹھانا بلاشبہ ایک قابلِ تعریف کوشش ہے۔ حکومتِ سندھ کی طرف سے اس دن کی مناسبت سے اکثر اردو، سندھی اور انگریزی اخبارات میں اس نوعیت کے رنگین اشتہارات بھی شائع کروائے گئے ہیںجن میں سے بدعنوانی کے خاتمے کے لیے اپنے عزم اور ارادے کے اظہار کے ساتھ ساتھ وہ اقدامات بھی تجویز اور بیان کیے گئے ہیں جن کی بدولت مستقبل میںصوبے سے بدعنوانی کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔ حکومت ِسندھ کی کاوش اس بات کی سزاوار ہے کہ اس پر اُسے جتنا بھی خراجِ تحسین پیش کیا جائے، کم ہے۔ لیکن کیا کریں زمینی حقائق اس کے یکسر برعکس ہیں لہٰذا یہاں پر توقف اور تامل کرنا پڑتا ہے۔ حکومتِ سندھ کی جانب سے انسدادِ بدعنوانی کے لیے شائع کردہ اشتہارات اخبارات میں دیکھ کر اور پڑھ کر بے ساختہ رئیس المتغزلین سید فضل الحسن حسن حسرت موہانی کا یہ بے مثال شعر ذہن میں در آیا:
خرد کا نام جنوں پڑ گیا، جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے
امر واقع یہ ہے کہ صوبہ سندھ میں نچلی سطح سے لے کر بالائی سطح تک ہر سرکاری اور نیم سرکاری ادارے میں بدعنوانی اتنی زیادہ ہولناک اور دل دہلا دینے والی ہے کہ حکومت ِ سندھ کے اس کے خاتمے کے لیے دعوے اور نام نہاد اقدامات سندھ کے ایک فرد کو ماسوائے ایک سنگین مذاق کے اور کچھ بھی نہیں لگتے۔ سچ تو یہ ہے کہ صوبہ سندھ میں کرپشن لگ بھگ ہر سرکاری ادارے کے چھوٹے سے لے کر بڑے اہل کار اور افسر کے رگ و پے میں کچھ اس انداز سے اور برے طور پر سرایت کرچکی ہے کہ اس کا خاتمہ محض 9 دسمبر کو رسمی اشتہارات، بیانات یا بذریعہ تقریر کرنا بے حد مشکل ہے۔ سال بھر تو جی بھر کے بلا روک ٹوک بدعنوانی کی بہتی گنگا میں خوب خوب ہاتھ دھوئے جائیں، اس میں اچھی طرح سے اشنان کیا جائے اور 9 دسمبر کو ’’انسدادِ بدعنوانی‘‘ کا دن رسمی طریقے سے منا لیا جائے تو اسے ایک مضحکہ خیز امر ہی گردانا جائے گا، اور ہاں اپنے آپ کو دھوکہ دینا بھی۔ اور اگر اس موقع پر اہلِ سندھ کو یہ ضرب المثل بھی یاد آجائے تو شاید اس میں کوئی مضائقہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے، اور وہ ہے ’’ایک تو چوری اوراس پر سینہ زوری۔‘‘
سندھ کے دیگر سرکاری اداروں میں کرپشن اور اس کا راج ہے ہی، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ محکمہ تعلیم، محکمہ صحت اور سندھ پبلک سروس کمیشن جیسے ادارے بھی اس سے محفوظ اور مامون نہیں ہیں۔ اب یہ کوئی راز ہے اور نہ ہی انکشاف کہ صوبہ سندھ کے تقریباً تمام سرکاری اداروں ہی میں تقرریاں اور تبادلے نچلی سطح سے لے کر اوپر کی سطح تک سفارش+ رشوت کے عوض ہی ہوتے ہیں۔ اب وہ دن بیت چکے جب سندھ کے سرکاری اداروں میں کسی بااثر حکومتی یا حکومت سے باہر کی کسی شخصیت کی صرف سفارش ہی پر مسائل حل یا ضرورت مند کا کوئی کام ہوجایا کرتا تھا۔ سندھ کے سرکاری عمّال کی رگوں میں بدعنوانی کا زہر اس حد تک سرایت کر گیا ہے کہ وہ کسی بڑی سے بڑی شخصیت کی صرف زبانی کلامی سفارش یا ’’پارت‘‘ کو بھی اُس وقت تک درخورِ اعتنا نہیں گردانتے جب تک انہیں معقول ’’مٹھائی‘‘ یا رشوت پیش نہ کی جائے۔ اوّل الذکر صورت میں وہ جائز کام میں بھی اتنے رخنے ڈالتے اور رکاوٹیں کھڑی کردیتے ہیں کہ حکومتِ سندھ کی بڑی سے بڑی شخصیت سے سفارش کروانے والے سائل کو بھی رشوت خوروں کو رشوت بادلِ نخواستہ پیش کرنی ہی پڑتی ہے۔ راقم کو اِس موقع پر اپنے علاقے کا ایک بے حد غریب اور معذور فرد یاد آرہا ہے جس نے عرصہ دس برس پہلے معذور کوٹے پر چپراسی کی ملازمت 5 لاکھ روپے رشوت کے عوض حاصل کی، اور پھر اُس نے غلطی یہ کی کہ مقامی ضلعی محکمہ خزانہ کے اہلکار بینک میں اُس کی تنخواہ کی آئی ڈی کھولنے کے لیے 50 ہزار روپے رشوت مانگ رہے تھے تو اس نے اپنے علاقے کے ایک دبنگ ایم این اے سے ڈسٹرکٹ اکائونٹس آفیسر کو مفت میں آئی ڈی کھلوانے کے لیے سفارش بذریعہ فون کروا دی۔ بس پھر کیا تھا، محکمہ خزانہ کے افسر نے ایم این اے کو تو کسی نہ کسی طرح سے مطمئن کردیا لیکن مذکورہ معذور شخص کی تنخواہ کی آئی ڈی آج تک نہیں کھل سکی ہے۔ اتنے عرصے میں کئی متعلقہ ضلعی افسران آئے اور گئے، تاہم بڑی سے بڑی حکومتی شخصیت سے سفارش کروانے کے باوجود معذور شخص کا کام نہیں ہوسکا ہے، جب کہ اس کے ساتھ رشوت دے کر بھرتی ہونے والے بعدازاں محکمہ خزانہ کے افسران کو اُن کی مطلوبہ رشوت کی رقم بروقت دے کر گزشتہ دس برس سے تنخواہیں وصول کررہے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ صوبہ سندھ کے حکومتی ذمہ داران نے اپنے گزشتہ تقریباً دو دہائیوں پر محیط دورِ اقتدار میں صوبے بھر کے ہر سرکاری محکمے کے لگ بھگ ہر سرکاری اہل کار اور افسر کو بدعنوانی اور رشوت کی اتنی زیادہ لت لگا دی ہے کہ وہ اب خود بھی محض فون پر سفارش کرکے کسی ضرورت مند کا کام کروانے سے اُس وقت تک قاصر اور لاچار ہیں جب تک کہ سائل خفیہ یا اعلانیہ رشوت خوروں کو ’’مٹھائی‘‘ نہیں دے دیتا۔ اور تو اور، شنید ہے کہ اب تو صوبہ سندھ کے سرکاری اداروں کے افسران زرداری فیملی کی اہم اور نمایاں شخصیات بشمول ادی فریال تالپور کے فون پر بھی کان تک دھرنا پسند نہیں کرتے۔ سابق اور موجودہ صدر آصف زرداری کی ہمشیرہ تک کی ’’پارت‘‘ کو بھی نظرانداز کرنا اس بات کا منہ بولتا مظہر ہے کہ صوبہ سندھ میں بدعنوانی میں ملوث سرکاری افسران کتنے منہ زور اور بے خوف ہوچکے ہیں۔ جب وہ صدرِ محترم کے خاندان کے اہم ترین افراد کی زبانی کلامی سفارش پر کام کرنا پسند نہیں کرتے اور اپنی مطلوبہ ’’رشوت‘‘ یا ’’مٹھائی‘‘ لے کر ہی دم لیتے ہیں تو پھر بھلا وہ کم سطح کی حامل بااثر سیاسی شخصیات کو کیوں کر گھاس ڈالنا پسند کریں گے؟
حقیقت یہ ہے کہ ویسے تو ملک بھر میں ہی کرپشن کسی نہ کسی طور سے جاری ہے، تاہم سندھ میں حکومتی سطح پر جو کرپشن گزشتہ ایک طویل عرصے سے جاری ہے، اُسے اگر ہم ’’لکڑ ہضم، پتھر ہضم‘‘ کا نام بھی دے دیں تو مبالغہ نہیں ہوگا۔ سندھ کا شاید ہی کوئی ادارہ ایسا ہوگا جسے کرپشن کی دیمک نے تباہ نہ کیا ہو، خصوصاً پی پی پی کے تقریباً دو عشروں پرمبنی دورِ حکومت میں بدعنوانی کا سورج کچھ اس آب و تاب سے چمکا ہے کہ اہلِ صوبہ کی آنکھیں اس کی چکاچوند سے ایک طرح سے چندھیا سی گئی ہیں۔ باَلفاظِ دیگر سندھ میں ہر سرکاری ادارے میں بڑے پیمانے پر ہونے والی بے محابا کرپشن کے بارے میں بچہ بچہ جانتا ہے کہ یہ کرپشن کون کون، کس کس انداز میں کر اور کروا رہا ہے؟ آئے دن میڈیا کے توسط سے سندھ میں ہونے والی ’’غضب کرپشن کی عجب کہانیاں‘‘ سامنے آتی رہتی ہیں اور انسدادِ بدعنوانی کے متعلقہ سرکاری ادارے خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں، یا پھر اس رشوت، بدعنوانی یا کرپشن میں سے حصہ بہ قدرِ جثہ وصول کرکے لاتعلق ہوجاتے ہیں۔ بہ قول مرحوم دلاور فگار:
لے کے رشوت پھنس گیا ہے
دے کے رشوت چھوٹ جا
یہ شعر لگتا ہے گویا سندھ کے سرکاری رشوت خور عمّال کے بارے میں ہی کہا گیا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ اگر کوئی سندھ میں سرکاری سطح پر کی جانے والی کرپشن پر کتاب لکھنا چاہے تو ایک نہیں بلکہ کئی جلدوں پر مع ثبوت اس پر ضخیم کتب لکھنا کوئی دشوار کام ہرگز نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں معمولی دنیاوی فوائد کے حصول کے لیے اپنی آخرت کی دائمی زندگی کو خسارے سے دوچار کرنے والے امور سرانجام دینے سے محفوظ رکھے، آمین۔