16 دسمبر… پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن!

16 دسمبر… یومِ سقوطِ مشرقی پاکستان… جب دورِ حاضر میں اسلام کے نام پر خطۂ ارض پر وجود پزیر ہونے والی دنیا کی واحد مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان دولخت کردی گئی، پاکستان کے مشرقی بازو مشرقی پاکستان کو وطنِ عزیز سے کاٹ کر بنگلہ دیش بنادیا گیا۔ پاکستان کے ایک مسلم جرنیل اے اے کے نیازی نے بھارتی فوج کے جنرل اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈال کر اپنی شکست کی دستاویز پر دستخط کیے اور امتِ مسلمہ کی تاریخ میں ایک سیاہ باب کا اضافہ ہوا۔ تاریخ میں شاید پہلی بار 90 ہزار مسلمانوں نے مزاحمت کا راستہ ترک کرکے خود کو کافر دشمن کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ یہ یقیناً مسلمانانِ برصغیر ہی نہیں، پوری امتِ مسلمہ کے لیے کلنک کا ٹیکہ تھا۔ مگر ہم شاید اپنے اِس ماضی کو، اِس ناقابلِ فراموش سانحے کو فراموش کرچکے ہیں… طاقِ نسیاں کی زینت بناکر مطمئن ہیں ؎

وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

نہیں! نہیں! ہم تو زندہ قوم ہیں… پائندہ قوم ہیں، اور زندہ قومیں تو متاعِ کارواں کے جانے کا احساسِ زیاں جانے نہیں دیتیں، بلکہ دشمن سے بدلہ چکانے کے لیے کوشاں اور موقع کی تلاش میں رہتی ہیں۔ ہمیں یاد ہوگا کہ پاکستان توڑنے کے بعد پاکستان اور مسلمانوں کے ازلی دشمن بھارت کی اُس وقت کی وزیراعظم نے اپنے اس کارنامے کا نہایت فخر سے اعلان کیا تھا کہ ہم نے صرف ہندوستان توڑ کر پاکستان بنانے ہی کا نہیں بلکہ اپنی گزشتہ ایک ہزار سال کی ناکامیوں کا بدلہ مسلمانوں سے لے لیا ہے۔ اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ: ’’ہم نے نظریۂ پاکستان خلیج بنگال میں غرق کردیا ہے اور مسلمانوں سے ہندوستان پرگزشتہ ایک ہزار سال کے اقتدار کا بدلہ چکا دیا ہے۔‘‘ ہم نے شاید احساسِ زیاں ہی کے تحت سانحۂ سقوطِ مشرقی پاکستان کے اسباب کی تحقیق و تفتیش کی خاطر جسٹس حمود الرحمٰن کمیشن قائم کیا تھا۔ اس کمیشن نے بڑی محنت اور عرق ریزی سے ایک جامع رپورٹ بھی تیار کی جس میں سولہ دسمبر کے سانحے کے اسباب و علل کا تذکرہ بھی تھا اور سانحے کے ذمہ داران کی نشاندہی بھی کی گئی تھی، مگر شاید ان میں بعض پردہ نشینوں کے نام بھی شامل تھے جن کی نقاب کشائی اربابِ اختیار کو گوارا نہ تھی، چنانچہ اس رپورٹ کو شائع کرنے اور قوم کو حقائق سے آگاہی کا موقع فراہم کرنے کے بجائے اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اس رپورٹ کو شائع نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور الماری میں بند کرکے تالے لگوا دیے۔ بعد ازاں رپورٹ کے بعض حصے بھارت میں شائع ہوئے اور بعض حصے پاکستان میں شائع کیے گئے، مگر قوم کی اس سے زیادہ بدقسمتی اور کیا ہوگی کہ وہ آج تک اپنا ملک ٹوٹنے کے اسباب اور اس کے ذمہ داران سے متعلق حقائق جاننے سے محروم ہے!

پاکستان کسی فوجی کارروائی کے دوران فتح نہیں کیا گیا تھا بلکہ بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ اور ساتھیوں کی خالصتاً سیاسی اور جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا جس میں مشرقی بنگال جو بعد میں مشرقی پاکستان بنا، کے مسلمان پیش پیش تھے، اور پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے بھی مشرقی پاکستان کی حیثیت بڑے بھائی کی تھی۔ مگر نئی مملکت میں چھوٹے بھائی مغربی پاکستان کے بعض طاقتور عناصر کو اقتدار و اختیارات میں ہمیشہ غلبہ حاصل رہا، ان صاحبانِ اقتدار نے نہ صرف بڑے بھائی کے جمہوری حقوق غصب کیے بلکہ جب بھی موقع ملا، اس کی تحقیر و تذلیل کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جس سے احساس محرومی کا جنم لینا فطری امر تھا۔ ازلی دشمن بھارت نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ پھر 1970ء میں جب پہلی بار ملک میں باقاعدہ انتخابات ہوئے تو تمام سیاسی و جمہوری اصولوں اور طے شدہ فارمولوں کو پامال کرتے ہوئے اقتدار پر قابض صاحبانِ اختیار اور اُن کے حواریوں نے بڑے بھائی کی واضح اکثریت کے باوجود اُسے اقتدار دینے سے انکار کردیا، جس کا ردعمل یقینی تھا، مگر اسے بھی طاقت کے بل پر کچلنے کی کوشش کی گئی۔ دشمن نے موقع غنیمت جانتے ہوئے ہر طرح کی مداخلت ہی نہیں کی بلکہ باقاعدہ فوجی چڑھائی سے بھی گریز نہیں کیا، جس کی مزاحمت کے بجائے ایک بین الاقوامی سازش کے تحت حکمرانوں نے پاکستانی فوجیوں کو دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا باقاعدہ حکم دیا، اور پھر حادثے سے بڑا سانحہ یہ بھی ہوا کہ نہ تو ملک کو دولخت کرنے کے ذمہ داروں کا تعین کیا گیا اور نہ کسی مجرم کو چوک میں لٹکاکر اتنی بڑی ذلت و رسوائی کا باعث بننے پر نشانِ عبرت بنایا گیا۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ ملک ایک بار پھر ہر لحاظ سے شدید عدم استحکام سے دوچار ہے۔ سیاست دان، عدلیہ اور انتظامیہ باہم دست و گریباں ہیں اور مقتدرہ بھی اس سارے کھیل کا حصہ ہے۔ ملک میں دہشت گردی اور تخریب کاری کا دور دورہ ہے، عوام اس کیفیت میں مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں غوطے کھا رہے ہیں مگر کسی کو حالات کی نزاکت کا احساس ہے نہ اس کی اصلاح کی پروا۔

پاکستان کی بقا و سالمیت اور یہاں کے لوگوں کی ترقی و خوش حالی کا راز آج بھی اسی نسخے پر عمل درآمد میں پوشیدہ ہے جس کی نشاندہی نصف صدی قبل مفکرِ اسلام، مفسرِ قرآن سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے کی تھی کہ اس کی عمارت کو اُس اساس پر استوار کیا جائے جس پر یہ وجود میں آئی ہے، اور وہ اساس ہے کلمہ طیبہ، جس پر تحریکِ پاکستان کے دوران مسلمانوں کو متحد کیا گیا تھا کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا… لا الٰہ الا اللہ‘‘۔ آج بھی اگر پاکستان میں اسلام کا مکمل نظامِ حیات نافذ کردیا جائے اور بانیِ پاکستان کی ہدایت کے مطابق اردو کو قومی و سرکاری زبان کی حیثیت دے دی جائے تو ملک و قوم کو بیشتر مسائل سے نجات مل سکتی ہے۔ (حامد ریاض ڈوگر)