…کہ میرے نالوں سے شَق نہ ہو سنگِ آستانہ

کراچی کے ایک سلسلۂ مدارس کی صدر معلمہ اور ممتازماہرِ تعلیم محترمہ شائستہ صغریٰ نے سوال کیا ہے:

’’علم الاشتقاق کے معنی کیا ہیں؟ رہنمائی فرمائیں۔ میں نے گُوگل کیا تو جو جواب آیا وہ سمجھ میں نہ آیا‘‘۔

سوال سُن کر سکون ہوا کہ الحمدللہ! ہماری معلّمات میں بھی علم حاصل کرنے کا اشتیاق بڑھ گیا ہے۔ بالخصوص ’علمِ اشتقاق‘ حاصل کرنے کا۔ اُمید ہے کہ اُن کے طلبہ و طالبات بھی اب علم الاشتقاق سمیت دیگر علوم سے بِلا گوگل بہرہ مند ہوسکیں گے۔

علّامہ ’گُوگل‘ سے علم حاصل کرنے کو ’گُوگل کرنا‘ کہا جانے لگا ہے ۔ حضرت علّامہ کے شاگردوں کی تعداد کروڑوں بلکہ اربوں تک تو پہنچ ہی گئی ہوگی۔ تاہم ابھی تک مصنوعی ذہانت یا گُوگل سے حاصل ہونے والے علم کو کوئی سند حاصل ہوئی نہ مستند گردانا گیا۔ کسی لفظ سے متعلق معلومات تلاش کیجیے تو مختلف بلکہ متضاد قسم کے کئی ہزار جوابات کی اتنی بھرمار ہوجاتی ہے کہ بابا بلھے شاہ کو اُٹھ کر اپنا عصا لہرانا پڑتا ہے:

علموں بس کریں او یار!

’علم الاشتقاق کے کیا معنی ہیں؟‘ سہل اورسادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجے کہ یہ وہ علم ہے جس کے تحت کسی ’لفظ‘ کی جڑ، بنیاد، اصلیت، مصدر، منبع اور تاریخ وغیرہ دریافت کی جاتی ہے۔ علم الاشتقاق، علمِ لسانیات (زبانوں کے علم) کی ایک شاخ ہے۔ زبانیں کیسے وجود میں آئیں؟ اس سوال کا جواب علمِ لسانیات سے ملتا ہے۔ علم الاشتقاق میں دیکھا جاتا ہے کہ کسی زبان کا کوئی لفظ کیسے بنا، کہاں سے شروع ہوا، پہلے پہل استعمال ہوا تو اس کے کیا معنی تھے اور بار بار کے استعمال سے معانی میں کیا کیا تبدیلیاں آتی چلی گئیں۔ نیز یہ کہ تاریخی طور پر یہ لفظ کب سے استعمال ہورہا ہے، کہاں سے چلا اور کہاں کہاں تک پہنچا۔ ایک ملک سے دوسرے ملک یا ایک زبان سے دوسری زبان میں پہنچنے کے بعد تلفظ میں کیا تبدیلیاں آئیں اور معانی میں کیا کیا تغیر ہوا؟ اس قسم کے بہت سے سوالات کا جواب ہمیں ’علم الاشتقاق‘ سے ملتا ہے۔

مثال کے طور پر لفظ ’اشتقاق‘ ہی کو لے لیجے۔ اس لفظ کی اصل ’شَق‘ ہے۔ شَق کے بہت سے معانی ہیں۔ کاٹنا، پھاڑنا اور جدا جدا کرنا۔ پھٹ جانا، شگاف پڑجانا یا دو ٹکڑے ہوجانا۔ پارچہ، ٹکڑا، چاک، دراڑ اور پھانک وغیرہ۔ ’’شَق القمر‘(چاند کے دو ٹکڑے ہوجانے) کے معجزے سے سب واقف ہیں۔ ایک دن اقبالؔ نے ضمیرِ مشرق کو راہبانہ قرار دے ڈالا۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ اُنھیں کی زبانی سنیے:

حریف اپنا سمجھ رہے ہیں مجھے خدایانِ خانقاہی
اُنھیں یہ ڈر ہے کہ میرے نالوں سے شَق نہ ہو سنگِ آستانہ

فرض کیجیے کہ اقبالؔ کے نالوں کے بغیر ہی کوئی سنگِ آستانہ شَق ہوجائے تو اُس کے دو ٹکڑے ہوں گے، ایک دایاں ٹکڑا ایک بایاں۔ دونوں ٹکڑے ایک دوسرے کے حریف، مقابل یا مخالف ہوں گے۔ ’شِقاق‘ کا مطلب مخالفت اور دشمنی ہے۔ کسی مخالف کی بات سن کر دل شَق ہوجائے تو بات دل پر’شاق‘ گزرتی ہے۔ دشمن ’شقی‘ ہوتا ہے، ’شقاوت‘ دکھاتا ہے۔ شقی کی جمع ’اشقیا‘ ہے۔ دو حصوں میں بٹی ہوئی چیز کو ’شقیق‘ یا ’شقیقہ‘ کہتے ہیں۔ آدھے سر کا درد اس وجہ سے ’شقیقہ‘ کہلاتا ہے کہ وہ سر کو دوحصوں میں تقسیم کردیتا ہے، ایک پُردرد اور ایک بے درد۔ ایک ہی ماں باپ کے دو جگر گوشے بھی ایک دوسرے کے ’شقیق‘ اور ’شقیقہ‘ کہلاتے ہیں۔ شین کو زیر لگاکر بولیے تو ’شِق‘ کے معنی ہوں گے کسی چیز کا ٹکڑا، آدھا حصہ یا ایک حصہ، ایک جزو۔ مثلاً: ’’آپ نے اجلاس کے کارروائی نامے کی ایک شِق پر بحث کی، ایک چھوڑ دی‘‘۔

عربی میں ’اِشْتَقَ‘ کے معنی ہیں آدھا لینا یا ایک ٹکڑا حاصل کرنا۔ پس ’اشتقاق‘ وہ عمل ہے جس سے ہم کسی ایک ’ لفظ‘ کو توڑ تاڑ کر یا جوڑ جاڑ کر اُس سے کئی الفاظ بنا لیتے ہیں۔ جو لفظ بنایا جائے یا جو لفظ مصدر سے نکالا جائے وہ ’مُشتق‘ ہوتا ہے۔ کہتے ہوئے قے نہ ہونے لگے تو آپ حلق کی گہرائیوں سے کہہ سکتے ہیں کہ ’’اِشتقاق شَق سے مُشتق ہے‘‘۔

یہاں ہمیں شَق سے مُشتق ایک اور لفظ یاد آگیا۔ اس لفظ یا اس اصطلاح کو پڑھ کر آپ کو اندازہ ہوگا کہ ہماری کم سِن اُردو زبان اُن تمام ترقی یافتہ اور بوڑھی زبانوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے، جن میں جدید سائنس کی تعلیم دی جا سکتی ہے۔ افسوس کہ انگریز اور انگریزی کے غلاموں نے ہمارے ذہین بچوں کے اذہان پر زبردستی وہ زبان مسلط کر رکھی ہے جس کی ایک بھی اصطلاح ہمارے اِس پورے خطے کی زمین کا پودا نہیں۔ ہمارا بچہ اپنی تمام تعلیمی عمر ایسی اجنبی زبان کے نامانوس الفاظ رٹنے میں گزار دیتا ہے جس کی پیدائش و پرورش سات سمندر پار ہوئی ہے۔ بچہ جس زبان میں سوچتا ہے، جس زبان میں آرزو کرتا ہے اور جس زبان میں [ترقی کے] خواب دیکھتا ہے، اُس زبان میں علم حاصل کرنے سے اُسے روک دیا گیا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اس گونگے نوجوان سے گلہ بھی کیا جاتا ہے وہ ایجادات نہیں کرتا، تحقیق نہیں کرتا، دنیا سے پیچھے، پست اور پس ماندہ رہ گیا ہے۔ ترقی کی دوڑ میں حصہ نہیں لیتا۔کیسے حصہ لے؟ اس کے منہ سے اس کی زبان چھین لی گئی، اس کا نطق گُنگ کردیا گیا، اس کا گلا گھونٹ دیا گیا، اس کا دماغ ماؤف کرکے اسے اپاہج بنادیا گیا اور کہا گیا کہ یہی ’ترقی کا راستہ‘ ہے۔

جوہری بم (Atomic Bomb)کیسے پھٹتا ہے؟ جب سرکاری تعلیمی اداروں (یعنی پیلے اسکولوں) میں علمِ طبیعیات اور ’جوہری طبیعیات‘ کا درس ہمیں ہماری قومی زبان میں دیا جاتا تھا تو بتایا جاتا تھا کہ جوہر کا مرکزہ شَق کرکے دو یا دو سے زائد چھوٹے چھوٹے مرکزوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے۔ شَق کرنے کے اس عمل کو ’عملِ اِنشقاق‘ کہتے ہیں۔ یعنی ’اِنشقاق‘ بھی شَق سے مُشتق ہے۔ جب اِنشقاق کا زنجیری عمل شروع ہوتا ہے تو برق مقناطیسی تابکاری اور حرارتی تعامل سے بے پناہ توانائی خارج ہوتی ہے۔ توانائی کا یہ اخراج وسیع پیمانے پرتباہی کا سبب بنتا ہے۔ اس تباہ کاری کے ضمن میں جوہری طبیعیات کا علم رکھنے والے ایک شاعر، ایک جوہری عاشق سے اس کا حالِ دل بھی سن لیجے:

جوہر شکن نگاہ پڑی دل پہ جب مِرے
فوراً ہی میرے دل کا ہوا یارو اِنشقاق

اُردو میں سائنس کی تعلیم حاصل کرنے والوں نے سائنسی اشعار ہی نہیں کہے، سائنسی کہانیاں اور سائنسی افسانے بھی تخلیق کیے۔ ہمارے پاس نہایت گراں قدر’سائنسی ادب‘ کا ذخیرہ موجود ہے۔مگراب نئی نسل کو اپنے ان علمی اور ادبی ذخائر سے استفادہ کرنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا گیا ہے۔ وہ انھیں پڑھ سکتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں۔ تخلیق تو دُور کی بات ہے۔اگر ذریعۂ تعلیم اُردو ہوتا اور تمام سائنسی علوم کی تعلیم ابتدا سے اُردو میں دی جاتی توبرقی آلات اور گاڑیاں ٹھیک کرنے والے کاری گر اور اُن کی دُکانوں پر کام کرنے والے ’چھوٹے‘ بچے ’جُگاڑو‘ نہ کہلاتے۔ ذہانت اور مہارت کا مظاہرہ کرنے والے یہ لوگ اگر چین،جاپان، جرمنی اور کوریا کے لوگوں کی طرح اپنی قومی زبان میں سیکھنے کی سہولت پاتیتو انھیں ممالک کے لوگوں کی طرح موجد اور مہندس کہے جاتے۔اپنی ایجادات اور اپنی کاری گری سے ملک کو مشینی اور صنعتی ترقی کے عروج پر لے جاتے۔ مگرمحض انگریزی سے نا بلد ہونے کی وجہ سے یہ ’ان پڑھ اور جاہل‘ کہے جاتے ہیں۔ان میں سے اکثر انگریزی ذریعۂ تعلیم کی وجہ سے تعلیم سے بھاگے ہیں۔ملک کے ہر شہر میں اِن بھگوڑوں کی شرح بڑھ رہی ہے۔مگر جو لوگ انگریزی ذریعۂ تعلیم کے باوجود تعلیم چھوڑ کر نہیں بھاگے، اُن کے پاس کون سا علم ہے؟ اُن کے پاس محض اسناد ہیں، ڈگریاں ہیں اور تقلید کی روش ہے۔

معلمہ کے سوال کی بدولت علم الاشتقاق سے تعلیم و تعلّم کے عملِ انشقاق تک آج کا کالم جا پہنچا۔ حاصلِ کلام یہ کہ اوپر لفظ ’اشتقاق‘ کا کھوج لگانے، اس کا مصدر معلوم کرنے اور اس مصدر سے بننے والے دوسرے الفاظ جاننے کے لیے جو مشقت کی گئی ہے، اسی کو ’علم الاشتقاق‘ کہتے ہیں۔ یہ علم انگریزی زبان میں “Etymology”کہلاتا ہے۔ انگریزوں نے کس زبان سے اس لفظ کا اشتقاق کیا ہے؟