اسلام آباد کے سیاسی حلقوں میں ایک حل قومی حکومت کی صورت میں زیر گردش ہے
پاکستان کا سیاسی نظام بحران اور غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہے۔ مسئلہ سیاسی، معاشی، سیکورٹی اور انتظامی نوعیت کا بحران ہے جو تواتر کے ساتھ ہماری ریاستی اور حکومتی مشکلات کو بڑھا رہا ہے۔ اگرچہ حکومت کا دعویٰ ’سب اچھا‘ کا ہے، اور اُس کے بقول اُس نے اپنے محاذ پر تمام مشکلات پر قابو پالیا ہے، یہاں تک کہ اُسے اپنے سیاسی مخالفین سے بھی اب کوئی خطرہ نہیں۔ لیکن جو لوگ اندر کے حالات سے واقفیت رکھتے ہیں اُن کے بقول طاقت کے مراکز میں ایک سیاسی طوفان ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا، اور ایسا لگتا ہے کہ اس بحران نے طاقت ہی کے مراکز میں ایک بڑا ڈیڈلاک پیدا کردیا ہے ۔ اس بحران سے نکلنے کے لیے ریاست یا حکومت نے جتنی بھی سیاسی یا غیر سیاسی حکمت عملیاں اختیار کی ہیں وہ مطلوبہ نتائج نہیں دے سکیں۔ یہ بات بجا ہے کہ ایک بڑا سیاسی ڈیڈلاک پی ٹی آئی اور عمران خان کے درمیان ہے جس کی کوئی گتھی سلجھ نہیں رہی بلکہ اس میں مسلسل بگاڑ اور پہلے سے زیادہ بداعتمادی اور تلخیاں پیدا ہورہی ہیں۔ پی ٹی آئی میں ایک بڑا گروپ اسٹیبلشمنٹ سے اُسی کی شرائط پر بات چیت اور معاملات طے کرنے کے لیے تیار ہے، مگر اُن کا مسئلہ عمران خان ہیں جو مذاکرات تو چاہتے ہیں مگر اپنی شرائط پر، اور اس پر فی الحال وہ کوئی سمجھوتا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ یا حکومت نے پسِ پردہ جو بھی معاملات طے کرنے کی کوشش کی اس میں کوئی کامیابی نہیں مل سکی۔ اسی بنیاد پر عمران خان اور اُن کے ساتھیوں کے خلاف مزید سختیاں بھی سامنے آرہی ہیں۔ 24نومبر کے پی ٹی آئی دھرنے، یا اس کی ناکامی پر پی ٹی آئی کے خلاف ایک نیا محاذ کھو ل دیا گیا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ پی ٹی آئی یا بانی پی ٹی آئی کے تمام تر اقدامات ریاست کے مفاد کے خلاف ہیں۔ اب عمران خان کی طرف سے، مذاکرات میں ناکامی اور پی ٹی آئی کو سیاسی راستہ نہ دینے کی حکمت پر سول نافرمانی کی تحریک کی آواز بھی آئی ہے، اور خود پی ٹی آئی کے لوگ بھی حیران ہیں کہ موجودہ صورتِ حال میں ہم کیسے سول نافرمانی کی تحریک پیدا کرسکتے ہیں! اگرچہ فی الحال ایسا لگتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی طرف سے سول نافرمانی کی تحریک اسٹیبلشمنٹ اور حکومت پر دبائو ڈالنے کی حکمتِ عملی ہے، کیونکہ عمران خان کو بھی اندازہ ہے کہ موجودہ حالات میں سڑکوں پر بڑی عوامی تحریک پیدا کرنا ممکن نہیں۔ لیکن عمران خان سمجھتے ہیں کہ مختلف نوعیت کے دبائو ڈال کر ہی وہ اسٹیبلشمنٹ کو مجبور کرسکتے ہیں کہ وہ اُن سے بات چیت کا راستہ نکالے۔
اسٹیبلشمنٹ کے حلقوں کے بارے میں ایک عمومی رائے یہی ہے کہ وہ پی ٹی آئی یا بانی پی ٹی آئی سے مذاکرات کے حامی نہیں، یا ان کے بقول یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ ہم کسی بھی سطح پر سیاسی قوتوں بشمول پی ٹی آئی سے مذاکرات نہیں کریں گے۔ اگر یہ عمل ہونا ہے تو اس کا فیصلہ ہم کو بلکہ حکومت کو کرنا ہے۔ اس لیے بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی سے بات چیت کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے درواز ے کو بند کردیا گیا ہے۔ لیکن جو لوگ سیاسی شطرنج کے کھیل کو سمجھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا، اور غیر رسمی طور پر اسی دروازے کو بنیاد بناکر بات چیت کا عمل کسی نہ کسی شکل میں آگے بڑھتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک بڑی سہولت کاری کی بنیاد پر پی ٹی آئی کے لوگوں کی جیل میں عمران خان سے خصوصی ملاقات کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ بات چیت کو کسی نتیجے تک پہنچایا جاسکے۔ اسٹیبلشمنٹ کی مجبوری یہ ہے کہ اُن سے داخلی سے زیادہ خارجی محاذ سے عمران خان کی رہائی کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ عالمی میڈیا اور دنیا کے بااثر ممالک کے ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے عمران خان کی حمایت میں قراردادوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ ایک عمومی خیال یہ بھی ہے کہ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی پر بھی عمران خان کی رہائی کے لیے دبائو بڑھے گا، اور یہ دبائو امریکہ کی خواہش پر سعودی عرب، یو اے ای اور قطر کی طرف سے بھی آسکتا ہے۔ دوسری وجہ پاکستان کا داخلی بحران ہے جو حکومت سے نہیں سنبھل رہا، بلکہ اسٹیبلشمنٹ اب اس حکومتی ماڈل کو سیاسی بوجھ کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ کیونکہ اِس وقت اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جو دبائو بڑھ رہا ہے اُس کا مؤثر جواب حکومت نہیں دے پارہی، اور اس کا مزید شدید ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ حکومتی وزرا اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بننے والے بیانیے کے مقابلے میں اپنا بیانیہ بنانے میں ناکامی سے دوچار ہیں۔ حکومت کی اتحادی جماعتیں پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم بھی حکومت کے دفاع سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہیں۔ اگرچہ معاشی طور پر اچھی کہانیاں پیش کی جارہی ہیں، مگر معاشی حالات سب کے سامنے ہیں اور یہ معاشی بحران ہمارے مسائل میں مزید شدت پیدا کررہا ہے۔ اس لیے جو داخلی اور خارجی دبائو ہماری ریاست یعنی اسٹیبلشمنٹ پر ہے وہ اس سے باہر نکلنا چاہتی ہے، کیونکہ اس بحران نے ایک بڑے سیکورٹی بحران اور دہشت گردی کی نئی شکلوں کو جنم دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب بلوچستان کے ساتھ ساتھ خیبر پختون خوا میں اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ زور پکڑرہا ہے اور وہاں دہشت گردی یا سیکورٹی کے خراب حالات نے ریاست کی مشکلات کو بڑھادیا ہے۔ اس لیے اسٹیبلشمنٹ سب اچھا سمجھ کر خاموش نہیں بلکہ وہ بھی موجودہ حالات میں مختلف سیاسی آپشنز پر غورکررہی ہے، کیونکہ پی ٹی آئی یا عمران خان سے مفاہمت کا راستہ نکالے بغیر ملک میں موجود سیاسی تعطل کو ختم نہیں کیا جاسکے گا۔ وزیراعظم کے طور پر شہبازشریف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہت زیادہ وفاداری کا مظاہرہ کررہے ہیں اور ان کے طرزعمل سے اسٹیبلشمنٹ خوش ہے، مگر شہباز حکومت پی ٹی آئی بیانیے اور اداروں پر بڑھتی ہوئی تنقید کا کوئی سیاسی حل پیش نہیں کرسکی، اور خود معیشت کی بحالی کے لیے وہ بھی اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھ رہی ہے، اور خود کچھ کرنے کی صلاحیت اس حکومت میں بھی نہیں ہے۔ اس لیے ’اچھا‘ شہبازشریف، اچھے کاموں کے فقدان کی وجہ سے بھی اس نظام پر بوجھ ہے،کیونکہ ریاست یا حکمرانی کے جو چیلنجز ہیں ان سے نمٹنے کے لیے موجودہ حکومت کچھ نہیں کرسکے گی۔
اسلام آباد کے سیاسی حلقوں میں ایک حل قومی حکومت کی صورت میں زیر گردش ہے۔ اگرچہ پہلے ہی ملک میں قومی حکومت ہے، ماسوائے پی ٹی آئی کے تمام جماعتیں کسی نہ کسی شکل میں حکومت کے ساتھ کھڑی ہیں، لیکن لگتا ہے اس قومی حکومت میں اب پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی سمیت جے یو آئی کو بھی شامل کرنا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا قومی حکومت ان ہی جماعتوں پر مشتمل ہوگی جو آج حکومت کررہی ہیں؟ یا پھر ان تمام بڑی جماعتوں کی قیادت کو نظرانداز کرکے کسی اور کو قومی حکومت کا سربراہ بنانا ہے؟ ایک تجویز یہ ہے کہ قومی حکومت دو برس کے لیے ہو اور پھر عام انتخابات کا راستہ اختیار کیا جائے۔ اس صورت میں سوال یہ ہے کہ کیا یہ فارمولا مرکز تک محدود ہوگا اور صوبوں میں جن جن کی اِس وقت حکومت ہے وہ حکومت کرتے رہیں گے؟ یا پھر ملک میں ایک قومی حکومت کے نام پر ٹیکنوکریٹس کی حکومت ہوگی اور سیاسی جماعتیں ایک مخصوص وقت تک اس بندوبست کی حمایت کریں گی؟ عمران خان کو پیغام دیا گیا کہ اگر وہ اس قومی حکومت کی حمایت کریں اور اپنے کچھ لوگوں کے نام وہ قومی حکومت کے لیے دیں تو بتدریج ان کو ریلیف مل جائے گا، اور اس کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ عمران خان ریاست مخالف بیانیے سے خود کو دور رکھیں۔ یہ بھی تجویز دی گئی کہ اگر اُن کو شریف خاندان سے تحفظات ہیں تو اِس خاندان کو قومی حکومت سے دور رکھا جاسکتا ہے۔ ایک تجویز یہ ہے کہ پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی میں مفاہمت کا راستہ نکلے تاکہ معاملات کو زیادہ بہتر طور پر آگے بڑھایا جاسکے۔ اصل میں عمران خان کا ایک ہی مؤقف ہے کہ وہ موجودہ حالات میں نئے انتخابات چاہتے ہیں۔ ان کے بقول اگر نئے انتخابات کی شرط پر کوئی عبوری اور کم مدت حکومت کی پیش کش ہے تو بات چیت ہوسکتی ہے، اور ان کے بقول پی ٹی آئی اس عبوری حکومت کا حصہ نہیں ہوگی بلکہ اس کی حمایت کرے گی کہ یہ حکومت ملک میں نئے انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنائے اور ہمارے تمام گرفتار لوگوں کو رہا کیا جائے۔ بظاہر عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے دو برس کے لیے قومی حکومت کی حمایت کرنے کے لیے تیار نہیں، اور اسی بنیاد پر تعطل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے جو لوگ جیل میں عمران خان سے ملاقات کرکے اُن کو سیاسی طور پر رام کرنا چاہتے ہیں انہیں بھی مختلف محاذوں پر ناکامی کا سامنا ہے، بلکہ پی ٹی آئی کے ورکرز اور ووٹرز اب پی ٹی آئی کی باہر بیٹھی قیادت کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں، اور اُن کے بقول بیرسٹر گوہر اور علی امین گنڈا پور… سب اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہی کھڑے ہیں، اور اس کا ردعمل پی ٹی آئی کی داخلی سیاست میں بڑھ رہا ہے۔ بنیادی طور پر مولانا فضل الرحمٰن نے درست کہا ہے کہ اس نظام کو بچانے یا اس پر مزید میک اپ کرنے کے بجائے نئے انتخابات ہی مسائل کا حل ہیں، مگر یہ نئے انتخابات نئے رولز آف گیم کی صورت میں ہوں گے جہاں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت نہ ہو اور لوگوں کو یہ حق دیا جائے کہ وہ اپنی مرضی کی حکومت بناسکیں۔ یہی بات عمران خان کہہ رہے ہیں، وہ بھی یہی پیغام سب کو دے رہے ہیں کہ مسائل کا حل قومی حکومت سے نہیں بلکہ منصفانہ اور شفاف انتخابات کی صورت میں ہی ممکن ہوگا۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ بظاہر فوری طور پر نئے انتخابات کے لیے تیار نہیں اور وہ اسی کنٹرولڈ نظام کو مزید دوبرس چلانا چاہتی ہے جس کی وجہ سے مسائل میں نہ صرف ڈیڈلاک ہے بلکہ مزید خرابیاں بھی پیدا ہورہی ہیں۔ عمران خان خود مشکل میں ہیں مگراُن کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ خود اسٹیبلشمنٹ بھی موجودہ حالات سے خوش نہیں، اور آج نہیں تو کل ان کو متبادل آپشن پر ہی آنا ہوگا۔ عمران خان نے بھی پیغام دیا ہے کہ وہ جیل سے باہر آکر کسی کے خلاف سیاسی یا غیر سیاسی کسی انتقامی کارروائی کا ارادہ نہیں رکھتے۔ اصل مسئلہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اسی صورت حل ہوگا جب ان کے لوگوں کو رہا کیا جائے گا، کیونکہ حتمی مذاکرات سے قبل سازگار حالات اور مذاکرات کا ماحول یقینی بنانا ضروری ہے۔ لیکن جس انداز سے حکومت خاص طور پر اب پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کے خلاف نئے مقدمات بنارہی ہے اس سے اور زیادہ تعطل یعنی ڈیڈلاک پیدا ہوگا۔ اب نئی خبر کے مطابق سوشل میڈیا پر اداروں کے خلاف بغاوت پر حکومت نے عمران خان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کرلیا ہے اور ایف آئی اے سائبرونگ کی انکوائری بھی مکمل کرلی گئی ہے۔ اب وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد اس پر عمل درآمد ہوگا۔ حکومت کا الزام ہے کہ عمران خان سوشل میڈیا کی مدد سے ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف لوگوں میں بغاوت پیدا کررہے ہیں۔ دوسری طرف جیل میں بیٹھے عمران خان پر روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردی کے مقدمات قائم کیے جارہے ہیں، کیونکہ پرانے مقدمات اپنی اہمیت کھو بیٹھے ہیں تو ایسے میں نئے مقدمات کی بنیاد پر عمران خان کو دبائو میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حالانکہ یہ سلسلہ پچھلے دو برس سے چلایا جارہا ہے مگر عمران خان حکومت کے قابو میں نہیں آرہے۔ حکومت کے بعض وزرا نے برملا اعتراف کیا ہے کہ عمران خان کی مزاحمتی سیاست نے ہماری مشکلات کو مزید بڑھایا ہے، اور اگر وہ اسی طرح جیل میں رہتے ہیں اور کوئی سمجھوتا نہیں کرتے تو طاقت کی یہ حکمت عملی حکومت کو سیاسی پسپائی پر مجبور کرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کے اندر سے بھی ایک آواز اٹھ رہی ہے کہ ہم آج جو کچھ عمران خان اور پی ٹی آئی کے ساتھ کررہے ہیں اس کا خمیازہ ہمیں مستقبل میں بھگتنا پڑسکتا ہے۔ اس لیے حکومت کے اندر سے بھی یہ تجویز آرہی ہے کہ ہمیں حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے پی ٹی آئی سے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر معاملات کو طے کرنا ہوگا۔ اس گروپ کا خیال ہے کہ حکومت نے تمام تر سیاسی حکمت عملیوں کو نظرانداز کرکے خود کو جس طرح اسٹیبلشمنٹ کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے، وہ بھی حکومتی جماعت مسلم لیگ ن کے حق میں نہیں، اور یہ عمل ہمیں مزید سیاسی تنہائی کی طرف دھکیلے گا۔ اس لیے اس بحران سے نکلنے کا واحد راستہ نئے انتخابات ہیں، مگر ان انتخابات سے پہلے ایک بڑا سیاسی اتفاقِ رائے سیاسی جماعتوں، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی سطح پر شفاف انتخابات یقینی بنانے کے لیے ہونا چاہیے۔ وگرنہ اس نظام یا موجودہ سیاسی بندوبست کو آگے لے کر چلنے کا کھیل ہمارے موجودہ بحران کو کم نہیں کرسکے گا، اور ہم یوں ہی محاذآرائی اور ٹکرائو کی بنیاد پر خود بھی تماشا بنیں گے اور ملک کے نظام کو بھی تماشے کے طور پر پیش کریں گے۔