قابل غور نکات
شام میں حافظ الاسد اور بشارالاسد کے 54 سالہ اقتدار کا خاتمہ ہوگیا، اس ضمن میں چند باتیں:
1۔ بشارالاسد کے مظالم سے انکار ممکن نہیں، جس طرح حافظ الاسد اور اس کے بعد بشار نے اقتدار کو طوالت دینے کے لیے ہر ہتھکنڈہ استعمال کیا، اُس کا منطقی انجام سامنے آگیا۔ لیکن خطے میں مزاحم قوتوں کے حوالے سے عرب بہار یا عرب اسپرنگ جیسی صورتِ حال کا پیدا ہونا یقیناً باعثِ تشویش ہے۔
2۔ عرب اسپرنگ کے نتیجے میں ہونے والی تبدیلیوں نے طویل بادشاہتوں کا خاتمہ تو کردیا، لیکن اس سب کے بعد اسرائیل کے اطراف میں موجود عسکری قوتوں اور رہی سہی قومی وحدت کو پارہ پارہ کردیا گیا۔ لیبیا، مصر اور عراق کے بعد اب شام میں بھی وہی صورتِ حال ہے جو 2011ء کی عرب بہار کے نتیجے میں پیدا ہوئی تھی۔
3۔ ایران کی خطے میں بڑھتی ہوئی بالادستی ایک جانب سعودی عرب اور دوسری جانب ترکیہ کے لیے ایک مسئلہ تھی، لیکن اس سے زیادہ اسرائیل کے لیے بھی ایک مسئلہ بنی ہوئی تھی۔ ایران، عراق، شام اور لبنان پر مشتمل بلاک ایک جانب اسرائیل مخالف مزاحمت میں کچھ اثر رکھتا تھا جس میں حزب اللہ سرفہرست تھی، تو دوسری جانب حماس کی مزاحمت نے اسرائیل کو اب تک ایک حد میں رکھا ہوا تھا۔
4۔ عرب بہار2011ء کے بعد بھی تکبیر کے نعرے اور آزادی کا بیانیہ تھا، لیکن یہ آزادی ایک اور بدترین غلامی پر منتج ہوئی کہ جہاں مقامی جابروں کے بجائے عرب عوام عالمی جابروں کے زیر تسلط آگئے۔ شام میں رونما ہونے والے واقعات، تین گروہوں کی جانب سے بشارالاسد کے اقتدار کا خاتمہ، اور اب اس کے بعد نئی حکومت کی تشکیل بہت زیادہ تحمل و دور اندیشی کی متقاضی ہے۔ ممکنات یہ ہیں کہ ان تین گروہوں کے درمیان خانہ جنگی بھی ہوسکتی ہے، جس کے بعد شام کو بھی 2014ء کی عراق و لیبیا جیسی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
5۔ روس کی جانب سے شام میں ماضی کے برعکس کوئی بڑی فوجی کارروائی نہیں کی گئی کہ جو بشارالاسد کی حمایت اور باغیوں کی سرکوبی کے لیے ہو۔ اس کی بنیادی وجہ روس کا یوکرین کے علاوہ کسی اور محاذ کو نہ کھولنے کا فیصلہ ہے۔ امریکی حکومت نے باغیوں کی پشت پناہی کی مکمل تردید تو کی ہے لیکن بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے پر بھی اطمینان کا اظہار کیا ہے جو کہ معنی خیز ہے۔ اسی طرح ماضی کے برعکس صرف تین ہفتوں میں بشارالاسد کی حکومت کا خاتمہ بھی بہت سے رجحانات کی عکاسی کررہا ہے۔ ایک یہ کہ ایران کی خطے میں پوزیشن کمزور ترین سطح پر آگئی ہے۔ شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر یکم اپریل 2024ء کو ہونے والا حملہ… جس میں ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے سینئر کمانڈر رضا مہدی سمیت 16 افراد ہلاک ہوئے… کے بعد سے بدلتی ہوئی صورتِ حال میں لبنان میں حزب اللہ کے قائد حسن نصراللہ اور اُن کے نائب صفی ہاشم کی اسرائیل کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد ایران اب عسکری طور پر خطے میں بنائی گئی بفرزون سے عملاً طاقت کا توازن کھو بیٹھا ہے۔ اس سب میں مشرق وسطیٰ میں موجود کیپٹلسٹ اور کمیونسٹ بلاکس کے درمیان جو معرکہ تھا وہ بھی ایک حتمی انجام تک پہنچ گیا۔ حیرت انگیز طور پر مشرق وسطیٰ میں کمیونسٹ نظریاتی ممالک، یا وہ ملک جو روسی بلاک میں تھے، ایک ایک کرکے اندر یا باہر سے تبدیلیوں کی زد میں ہیں۔ ماضی میں عراق، لیبیا اور اب شام، جبکہ کیپٹلسٹ بلاک میں موجود مصر اور دیگر ممالک عرب بہار کی زد میں آنے کے باوجود بھی ناکام بغاوتوں کی سزا پارہے ہیں، حتیٰ کہ مصر میں قانونی و جمہوری طور پر قائم اخوان المسلمون کی حکومت کے خاتمے میں جہاں مشرقِ وسطیٰ کی طاقتوں نے کلیدی کردار ادا کیا، وہیں امریکہ نے بھی اس پر اپنے اطمینان کا اظہار کیا۔ اخوان المسلمون کی حکومت کی برطرفی کے بعد جنرل السیسی کے اقتدار کو نہ صرف امریکہ نے قبول کیا بلکہ اس کو مستحکم کرنے کے لیے اپنا تمام وزن بھی آمر جنرل السیسی کے حق میں ڈالا۔
غزہ کے مظلوم فلسطینیوں پر 13 ماہ سے جاری آگ و خون کی بارش میں بھی امریکی میزائل، جہاز، ٹیکنالوجی اور ڈالر استعمال ہوئے، سفارتی محاذ پر بھی اسرائیل کو اقوام متحدہ سمیت ہر فورم پر امریکہ سے بہتر کوئی وکیل میسر نہ تھا، لہٰذا امریکہ جنگ بندی کی ہر قرارداد کو ویٹو کرتا رہا۔ مشرقِ وسطیٰ میں عرب بہار 2011ء سے لے کر آج تادم تحریر دسمبر 2024ء تک تیونس سے لے کر شام تک جو کچھ ہوا اُس کا منطقی انجام اسرائیل کے لیے کھلا میدان ہے کہ جہاں عوام اپنے ہی ظالم حکمرانوں سے نجات کے لیے سرگرداں ہیں تو دوسری جانب شیعہ سنی، امریکہ و روس بلاکس میں تقسیم، امت کی وحدت کو پارہ پارہ کررہی ہے۔
حماس کے ترجمان اسامہ حمدان نے ایک ہفتہ قبل اپنے ایک ویڈیو انٹرویو میں یہ بات کھل کر کہی کہ بشارالاسد کی حکومت کا خاتمہ حماس کی بھی منشا ہے۔ شام کی صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے بشارالاسد کے مظالم کی طویل فہرست بیان کی۔ اس سے کوئی انکار ممکن نہیں۔ لیکن اب جبکہ بشارالاسد کی حکومت کا خاتمہ ہوچکا ہے تو سب سے بڑا سوال ہی یہ ہے کہ کیا بشارالاسد کے بعد تینوں بڑے گروہ اسلامی ہیئتہ تحریر الشام، شام قومی آرمی اور اسلامی فرنٹ کہ جنہوں نے بشار کی حکومت کا خاتمہ کیا، کسی حکومت سازی پر متفق ہوکر شام کو مزید خانہ جنگی سے بچا پائیں گے؟
یہ سوال اِس وقت کا سب سے بڑا سوال ہی نہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں مظلوم فلسطینیوں کی بقاء کے لیے ایک بڑا چیلنج بھی ہے۔ اگر حماس شام میں ان تینوں گروہوں کو کسی ایک نکتے پر لانے میں کامیاب ہوسکتی ہے تو وہ غزہ کی صورتِ حال ہے۔ اگر یہ گروہ اس نکتے پر متفق ہوئے تو یقیناً یہ اسرائیل کے لیے ایک بھیانک نتائج کا حامل ہوگا۔ لیکن اسرائیل و امریکہ کیا یہ سب کچھ کرنے دیں گے؟ یہ سوال بھی اہم ہے۔
مشرقِ وسطیٰ میں لگتا یہ ہے کہ مستحکم حکومتوں کے بجائے اب رسّاکشی اور خانہ جنگی کا ایک ماحول رہے گا تاکہ مسلمان کسی ایک نکتے پر متفق نہ ہوسکیں اور اسرائیل کو نہ صرف خطے میں مزید پنجے گاڑنے کا موقع ملے بلکہ اُس کو جو کچھ بھی عسکری چیلنج درپیش ہے، اسے بغیر لڑے ہی اندر سے ختم کردیا جائے۔
ایران، پاکستان و ترکیہ کے لیے اس صورتِ حال میں مل بیٹھ کر ایک بلاک بنانے کا موقع ہے۔ اگر یہ ممکن ہوا تو شاید مشرق وسطیٰ کی صورتِ حال کو کچھ بہتر بنایا جاسکے، وگرنہ انقلاب کے نعروں کی گونج میں کہیں ایک اور خانہ جنگی کے شعلے شام کی سرزمین سے بلند نہ ہوجائیں۔ اور اگر یہ ہوا تو شاید مسجد اقصیٰ تک صہیونیت کے منصوبے کی جانب حتمی پیش قدمی ہوگی کہ جس کے سنگین نتائج نہ صرف عالم اسلام بلکہ پوری دنیا کو بھگتنا ہوں گے۔
اگر کسی کو مشرق وسطیٰ کے بڑے اور مال دار ممالک سے کسی بھی قسم کی کوئی امید ہے تو وہ شاید نئی دنیا کے رجحانات و امکانات کی دنیا سے دور ہے۔ گرم انقلاب کے بجائے ان ریاستوں میں نرم انقلاب آچکا ہے۔ لہٰذا یہ نرم انقلاب اب کسی کو بھی اس کی راہ کھوٹی کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ غزہ، مغربی کنارا اور پورا فلسطین اب اس نہج پر ہیں کہ جہاں یا تو ’’گردن جھکا لو، یا گردن کٹوالو‘‘ کے سوا کوئی تیسرا آپشن بظاہر نظر نہیں آرہا۔ لیکن فلسطینیوں کی عظیم مزاحمت نے پوری دنیا میں جس طرح ان مظالم کو بے نقاب کیا ہے وہ بھی ایک تاریخ ساز کارنامہ ہے۔ شاید کہ مشرق وسطیٰ کے اندر سے نہیں لیکن باہر سے اب فلسطین کی آزادی کی جدوجہد جاری رہے گی۔ شام کے اندر کیا کچھ ہوگا اس کا تو ماضیِ قریب میں پتا چلے گا، لیکن شام کا مسئلہ فلسطین کے لیے اہم ترین ہے، لہٰذا اس کے نتائج بھی عالمگیر ہوں گے۔