(دوسرا حصہ)
سوال: کیا عبوری حکومت اپنے حصے کا کام ڈھنگ سے کررہی ہے؟ اس حوالے سے مجموعی کیفیت کیا ہے؟
شفیق الرحمٰن: اگر یہ لوگ طاقت اور لالچ کے چکر میں پڑجائیں تو ہمارے اعتماد کو ٹھیس پہنچائیں گے، لیکن اِس سے بھی بڑھ کر یہ ہماری امنگوں اور امیدوں کا خون کریں گے۔ ان کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داری ہے۔ اور یہی اِن کی کھری آزمائش ہے۔
عبوری حکومت کے چند ارکان کبھی کبھی سیاسی بیان بھی دیتے ہیں۔ قوم اُن سے سیاست کی بات نہیں سننا چاہتی۔ عبوری حکومت کو غیر جانب دار رہنا ہے۔ اچھا ہے کہ اُن کے منہ سے کوئی بھی متنازع بات نہ نکلے۔ یہ ان کے لیے اچھا ہوگا نہ ہمارے لیے۔ ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ عبوری حکومت کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں گے۔
خیر، کسی بھی طرح کے تحفظات خود بخود دور نہیں ہوتے۔ اس بڑی تبدیلی کے بعد بھی اس بات کا خدشہ تھا کہ عدلیہ ٹیک اوور کرلے گی۔ اِس کے بعد انصار والا معاملہ بھی تھا۔ انصار کے ڈائریکٹر جنرل کا کہنا ہے کہ ہم میں سے سب کا تعلق پیرا ملٹری فورس سے نہیں تھا۔ اگر ایسا ہے تو پھر فوجی یونیفارم میں وہ لوگ کون تھے؟ ہم عجیب و غریب واقعات دیکھ رہے ہیں۔ ان کے نتیجے میں بگاڑ پیدا ہورہا ہے۔
لوگ الزام لگارہے ہیں کہ اقلیتوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے مقامات پر اقلیتوں کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے جتھے کھڑے ہوگئے۔ ہم بھی ان میں شامل تھے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ میں ذاتی طور پر بھی اس بات کا قائل ہوں کہ تمام شہریوں کے حقوق مساوی ہیں۔ انہیں اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے کا حق حاصل ہے۔ اگر میری مسجد کی حفاظت کے لیے کسی کی ضرورت نہیں تو پھر کسی مندر کی حفاظت کی ضرورت کیوں پیدا ہو؟ ایسے معاملات ہی کیوں ہوں کہ ہندو یا کوئی اور اقلیت عدمِ تحفظ کے احساس سے دوچار ہو؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیکیورٹی کے ایشوز تو ہیں۔ افسوس کہ ہمارا معاشرہ اس معاملے میں اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرسکا۔ ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہیے۔
کسی کا مذہب چاہے کچھ بھی ہو اور وہ کسی بھی پارٹی کا ہو، ریاست تو سب کے لیے ہے اور سبھی کا تعلق ریاست سے ہے۔ سلامتی کے ساتھ جینے کا حق تو سبھی کو حاصل ہے۔ یہ بنیادی بات ہے جس سے سب کو اتفاق کرنا چاہیے۔ کسی کے ساتھ امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جانا چاہیے۔ امتیازی سلوک کسی بھی معاشرے کے لیے زہرِ قاتل ہوتا ہے۔
سوال: جماعتِ اسلامی کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ دوراندیشی سے کام لیتی ہے، بہت بعد کا سوچ کر منصوبہ سازی کرتی ہے۔ یہ بھی ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ جماعتِ اسلامی 1947ء اور 1971ء میں رائے عامہ کے بالکل خلاف گئی۔ آپ اِس کی توضیح کیسے کریں گے؟
شفیق الرحمٰن : اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے دھارے کے خلاف بہنے کی کوشش کی۔ خیر، جماعتِ اسلامی کا کوئی بھی لیڈر پاکستان کے قیام کا مخالف نہیں تھا۔ بنیادی نکتہ یہ تھا کہ قائدین میں قیامِ پاکستان کی تحریک کی سوچ نہیں جھلک رہی تھی۔ مسلم قیادت اسلام کے جذبے کو پوری طرح پیش نہیں کررہی تھی، اُس کی نمائندگی نہیں کررہی تھی اور یہ بات ہم نے بیان کی تھی۔ ہمارا موقف اصولی تھا۔ کیا یہ غلط تھا؟ ہمارا موقف قیادت کے فکری رجحان سے متعلق تھا، پاکستان کے خلاف نہ تھا۔
حال ہی میں عوامی لیگ کے حوالے سے بھی ہماری یہی بات تھی۔ ہم نے عام معافی کا اعلان کیا تھا۔ میں نے عوامی لیگ کا نام نہیں لیا تھا۔ ایسی کوئی بھی بات کہنے کا مجھے کوئی حق نہیں۔ میڈیا نے اس معاملے کو کچھ اور ہی رنگ دے دیا۔ یہ بہت افسوس ناک بات تھی۔ مجھ سے ایسی بات منسوب کردی گئی جو میں نے نہیں کہی تھی۔
متاثرین کے اہلِ خانہ اگر انصاف کے لیے رابطہ کریں گے تو ہم اُنہیں انصاف دلوانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ ہم نے انصاف دلوانے کی بات کہی تھی۔ کیا اِسے عوامی لیگ کے لیے عام معافی کہا جاسکتا ہے؟ جنہوں نے ناانصافی کی اُن میں عوامی لیگ نمایاں رہی ہے۔ اُس نے کئی بار ہم پر مظالم ڈھائے۔ ہم ویسے کسی کا نام نہیں لینا چاہتے۔ میں نے ایک مشترکہ موقف بیان کیا ہے۔ بدلے کی سیاست کو اب دفن کردینا چاہیے۔ کسی نہ کسی کو تو اس بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنی ہے تو پھر وہ میں کیوں نہ ہوؤں؟
ساتھ ہی ساتھ میں نے یہ بھی تو کہا تھا کہ جو لوگ سنگین جرائم میں ملوث رہے ہیں اُنہیں کیفرِ کردار تک پہنچایا جانا چاہیے۔ اور یہ بھی کہ معافی کا کلچر تو مظالم ڈھانے والوں کی حوصلہ افزائی کرے گا۔
ہم نے 1971ء میں عوامی لہر کے خلاف بہنے کی کوشش کی۔ ہم متحدہ پاکستان کی بات کررہے تھے۔ شیخ مجیب الرحمٰن نے بھی تو یہی کہا تھا۔ انہوں نے آخری لمحات تک صرف اِس نکتے پر بات کی کہ اُنہیں پورے پاکستان کا وزیرِاعظم بنایا جائے۔ ہمارے اور اُن کے وژن میں فرق نہیں تھا۔
اب آپ یہ پوچھیں گے جب جنگِ آزادی ناگزیر ہوگئی اور پوری قوم اُس طرف مُڑگئی تو آپ کا رُخ کسی اور طرف کیوں ہوگیا؟
بنگلا دیش کے قیام کی تحریک بہت حد تک بھارت سے چلائی گئی، سابق مشرقی پاکستان کی سرزمین سے نہیں۔ عوامی لیگ کے بہت سے لوگ بھارت بھاگ گئے تھے۔ یہ لوگ وہاں دو مقاصد کے تحت گئے تھے۔ یا تو اپنے آپ کو بچانے کے لیے یا پھر وہاں بیٹھ کر جنگ چھیڑنے کے لیے۔ اِن کی تعداد ڈیڑھ سے دو لاکھ تھی۔ پناہ گزینوں کی تعداد کا یہ دو سے تین فیصد تھے۔ خود بھاشانی بھی بھارت گئے تھے مگر وہ وہاں ٹھیر نہ سکے۔ ایسا کیوں ہوا؟ صرف اس لیے کہ اُن کے نام کے ساتھ مولانا جُڑا ہوا تھا۔ اُنہیں بھارت چھوڑ کر بنگلادیش آنا پڑا۔ اب آپ مجھے بتائیے، کیا جماعتِ اسلامی یا کسی اور اسلامی جماعت کے لیے بھارت جانے کی گنجائش تھی؟ اگر نہیں تو پھر ہم کیونکر جنگِ آزادی میں حصہ لے سکتے تھے؟
ایک اور سوال یہ ہوسکتا ہے کہ اگر جنگِ آزادی میں حصہ نہیں لینا تھا تو کوئی بات نہیں، آپ لوگ خاموش رہ سکتے تھے، ناانصافی کی مدد سے باز رہ سکتے تھے؟ ہم چاہتے تھے کہ پاکستان متحد رہے اور عوامی لیگ کو انتخابی نتائج کے مطابق اُس کا حق دیا جائے۔
بھٹو کی ضد کے باعث ایسا نہ ہوسکا۔ شیخ مجیب کا اس معاملے سے کچھ لینا دینا نہ تھا۔ کسی اور کا بھی نہیں۔ عوامی لیگ کو اقتدار نہیں ملا تو اِس کی ذمہ داری بھٹو پر عائد ہوتی تھی۔ انہوں نے ایک ملک میں دو وزرائے اعظم تعینات کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ وہ پورے پاکستان کا نظام شیخ مجیب الرحمٰن کے ہاتھ میں نہیں دینا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ مغربی پاکستان اُن کے ہاتھ میں رہے اور مشرقی پاکستان شیخ مجیب کو سونپ دیا جائے۔ بھٹو کا مطالبہ یکسر غیر منصفانہ اور غیر آئینی تھا۔ پاکستان کے فوجی حکمرانوں نے اس مطالبے کو منظور کرلیا۔ اِس کے بعد اُن کی طرف سے جبر شروع ہوا۔ اُس وقت بھی جماعتِ اسلامی متحدہ پاکستان کی حامی تھی۔
ہم نے سنا تھا کہ عوام میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اگر ہم نے پاکستان سے آزادی بھارت کی مدد سے حاصل کی تو آزادی کے فوائد ہمیں میسر نہیں ہوسکیں گے، ہم ہمیشہ بھارت کے زیرِ اثر رہیں گے۔ یعنی ہم پورے احترام کے ساتھ ایک آزاد قوم کی حیثیت سے ابھر نہیں سکیں گے۔
جو کچھ بھی بنگلا دیش کے 53 سال میں ہوا ہے عوام اِس پر گواہ ہیں کہ وہ خدشہ بالکل درست تھا۔ میڈیا معاشرے کا آئینہ ہوتے ہیں۔ میں یہ معاملہ عوام اور میڈیا پر چھوڑتا ہوں۔ اگر جماعتِ اسلامی کے خدشات غلط تھے تو سامنے آکر بتائیے کہ وہ نہیں ہوا جو جماعتِ اسلامی نے کہا تھا۔ اگر جماعتِ اسلامی کی دور اندیشی ثابت ہوگئی ہے تو عوام خود طے کرلیں گے۔
میں اگر یہ دیکھوں کہ اکثریت خرابیوں کی طرف جارہی ہے تو میں دوسری طرف جاؤں گا پھر چاہے میں اکیلا ہی کیوں نہ ہوں۔ مجھے وہی کرنا چاہیے جو میرا ضمیر کہہ رہا ہو۔ جماعتِ اسلامی نے وہی کیا، اُس سے زیادہ کچھ نہیں۔
اب آئیے اُن جرائم کی طرف جن کا ہم پر، ہماری قیادت پر الزام عائد کیا جاتا ہے۔ البدر، الشمس اور رضاکاروں کے بارے میں سوالات ہیں۔ جن سنگین جرائم کی بات کی جاتی ہے اُن میں سے یہ گروپ کتنوں کے مرتکب ہیں؟ امن کمیٹی بھی تو تھی۔ دوسرے گروپ بھی تھے۔
ہم ان گروپوں کے وجود سے انکار نہیں کررہے۔ حکومتِ پاکستان اِنہیں کنٹرول کررہی تھی۔ قائم بھی اُسی نے کیے تھے۔ میں اُس وقت چھوٹا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میرے گاؤں میں بھی اِن گروپوں کے کارکن آتے تھے اور ڈھول پیٹ کر لوگوں کو رضاکار بننے کی تحریک دیتے تھے۔ مگر یہ بتائیے کہ جماعتِ اسلامی کیونکر سنگین جرائم کی مرتکب قرار دی جاسکتی ہے؟ اگر یہ گروپ حکومتِ پاکستان کے کنٹرول میں تھے تو پھر جماعتِ اسلامی کو اِن کے مظالم کی ذمہ داری کیوں قبول کرنی چاہیے؟
1970ء کے عام انتخابات میں جماعتِ اسلامی نے کم و بیش 4.5 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ باقی تمام ووٹ عوامی لیگ کو ملے تھے۔ جماعتِ اسلامی اِتنی طاقتور کب تھی اور کیا وہ فوج سے بھی طاقتور تھی؟ کیا فوج اپنے ہتھیاروں کے ساتھ اُن کے سامنے کھڑی تھی کہ جس طرح چاہو استعمال کرو؟ میں ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتا تھا اور تب جماعتِ اسلامی ایک چھوٹی سی تنظیم تھی۔ باقی ملک کا مجھے علم نہیں۔
ہاں، اگر کسی نے کسی سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہے تو اُسے قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ اگر میں کوئی جرم کروں تو مجھے بھی نہ بخشا جائے۔ اگر جماعتِ اسلامی یا چھاترا سنگھ کے کسی لیڈر یا کارکن نے کوئی جرم کیا ہے تو اُسے سزا ملنی ہی چاہیے۔
تب طاقت کس کے ہاتھ میں تھی؟ جماعتِ اسلامی کے ہاتھ میں؟ یا شیخ مجیب کے ہاتھ میں؟ یا پھر فوج کے ہاتھ میں؟ بنگلادیش کے قیام کے بعد جنگی مجرموں کی فہرستیں تیار کی گئیں۔ 24 ہزار افراد کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا گیا۔ بہت سے جیل میں ٹھونس دیے گئے۔ سوال یہ ہے کہ کچھ لوگوں کو 42 سال بعد جنگی جرائم کا مرتکب کیوں قرار دیا گیا؟ اُن پر تب الزامات کیوں عائد نہیں کیے گئے تھے؟ کسی بھی پولیس اسٹیشن میں اُس وقت اِن میں سے کسی کے بارے میں بھی کوئی مقدمہ درج کیوں نہیں کیا گیا تھا؟
اگر کسی نے کچھ غلط کیا تھا تو اُس وقت الزام عائد کیا جانا تھا۔ اب 42 سال بعد یہ سب کیوں؟ سُریندر کمار شرما نے اس حوالے سے اپنی کتاب میں لکھا ہے۔ میں کچھ نہیں کہوں گا کیونکہ مجھے معلوم نہیں کہ انہوں نے پوری آزادی سے لکھا ہے یا نہیں۔ ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ مکانات لُوٹے اور جلائے گئے تھے۔ اس سے کوئی انکار کر ہی نہیں سکتا، مگر سوال یہ ہے کہ یہ سب کس نے کیا تھا؟ جو چوبیس ہزار مقدمات دائر کیے گئے تھے وہ چلائے کیوں نہیں گئے اور اُن پر فیصلے کیوں نہیں ہوئے؟ شیخ مجیب نے قتل، زنا بالجبر، لوٹ مار، آتشزنی کے سوا تمام جرائم کے لیے عام معافی کا اعلان کیا تھا۔ اب 42 سال بعد سارے جرائم جماعتِ اسلامی کے کاندھوں پر ڈال دیے گئے ہیں۔ کنگارو ٹرائل کیے گئے۔ پوری دنیا نے ان مقدمات کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔ پہلے کہا گیا کہ یہ جنگی جرائم ہیں۔ پھر اِنہیں انسانیت کے خلاف جرائم سے تعبیر کیا گیا۔ انہوں نے اِسے انٹرنیشنل کرائم ٹربیونل کہا مگر کہا کہ صرف ملکی حدود کے جرائم کے مقدمات چلائے جائیں گے۔ سبھی کچھ خلط ملط اور الجھا ہوا تھا۔
یہ لوگ ہر حال میں ہمیں مجرم قرار دینے پر تُلے ہوئے تھے۔ اُن کی پوری توجہ اِسی بات پر تھی۔ میں ایک بار کھل کر بیان کردینا چاہتا ہوں۔ اگر جرائم ثابت کردیے جائیں تو میں پوری قوم سے خود معافی مانگنے کو ترجیح دوں گا۔ اس حوالے سے میرے ذہن میں کوئی تحفظات نہیں۔ ہم کسی بھی صورت بے بنیاد الزامات کو سچ کے طور پر قبول نہیں کریں گے۔ سچائی پوری طرح سامنے آنی چاہیے۔
سبھی جانتے ہیں جب یہ مقدمات نام نہاد انٹرنیشنل کرائم ٹربیونل میں چلائے جارہے تھے تب ملک بھر میں ہم سے کیسا سلوک روا رکھا گیا۔ ہمارے وکلا کو اغوا کرلیا گیا اور وہ بھی کورٹ کے احاطے سے۔ ہم مکمل طور پر غیر محفوظ تھے۔ ہمیں اِس ملک کا شہری بھی نہیں سمجھا جارہا تھا۔ ہمیں انصاف کیسے ملے گا؟ اِسے اسقاطِ عدل نہ کہیں تو اور کیا کہیں؟ ناانصافی ہم پر تھوپ دی گئی۔
سوال: اگر الزامات ثابت ہوجاتے تو آپ کو معافی مانگنے میں کوئی قباحت محسوس نہ ہوتی؟
شفیق الرحمٰن: بالکل، مجھے یا ہم میں سے کسی کو معافی مانگنے میں ذرا سی بھی ہچکچاہٹ کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
سوال: آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ البدر، الشمس اور رضاکار حکومتِ پاکستان کے کنٹرول میں تھے اور ملک (مشرقی پاکستان) شیخ مجیب کے کنٹرول میں تھا تو پھر اِن گروپوں کے جرائم کے لیے جماعتِ اسلامی کو کیوں موردِ الزام ٹھیرایا جائے؟
شفیق الرحمٰن: بالکل یہی بات ہے۔ سب کچھ اُنہی کے کنٹرول میں تھا۔
سوال: دستاویزات سے ثابت ہوتا ہے کہ جماعتِ اسلامی اور اُس کے طلبہ ونگ چھاترا سنگھ نے اِن گروپوں کے قیام کے عمل کی قیادت کی تھی۔ دوسری اسلامی جماعتیں بھی اُن کے ساتھ تھیں۔ ایسے میں آپ ذمہ داری سے کیسے بچ سکیں گے؟
شفیق الرحمٰن: کہا جاتا ہے کہ تاریخ ہمیشہ فاتحین کی طرف سے لکھی جاتی ہے۔ تاریخ کا ریکارڈ ہمیشہ اُن کی طرف داری کررہا ہوتا ہے جو فتح یاب رہے ہوں۔ آج آپ جس تاریخ کو مستند قرار دے رہے ہیں وہ کچھ ہی دیر میں مسخ کردی گئی ہوگی۔ ایسا تو دنیا بھر میں ہوتا ہے۔ یاد کیجیے عوامی لیگ کے ادوارِ حکومت میں کیا ہوا۔
اُنہوں نے رضاکاروں کی فہرست شایع کی تھی۔ جماعتِ اسلامی کے 134 تھے اور عوامی لیگ کے 10 ہزار۔ اب بتائیے رضاکاروں کی جماعت کون ہے؟ اب کوئی سوچے گا کہ اُس وقت کے جنگِ آزادی کے امور کے وزیر اے کے ایم مزمل شاید جماعتِ اسلامی کے رکن یا امیر تھے اور حکومت کو گمراہ کررہے تھے۔ اگر وہ واقعی جماعتِ اسلامی کی حمایت کررہے تھے تو پھر عوامی لیگ کا حصہ کیوں تھے یا کیونکر تھے؟ وہ وزارت میں کیا کررہے تھے؟
لوگوں نے کتنی آسانی سے یہ بات پھیلادی کہ میں نے عوامی لیگ کے لیے عام معافی کا اعلان کردیا۔ اِس طور تاریخ کو لکھنا کوئی مشکل کام نہیں۔ تب جماعتِ اسلامی، چھاترا سنگھ، مسلم لیگ، پی ڈی پی، نظامِ اسلام پارٹی، عوامی لیگ اور دوسری بہت سی جماعتیں تھیں۔ میں نے خود دیکھا کہ عوامی لیگ کے بہت سے لوگ رضاکاروں کی صف میں شامل ہوئے۔ ایسا کیوں کیا گیا؟ پاکستان کو بچانے کے لیے یا اپنے خاندان کو بچانے کے لیے؟ کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ایسا بھی ہوا کہ ایک بھائی پاکستانی فوج سے لڑ رہا تھا اور دوسرا بھائی رضاکار بن کر عوامی لیگ اور مکتی باہنی والوں کے خلاف صف آرا تھا۔
خود عوامی لیگ کی حکومت بھی کہتی رہی ہے کہ تمام ہی رضاکار شرپسند نہیں تھے۔ اُن میں اچھے لوگ بھی تھے۔ یہ بات شیخ حسینہ واجد نے خود کہی ہے۔ وہ چند اچھے کون تھے؟ (قدرے شوخی سے) کیا وہ ہماری جماعت میں تھے؟ میں یہ نہیں کہہ سکتا۔ تمام ہی جماعتوں میں اچھے لوگ تھے اور ہوتے ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے کال دی تو مشرقی پاکستان کے لوگوں نے لبیک کہتے ہوئے ساتھ دیا۔ اِسے پارٹی کی ذمہ داری سے خلط ملط نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بہت حد تک انفرادی معاملہ تھا۔ اگر جماعتِ اسلامی نے کوئی ملیشیا بنائی ہوتی اور عوامی لیگ اس کا دستاویزی ثبوت پیش کردیتی تو قوم قبول کرلیتی۔
سوال : تو کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ انفرادی حیثیت میں کوئی بھی کسی ملیشیا گروپ کا رکن ہوسکتا تھا؟ یہ جماعتِ اسلامی کا انتظامی سطح کا فیصلہ نہیں تھا۔ انفرادی اعمال کے لیے پارٹی جوابدہ نہیں؟
شفیق الرحمٰن: میں صرف جماعتِ اسلامی کی بات نہیں کررہا۔ تمام ہی جماعتوں کے لوگ رضاکاروں میں تھے اور یہ ان کے انفرادی معاملات تھے، پوری جماعت کو کریڈٹ یا ڈِس کریڈٹ نہیں دیا جاسکتا۔ حکومت کی اپنی تیار کردہ فہرستوں سے ثابت ہوچکا ہے کہ رضاکاروں میں عوامی لیگ کے لوگ بھی شامل تھے۔
سوال: عوامی لیگ پر قتلِ عام کے الزامات بھی ہیں۔ اس کا کیا کریں؟
شفیق الرحمٰن: عوامی لیگ کی قیادت اس حوالے سے واضح اعلانات کرچکی ہے۔
سوال: کیا آپ نہیں سمجھتے کہ اس کیس میں یہ انفرادی ذمہ داری کا معاملہ ہے؟
شفیق الرحمٰن: نہیں۔ یہ بات تو خود وزیرِاعظم کہہ رہی تھیں۔ یہ بات سڑک پر کھڑے ہوئے کسی شخص نے نہیں کہی تھی۔ وہ اپنی پوری اتھارٹی کے ساتھ یہ بات کررہی تھیں۔
سوال: پارٹی کی سربراہ کہہ رہی ہیں تو کیا وہ ذمہ داری قبول کررہی ہیں؟
شفیق الرحمٰن: کیوں نہیں؟ شیخ حسینہ نے یہ بات محض پارٹی چیف کی حیثیت سے نہیں بلکہ گورنمنٹ چیف کی حیثیت سے بھی کہی۔
سوال: یہ بات تو پھر غلامِ اعظم صاحب کے لیے بھی درست ثابت ہوتی ہے؟ انہوں نے عطیات جمع کیے، اجتماعات سے خطاب کیا اور لوگوں کو رضاکاروں کی صف میں شامل ہونے کی تحریک دی۔ انہوں نے متحدہ پاکستان کے لیے تحریک چلائی۔ کیا اِسے انتظامی سطح کی ذمہ داری قرار دیا جائے گا؟
شفیق الرحمٰن: میں کہہ چکا ہوں کہ ہم پاکستان کی حمایت کررہے تھے۔ ہم نے کبھی نہیں کہا کہ ہم نے نام نہاد جنگِ آزادی کی حمایت کی تھی۔ ہم متحدہ پاکستان پر یقین رکھتے تھے اور ملک کے امن اور استحکام کے ساتھ ساتھ نظم و ضبط کے لیے جو کچھ بھی درست لگا وہ کہا اور کیا۔
سوال: آپ کا موقف یہ ہے کہ اس نوعیت کے موقف کو مظالم سے جوڑا نہیں جاسکتا؟
شفیق الرحمٰن: جرم جس کسی نے بھی کیا ہو اُسے سزا ملنی چاہیے۔ میرا سوال تو صرف یہ ہے کہ اگر کوئی مجرم تھا تو اُس وقت سوال کیوں نہیں اٹھایا گیا؟ چار عشروں کے بعد یہ سب کچھ کیوں یاد آرہا ہے؟ الزامات تب لگائے جانے تھے جب گواہ بھی مل سکتے تھے؟ اِتنی مدت کے بعد یہ سب کچھ کیسے سامنے آگیا؟ اب اچانک گواہ کہاں سے مل گئے؟
آپ کو معلوم ہوگا جنگی جرائم کے مقدمات کے زمانے میں ایک سیف ہاؤس ہوا کرتا تھا جہاں گواہوں کو تربیت دی جاتی تھی۔ جو لوگ مانتے نہیں تھے انہیں مارا جاتا تھا۔ جو کہے پر عمل کرتے تھے انہیں نوازا جاتا تھا۔ (جاری ہے)