قصہ یک درویش!جیل میں والد محترم کا خط،بڑا سہارا

ساہیوال جیل میں ایک دن مجھے والد صاحب کا خط موصول ہوا جس میں یہ اطلاع دی گئی تھی کہ میرے نانا جان اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ خط ملنے سے کئی روز قبل اُن کا جنازہ اور تدفین بھی ہوچکی تھی۔ مجھے میرے دوستوں نے پریشان پایا تو پوچھنے لگے کہ کیا بات ہے؟ میں نے ان کو خبر بتائی تو سب میرے گرد جمع ہوگئے اور مجھ سے اظہارِ ہمدردی کے ساتھ مرحوم کے لیے مغفرت کی دعائیں کرنے لگے۔ کئی دوست شام کو اپنی جائے مشقت سے واپس آئے تو سیل بند ہونے سے قبل میرے پاس پہنچے اور تعزیت کرکے اپنی بیرکوں میں چلے گئے۔ تین چار دن اسی طرح جیل کے ساتھی میرے پاس وقتاً فوقتاً آتے رہے۔ ہماری معاشرت میں بہت سی خوبیاں ہیں جن میں سے غم اور خوشی میں شرکت بالخصوص محبت و اپنائیت کے جذبات کو پروان چڑھاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام اہلِ ایمان کی مغفرت فرمائے اور ہم سب کو اپنے دین پر ثابت قدمی کے ساتھ آخری لمحے تک چلتے رہنے کی سعادت بخشے۔

میں نے جیل سے جو خط لکھا اس میں اپنی والدہ اور ماموں صاحبان کی خدمت میں خصوصی تعزیت اور دعائیں پیش کیں۔ مجھے یاد آرہا تھا کہ نانا جان کی زندگی میں اُن کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا جوانی میں فوت ہوگئے تھے۔ بزرگوں سے سنا تھا کہ اس موقع پر نانا جی نے بہت مثالی صبر کا مظاہرہ کیا۔ ہماری زندگی میں آپ کی بڑی بیٹی، ہماری خالہ طویل بیماری کے بعد فوت ہوئیں تو آپ بے ساختہ رو پڑے۔ پھر اس بیٹی کی تین بیٹیاں چند سالوں کے وقفے سے یکے بعد دیگرے فوت ہوگئیں۔ ان میں سے ہر ایک کی وفات پر نانا جان کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میرے دل میں خیال ہوتا ہے کہ فرشتۂ اجل اب میرے پاس آئے گا، مگر معلوم نہیں خدا کو کیا منظور ہے کہ میری اولاد کی اولادیں بھی میری نظروں کے سامنے لقمۂ اجل بنتی جارہی ہیں اور میں یہاں بیٹھا ہوا ہوں۔ ان مواقع پر میں ابھی بہت چھوٹا تھا، مگر تربیت کی وجہ سے اللہ نے کچھ فہم و شعور بخش دیا تھا۔ میں ہمیشہ آپ سے عرض کرتا کہ فرشتۂ اجل کا تعلق عمر سے نہیں اللہ کے امر سے ہے۔

آج سوچ رہا تھا کہ وہ لمحہ آخر آگیا جس کا مرحوم سالوں سے انتظار کررہے تھے، مگر اے کاش میں جنازہ پڑھ سکتا۔ الھم اغفرلہٗ وارحمہ وادخلہ الجنۃالفردوس۔

جیل میں چند ہفتے گزرنے کے بعد حکومت کی طرف سے ایک پیش کش آئی کہ اگر میں غیرمشروط معافی نامہ لکھ دوں اور آئندہ کے لیے کسی حکومت مخالف سرگرمی میں حصہ نہ لینے کا حلف دے دوں تو مجھے رہا کیا جا سکتا ہے۔ میں نے اس خط پر نوٹ لکھ کر جیل حکام کو دے دیا کہ مجھے اس پیش کش کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہی پیش کش دیگر ساتھیوں کو بھی بھیجی گئی۔ ان سب نے اسے قبول کرنے سے انکار کیا۔ البتہ ہمارے ایک ساتھی برادرم اشفاق حسین صاحب (کرنل اشفاق جن کی کتابیں جنٹل مین بسم اللہ سے شروع ہوکر پتا نہیں کہاں سے کہاں تک پہنچ چکی اور دنیائے ادب میں بہاریں دکھلا چکی ہیں) کے والدین نے اصرار کرکے اس خط پر دستخط کرنے کے لیے انھیں مجبور کردیا، حالاںکہ وہ بھی ہم سب کی طرح پیش کش کو مسترد کرچکے تھے۔ آخر والدین نے دبائو ڈال کر انھیں پیش کش پر دستخط کرنے پہ آمادہ کرلیا۔ چناں چہ وہ جیل سے رہا ہوکر چلے گئے۔ وہ سیالکوٹ جیل میں مقید تھے۔

اس سرکاری پیش کش کے بارے میں میرے گھر والوں کو پتا چلا تو مجھے والد محترم کی طرف سے ایک خط موصول ہوا۔ یہ خط بعد میں ہفت روزہ’’ آئین‘‘ میں بھی چھپا تھا۔ مذکورہ خط قارئین کی دلچسپی کے لیے ذیل میںدیا جا رہا ہے۔

آئین رسالے میں یہ خط یوں چھپا تھا:
(یہ خط حافظ محمد ادریس کے نام اُن کے والدِ محترم میاں فیض محی الدین صاحب نے تحریر فرمایا تھا۔ حافظ صاحب نے بذریعہ ڈاک ہمیں یہ خط ساہیوال جیل سے اشاعت کے لیے ارسال کیا ہے۔ قارئین ان سطور میں ایک مسلمان باپ کے دل کو دھڑکتے ہوئے پائیں گے۔ خدا ہم سب کو راہِ حق میں وہ استقامت عطا فرمائے جس کی دعا ایک مسلمان باپ اپنے قیدی بیٹے کے لیے کرتا ہے۔ آمین۔ ادارہ)

’’﷽
چک میانہ (گجرات)
۱۵ ؍ مئی ۱۹۷۰ء

نورِ چشم راحتِ جان طُوِّلَ عمرہٌ، السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہٗ !

طالب الخیر بالخیر۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تجھے اُن لوگوں میں شامل کرے جن کا ذکر اس نے ان الفاظ میں کیا ہے : ’’إِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ المَلٰٓئِکَۃُ‘‘

آج آپ کی چٹھی ملی ہے، اس سے قبل ایک چٹھی لکھ چکا ہوں، معلوم نہیں وہ آپ کو کیوں نہیں ملی۔ چند دنوں سے خط لکھنے کا ارادہ کررہا تھا۔ اگلے دن اخبار میں دیکھا کہ سزا یافتہ طلبہ معافی نامہ لکھ کر اور پُرامن رہنے کی ضمانت دے کر رہائی حاصل کرسکتے ہیں۔ لفظ پُرامن کا مطلب ایک تو میں وہی سمجھتا ہوں جو آپ نے تحریر کیا (یعنی معافی مانگ کر رہائی حاصل کرنا)۔ دوسرا یہ کہ قانون کی حد میں رہ کر اس کا احترام کرنا۔ اگر پہلا مفہوم ہے تو پھر اس کے قبول کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لیکن اگر دوسرا مفہوم ہے تو پھر واضح رہے کہ ہمارا مشن یہی ہے کہ قانون کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔ اسلام کا یہی حکم ہے۔

آپ کے حق میں وائس چانسلر صاحب کی شہادت کے بعد مجھے اطمینان ہے کہ آپ نے کوئی غیر قانونی حرکت نہیں کی (وائس چانسلر صاحب نے سمری کورٹ میں گواہی کے دوران میرے سوال کے جواب میں بتایا کہ میں حافظ محمد ادریس کو پہچانتا ہوں۔ یہ میرے گھر مختلف طلبہ مسائل کے لیے آتا رہتا تھا۔ اس شام کو بھی یہ میرے ہاں آیا تھا، مگر اس نے کوئی غیر قانونی حرکت نہیں کی)۔ رہا سزا کا معاملہ، تو اس کے متعلق کچھ نہیں کہنا چاہتاکیونکہ ع رموزِ مملکتِ خویش خسروان دانند !

بیٹے! ہماری ساری تگ و دو محض اللہ کی رضا کی خاطر ہے۔ دنیوی مفاد ہمارا مقصد نہیں ہے۔ ہمیں جو پریشانی آچکی ہے اس میں بھی خدا کی کوئی مصلحت مضمر ہے۔ مسلمان جان و مال کی قربانی دے سکتا ہے مگر ضمیر کو فروخت کرنا اس کے لیے حد درجے کی ناکامی اور بدبختی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آَمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنََ مَا لَا تَفْعَلُوْنَO اور ہمارے اولوالامر کی حالت یہ ہے کہ اخبارات میں کہہ دیا کہ گرفتار شدہ طلبہ کو بی کلاس دینے کی ہدایت کردی گئی ہے مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہوا، اور دوسری طرف گوجرانوالہ میں اسماعیل شہید کے قاتلوں کو بی کلاس دے دی گئی ہے (نوائے وقت، ۷ ؍ مئی)۔ ہم اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرنے والے ہیں اور حضورؐ کا ارشاد ہمارے سامنے ہے کہ ’’لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِی مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ‘‘ ہم اولوالامر کی بھی اطاعت کرتے ہیں مگر جس حد تک وہ خدا اور رسول کی اطاعت کے تابع ہو۔ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ والرّسول۔

جو رفقا آپ کی ملاقات کے لیے آئے تھے مگر پابندی کی وجہ سے ملاقات نہ ہوسکی ان کا وہاں جانا فضول نہ تھا۔ وہ تمھارے خونیں رشتہ دار نہ تھے، نہ ان کا کوئی ذاتی کام تم سے وابستہ تھا، وہ محض اللہ کی خاطر آئے تھے اور اللہ انھیں اس کا اجر دے گا۔ حضورؐ کا ارشاد ہے: ’’مَن اَحَبَّ لِلّٰہِ وَاَبْغَضَ لِلّٰہِ… فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْاِیْمَان‘‘۔ (جس کسی نے اللہ کی خاطر محبت کی، اسی کی خاطر دشمنی کی، اس کے حکم کے مطابق دیا اور اسی کے مطابق روک لیا تو اس کا ایمان مکمل ہوگیا۔ الحدیث ابودائود)۔ ہم اللہ کے امر کے سامنے سر بسجود ہیں اور کوئی شکایت نہیں کرتے۔ وہی ہماری تمام مشکلات کو آسان کرنے والا ہے۔ آپ تو جانتے ہیں کہ جیل خانہ ایسا مقام ہے کہ اس سے نجات حاصل کرنے کے لیے اللہ کے نبی یوسفؑ نے بھی عزیز مصر کے آدمی سے کہا تھا: ’’اذْکُرْنِیْ عِنْدَ رَبِّکَ‘‘ لیکن خدا کی نافرمانی بہت بری بات ہے اسی لیے آپؑ نے کہا تھا :’’رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدْعُوْنَنِیْٓ اِلَیْہِ…‘‘

اللہ تعالیٰ ہم سب کو آزمایشوں سے بچائے، اور اگر کوئی آزمایش آجائے تو استقامت کی طاقت عطا فرمائے۔ اللہ کے دین کی خاطر اللہ کے بندوں نے بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں۔ ہمیں اللہ تعالیٰ حسبِ طاقت اپنے دین کی خدمت کرنے کا موقع دے اور کوئی ایسی آزمایش نہ ڈالے جس کی ہم طاقت نہ رکھتے ہوں۔ باطل کے مقابلے میں یوں ہونا چاہیے:

سر داد نداد دست در دستِ یزید
حقا کہ بنائے لا الٰہ است حسینؓ

ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ سوشلزم، سیکولرازم اور دیگر تمام لادینی نظریات کے سامنے ہمارے پائوں کبھی نہ لڑکھڑائیں، اور وہ پاکستان میں اور پھر ساری دنیا میں اپنے دین کو غالب کرے۔ اَلْیْوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ… کی بشارت کے بعد دنیا میں کسی ازم کی کوئی ضرورت باقی نہیں ہے۔ آپ کی ہمشیرہ کا پیغام آپ کے نام یہ ہے کہ کبھی معافی مانگ کر حق کے نام پر دھبہ نہ لگایا جائے، اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں۔ ’’اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ‘‘ پر نظر رکھیں اور اس کا ورد بھی کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ کے تمام رفقاء کو استقامت بخشے، آمین۔

انسان کو جتنی بھی راحتیں میسر ہوں پھر بھی اللہ تعالیٰ سے رحمت ہی کی التجا کرنی چاہیے۔ ہم جانتے ہیں کہ تم اللہ کے دین کو صحیح صحیح سمجھ کر اس کی سربلندی کے لیے یہ ساری مشقتیں جھیل رہے ہو۔ جن لوگوں نے بھی اللہ کے دین کو سوچ سمجھ کر اپنایا ہے دنیا کی کوئی طاقت ان کو حق کے راستے سے نہیں ہٹا سکی۔ قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے اسلام کی خاطر بے شمار قربانیاں دیں۔ علامہ اقبالؒ نے اسی لیے کہا تھا:

چو میگویم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مشکلات لا الہ را!

اللہ تعالیٰ آپ کو صحت اور عمرِ جاودانی عطا کرے اور صراطِ مستقیم پر قائم رکھے۔ ہماری طرف سے کسی قسم کی پریشانی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے خیریت کی دعا مانگتے رہا کریں۔ جب میرے والدِ محترم حج کی فرضیت ادا کرنے کے لیے مکہ معظمہ روانہ ہونے لگے تو میں اُن کی مفارقت کو برداشت کرنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا لیکن اللہ نے میرے دل میں یہ خیال پختہ کردیا کہ نادان خوشی سے اس مفارقت کو قبول کرلے، کیوں کہ اگر اللہ تعالیٰ تیرے والد کو گھر بیٹھے اپنے پاس بلالے تو تجھے ہمیشہ کے لیے جدائی بھی ہوگی اور ان کا فریضہ بھی ان کے سر رہے گا۔ میں تمھاری جدائی کو بھی برداشت نہیں کرسکتا مگر جس وقت میں نے تم کو رخصت کیا (جامعہ پنجاب کے انتخاب سے قبل نسیم انصاری، عبدالستار مجاہد اور مظہر اکبر (ارکان اسلامی جمعیت طلبہ) مجھے میرے گھر سے لینے کے لیے میرے گائوں آئے تو والدِ محترم سے میں نے تمام حالات سامنے رکھنے کے بعد اجازت لی جو مجھے مل گئی) تو خدا کے سپرد کیا اور اسی کے سپرد اب بھی کرتا ہوں۔ فَاللّٰہُ خَیْرٌ حٰفِظًا وَّھُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ۔

والسلام ……… آپ کا والد

میاں فیض محی الدین، چک میانہ جوڑا براستہ لالہ موسیٰ (گجرات) ‘‘

(بحوالہ ہفت روزہ آئین، جلد نمبر ۸ شمارہ نمبر ۷۲)
والد مرحوم کا یہ خط جیل میں میرے لیے بہت بڑا سہارا بنا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔ آپ بہت صاحبِ عزیمت انسان تھے۔ جیل میں ملاقاتوں کے لیے دوست احباب، عزیز و اقارب تشریف لاتے رہتے تھے۔ والد صاحب اس عرصے میں تین چار مرتبہ بعض دیگر عزیزوں کے ساتھ ساہیوال تشریف لائے تھے۔ ماموں جان میاں سخی محمد اور حافظ غلام محمد، میرے چھوٹے بھائی میاں محمد یوسف بھی آئے اور مجھے خوش باش دیکھ کر وہ سب بھی خوش ہوگئے۔ ویسے تو ہم سب کا پس منظر تحریکی تھا اس لیے انھیں کوئی فکرمندی نہیں تھی، لیکن میرے حالات دیکھ اور سن کر انھیں مزید اطمینان ہوگیا۔ جمعیت کے ساتھی بھی ملک بھر سے مختلف اوقات میں آتے رہے۔ شروع میں ایک مرتبہ کچھ ساتھی آئے، مگر کوشش کے باوجود جیل حکام نے ملاقات کی اجازت نہ دی۔
ملاقات کے لیے آنے والے احباب میں سے ہر ایک کے نام یاد نہیں، تاہم ان سب کے لیے اللہ سے دعائیں مانگتا ہوں کہ ان کی اس محبت لوجہ اللہ کو اللہ تعالیٰ شرفِ قبولیت عطا فرمائے۔ برادر عزیز (کرنل) اشفاق حسین بہت محبت کرنے والی شخصیت ہیں۔ ان سے وابستہ یادوں کا ایک وسیع گلستان ہے۔ اللہ انھیں سلامت رکھے۔ اشفاق بھائی جیل سے قبل ازوقت رہا ہونے کے بعد ملاقات کے لیے تشریف لائے تو ان کی آنکھوںسے آنسو گرنے لگے، مگر میں نے محبت و پیار کے ساتھ انھیں تسلی دی کہ اس میں ان کا کوئی قصور نہیں، والدین کا احترام بھی تو لازم تھا! (جاری ہے)