عدمِ استحکام ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ ہم نے انتہائی حالات بھگتے ہیں مگر قدم ڈگمگائے نہیں۔ کارکنوں کو ہدایت ہے کہ کسی بھی صورتِ حال میں قانون ہاتھ میں نہ لیا جائے
شفیق الرحمٰن جماعت ِ اسلامی بنگلادیش کے امیر ہیں۔ ان کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داری ہے۔ اس ذمہ داری کو نبھانے کے لیے وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ بھرپور جدوجہد کررہے ہیں۔ جماعتِ اسلامی بنگلادیش کے دو امراء اور پوری قیادت کو ختم کردیے جانے پر بھی جماعتِ اسلامی بنگلادیش کے کارکنوں نے ہمت ہاری ہے نہ اُن کے قائدین نے۔ جماعتِ اسلامی نے پانچ عشروں کے دوران بہت کچھ جھیلا ہے، بہت کچھ برداشت کیا ہے۔ شفیق الرحمٰن کہتے ہیں ہمارا سب سے بڑا ہتھیار صبر ہے۔ ہم نے اب تک ہر مصیبت کا سامنا صبر کی دولت ہی کی بدولت کیا ہے، اور صبر کی توفیق بھی اللہ ہی نے عطا فرمائی ہے۔
بنگلا دیش کے اخبار دی ڈیلی اسٹار نے جماعتِ اسلامی بنگلادیش کے امیر شفیق الرحمٰن کا جامع انٹرویو کیا ہے۔ یہ انٹرویو خاصا طویل ہے، اس لیے یہاں ہم آپ کے لیے اِس کا پہلا حصہ پیش کررہے ہیں۔
سوال: آپ ایک تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی منظر میں جماعتِ اسلامی بنگلادیش کے امیر ہیں۔ ملک تبدیلی سے گزرا ہے مگر ابھی تک سنبھلا نہیں ہے۔ آپ یہ سب کچھ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ کیا کسی طرح خوف محسوس کرنے کی وجوہ ہیں؟
شفیق الرحمٰن: ہمارا معاشرہ کبھی مستحکم نہیں رہا۔ یہ تو اُس وقت بھی مستحکم نہیں تھا جب ہم پاکستان کا حصہ تھے۔ اور ہم یہ دعویٰ بھی نہیں کرسکتے کہ ہمارا معاشرہ بنگلادیش کے قیام کے بعد مستحکم رہا ہے۔ جب ہم پاکستان کا حصہ تھے تب سیاسی قتل بھی ہوئے اور بہت سی دوسری منفی تبدیلیاں بھی رونما ہوئیں۔ اس کے باوجود جمہوریت کبھی آئینی شکل میں واپس نہیں آئی۔ بنگلادیش کے قیام کے دوران ہزاروں افراد کی جانیں گئیں مگر المیہ یہ ہے کہ بنگلادیش میں بھی ہمارا معاشرہ مستحکم نہیں رہا۔
بنگلادیش میں شیخ مجیب الرحمٰن کو اہلِ خانہ سمیت قتل کیا گیا۔ وہ بہت ہی نازک وقت تھا۔ ملک شدید عدمِ استحکام سے دوچار ہوا۔ ضیأ الرحمٰن کے اقتدار میں آنے سے قبل ملک اقتدار کے حوالے سے خاصی کشمکش سے گزرا۔ ضیا کو سیاسی اعتبار سے کچھ کر دکھانے کے لیے زیادہ وقت نہیں ملا۔ ضیا کے بعد ستار آئے، مگر انہیں بھی جانا پڑا۔ ان کا دور بھی عدمِ استحکام سے عبارت تھا۔
پھر حسین محمد ارشاد آئے اور اپنی سیاسی جماعت بھی قائم کی۔ ان کے دور میں بھی کئی احتجاجی تحریکیں چلائی گئیں۔ ایک اور فوجی انقلاب کے نتیجے میں حسین محمد ارشاد کو بھی اقتدار چھوڑنا پڑا۔ وہ زمانہ بھی شدید عدمِ استحکام کا تھا۔
1991ء میں بیگم خالدہ ضیا نے بنگلادیش نیشلسٹ پارٹی کے پرچم تلے حکومت بنائی۔ انتخابات میں کسی بھی جماعت کو اِتنی اکثریت نہیں ملی تھی کہ تنہا حکومت بناسکتی۔ یہ بھی عدمِ استحکام ہی کی ایک شکل تھی۔ تب جماعتِ اسلامی نے طاقت کے توازن میں کلیدی کردار ادا کیا۔ عوامی لیگ بھی اُس کی طرف سے سپورٹ چاہتی تھی اور بی این پی بھی۔ ہم نے بی این پی کا ساتھ دینے کو ترجیح دی۔ اور یہ ساتھ غیر مشروط تھا۔ ہم نے واضح کردیا تھا کہ اگر بی این پی حکومت بنا بھی لے تو ہم اپوزیشن میں رہنا پسند کریں گے۔ ہم نے صرف حکومت کی تشکیل میں مدد دی تھی، اور کچھ نہیں۔ انتخابات عبوری حکومت کے تحت ہوئے تھے اور اِسے نگراں حکومت کا درجہ بھی نہیں ملا تھا۔ 1984ء میں نگراں حکومت کا فارمولا اُس وقت کے امیرِ جماعتِ اسلامی پروفیسر غلام اعظم کی طرف سے عباس علی خان نے پیش کیا تھا۔ نگراں حکومت کا فارمولا بالکل ویسا ہی تھا جیسا غلام اعظم صاحب نے تجویز کیا تھا، صرف نام مختلف تھا۔
جاتیہ پارٹی سمیت تمام ہی بڑی سیاسی جماعتوں نے انتخابات میں حصہ لیا۔ جاتیہ پارٹی نے 36 نشستیں جیتیں۔ یہ انتخابات نگراں حکومت کے تحت ہوئے، اس لیے مجموعی طور پر بہت اچھے رہے۔ جاتیہ پارٹی کے لیے اِتنی نشستیں جیتنا بہت بڑی کامیابی تھی۔ جماعتِ اسلامی نے کسی سیاسی اتحاد کا حصہ بنے بغیر اور کسی بھی جماعت سے ہم آہنگی پیدا کیے بغیر اپنے طور پر الیکشن لڑا اور 18 نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی۔
جماعتِ اسلامی نے عباس علی خان کی قیادت میں 6 رکنی وفد وزیرِاعظم کے پاس بھیجا اور کہا کہ بنگلادیش میں پہلی بار ایسے انتخابات ہوئے ہیں جن کے نتائج پر بھروسا کیا جاسکتا ہے۔ ٹرن اوور بھی غیر معمولی رہا۔ جماعتِ اسلامی کے وفد نے حکمراں جماعت پر زور دیا کہ نگراں حکومت کے نظام کو باضابطہ شکل دینے کی تجویز پارلیمنٹ میں پیش کرے۔ مگر یہ بات قبول نہیں کی گئی۔
ہم مجبور تھے کہ اس مطالبے کو سڑکوں پر آکر پیش کریں۔ 1996ء میں عوامی لیگ نے بھی نگراں حکومت کا نظام لانے کا مطالبہ کیا۔ ہماری بات نہیں سُنی گئی تھی، عوامی لیگ کی کال پر بی این پی کے سوا تمام سیاسی جماعتوں نے لبیک کہا۔
نگراں حکومت کے نظام سے متعلق تحریک اس قدر مضبوط تھی کہ بی این پی کو بھی اس کے آگے گھٹنے ٹیکنا پڑے۔ پارلیمنٹ اگرچہ خاصی کم مدت کے لیے تھی مگر پھر بھی اُس میں نگراں حکومت کے نظام کا مطالبہ پیش کیا گیا۔ یہ واحد قانون تھا جو اس پارلیمنٹ نے اپنی تحلیل سے قبل منظور کیا، اور یوں 1996ء میں انتخابات ہوئے جن میں سب نے بھرپور قوت کے ساتھ حصہ لیا۔
عوامی لیگ نے معمولی اکثریت کے ساتھ انتخابات جیتے اور حکومت بنائی۔ یہ اقتدار 2001ء تک جاری رہا۔ اس دوران کئی بڑے واقعات رونما ہوئے۔ بنگلادیش کے دریاؤں اور نہروں میں لاشیں پھینکی گئیں۔ وہ دور بھی انتہائی عدمِ استحکام کا تھا۔
2000ء میں بی این پی، جماعتِ اسلامی، جاتیہ پارٹی اور اسلامی اوئیکیا جوتے نے مل کر اتحاد تشکیل دیا۔ ایک مرحلے پر حسین محمد ارشاد اپنی پارٹی کو لے کر الگ ہوگئے اور جاتیہ پارٹی کا وہ دھڑا ہمارے اتحاد سے آملا جس کے سربراہ نذیر الرحمٰن منظور تھے۔ حکومت مخالف تحریک کے دوران اس اتحاد کی جماعتوں نے ایک اعلامیے پر دستخط کیے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ تمام جماعتیں مل کر سیاست کریں گی، مل کر الیکشن لڑیں گی اور اگر جیت گئیں تو مل کر حکومت بھی بنائیں گی۔ تب ہم حکومت کا حصہ بنے۔
اس وقت کے امیرِ جماعتِ اسلامی مطیع الرحمٰن نظامی کو پہلے وزارتِ زراعت دی گئی اور بعد میں وزارتِ صنعت بھی ملی۔ جماعتِ اسلامی کے سیکریٹری جنرل علی احسن محمد مجاہد کو بھی سماجی بہبود کا وزیر بنایا گیا۔ اُس دور میں بھی ہر طرف کسی نہ کسی شکل میں عدمِ استحکام ہی تھا۔ عوامی لیگ نے پہلے ہی دن سے طے کرلیا تھا کہ وہ حکومت کو کسی طور چلنے نہیں دے گی۔
عوامی لیگ کے اُس وقت کے سیکریٹری جنرل عبدالجلیل نے کہا تھا کہ عوامی لیگ کے پاس ایک ٹرمپ کارڈ ہے جو وہ 30 اپریل 2004ء کو کھیلے گی۔ انہوں نے بنگلادیش میں تمام این جی او ورکرز کو جمع کرکے مرکزی سیکریٹریٹ کا گھیراؤ کرکے حکومت کو گرانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ حکومت کے بروقت اقدامات سے یہ منصوبہ ناکام ہوگیا۔
اس کے بعد چند مذہبی تنظیموں کے سربراہوں نے سر اٹھانا شروع کیا۔ انہوں نے عدمِ استحکام کے ایک اور دور کی راہ ہموار کی۔ ملک کی تقریباً تمام ہی عدالتوں میں دھماکے کیے گئے۔ حکومت نے بہت بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کیں۔ گرفتاری کے مراحل میں کچھ لوگ مرگئے یا مارے گئے۔ چند ایک پر مقدمات چلے اور فردِ جرم بھی عائد کی گئی۔ مرکزی دھارے کے مذہبی رہنما اِن نام نہاد مذہبی رہنماؤں کے خلاف تھے مگر وہ اپنے لیے خاص جگہ بنانے میں ناکام رہے۔
ان واقعات کے بعد شیخ حسینہ واجد نے اپنے 14رکنی اتحاد کے ساتھ تحریک شروع کی۔ 28 اکتوبر سے عبوری دور شروع ہوا۔ خیال تھا کہ حکومت اگلے ہی دن اپنی بساط لپیٹ کر تمام معاملات نگراں حکومت کو سونپ دے گی۔ اُس دن عوامی لیگ نے بہت بڑے پیمانے پر قتل و غارت کا بازار گرم کیا۔ ہمارے 6 کارکن شہید کردیے گئے۔ یہ خبر پوری دنیا میں سُنی اور پڑھی گئی۔ قتل و غارت کے مناظر بہت خوف ناک تھے۔ غیر ملکی رہنماؤں اور سفارت کاروں نے کہا کہ جو کچھ انہوں نے دیکھا وہ انتہائی بھیانک اور خوف ناک تھا۔
نئی عبوری حکومت قائم کی گئی جس کی سربراہی ایازالدین کو سونپی گئی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ خود صدرِ مملکت ہی کو نگراں حکومت کا بھی سربراہ بنایا گیا تھا۔ یہ سب کچھ اگرچہ آئین کی حدود میں رہتے ہوئے کیا گیا تھا مگر عجیب اس لیے لگا کہ پہلے کبھی ایسا نہیں کیا گیا تھا۔ عبوری حکومت عوامی لیگ کے پیدا کردہ عدمِ استحکام کے باعث ناکام رہی۔ خیر، یہ عدمِ استحکام صرف عوامی لیگ کا پیدا کردہ نہ تھا۔ اُس وقت کی حکومت بھی بہت حد تک اس کی ذمہ دار تھی۔ اب ایک اور نگراں حکومت قائم کی گئی۔ عام طور پر نگراں حکومت تین ماہ کے لیے ہوتی ہے مگر یہ نگراں حکومت دو سال تک قائم رہی۔ ایک مرحلے پر یہ نگراں حکومت اپنی سیاسی جماعت بھی بنانے پر تُل گئی۔ اُس وقت کے آرمی چیف جنرل معین یو احمد نے ڈھاکا کے سونار گاؤں ہوٹل کے بال روم میں ایک پریزنٹیشن کے ذریعے بنگلادیش میں جمہوریت کے نئے وژن کا تعارف کرایا۔ وہ اس موقع پر زیادہ سے زیادہ سپورٹ یقینی بنانا چاہتے تھے کیونکہ وہ اپنی حکومت قائم کرنے کے خواہش مند تھے۔ وہ ناکام رہے۔ جب انہیں گرم جوشی والا ریسپانس نہیں ملا تو انہوں نے حکومت سازی کے ارادے کی بساط لپیٹ دی۔
فوج کی حمایت یافتہ نگراں حکومت نے، جس کے سربراہ فخرالدین احمد تھے، 2008ء میں انتخابات کرائے مگر تب تک وہ بہت سی غلطیاں کرچکے تھے اور کرپشن کی کہانیاں بھی تھیں۔ فخرالدین احمد نے کرپشن کے خلاف جہاد کا اعلان کیا تھا مگر خود اُنہی کی سربراہی میں قائم نگراں حکومت پر بھی کرپشن کے الزامات عائد کیے گئے۔ بنگلادیش کا ایک بنیادی مسئلہ یہ رہا ہے کہ ہر دور میں کرپشن جاری رہی ہے۔ جب نگراں حکومتیں قائم کی گئیں تب بھی کرپشن جاری ہی رہی۔ منتخب حکومتیں تو خیر بہت ہی بڑے پیمانے پر کرپشن میں ملوث رہی ہیں۔
فخرالدین احمد کی سربراہی میں قائم نگراں حکومت چاہتی تھی کہ اُسے سیف ایگزٹ دی جائے۔ یہ اصطلاح بہت مقبول ہوئی۔ طے پایا کہ پارلیمنٹ میں یہ معاملہ طے کیا جائے گا۔ جو کچھ نگراں حکومت نے کیا تھا اس کی بنیاد پر محاسبہ بھی لازم تھا، مگر ایسا نہیں کیا گیا۔
بنگلا دیش ہر دور میں شدید عدمِ استحکام سے دوچار رہا ہے۔ حکومت کے قائم ہوتے ہی پلکھانا میں فوجی حکام کو قتل کیا گیا۔ آزاد و خودمختار بنگلادیش میں ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ فوجی افسران کے اہلِ خانہ کو بھی قتل کیا گیا۔ خواتین سے زیادتی کی گئی اور پھر انہیں قتل کرکے لاشیں نالوں میں پھینک دی گئیں۔ حکومت نے ہر خرابی کی ذمہ داری اپوزیشن پر عائد کی اور اُس کے خلاف محض پروپیگنڈا نہیں کیا بلکہ معاملات کو عدالتی کارروائی تک لے جایا گیا۔ بے بنیاد مقدمات قائم کیے گئے۔ حکومت نے جماعتِ اسلامی اور اس کے لیڈروں کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات قائم کیے، جبکہ حقیقت یہ تھی کہ انہیں دیگر الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ بہت سوں کو قتل کردیا گیا۔ دوسرے بہت سے جماعتی لیڈر اور کارکن زخمی ہوئے۔ بہت سے لاپتا ہوئے۔ ان کے بارے میں آج بھی کسی کو کچھ نہیں معلوم۔ اس دوران جماعتِ اسلامی کو صرف دو بار کسی ایونٹ کی اجازت ملی۔ 30 جون 2023ء کو اور 28 اکتوبر 2023ء کو۔ جماعتِ اسلامی کو تو گلیوں میں بھی مظاہرے کرنے یا جلسے منعقد کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ ہم اچھی طرح جانتے تھے کہ اگر ہم نے سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں تو ہمیں حکومت کی طرف سے اقدامات کا سامنا کرنا پڑے گا، مگر ہم نے انتقامی ذہنیت کی پروا کیے بغیر اپنے حصے کا کام جاری رکھا۔ ہمارا احتجاج پُرامن تھا مگر اس کے باوجود ہمارے خلاف مقدمات دائر کیے گئے۔ ہم نے انجام کی پروا کیے بغیر ہر زیادتی کے خلاف احتجاج جاری رکھا۔ ہم چاہتے تھے کہ قوم کو یہ پیغام ملے کہ ہم کسی بھی صورت اپنے حصے کا کام چھوڑ نہیں سکتے۔ ہمارے خلاف ہزاروں مقدمات دائر کیے گئے۔ سیکڑوں کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ اِس دوران پتا نہیں کتنے ہی شہید کردیے گئے۔ ایسے بُرے حالات کا سامنا ہم نے پہلے شاید ہی کبھی کیا ہو۔
رواں سال 5 اگست کو ایک بار پھر سب کچھ بدل گیا۔ عوامی لیگ کا پندرہ سالہ اقتدار ختم ہوچکا ہے مگر اس کے باوجود ملک اب تک مستحکم نہیں ہوسکا ہے۔ عدمِ استحکام ملک کی جان نہیں چھوڑ رہا۔ کیا اس طور ملک چلتے ہیں یا چلائے جاسکتے ہیں؟ کسی نہ کسی مرحلے پر تو یہ سب کچھ ختم ہونا ہی چاہیے۔ ہم پر بہت جبر کیا گیا ہے، بہت مظالم ڈھائے گئے ہیں، مگر ہم نے صبر کیا ہے اور اللہ پر بھروسا رکھتے ہوئے صبر کیا ہے کہ ایک دن یہ سب کچھ ختم ہوگا اور اچھے دن آئیں گے۔ کوئی بھی حکومت کتنا ہی جبر کرلے، کتنے ہی مظالم ڈھالے، ایک نہ ایک دن اُسے جھکنا ہی پڑتا ہے۔ جن میں تحمل کا وصف ہوتا ہے وہ سب کچھ جھیلتے رہتے ہیں اور ایک نہ ایک دن اپنی بات منوانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ ہم نے ہر طرح کے حالات میں صرف صبر کیا ہے اور اپنے کارکنوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ قانون کو ہاتھ میں نہ لیں۔ ہم پر جتنی بھی زیادتیاں کی گئی ہیں ان کا بدلہ ہم کبھی نہیں لیں گے۔ ہمیں ہر حال میں اللہ سے بہتری کی توقع وابستہ رکھنی ہے۔ ظلم ہماری آزمائش ہے اور صبر کی توفیق بھی اللہ ہی نے عطا فرمائی ہے۔ جب بھی کسی معاشرے میں کوئی بڑی سیاسی تبدیلی رونما ہوتی ہے تب انتشار پھیلتا ہے۔ انتشار جب حد سے گزرتا ہے تو ریاست کا وجود ہی داؤ پر لگ جاتا ہے۔ مجمع کے ہاتھوں انتقام اور نام نہاد انصاف کے بہت سے معاملات ہمارے سامنے ہیں، ہمارے مشاہدے میں ہیں، مگر ہم نے کبھی ایسا نہیں کیا۔ جماعتِ اسلامی پر آج تک اجتماعی انتقام کا الزام عائد نہیں کیا گیا۔
میں نے جماعتِ اسلامی کے عہدیداروں سے پوچھا ہے، دیگر ذرائع سے بھی معلومات حاصل کی ہیں کہ کہیں ایسے کسی واقعے میں ہماری جماعت کے کارکن تو ملوث نہیں؟ مگر مجھے بتایا گیا ہے کہ اجتماعی انتقام کی کسی بھی کارروائی میں جماعتِ اسلامی کا کوئی کارکن ملوث نہیں پایا گیا۔
ہم ایک ایسی تنظیم کے طور پر اپنے وجود کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں جو ملک کو مستحکم کرنے کی ذہنیت کے حوالے سے اپنی ذمہ داری کو بھرپور طور پر محسوس کرتی ہو۔ یہی سبب ہے کہ ہم ہر حال میں پُرسکون اور صابر و شاکر رہے ہیں۔ اگر بنگلادیش میں کسی کو انتقام لینے کا حق دیا جانا چاہیے تو وہ ہم ہیں۔ مظالم دوسروں پر بھی ڈھائے گئے ہیں مگر شدت اور نوعیت دیکھیے تو جو کچھ ہمارے ساتھ روا رکھا گیا وہ کسی اور جماعت کے لوگوں کے ساتھ روا نہیں رکھا گیا۔ جماعت ِ اسلامی بنگلادیش کے دو امراء سمیت پوری کی پوری قیادت کو ختم کردیا گیا مگر ہم خاموش رہے، صبر کرتے رہے اور اپنے معاملات کو اللہ کے کرم پر چھوڑا۔ میں جماعت ِ اسلامی میں کوئی خاص مقام نہیں رکھتا تھا یعنی میری کچھ خاص اہمیت نہ تھی۔ میں اس قابل بھی نہ تھا کہ اِتنا بڑا منصب مجھے دیا جاتا، مگر جب پوری کی پوری قیادت ختم کردی گئی تو قیادت کی ذمہ داری میرے ناتواں کاندھوں پر آ پڑی۔ ہم نے اِتنی بڑی قربانی صرف اس لیے دی کہ ہم اس ملک کو دوبارہ استحکام کی طرف لانا چاہتے تھے۔ آپ اِسے کوئی بھی نام دے سکتے ہیں مگر ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ ہم بنگلادیش میں حقیقی استحکام چاہتے ہیں۔
عبوری حکومت میں کوئی بھی شخص ایسے اوصاف کا حامل نہیں۔ خیر، یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ پوری دنیا میں کوئی سے دو افراد یکساں نہیں۔ ہم ہر ایک سے یکساں توقعات وابستہ نہیں رکھ سکتے۔ ہر شخص اپنے مفاد اور تصورات کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے۔ اگر کوئی اچھی طرح کام کرنا چاہے تو کوئی بھی اسے ایسا کرنے سے نہیں روک سکتا۔ نگراں یا عبوری حکومت میں جن لوگوں کو ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں اُنہیں چاہیے کہ اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھائیں اور وہ سب کچھ کر دکھائیں جس کی اُن سے توقع وابستہ کی جارہی ہے۔ (جاری ہے)