آزاد کشمیرکی تغیر پزیر سیاسی حرکیات

آزادکشمیر میں چلنے والی زودار احتجاجی تحریکوں میں اسلام آباد
کے فیصلہ سازوں کے لیے سبق اور غور وفکر کا بہت سامان ہے

اپنی حساسیت، قومی منظر میں اپنی جداگانہ اور منفرد حیثیت، 77 برس سے قائم اپنی شناخت کی مضبوط چھاپ، اور اوورسیز کشمیریوں کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کے باعث آزادکشمیر ایک دستی بم ہے مگر کچھ لوگ اس گرنیڈ سے فٹ بال کھیلنے کا شوق فرمانے پر اصرار کیے ہوئے ہیں، گویا ’’انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند‘‘۔

ابھی چند ہی ماہ پہلے بجلی اور آٹے کی سبسڈی کے نام پر ہونے والے پُرجوش، پُرشور، اور پُرزور احتجاج پر سب سے مختصر اور جامع تبصرہ یہ تھا ’’لیسٹ بٹ ناٹ لاسٹ‘‘۔ آٹے اور بجلی کا تعلق معاشرے کی معیشت اور اقتصادیات سے ہے تو آرڈی ننس کا تعلق عوام کے شعور کو محدود کرنے یا شعور کے اظہار کو زنجیر پہنانے سے ہے۔ یوں مختصر عرصے میں عوام کا ایک قوت اور سرعت کے ساتھ سراپا احتجاج ہونا بتارہا ہے کہ معاملہ کسی ایک مسئلے تک محدود نہیں بلکہ عوام کی بڑھتی ہوئی حساسیت اور ردعمل دکھانے کی صلاحیت کا ہے جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ احتجاج کے ایک دور کے چند ماہ بعد ہی آزادکشمیر ایک بار پھر تمبر کے خاردار ڈنڈوں کے ساتھ سڑکوں پر تھا۔ اب بجلی اور آٹے کے بجائے احتجاج کی وجہ ایک ایسا آرڈی ننس تھا جو آنے والے دور اور بڑے فیصلوں کی پیش بندی کے طور پر جاری ہوا ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ حکومت کو کوئی ایسا بڑا فیصلہ کرنا ہے جس کی پیش بندی کے طور پر لوگوں سے احتجاج اور فریاد کا حق چھینا جانا لازمی ہے، تاکہ ماحول اس شعر کی تصویر بن کر رہ جائے:

لوگوں نے احتجاج کی خاطر اُٹھائے ہاتھ
اس نے کہا کہ فیصلہ منظور ہو گیا

اچھا ہوا کہ حکومتِ آزادکشمیر نے عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات تسلیم کرکے حالات کو بگڑنے سے بچالیا اور گزشتہ احتجاج کی طرح اِس بار ماحول میں خون کی آمیزش نہیں ہوئی۔

دنیا بھر کی سیاست کی طرح آزادکشمیر کی سیاسی حرکیات میں وہ تبدیلی رونما ہوچکی ہے جو سوشل میڈیا اور جدید ذرائع ابلاغ کے پہلو بہ پہلو چلی آرہی ہے۔ آزادکشمیر میں یہ تبدیلی پاکستان کی طرح کچھ تاخیر سے آرہی ہے۔ پاکستان گزشتہ ڈھائی برس سے سوشل میڈیا کے باعث سیاست اور معاشرت میں پیدا ہونے والے نئے رجحانات کی لہروں کی زد میں ہے، جنہوں نے پرانے اور قدیم رجحانات اور روایات کو یکسر تبدیل کردیا ہے۔ سری نگر میں دو دہائیوں سے سوشل میڈیا کے ساتھ در آنے والے رجحانات اپنا کرشمہ دکھا چکے ہیں اور اب ان رجحانات کو طاقت سے دبا دیا گیا ہے، مگر سکون کی تہ میں یہ جذبات اور رجحانات پوری طرح موج زن ہیں۔ اب جدید ذرائع کے باعث پیدا ہونے والے یہ نئے رجحانات آزادکشمیر میں اپنا رنگ دکھا رہے ہیں۔

یہ وہ علاقہ ہے جسے اسّی اور نوّے کی دہائی میں بہت محنت کے ساتھ ڈی پولیٹسائزکرنے کا عمل شروع ہوا۔ اسّی کی دہائی میں تعلیمی اداروں میں جنرل ضیاء الحق حکومت کی تقلید میں انجمن سازی پر عین اُس وقت پابندی عائد کی گئی جب اس عمل سے سیاسی جماعتوں کو ایک متحرک، جرات مند، جواں سال تازہ خون مل رہا تھا۔ اگلے مرحلے یعنی نوّے کی دہائی میں قوم پرست تنظیموں اور سرگرم کارکنوں کی پٹائی کرکے اکثریت کو سیاسی پناہ پر بیرونِ ملک چلے جانے پر مجبور کیا گیا۔ باقی جو روایتی سیاسی جماعتیں بچ گئیں انہیں بدعنوانی کی ایسی فائلوں نے کھا لیا جو لاٹھی پر رکھے مرے ہوئے سانپ کی طرح صرف ڈرانے کے کام آتی ہیں۔

ایک دو دہائیاں اس کامیاب ’’مینجمنٹ‘‘ کے باعث سکون اور سکوت میں گزر گئیں۔ یہاں تک کہ سوشل میڈیا کی آمد کے اثرات نے خود آزادکشمیر کے دروازے پر دستک دی اور یہاں کے عوامی رجحانات میں تبدیلی کے آثارپیدا ہونا شروع ہوئے۔ آزادکشمیر کی تمام قابلِ ذکر روایتی سیاسی جماعتوں کو حکومت کی ایک ٹوکری میں جمع کردیا گیا جس سے طاقت کا ایک خلاء پیدا ہوتا جارہا ہے، اب اس خلاء کو ایک غیر سیاسی قوت نے تیزی کے ساتھ پُر کرنا شروع کیا ہے۔ یہ قوت پہلے تاجر جوائنٹ ایکشن کمیٹی تھی، مگر جب عوام اس کی جانب مائل ہونے لگے تو پھر اس کا نام جوائنٹ ایکشن کمیٹی رکھ دیا گیا۔ تب اس میں تاجروں کے علاوہ سول سوسائٹی اور دوسرے طبقات بھی شامل ہونے لگے۔ صدارتی آرڈی ننس کا براہِ راست تاجر کمیونٹی سے تعلق نہیں بلکہ یہ عام شہری اور پڑھے لکھے نوجوان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے جسے آنے والے وقتوں میں ایک ٹویٹ کرنے کی بنیاد پر قومی مفاد کے نام پر یا بھارت کا ایجنٹ ہونے کا لیبل لگا کر غائب کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح اب معاملہ آٹے، بجلی سے بہت آگے نکل چکا ہے۔ آزادکشمیر کے مستقبل کے حوالے سے کچھ فیصلے ہونا ابھی باقی ہیں۔ ان فیصلوں میںپے در پے ہونے والے ان احتجاجوں کی شدت، حدت، سنگینی اور عوام کے موڈ اور مزاج کا خیال رکھنا چاہیے۔ آزادکشمیر میں چلنے والی زودار احتجاجی تحریکوں میں اسلام آباد کے فیصلہ سازوں کے لیے سبق اور غور وفکر کا بہت سامان ہے۔

عمومی تاثر یہ ہے کہ باجوہ ڈاکٹرین کے مطابق اسلام آباد کے فیصلہ ساز آزادکشمیر کا انتظامی تیاپانچہ کرنے کی یقین دہانی کراچکے ہیں۔اس کی شکل وصورت کیا ہوگی؟اس پر مختلف قیاس آرائیاں جاری ہیں، مگر اس کی سب سے بدترین شکل جو بیان کی جا رہی ہے وہ یہ ہوسکتی ہے کہ کشمیر کی متنازع اور اس کی تاریخی ریاستی حیثیت کی آخری علامت آزاد حکومت ریاست جموں وکشمیر (آزادکشمیر کا سرکاری نام یہی ہے جس کا مطلب ہے پوری ریاست جموں وکشمیر کی آزادانقلابی حکومت)کو پنجاب اور خیبر پختون خوا کے درمیان تین حصوں میں بانٹ دیا جائے۔یہ وہ غلطی ہوسکتی ہے جو ایک تباہ کن ردعمل کی بنیاد بن سکتی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہو ں گی :

اوّل یہ کہ گزشتہ 77برس میں آزادکشمیر میں ایک قومی اور علاقائی وحدت اورکشمیر ی یا ریاستی شناخت کا احسا س بہت گہرا ہوچکا ہے۔ اس احساس کو اُجاگر کرنے میں آزادکشمیر کے موجودہ انتظامی ڈھانچے کا گہرا عمل دخل ہے جس کے تحت آزادکشمیر کے خطے کا اپنا آئین، اپنا پرچم، اپنا صدر، وزیراعظم اور سپریم کورٹ ہے۔ آزادکشمیر کو متنازع رکھنے کی حکمتِ عملی نے یہاں کے عوام میں کشمیریت اور ریاستی ہونے کے جذبات کو نہ صرف زندہ رکھا ہے بلکہ یہ جذبات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوتے جارہے ہیں۔ اس بے دردی سے اس خطے کے انتظامی ڈھانچے کا خاتمہ اتنے ہی بے رحم ردعمل کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

دوئم: آزادکشمیر کے لاکھوں لوگ بیرونی دنیا میں رہ رہے ہیں اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔گزشتہ پچاس ساٹھ سال کی نقل مکانی کے عمل کے بعد اب کشمیری تارکینِ وطن نہ صرف زیادہ منظم اور مضبوط ہوچکے ہیں بلکہ وہ اپنی شناخت کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ان میں ارکانِ پارلیمنٹ، بلدیاتی اداروں کے منتخب سربراہ اور کونسلر بھی ہیں اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں سرگرم افراد بھی۔ یہ باشعور بھی ہیں، بااثر بھی ہیں اور پاکستان کے موجودہ حالات سے مایوس بھی ہیں۔ ان میں آزادکشمیر کا قوم پرست عنصر بھی شامل ہے اور عام لوگ بھی۔ آزادکشمیر کے انتظامی مستقبل کے حوالے سے کسی غیر حکیمانہ فیصلے کے خلاف اس حلقے سے وہ ردعمل آئے گا کہ لوگ پی ٹی آئی اوورسیز کے رواں ردعمل کو بھول جائیں گے۔ یوں آزادکشمیر میں عوامی طاقت کے اظہارکے دو مظاہروں کے اسٹائل اور عوامی رجحان میں اسلام آباد کی فیصلہ ساز بیوروکریسی کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔ توقع یہی ہے کہ اس سے حاصل ہونے والا سبق اور تجربہ وہ اگلے فیصلوں کے لیے پلو میں باندھ لیں گے۔