بلوچستان کی تاریخ کے خاک نشین کرداروں کا تذکرہ
بلوچستان کی سیاست کے حوالے سے دو نام بڑے اہم رہے ہیں، دونوں کا تعلق مکران ڈویژن سے ہے، اور دونوں نہ جاگیردار تھے، نہ سردار اور نہ نواب۔ ان میں سے ایک کا تعلق پاکستان کی صوبائی اسمبلی کے ممبر کی حیثیت سے تھا۔ اتفاق سے دونوں خاک نشین تھے۔ ان میں سے ایک مکمل سیاسی شخصیت کے طور پر ابھر کر پاکستان کی سیاست میں نمایاں ہوگئے۔ باقی بلوچ اردو میں اظہارِ خیال کرتے۔ ہم جس دور کا تجزیہ کررہے ہیں، اُس وقت پاکستان دو حصوں میں تقسیم تھا۔ ایک مغربی پاکستان اور دوسرا مشرقی پاکستان کہلاتا تھا، اور ان دونوں پر مشتمل پاکستان تھا۔ مشرقی پاکستان میں بنگلہ قوم تھی، جن کی زبان بنگالی تھی، کچھ کچھ اردو بولتے تھے، انگریزی پر عبور تھا۔ مغربی پاکستان چار صوبوں پر مشتمل تھا: پنجاب، سرحد، سندھ اور بلوچستان۔ عام لوگوںکو اس کا کم علم ہوگا کہ 1970ء تک بلوچستان نام کا کوئی صوبہ نہ تھا بلکہ یہ 2 ڈویژن پر مشتمل تھا: کوئٹہ ڈویژن اورقلات ڈویژن۔ یہ تقسیم برطانوی دور کی تھی۔ 2 کمشنر حکمران تھے۔ لیکن کوئٹہ ڈویژن کی حیثیت زیادہ تھی، اس لیے کہ کوئٹہ میں فوج کا مکمل ڈویژن موجود تھا۔ کوئٹہ انگریزوں کے دور سے جدید شہر تھا۔ کوئٹہ میں کمشنر کی حیثیت ایک گورنر کی سی تھی۔
1947ء سے 1970ء تک بلوچستان کی حیثیت صوبے کی نہ تھی۔ ون یونٹ تک اس کی حیثیت پنجاب کے ماتحت حصے کی تھی، کمشنر کا تعلق زیادہ ترصوبہ سرحد یا پنجاب سے ہوتا تھا۔ خاص طور پر کوئٹہ کے کمشنر کی حیثیت بہت طاقتور ہوتی۔ اسے گورنر کی حیثیت حاصل تھی،اس کی وجہ کوئٹہ کا تاریخی مقام تھا۔ جب کمشنر کوئٹہ کو، زیارت یا کسی اور شہر جانا ہوتا تو تمام راستوں پر جھنڈیاں لگائی جاتیں اور دروازے بنائے جاتے، پھولوں اور دیگر سامان سے محرابوں کو سجایا جاتا۔ آج جو گورنر ہائوس ہے وہ پہلے کمشنر ہائوس تھا، اس ہائوس میں برطانوی AGG رہائش پزیر ہوتا۔ کوئٹہ چھائونی اور گورنر ہائوس دونوں تاریخی حیثیت رکھتے تھے۔ اس کے بعد گرمائی علاقہ سبی تھا جسے تاریخی حیثیت حاصل ہے۔ اس شہر میں انگریز اپنا دربار لگاتے تھے۔ قائداعظم نے بلوچ اور پشتون سرداروں اور نوابوں سے اسی دربار ہال میں خطاب کیا تھا۔ برطانوی دور کے رابرٹ سنڈیمن کو تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔ بلوچ سرداروں نے رابرٹ سنڈیمن کی بگھی کو کاندھا دے کر اسے سبی ریلوے اسٹیشن تک پہنچایا۔ کئی سرداروں کی پگڑیاں کھل گئیں، لیکن انہوں نے رابرٹ سنڈیمن کو تکلیف نہ ہونے دی۔ ایک لحاظ سے اسے بلوچ تاریخ کا سنہرا دور کہہ سکتے ہیں، اور ایک پہلو سے اسے غلامی کا سیاہ دور بھی کہا جاسکتا ہے۔ مری قبیلے کے سردار نے کاندھا نہیں دیا، وہ اس جلوس میں شریک ہی نہیں تھا۔ رابرٹ سنڈیمن نے اسی دور میں کوئٹہ کینٹ کی بنیاد رکھی۔ کوئٹہ سول اسپتال اس کے دور میں تعمیر ہوا جو سنڈیمن اسپتال کے نام سے مشہور ہے۔ لیڈی ڈفرن اسپتال انگریز آفیسر کی بیگم کے حوالے سے مشہور ہے۔
بلوچستان کی موجودہ سیاست کے حوالے سے تجزیہ کرتے ہوئے، اس لیے ماضی کی کچھ یادیں بھی ساتھ ساتھ بیان کررہا ہوں تاکہ ایک شان دار ماضی بھی نگاہوں سے گزرتا رہے۔
بات چلی تھی باقی بلوچ سے۔ وہ ایک شاندار شخصیت کا مالک تھا۔ باقیؔ بلوچستان تھا،اور بلوچستان باقیؔ تھا۔ وہ ایک خاک نشین تھا، غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ تعلیم کراچی سے بھی حاصل کی۔ مجھے بڑی حیرت ہوتی ہے جب باقی بلوچ کے ماضی کو ایک قلم کار کی حیثیت سے دیکھتا ہوں۔ ایک بلوچ معاشرہ جو سرداروں، جاگیرداروں کی گرفت میں تھا، اس جامد معاشرے سے باقی بلوچ کا سیاست میں داخل ہونا ایک دھماکہ خیز عمل تھا۔ باقی بلوچ مغربی پاکستان کی اسمبلی میں پہنچ گیا جہاں پنجاب، سندھ اور سرحد کے خان، جاگیردار، سرمایہ دار اور بیوروکریٹ موجود تھے۔ ان طاقتور گروہوں کے درمیان مکران کے ایک خاک نشین کا جلوہ گر ہونا تاریخی دھماکہ تھا، اور باقی نے یہ دھماکہ کردیا۔ اور ایک مکرانی کا خوب صورت، دل نشین اردو میں اظہارِ خیال معجزے سے کم نہ تھا۔ وہ بلوچستان پر بولتا تو تیاری کرکے اپنا خیال بیان کرتا۔
اس کی شاعری بھی بڑی خوب صورت اور دلکش تھی، ایک نظر چند اشعار پر ڈالیں اور دیکھیں کہ وہ کس طرح دل کی آواز کے تار بکھیرتا ہے:
غم کی اندھیری نگری میں جاگے ہو تارو،ابھی سو رہو،سو رہو میرے شب خیز دل کے،سہارے ابھی سو رہو،سو رہو، سو رہو ، میرے ویران دیارو،ابھی سو رہو
باقی نے اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسلامیہ کالج سے تعلیم حاصل کی۔ اس میں ڈاکٹر تاثیر نے اس کی مدد کی۔ 60 روپیہ وظیفہ تھا۔ مشتاق احمدگورمانی نے اس کی سرپرستی کی۔ باقی بلوچ کی سیاست کے عروج کا زمانہ ایوب خان کے دور سے شروع ہوا۔ 1962ء میں حکومت نے انتخابات کا اعلان کردیا۔اس کے علاقے کے لوگوں نے مشورہ دیا کہ تم انتخابات میں حصہ لو۔ اس نے مکران کی نشست سے صوبہ مغربی پاکستان کی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ BD ممبرزکا دور تھا، وہ اسمبلی میں ووٹ دیتے تھے۔ ایوب خان نے اس نظام کو متعارف کرایا تھا۔ باقی نے اپنی نشست جیت لی اور مغربی پاکستان کی اسمبلی کا ممبر بن گیا۔ اس طرح باقی بلوچ کی سیاست کا آغاز ہوگیا۔
باقی بلوچ کی زندگی بڑی مشکل میں گزری ہے، اس کی کہانی بڑی دل چسپ ہے۔ وہ اپنی کتاب ’’باقی بلوچ‘‘ میں اپنی داستان سناتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’کراچی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنے علاقے سے روانہ ہوا۔ تربت سے پنجگور تک کا 160 میل کا سفر ایک ٹرک پر بیٹھ کر طے کیا جسے کراچی پہنچنے میں 15 دن لگے۔ کراچی سے کوئٹہ کا سفر کیا۔ پھر اس کے بعد کراچی داخلے کے لیے گیا۔ میں چاروں ریاستوں میں فرسٹ ڈویژن حاصل کرنے والا پہلا طالب علم تھا۔ پرنسپل کے کمرے میں گیا تو سندھی شیخ ایس ایم کالج کا پرنسپل تھا، مجھ سے پوچھا گیا ’’اے مکرانی جانور! کہاں سے آئے ہو؟‘‘ میں نے کہا ’’مکران سے‘‘۔ ’’تمہاری ڈویژن کیا ہے؟‘‘ جواب دیا’’فرسٹ ڈویژن‘‘۔ اس نے کہا ’’حیرت ہے، ایک مکرانی جانور فرسٹ ڈویژن حاصل کرسکتا ہے!‘‘ میں غصے سے باہر نکل گیا اور فیصلہ کرلیا کہ اس کالج میں نہیں پڑھوں گا۔ راجا احمد خان کو خط لکھا کہ مجھے لاہور جانے کی اجازت دیں۔ انہوں نے کہا: چلے جائو اپنے خوابوں کے شہر میں۔ لاہور کالجوں کا شہر تھا، جہاں بہت سی لائبریریاں تھیں، جہاں اہلِ ہنر تھے جن سے مجھے سیکھنا تھا اور جن سے مجھے شاعری کی اصلاح لینی تھی۔ ڈاکٹر تاثیر میرا بہت خیال رکھتے تھے، اور میری بڑی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔‘‘
باقی بلوچ کی داستان بڑی دل چسپ ہے، آج کا نوجوان اُس سے بہت کم واقف ہے، اس لیے باقی بلوچ کی سیاسی زندگی پر لکھنے کا فیصلہ کیا اور اس کی کتاب ’’باقی بلوچ‘‘ سے استفادہ کررہا ہوں۔
اسی طرح باقی بلوچ اپنے تعلیمی اور سیاسی سفر کو بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’1951ء میں پرنسپل نے طلبہ کا ایک وفد تشکیل دیا۔ اُس وقت خواجہ ناظم الدین وزیراعظم تھے اور دولتانہ پنجاب کے وزیراعلیٰ۔ 25 کالجوں سے 30 طلبہ کا وفد تشکیل دیا گیا۔ ملاقات میں گفتگو کا آغاز میں نے کیا۔ بات شروع کی تو ایک وزیر سر ہلا کر مجھے داد دے رہے تھے اور حوصلہ افزائی کررہے تھے۔ ملاقات ختم ہوئی تو مجھے قریب بلایا، اپنا تعارف کرایا اور کہا ’’تم ایک دن حکومتی منصب حاصل کرلو گے‘‘۔ یہ مشتاق احمد گورمانی تھے۔
باقی بلوچ سے میری ملاقاتیں تھیں، مگر وہ زندگی کے آخری دنوں میں ایک بے بس اور شکستہ انسان لگ رہا تھا، اور مجھے اس سے مل کر بڑی اداسی اور افسوس ہوتا تھا۔ وہ ان لمحوں میں اپنے آخری سفر کی طرف جاتا ہوا نظر آتا تھا۔ وہ جناح روڈ کے ایک چھوٹے سے ہوٹل میں رہائش پزیر تھا۔ ہوٹل کا نام ’المعظم‘ تھا، جو اب موجود نہیں ہے۔ جب باقی پر یہ داستان لکھ رہا ہوں تو گزرے ہوئے لمحات نگاہوں میں ارتعاش پیدا کررہے ہیں، لکھتے ہوئے کچھ کچھ اداسی گھیرے ہوئے ہے۔
باقی اپنی داستان سناتے ہوئے ایک بہت اہم واقعے کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ وہ ایک پامسٹ سے ملا تھا جس کو اس نے اپنا ہاتھ دکھایا۔ باقی نے اس واقعے کو یوں بیان کیا:
’’ہم ایک شام باغ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس دوران میں اپنے ایک دوست کے دوست سے ملا جو پیش گوئی اور دست شناسی کا ماہر تھا۔ اس شخص نے جھم پیر حادثے کی پیش گوئی کی تھی جو ہوکر رہا۔ اس شخص نے بوڑھے سر ظفراللہ خان کی دوسری شادی کی پیش گوئی کی تھی، اور لبنان میں کئی سال بعد سر ظفر اللہ خان نے دوسری شادی کی۔ میں نے انہیں اپنے دوست منصور واسطی کے ذریعے مبارک باد کا پیغام بھیجا۔ ایک روز وہ شخص اچانک میری طرف متوجہ ہوا اور میرا ہاتھ دیکھنے کی پیش کش کی۔
جیسے ہی اس کی پہلی نظر میرے ہاتھ پر پڑی وہ میرے چہرے کو گھورنے لگا ’’مدتوںسے میں ایک ماڈل (نمونے) کے ہاتھ کی تلاش میں ہوں،ہر نجومی کا ایک نمونے کا ہاتھ ہوتا ہے، یہی ہے وہ ہاتھ۔ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اسے سن کر تم ہنسو گے، لوگ بھی ہنسیں گے۔ مگر یہ ہو کر رہے گا۔ تم عوام میں سے ابھرو گے، غریب تم سے محبت کریں گے اور تم بڑے لوگوں کی نفرت کا نشانہ بنو گے۔ پھر قاتلانہ حملہ ہوگا، تمہارے بچنے کی امید نہ رہے گی مگر تم بچے رہو گے معجزانہ طور پر، تمہاری قوتِ ارادی اور معصوم انسانوں کی دعائیں موت کی راہ روک لیں گی۔‘‘ میں سکتے کے عالم میں یہ سب کچھ سنتا رہا۔‘‘
باقی بلوچ کی داستان بڑی دل چسپ اور پراسرار ہے۔ ایک واقعہ وہ خود بیان کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے: ’’ایک برگزیدہ اور پراسرار شخص کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں جو میری زندگی کا سب سے حیرت انگیز کردار ہے جسے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، میں درویشوں اور فقیروںکی بہت عزت کرتا ہوں کہ یہ لوگ کسی کا کچھ نہیں بگاڑتے اور محبت کا پرچار کرتے ہیں، مگر میں خود کسی پیر کے دروازے پر نہیں گیا ہوں، کبھی ان سے ملا نہیں ہوں۔ میں ایک روز ایک دوست کی دکان پر بیٹھا ہوا تھا، اچانک میں نے ایک شخص کو دیکھا جس کی آنکھوں سے شعلے لپک رہے تھے اور اس کی طرف دیکھنا مشکل تھا۔ ’’یہ کون ہیں؟‘‘ میں نے پرانے لباس والے شخص کی طرف اشارہ کیا۔ ’’تم انہیں نہیں جانتے؟ یہ حاجی نور محمد ہیں‘‘۔ دوست نے میری طرف اشارہ کیا اور مجھے اپنے پاس بیٹھنے کو کہا۔ اُس وقت لوگ میری طرف رشک سے دیکھ رہے تھے۔ میں مؤدب ہوکر بیٹھا اور صرف اتنا کہا ’’دعا کیجیے‘‘۔ انہوں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے اور کہا ’’جائو تمہاری عمر غریبوں کی خدمت میںگزرے گی‘‘۔ کچھ دنوں کے بعد وہ جیونی چلے گئے۔
میں ان کی تلاش میں نکلا، وہ ایک جاننے والے کے گھر ٹھیرے ہوئے تھے، میں ان کے سامنے بیٹھ گیا۔ میرا ذہن الیکشن میں الجھا ہوا تھا۔ اگر ہار گیا تو کیا ہوگا؟ میں بار بار سوچتا۔ اچانک میرے ذہن میں اس خیال کی لہر اٹھی: میرے ووٹ کتنے ہوںگے؟
حاجی نور محمد نے اچانک اپنی تسبیح میرے ہاتھ پر رکھ دی اور کہا ’’اپنے ووٹ گن لو باقیؔ‘‘۔ میں تسبیح کے دانے گننے لگا، وہ کُل 99 تھے، حالانکہ دانے 100 ہوتے ہیں۔ انتخابات میں ایک مہینہ باقی تھا، نتیجہ نکلا تو میرے 99 ووٹ تھے۔ مجلس میں لوگ کہتے کہ باقیؔ کے ووٹ 99 تو حاجی نور محمد نے گن دیے تھے، اب کس بات کی فکر ہے! (جاری ہے)