بروز پیر 2 دسمبر کو کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد میں معروف کالم نگار لطیف جمال کی شائع ہونے والی تحریر کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے۔
’’یہ امر کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے کہ 2024ء کے الیکشن میں سارے کا سارا مینڈیٹ چوری کرلیا گیا تھا۔ اس مینڈیٹ کو چرانے کا مقصد یہ تھا کہ ملک کا اقتدار پی ٹی آئی کے سوا ملک کی دیگر اتحادی سیاسی پارٹیوں کے حوالے کردیا جائے۔ لیکن بڑی سیاسی سازشوں اور انجینئرنگ کرنے کے باوصف پی ٹی آئی نے آزاد حیثیت سے کھڑے ہوکر بھی اپنی اکثریت ظاہر کردی۔ پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت اسیر ہونے اور سخت پابندیوں کے باوجود بھی پی ٹی آئی ایک مقبول پارٹی بن کر ابھر کر سامنے آئی۔ پی ٹی آئی کی حکمتِ عملی سے ہزاروں اختلافات کیے جاسکتے ہیں، لیکن اُس کے چوری شدہ مینڈیٹ کے بارے میں ہمارے پاس کسی قسم کا کوئی بھی جواب نہیں ہے۔ اگرچہ پی ٹی آئی کے نوجوان ورکرز کی سیاسی تربیت نہیں ہوسکی ہے۔ اس کے کارکنان مطالعے کے عادی ہیں اور نہ ہی دنیا کے بڑے انقلابیوں کے بارے میں ہی کچھ جانتے ہیں،لیکن وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں کئی سیاسی پارٹیوں کے نظریاتی سیاسی کیڈر سے بھی بہت آگے دکھائی دیتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی سپریمو کی دی گئی ’’آخری کال‘‘ پر قیادت سے پہلے ہی یہ ورکرز کھڑے ہوئے تھے جنہیں میڈیائی ذرائع عمران خان کے Fantastic Followers (جنونی پیروکار) سمجھتے ہیں۔ وہ پی ٹی آئی کو نہیں پہچانتے، وہ علی امین گنڈاپور کی غلطیوں اور چالاکیوں کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی انہیں بشریٰ بی بی کی سیاسی زندگی میں کوئی دل چسپی ہے۔ وہ محض ایک ہی شخصیت کے سحر اور نعرے سے متاثر ہیں اور وہ ہے عمران خان۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی ’اسٹیٹس کو‘ میں دراڑ ڈالنے کی صلاحیت صرف اور صرف عمران خان ہی کو حاصل ہے۔ حالانکہ انہوں نے عمران خان کے عرصۂ اقتدار کو بھی آزماکر دیکھ لیا ہے، تاہم وہ اس مدتِ اقتدار کی ناکامی کو بھی شمار کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔ عمران خان کے دامن پر پڑے ہوئے بہت سارے داغ بھی انہیں دکھائی نہیں دیتے، اور وہ یہ بات بھی سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ 2018ء کا اقتدار بھی انہی حلقوں نے اُسے سونپا تھا جن کے ساتھ آج وہ برسرِپیکار ہے۔ ان جنونی پیروکاروں کی بڑی اکثریت اسی صوبے سے وابستہ ہے جو ہمیشہ سے ہی قبائلی جھگڑوں یا دہشت گردانہ کارروائیوں کا نشانہ بنتا چلا آرہا ہے۔ عمران خان نے جب اپنی احتجاجی تحریک کا عجلت میں اعلان کرتے ہوئے اسے ’’آخری کال‘‘ کا نام دیا تھا تب اسے بہ خوبی یہ اندازہ تھا کہ اس کے جنونی پیروکار اس کے دیے گئے نعرے ’’کرو یا پھر مر جائو‘‘ پر لبیک کہیںگے۔ 9 مئی کے بعد پی ٹی آئی پر جو مصیبتیں نازل ہوئیں اس کی وہ بھاری قیمت آج بھی ادا کرنے پر مجبور ہے۔ ان حالات میں جب ’’آخری کال‘‘ کا اعلان کیا گیا تھا تب ہم نے اخبار کے انہی صفحات پر لکھا تھا کہ اقتداری اور انقلابی تحریک میں فرق ہوا کرتا ہے۔ اقتداری جنگ کی حکمتِ عملیاں اور طرح کی ہوتی ہیں اور انقلابات کی جنگ کے طریقے مختلف قسم کے ہوا کرتے ہیں۔ وہ مطالبات جنہیں ’’آخری کال‘‘ کی بنیاد بنایا گیا تھا وہ ملک میں کوئی بڑا انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے اور نہ ہی وہ ملک کے نظام کی تبدیلی کا باعث بن سکتے تھے۔ اس کے باوجود پی ٹی آئی کی سپریمو نے مذکورہ کال کا اعلان کردیا۔ اس اعلان کے نتیجے میں پی ٹی آئی کی جیل سے باہر کی قیادت الجھن کا شکار تھی جس نے عمران خان کو بارہا یہ سمجھایا تھا کہ اس وقت ایسی تحریک کا اعلان پی ٹی آئی کے حق میں نہیں نکلے گا۔ اعلان کے بعد حکومت نے اسلام آباد کے تمام راستے سیل کردیے تھے اور پی ٹی آئی اور حکومت کے مابین مذاکرات کی کامیابی کے امکانات بھی دھندلا سے گئے تھے، اور پھر بالآخر وہ دن آن پہنچا جب میڈیا کے ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے احتجاج میں شامل افراد کی ایک معتدبہ تعداد اسلام آباد دھرنے میں شریک ہوگئی۔
جب سیاسی پارٹیاں بڑے احتجاجی پروگرامات کا اعلان کرتی ہیں اور اپنے احتجاج کی کامیابی کے لیے ہر قسم کی حکمتِ عملی اور حربے استعمال کرنے کے لیے تیار رہتی ہیں تو وہ احتجاجوں کی تیاری کے لیے سب سے پہلے تو یہ طے کرتی ہیں کہ اتنی بڑی احتجاجی تحریک کی رہنمائی آخر کون کرے گا؟ اگر اس تحریک کی رہنمائی کی ذمہ داری پی ٹی آئی کی جیل سے باہر قیادت کی نہیں تھی تو پھر کس کی تھی؟ جس کے لیے بشریٰ بی بی یہ کہتی رہیں کہ پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت احتجاجی تحریک میں تو شامل ہی نہیں تھی۔ اگر یہ قیادت شامل نہیں تھی تو پھر آخر اس احتجاج کی رہنمائی کس نے کی؟ اگر علی امین گنڈاپور کے ساتھ بشریٰ بی بی اس تحریک کی قیادت کررہی تھیں تو پھر کارکنان کی بڑی تعداد کو سنبھالنے اور دھرنے کا روٹ پہلے ہی سے کیوں نہ طے کرلیا گیا؟ جس کے متعلق یہ کہا گیا کہ ’’ڈی چوک کے بجائے سنگجانی‘‘ کے پاس دھرنا دینے پر اڈیالہ جیل سے ہدایات جاری کرنے والے عمران خان بھی راضی تھے۔ حقائق کو پیش نظر رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ احتجاجی تحریک جسے خیبر پختون خوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور مینج کررہے تھے، اس کی قیادت اچانک ہی بشریٰ بی بی نے سنبھال لی جنہوں نے اس دھرنے کا رخ بجائے سنگجانی کے، ڈی چوک کی طرف موڑنے کا اعلان کر ڈالا۔ اس کے بعد احتجاجی قافلوں نے بشریٰ بی بی کے اعلان پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ڈی چوک پر دھرنا دینے اور وہاں سے اُس وقت تک نہ اٹھنے کا وعدہ کرلیا جب تک کہ عمران خان ڈی چوک پر آکر دھرنے سے خطاب نہیں کرلیتے۔ اس سارے عوامی احتجاج کی قیادت آخر میں بشریٰ بی بی کررہی تھیں۔ پی ٹی آئی کی قیادت کے بقول بشریٰ بی بی تو احتجاج میں شامل ہی نہ تھیں۔ مطلب یہ ہے کہ جب پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک کی قیادت پی ٹی آئی کے رہنما نہیں کررہے تھے تو پھر اس عوامی احتجاج کا انبوہ میں تبدیل ہونا بھی فطری امر تھا۔ جب احتجاجی تحریکوں کی قیادت یا رہنمائی نہیں ہوتی تو اس صورت میں ان کا نتیجہ خیز ہونا بھی محال ہوتا ہے۔ اسی طرح سے قیادت جب بہت سارے رہنمائوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے اور فیصلوں کے اختیارات بھی کسی ایک کے پاس نہیں ہوتے تو اس صورت میں بھی وہ تضادات اور اختلافات کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ پی ٹی آئی اب بھلے سے ہی اس احتجاجی تحریک کی ناکامی کا بار اپنی گردن سے نکالتے ہوئے اس کا اہم سبب حکومتی جبر اور زبردستی کو قرر دے رہی ہو، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کے اس احتجاج کو قیادت نہ ہونے کی بنا پر ہی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔
اس ناکامی کے اثرات اتنے زیادہ گہرے اور شدید ہیں کہ پی ٹی آئی اس کے باعث اپنے اندرونی اختلافات کے بہت بڑے بحران میں مبتلا ہوچکی ہے۔ جس انداز میں وفاقی وزیر محسن نقوی نے اسلام آباد کو کنٹینرز کے قلعے میں تبدیل کر ڈالا تھا، کسی بھی جمہوری حکومت میں اس طرح سے ہوتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ اس کے باوجود پی ٹی آئی کا یہ احتجاج کنٹینروں سے بنائے گئے قلعے کو مسمار کرتا ہوا ڈی چوک پر پہنچ گیا اور پھر گرینڈ آپریشن کے ساتھ رات کی تاریکی میں اپنے مطالبات کی منظوری سے قبل ہی اسے منتشر کردیا گیا۔ یہ عوامی احتجاج اور اس میں شامل بڑی تعداد رات کے سناٹے میں آخر کہاں کھو گئی؟ صبح کو محض راستوں پر چند جلی ہوئی گاڑیوں اور کنٹینرز کی اخبارات میں شائع شدہ تصویریں ہی تھیں، جب کہ سوشل میڈیا پر رات کو ہونے والی اندھا دھند فائرنگ کے اَپ لوڈ شدہ وڈیو کلپ دیکھنے کے لیے مل رہے تھے۔ احتجاجی دھرنے کے رہنمائوں علی امین گنڈاپور اور بشریٰ بی بی کے لیے پی ٹی آئی کا یہ کہنا تھا کہ انہیں لاپتا کردیا گیا ہے۔ جب کہ حکومتی حلقے یہ الزام دھر رہے تھے کہ دونوں احتجاجی ریلی کو اکیلا چھوڑ کر فرار ہوچکے ہیں۔ جس کے بعد پی ٹی آئی کے رہنمائوں ایم این اے لطیف کھوسہ اور عمر ایوب خان نے یہ دعویٰ کیاکہ ’’ہمارے 278 کارکنان کو شہید اور 1900 کو زخمی کیا گیا ہے، اورہم مارے جانے والے افراد کی ایف آئی آر حکومت پر داخل کرائیں گے‘‘۔ پی ٹی آئی کے ترجمان وقاص اکرم شیخ اور عمر ایوب خان نے دوسری مرتبہ پشاور میں دورانِ پریس کانفرنس یہ تعداد 12 بتائی۔ تاہم مرنے والوں اور زخمی افراد کی تصدیق شدہ تعداد تاحال معلوم نہیں ہوسکی ہے۔ احتجاجی تحریک کی ناکامی کے بعد پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات اب کھل کر سامنے آچکے ہیں۔ کے پی کے کے وزیراعلیٰ نے بشریٰ بی بی کی ترجمان مشال یوسف زئی کو معاونِ خاص کے عہدے سے ہٹادیا ہے اور بشریٰ بی بی کے سیاسی کردار پر بھی سوالات اٹھانے شروع کردیے ہیں۔ دوسری جانب بشریٰ بی بی جیل سے باہر کی پارٹی قیادت کو دھرنے کی ناکامی کا ذمہ دار ٹھیرا رہی ہیں۔ پی ٹی آئی کی اس ریلی کے خاتمے اور ناکامی کا سبب قیادت کا نہ ہونا تھا جس کی وجہ سے مذکورہ ریلی ڈی چوک پر پہنچتے ہی ختم ہوگئی۔ اگر اس احتجاجی تحریک کو صحیح قیادت میسر آجاتی تو وہ یوں ناکامی سے دوچار نہ ہوتی۔ جب تحاریک کو درست اور صحیح قیادت نہ مل پائے تو وہ اسی انداز سے ناکام ہوجاتی ہیں جس طرح سے مذکورہ تحریک ناکام ہوئی۔ اگرچہ محسن نقوی یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ان کی اپنائی گئی کامیاب حکمتِ عملی کی بدولت پی ٹی آئی کی یہ تحریک ناکام ہوئی، جبکہ درحقیقت پی ٹی آئی اپنے اندرونی تضادات کے نتیجے میں اپنی کی گئی جدوجہد میں ناکامی سے دوچار ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی کی ساری قیادت ایک طرف اور بشریٰ بی بی کی حکمتِ عملی دوسری طرف تھی۔ پی ٹی آئی کی قیادت کنٹینروں کے قلعے کو توڑ کر ڈی چوک تک پہنچنے والے اپنے کارکنان کو رات کی تاریکی میں چھوڑ کر غائب ہوگئی۔ اب پی ٹی آئی کی نئی حکمتِ عملی میں بھلے سے اسلام آباد کو فتح کرنے کے نئے خواب ہوں، تاہم پی ٹی آئی کو یہ بات ماننی پڑے گی کہ احتجاج کے فروزاں چراغ کو بجھانے والی دراصل اختلافات کی وہ آندھیاں تھیں جو روشن احتجاج کے دیے کو بجھانے کا باعث بنیں۔ اب بے شک پی ٹی آئی کی ساری قیادت اس تحریک کو ازسرنو متحرک کرنے کا نیا اعلان کرے لیکن وہ اپنے مضبوط سیاسی اثرات کو دوبارہ حاصل نہیں کرسکے گی۔ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ اگر پی ٹی آئی کے ڈی چوک کے احتجاج یا دھرنے کو بنیاد بناکر کے پی کے میںگورنر راج لاگو کرنے کی غلطی کی گئی یا پھر پی ٹی آئی پر پابندی عائد کرنے جیسا کوئی غیر آئینی عمل کیا گیا تو اس کے نتیجے میں وطنِ عزیز میں ایک نئے سیاسی انتشار کا طوفان کھڑا ہوسکتا ہے جو ہمارے ملک کے ریاستی نظام کو بیخ و بن سے اکھیڑنے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔‘‘