سودی معیشت کے خلاف جماعت اسلامی کی عدالتی، پارلیمانی و عوامی جدوجہد

سود وہ واحد برائی ہے جس کے خلاف اللہ اور رسولﷺ کی طرف سے واضح اعلانِ جنگ ہے۔ اس لیے کہ سود محض ایک برائی نہیں بلکہ یہ کئی دیگر برائیوں کا منبع و مصدر ہے۔ سود سے صرف معیشت ہی نہیں بلکہ معاشرت بھی تباہ ہوتی ہے۔ سودی معیشت کے نقصانات و مضمرات دنیوی بھی ہیں اور اخروی بھی۔

تقسیم برصغیر کے نتیجے میں مسلمانوں کا ایک علیحدہ ملک بھی بن گیا، قراردادِ مقاصد کے ذریعے اس ملک میں اللہ کی حاکمیتِ اعلیٰ کا اعلان بھی ہوگیا، 1973ء کے آئین کے مطابق ملک کا نام بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھ لیا گیا، آرٹیکل F-38کے مطابق سود کے خاتمے کے لیے ’’جلد از جلد خاتمے‘‘ کے الفاظ بھی لکھے گئے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ سودی معیشت دھڑلے سے جاری ہے اور ریاست خود اس کی محافظ ہے۔

قیام پاکستان سے پہلے سید مودودیؒ نے اقامتِ دین، حکومتِ الٰہیہ، اسلامی نظام، اسلامی ریاست اور اسلامی حکومت کا تصور پیش کیا تو اس کے مختلف پہلوئوں اور مختلف نظاموں کی تفصیلات و تشریحات میں بہترین لٹریچر بھی فراہم کیا۔ اسی کے تحت سودی معیشت کے مضمرات اور بلاسود معیشت کے امکانات کو انہوں نے قرآن و حدیث کے دلائل اور جدید معاشیات کے افکار کے حوالوں سے اپنی کتاب ’’سود‘‘ میں واضح کیا۔ اسی طرح علامہ اقبال ؒنے اپنے کلام اور اپنی تحقیقی تحریروں میں سود کو انسانیت کی موت قرار دیا ؎

سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات

نیز اپنے کلام کے ذریعے انہوں نے یہودی ذہنیت اور سودی معیشت کے پرخچے اڑا دیے ہیں، مثلاً ؎

فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے
اور
تاک میں بیٹھے ہیں مدت سے یہودی سود خوار

بانیِ پاکستان حضرتِ قائداعظمؒ نے یکم جولائی 1948ء کو بینک دولت پاکستان کا افتتاح کیا تو یہ اُن کی زندگی کی آخری سرکاری تقریب اور زندگی کی آخری تقریر تھی۔ یہ تقریر تحریری شکل میں تھی۔ انھوں نے کہا: ’’میں اشتیاق اور دلچسپی سے معلوم کرتا رہوں گا کہ آپ کی ریسرچ آرگنائزیشن بینکاری کے ایسے طریقے کس خوبی سے وضع کرتی ہے، جو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات کے مطابق ہوں۔ اس لیے کہ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے بے شمار مسائل پیدا کردیے ہیں، ہمیں دنیا کے سامنے انسانی مساوات اور معاشی انصاف کے سچے اسلامی تصورات پر قائم معاشی نظام پیش کرنا ہوگا۔‘‘

نفاذِ شریعت اور پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کی جدوجہد میں جماعت اسلامی نے مطالبۂ دستورِ اسلامی مہم چلائی۔ اس دوران جلسے کیے گئے، محضرناموں پر دستخطی مہم چلائی گئی، اسی سلسلے میں1949ء میں قراردادِ مقاصد منظورکی گئی جس کے ذریعے اللہ کی حاکمیتِ اعلیٰ، شورائیت، اسلامی نظام معیشت وغیرہ کے نفاذ کے اہداف طے کیے گئے۔1951ء میں ملک کے نامور ترین 31 علمائے کرام کے 22نکات اور 1956ء اور 1962ء کے آئین میں بھی ربا کے خاتمے کی ترجیحات طے کی گئیں۔

1973ء کی دستور ساز اسمبلی میں اکثریت تو پیپلز پارٹی و دیگر لبرل پارٹیوں کی تھی، اپوزیشن بالخصوص دینی جماعتوں کے اراکین کی تعداد زیادہ نہیں تھی، البتہ جتنے افراد تھے سب متحرک، فعال اور قائدانہ صلاحیتوں سے مالامال تھے۔ جماعت اسلامی کے چار اراکین پروفیسر غفور احمدؒ، محموداعظم فاروقیؒ، ڈاکٹر نذیر احمد ؒ (شہید) اور صاحبزادہ صفی اللہؒ متحرک کردار ادا کررہے تھے، جبکہ اسمبلی میں حضرت مولانا مفتی محمودؒ، مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی ؒبھی تھے جن کے شاندار پارلیمانی کردار نے اس موقع پر دستوری تاریخ کو ایک نیا موڑ دیا۔ 1973ء کے آئین کے آرٹیکل F-38 میں ربا کے خاتمے کے لیےPossible As early asکے الفاظ استعمال کیے گئے۔ اس سے دو چار سال، اور زیادہ سے زیادہ 1980ء تک ربا کے خاتمے کو آئینِ پاکستان کا تقاضا سمجھا گیا۔ جس طرح نفاذِ اردو کے آئینی تقاضے کو ہر دور کے حکمرانوں کی انگریزی بالادستی کی خواہش و ضرورت نے پورا نہیں ہونے دیا، اسی طرح ربا کے خاتمے کے آئینی تقاضے کو حکمرانوں کی بدنیتی اور عالمی معاشی اداروں کے دباؤ نے پورا نہیں ہونے دیا۔

1973ء سے 1990ء تک جماعت اسلامی کی طرف سے بیانات، اسمبلی تقاریر اور عوامی جلسوں میں قراردادوں کے ذریعے بار بار حکومت کو اپنی آئینی ذمہ داری ادا کرکے سود کے مکمل خاتمے کی طرف متوجہ کیا گیا، لیکن کوئی بھی حکومت اپنی کسی بھی آئینی ذمہ داری بالخصوص انسدادِ سود کے سلسلے کی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے قطعاً تیار نہ تھی۔

اس دوران اسلامی نظریاتی کونسل کی مفصل رپورٹ، اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر آئی اے حنفی کی طرف سے بلاسود بینکاری کا جامع پلان، راجا ظفرالحق کمیٹی کی رپورٹ کے علاوہ 1991ء میں پروفیسر خورشید احمد کی سربراہی میں بیرونی قرضوں سے نجات اور خود انحصاری کے لیے وزیراعظم پاکستان کے قائم کردہ کمیشن کی جامع سفارشات بلاسود معیشت کی طرف اہم پیش رفت ہیں۔

1980ء میں وفاقی شرعی عدالت کا قیام عمل میں آیا تو مالی معاملات اس کے دائرۂ سماعت سے باہر رکھے گئے۔ یہ مدت بڑھتے بڑھتے دس سال ہوگئی۔ 1990ء میں جب دس سال مکمل ہونے پر جون میں مالی معاملات میں بھی وفاقی شرعی عدالت کے اختیارات بحال ہوئے تو ایک شہری نے پٹیشن نمبر 30-Lکے ذریعے سود کو حرام قرار دینے کے لیے عدالت سے رجوع کیا۔ 11 دسمبر 1990ء کو جب اس کی باقاعدہ سماعت شروع ہوئی تو ایک مضبوط مدعی کے طور پر جماعت اسلامی نے روزِ اوّل سے مضبوط و فعال کردار ادا کیا۔پٹیشنرز کی طرف سے کُل 20 قوانین کو چیلنج کیا گیا۔ ان میں سے 8 قوانین تو دورِ غلامی کی یادگار تھے، جبکہ 12 قوانین قیامِ پاکستان کے بعد کے تھے۔ 3 قوانین کا اضافہ معزز عدالت نے خود کیا۔ اس طرح کُل 23 سودی قوانین زیربحث تھے۔

وفاق، صوبوں، مالیاتی اداروں اور سودی نظام کے حامیوں کی طرف سے 40 وکلا پیش ہوئے۔ اُس وقت ایڈووکیٹ خالد ایم اسحاق نیشنل بینک آف پاکستان کے وکیل اور سودی نظام کے حامی تھے، جب کہ سود کے خلاف وکلا و علماء کی تعداد 60 تھی۔

جماعت اسلامی کی طرف سے ڈاکٹر سید اسعد گیلانیؒ، شیخ القرآن مولانا گوہر الرحمٰنؒ، شیخ القرآن مولانا عبدالمالک، اسماعیل قریشیؒ ایڈووکیٹ اور اکابرین کی معاونت کرنے والوں میں لیاقت بلوچ، راقم الحروف (فرید احمد پراچہ)  وغیرہ شامل تھے۔

14 نومبر 1991ء کو چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت جناب جسٹس تنزیل الرحمٰن، جسٹس فدا محمد، جسٹس عبداللہ خان نے تاریخی فیصلہ دیا اور سود چاہے اس کا نام منافع ہو یا مارک اَپ، اسے خلافِ شریعت اور حرام قرار دیا اور 23 سودی قوانین کالعدم قرار دے کر 6ماہ میں متبادل قانون سازی کا حکم دیا، اور یہ کہ اگر حکومت نے اقدامات نہ کیے تو یکم جولائی 1992ء کو سودی قوانین خودبخود ختم ہوجائیں گے۔

میاں نوازشریف صاحب وزیراعظم تھے۔ آئی جے آئی میں شامل جماعت اسلامی و دیگر مذہبی جماعتوں کی وجہ سے خود تو اپیل میں نہ گئے لیکن یو بی ایل کے ذریعے معاملے کو سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ کے سامنے چیلنج کردیا گیا۔

آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 203-D کی وجہ سے چیلنج ہوتے ہی حکم امتناعی خودبخود جاری ہوگیا۔ وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ ایک مرتبہ وقتی طور پر ہارگیا اور حکمرانوں کی بدنیتی جیت گئی، اور سپریم کورٹ نے معاملہ طویل عرصے کے لیے التواء میں ڈال دیا۔

ساڑھے سات سال بعد جماعت اسلامی و دیگر تنظیموں نے عدالت سے رجوع کیا، تب مارچ 1999ء سے باقاعدہ سماعت کا آغاز ہوا۔ یہ بینچ چیف جسٹس خلیل الرحمٰن، جسٹس محمد تقی عثمانی، جسٹس وجیہ الدین احمد، جسٹس منیر اے شیخ اور جسٹس ڈاکٹر محمود احمد غازی پر مشتمل تھا۔

اُس وقت تک پرویزمشرف کی حکومت شروع ہوچکی تھی۔ چنانچہ محترم ڈاکٹر محمود غازی کو دوسرا عہدہ دے کر جان چھڑائی گئی۔

عدالت نے 5 ماہ کی تفصیلی سماعت کے دوران دنیا بھر کے ماہرینِ معیشت سے بھی رجوع کیا اور اُن کی آرا سے بھی استفادہ کیا۔ اس عدالت کے سامنے محترم پروفیسر خورشید احمد، مولانا گوہر الرحمٰنؒ، مولانا عبدالمالک، ڈاکٹر وقار مسعود، محمد اسماعیل قریشیؒ ایڈووکیٹ، ڈاکٹر محمد عمر چھاپرا ؒ اور حافظ عبدالرحمٰن مدنی وغیرہ پیش ہوئے اور عدالت کے سوالات کا مبسوط، مربوط و مدلل جواب دیا۔

اس اپیلٹ بینچ نے اپنے فرضِ منصبی کا تقاضا سمجھ کر شرعی عدالت کے فیصلے پر غور و فکر کرنے کا فیصلہ کیا۔ پہلے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی سب اپیلوں کو یک جا کیا گیا، پھر ان کے اُٹھائے ہوئے سوالات پر تفصیلی بحث کی گئی۔ ماضی کی عدالتی کارروائی فاضل ججوں کے سامنے تھی۔ وہ سب یہ بھی جانتے تھے کہ سود کے مسئلے کو قرآن و سنت کی روشنی میں ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ چنانچہ کسی حتمی فیصلے تک پہنچنے کے لیے انھوں نے سود کے بارے میں دنیا بھر کے جید علما اور ماہرینِ معاشیات کا نقطہ نظر جاننا ضروری سمجھا۔ علما اور اقتصادی ماہرین کو عدالت کی رہنمائی کرنے کی دعوت دی گئی، جنھوں نے اپنے زبانی اور تحریری دلائل کے ذریعے عدالت کی بھرپور مدد کی۔ کئی ایک نے عدالت میں سود کی حرمت کے حق میں، اور دوسروں نے اس کے خلاف مقالات اور تقاریر کے ذریعے دلائل پیش کیے۔

23 دسمبر 1999ء کو سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ نے اپنے 1100صفحات پر مشتمل تاریخی فیصلے میں 1991ء کے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو نہ صرف یہ کہ بحال رکھا بلکہ ماضی سے بڑھ کر کئی نئے علمی مباحث کا اضافہ کیا۔

عدالتِ عظمیٰ شریعت مرافعہ بینچ کے فیصلے کے خلاف حکومتِ پاکستان نے یونائیٹڈ بینک کے ذریعے دستورِ پاکستان کے آرٹیکل 188کے تحت عدالتِ عظمیٰ میں 2000ء میں نظرثانی کی اپیل دائر کردی۔ بینچ کے دو ججز جسٹس خلیل الرحمٰن اور جسٹس وجیہ الدین احمد پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے کی وجہ ریٹائر ہوچکے تھے۔ نئے چیف جسٹس اور اراکینِ بینچ مختلف شہرت رکھتے تھے۔

اس موقع پر بھی جماعت اسلامی کے وکلاء پیش پیش تھے۔ اِس مرتبہ جسٹس شیخ خضر حیات، سید معروف شیرازی ایڈووکیٹ اور راقم الحروف (فرید احمد پراچہ) پیش ہوتے رہے۔ اس بینچ نے مختصر سماعت کے بعد 24 جون 2002ء کو یو بی ایل کی درخواست منظور کرتے ہوئے شریعت اپیلٹ بینچ کا 23 دسمبر 1999ء کا فیصلہ، اور وفاقی شرعی عدالت کا 14نومبر 1991ء کا فیصلہ منسوخ کرکے معاملہ ایک مرتبہ پھر وفاقی شرعی عدالت کے پاس واپس بھیج دیا۔2002ء میں ریمانڈ ہوکر واپس آیا کیس وفاقی شرعی عدالت نے سرد خانے میں رکھ دیا، اس کی سماعت کی طرف ازخود کوئی توجہ نہیں کی۔ اس مرحلے پر تنظیم اسلامی اور بعد میں جماعت اسلامی کی طرف سے عدالت کو کیس کی سماعت کی طرف متوجہ کیا گیا۔ چنانچہ 22 اکتوبر 2013 ء سے با قاعدہ سماعت شروع کی گئی۔

جب وفاقی شرعی عدالت میں کیس کا آغاز ہوا اُس وقت جسٹس آغا رفیق وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس تھے۔ اُن کی طرف سے ایک سوال نامہ جاری کیا گیا تھا، جو اُن بحثوں کے بارے میں تھا، جن کے جوابات وفاقی شرعی عدالت کے اپنے فیصلوں میں مکمل موجود تھے۔ اگرچہ ان سوالات کے تیسری چوتھی مرتبہ جوابات دینا تضیع اوقات اور سعیِ لاحاصل تھی لیکن ہمیں اندیشہ تھا کہ کیس کی پیش رفت میں اسے ہی کہیں بہانہ نہ بنالیا جائے، چنانچہ ہم نے جوابات دیے۔ میں نے 30 صفحات پر مشتمل جواب نامہ جمع کرایا۔ شیخ القرآن والحدیث مولانا عبدالمالک نے مختصر لیکن جامع جوابات دیے۔

وفاقی شرعی عدالت میں پہلی سماعت 22 اکتوبر 2013ء کو، جب کہ آخری سماعت 12اپریل 2022ء کو ہوئی۔ یہ کُل 58 سماعتیں ہیں۔ اس دوران 6چیف جسٹس تبدیل ہوئے۔

عدالت میں ہماری طرف سے محترم قیصر امام ایڈووکیٹ نے مکمل تیاری کے ساتھ بھرپور دلائل دیے۔ میں نے خود بھی عدالت کے سامنے تحریری دلائل جمع کرائے اور بعض تاریخوں پر گفتگو میں حصہ لیا۔ اسی طرح محترم پروفیسر محمد ابراہیم صاحب اور محترم سراج الحق صاحب نے بھی عدالت کے سامنے دلائل دیے۔ محترم سیف اللہ گوندل اس سارے کیس میں ہمارے چیف کوآرڈی نیٹر تھے۔ میری استدعا پر عدالت نے 26 رمضان المبارک 1443ھ (27ویں شب)کو فیصلہ دینا قبول فرما لیا۔

محترم جسٹس محمد نور مسکانزئی چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت تھے جو اس تاریخی فیصلے کو سنانے کے کچھ عرصے بعد بلوچستان میں شہید کردیے گئے تھے۔

فیصلے کے دن عدالت میں اُس وقت کے امیر جماعت اسلامی پاکستان محترم سراج الحق صاحب، محترم شجاع الدین شیخ امیر تنظیم اسلامی، محترم لیاقت بلوچ صاحب، راقم الحروف (فرید احمد پراچہ)، محترم میاں محمد اسلم صاحب، محترم قیصر امام ایڈووکیٹ، محترم سیف اللہ گوندل ایڈووکیٹ، محترم اقبال ہاشمی، و دیگر وکلا وعلماء موجود تھے۔ جب جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور شاہ نے 318 صفحات پر مشتمل اپنے تاریخی فیصلے کے آخری 13 صفحات پڑھ کر سنائے اور سود کی ہر قسم کو حرام قرار دیا تو عدالت تکبیر کے نعروں سے گونج اٹھی۔ بعد میں امیر جماعت و دیگر زعماء نے پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا۔ اس سلسلے میں عدالت کے فیصلے کے اہم نکات کیا ہیں اور حکومت کو کیا کرنا چاہیے، اس کو ہم نے اپنے ایک خط بنام صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان و بنام وزیراعظم پاکستان میں بیان کیا تھا۔وفاقی شرعی عدالت نے حکومت کے لیے واضح روڈمیپ دیا تھا۔ تین تاریخیں، تین اہداف دیے تھے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ حکومت وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کا کھل کر خیرمقدم کرتی اور اعلان کرتی کہ عدالتی فیصلے کے مطابق 31دسمبر 2022ء سے پہلے پہلے تمام سودی قوانین ختم کرکے متبادل قانون سازی کرلی جائے گی۔ حکومت نہ خود اپیل کرے گی، نہ کسی بھی بینک کو بذریعہ اسٹیٹ بینک اپیل کرنے کی اجازت دے گی۔ آئندہ بجٹ سود فری ہوں گے۔ حکومتی اندرونی لین دین بھی مکمل غیر سودی ہوگا۔ زرعی ترقیاتی بینک، نیشنل بینک کے ہائوسنگ فنانس وغیرہ کے قرضوں سے سود معاف کردیا جائے گا۔ لیکن ہوا کیا؟ آئی ایم ایف کے دبائو پر اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں مسلسل اضافہ کرکے اسے 22فیصد تک بڑھا دیا جس سے افراطِ زر اور مہنگائی میں اضافہ ہوا اور ہماری کرنسی ڈی ویلیو ہوئی۔ جبکہ شرح سود میں اضافے کا صرف کمرشل بینکوں کو فائدہ ہوا۔ اسی طرح اسٹیٹ بینک نے اس دوران ڈیجیٹل بینکنگ کی سودی بینکنگ والی پانچ درخواستوں کو NOC جاری کیا۔ گویا کہ حکومت، وزارتِ خزانہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے سود کے خلاف اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اعلان کردہ جنگ میں سود کے محافظین کی صف میں شامل ہونا قبول و پسند کرلیا۔(جاری ہے)