ایک غیر مستحکم ملک میں کون سرمایہ کاری کرنا چاہے گا؟
اسلام آباد میں تحریک انصاف کے احتجاج کا اختتام کیوں اور کیسے ہوا؟ یہ سب کچھ جاننے کے لیے سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ تحریک انصاف کے بانی چیئرمین اپنی پارٹی سے مایوس کیوں ہیں؟ اور بشریٰ بی بی کا اب پارٹی میں کیا کردار ہوگا؟ سانحہ اسلام آباد کے بعد بھی تحریک انصاف اٹھ سکتی ہے لیکن اسے سیاسی رویہ اپنانا ہوگا، لیکن فی الحال تو منظر یہ ہے کہ بشریٰ بی بی نے عمران خان کی رضامندی سے تحریک انصاف کی داخلی سیاست بازی سے تنگ آکر ’’ابسلیوٹلی ناٹ‘‘ کا محاذ خود سنبھال لیا ہے۔ بشریٰ بی بی کو آگے لانے کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اپنی پارٹی کی ’’کمپرومائزڈ‘‘ سیاست سے تنگ آچکے ہیں، یہ فیصلہ انہوں نے جیل میں اپنے ڈیڑھ سال کے عرصے کے بعد کیا ہے۔ اُن پر اس وقت سو سے زائد مقدمات ہیں، عمران خان اس فیصلے کے بعد ’’مثبت نتائج‘‘ مل جانے پر مزید اقدامات بھی کرسکتے ہیں۔ فی الحال اُن کا خیال ہے کہ پارٹی کی قیادت معاملات کو کسی کے اشارے پر ایک ایسے موڑ پر لے آئی ہے جہاں ان کے لیے مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ اسی لیے عمران خان اب کسی اور کے بجائے بشریٰ بی بی کے ذریعے ہی رابطے بڑھائیں گے۔ عمران خان نے اُنہیں واضح ہدایات دے رکھی ہیں کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔ عمران خان ہی نے بشریٰ بی بی کو احتجاج اور مارو یا مر جاؤ والی کیفیت کے حوالے سے واضح ہدایات دی تھیں، وہ چاہتے ہیں کہ اُن کی رہائی یقینی بنانے کے لیے بھرپور احتجاج کیا جائے۔ اب بشریٰ بی بی ہی عمران خان اور رابطہ کاروں کے درمیان پُل کا کردار ادا کریں گی۔ عمران خان کو یقین ہوچکا ہے کہ قریبی معاونین یا ساتھیوں کی حرکات بہت مشکوک ہیں، وہ صرف ذاتی فوائد بٹورنے میں مصروف ہیں۔ یہ بات طے ہے کہ پارٹی راہنماؤں کی کوششوں کے برعکس بشریٰ بی بی عمران خان کی ہدایت کے مطابق ہی احتجاج کو اسلام آباد کے قلب ڈی چوک تک لے کر گئیں۔ اب ڈی چوک میں کیا ہوا؟ اس سب کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بن چکی ہیں،8 مقدمات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی گئی ہیں جن میں ایف آئی اے اور پولیس کے نمائندے بھی شامل ہیں۔ حکومت چاہتی ہے کہ پارلیمانی کمیشن بننا چاہیے، لیکن اب حقائق کی چھلنی سے سب کچھ باہر نکلے گا کہ کس نے کہاں سے فائرنگ کی۔ ڈی چوک میں آنے والے لوگ بھی مسلح تھے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ جو کچھ بھی ہوا اس سے پہلے بتیاں کیوں گل کی گئیں اور اندھیرا کیوں کیا گیا؟ بشریٰ بی بی اور وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا علی امین گنڈاپور کیوں اور کیسے ڈی چوک سے باہر نکلے؟
اب احتجاجی مارچ ختم ہونے کے بعد پی ٹی آئی نے کارکنوں کی اموات سے متعلق متضاد دعوے شروع کردیے ہیں۔ لطیف کھوسہ نے 278 کارکنان، سلمان اکرم راجا نے 20، شعیب شاہین نے 8 کارکنان کی اموات کے اعداد و شمار دیے ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے سیکڑوں اموات کی بات کرنے والوں سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے 12 کارکن شہید ہوئے۔ پولیس کا مؤقف ہے کہ پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کی گئی، لاٹھیوں، ڈنڈوں اور برچھیوں سے حملوں کے نتیجے میں پولیس کے 170 سے زائد اہلکار زخمی ہوئے ہیں جو اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔
اس کے برعکس جو اطلاعات سوشل میڈیا کے ذریعے مل رہی ہیں وہ نہایت خوفناک ہیں۔ تحریک انصاف کے ہی متعدد افراد، بلکہ اس کی قیادت کے سینئر افراد بھی اعتراف کررہے ہیں کہ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت پارٹی کے سوشل میڈیا اور پارٹی کے بیرونِ ملک مقیم حامی طبقے کے ہاتھوں یرغمال بن چکی ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت متفق ہے کہ ان کی وجہ سے پارٹی اور جیل میں قید بانی چیئرمین کے لیے مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے، تاہم پارٹی ان لوگوں کو روکنے میں ناکام ہے۔ اسی گروہ کی جانب سے فوج اور آرمی چیف کے خلاف مغربی ممالک اور امریکہ میں بھی سوشل میڈیا اور سڑکوں پر چلنے والی اسکرینوں کے ذریعے مہم چلائی گئی، پارٹی کے کچھ لوگوں نے امریکہ میں پی ٹی آئی کے ذمہ داران سے رابطہ کیالیکن ان کی بات نہیں مانی گئی، تاہم وہ فوج مخالف پروپیگنڈے سے ناخوش ہونے کے باوجود خاموش ہیں کہ کہیں پارٹی کے ’’غدار‘‘ قرار نہ دے دیے جائیں، پارٹی کا سوشل میڈیا ان کی تضحیک شروع نہ کردے۔ اس بات کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے کہ پارٹی کا آفیشل سوشل میڈیا بیرون ملک سے کیوں کنٹرول کیا جا رہا ہے، اور اس پر پارٹی کے کسی عہدیدار اور راہنما کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ پارٹی راہنما اعتراف کرتے ہیں کہ حکومت کے ساتھ رابطوں میں شامل راہنما بھی خوف کھاتے ہیں کہ کہیں اُن کا نام افشاء نہ ہوجائے، بصورتِ دیگر ان کے گھروں پر حملے ہوسکتے ہیں۔
تحریک انصاف کے ساتھ جڑے ہوئے واقعات سے ہٹ کر منظرنامہ یہ ہے کہ حکومت نے ریاست کے خلاف مذموم پروپیگنڈے میں ملوث افراد کی نشاندہی کے لیے ایک دس رکنی ٹاسک فورس قائم کردی ہے۔ ٹاسک فورس حالیہ احتجاج میں شریک شرپسندوں، سوشل میڈیا سمیت دیگر ذرائع سے جھوٹی اور گمراہ کن خبریں پھیلانے اور میڈیا مہم میں ملوث افراد، گروپس اورتنظیموں، نیز ملک کے اندر اور بیرونِ ملک مذموم مہم چلانے والے افراد کی نشاندہی کرے گی، کیونکہ اس مہم میں سب سے خطرناک بات یہ تھی کہ ریاستی اداروں پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات لگائے گئے، سیاسی مفادات کے لیے صوبائی اور لسانی تعصبات کو ابھارا گیا۔ مشترکہ ٹاسک فورس کی سفارشات کے بعد ہی اس حوالے سے حقیقی صورتِ حال واضح ہوگی، مگر یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ کسی بھی حکومت کے لیے کسی سیاسی جماعت کے احتجاج سے نمٹنے کا راستہ کیا ہے اور معیار کیا ہے؟ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا کسی بھی سیاسی جماعت کا احتجاج پُرتشدد ہوسکتا ہے یا ہونا چاہیے؟ بنیادی انسانی سیاسی حقوق صرف حکمران جماعت سے وابستہ کارکنوں کے ہوتے ہیں یا اپوزیشن جماعتوں سے وابستہ کارکنوں کے بھی کوئی بنیادی سیاسی انسانی حقوق ہیں؟ یہ ایک ایسی بحث ہے جو ملک کے ہر شہر، دیہات، گلی کوچوں اور میڈیا میں تو ہوتی ہے، پارلیمنٹ میں اس موضوع پر کبھی غور وفکر ہوا، نہ بحث ہوئی، اور نتیجہ یہی نکلا کہ جب سے پاکستان قائم ہوا ہے اُس وقت سے آج تک ہر دور میں اپوزیشن سڑکوں پر رگڑے کھاتی ہے اور حکمران جماعت کے ہاتھ میں لاٹھی اور گولی ہوتی ہے۔ یہ کھیل ایک نیا رخ اختیار کرتا چلا جارہا ہے کہ سیاست میں اب تشدد بڑھ رہا ہے، اب سیاسی کارکن کے نزدیک پتھر مارنا، حتیٰ کہ امن و امان کی ڈیوٹی دینے والے کسی سرکاری اہل کار کی جان لینا بھی کوئی ’’جرم’’نہیں سمجھا جاتا۔ سیاست میں تشدد کے اس رجحان کو روکنا ہوگا، ورنہ مستقبل میں یہ تشدد وہ رنگ دکھائے گا کہ لڑائی گلی گلی، محلے محلے پھیل جائے گی اور کسی کا گھر محفوظ نہیں رہے گا۔ اس کام میں حکومت ہی پہل دکھائے، اور اسلام آباد کے بلیو ایریا میں جس تشدد کے ساتھ سیاسی احتجاج کچلا گیا ہے اس پر پارلیمنٹ میں کھل کر بحث ہونی چاہیے، اور اس بحث کے نتیجے میں احتجاج اور احتجاج سے نمٹنے کا معیار پارلیمنٹ ہی طے کرے تو ملکی سیاست میں نکھار بھی آسکتا ہے اور احتجاج کا طریقہ چھلنی سے گزر کر پُرامن اور ری فائن بھی ہوسکتا ہے، ورنہ اس ملک میں ایوب خان کا ہی دور چلتا رہے گا کہ ’’بندہ پہلے پکڑو، مقدمہ حکمران کی خواہش کے مطابق بعد میں بنایا جائے گا‘‘۔
کسی بھی سیاسی کارکن کی جان لینے کی ابتدا ملک میں بھٹو دور سے ہوئی۔ عبدالصمد اچکزئی، خواجہ رفیق، ڈاکٹر نذیر شہید اس ضمن میں حکمرانوں کے انتقام کی مثال ہیں۔ کراچی کی ایک لسانی تنظیم نے تو حد ہی پار کردی تھی، سرِ عام کہا گیا کہ جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حق دار ہے۔ اس بدتر غیر قانونی سلوگن کی زد میں آنے والوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ بہرحال فی الحال مسلم لیگ(ن) کا دورِ حکومت اور تحریک انصاف کا سیاسی احتجاج ہمارا موضوع ہے اور تحریک انصاف کے احتجاج کا طریقِ کار بھی بحث طلب ہے۔ تحریک انصاف کو بھی اپنا جائزہ لینا ہوگا کہ وہ کب ایسا رویہ اپنائے گی؟ اور حکومت بھی سوچے کہ جو ملک دنیا کو سرمایہ کاری کی دعوت دے رہا ہے وہ ایک بڑی سیاسی جماعت کے خلاف سخت ایکشن لینے جارہا ہے! ایک غیر مستحکم ملک میں کون سرمایہ کاری کرنا چاہے گا؟ وزیراعظم فیصلہ کریں گے کون سیاسی جماعت ہے؟ یا ملک کے عوام فیصلہ کریں گے؟ سیاست دان جب کہتے ہیں کہ طاقتور مسئلہ حل کریں تو پھر جمہوریت کی بات کیوں کرتے ہیں؟ سیاسی جماعتیں اپنے مسائل خود حل کریں، ہم کب تک تیسری قوت کی طرف دیکھتے رہیں گے؟
تحریک انصاف پھر ایک فیصلہ کرچکی ہے کہ وہ دوبارہ لشکر لے کر اسلام آباد آئے گی۔ لیکن اُس کے پاس یہ بہترین وقت ہے کہ آگے بڑھنے سے قبل وہ اپنا محاسبہ کرے اور سبق سیکھے۔ سیاسی مسئلہ اسے سیاسی طریقے سے حل کرنا چاہیے۔ حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ صبر دکھائے، معاملے کو حل کرنے کی کوشش کرے۔ تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتیں یہ بات یاد رکھیں کہ بنیادی طور پر یہ بحران 2014ء میں شروع ہوا، اور2018ء میں اس نے ایک نئی جہت پکڑی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ عوامی مرضی پیش نہیں کررہی۔ عمران خان ٹکراؤ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں،جبکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تعمیری اور بامقصد سیاست کرتے۔ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکراؤ کی پالیسی اپنائی۔اس کا جواب بھی اسی طریقے سے ملاجس طرح نام لے کر ٹکراؤ کرتے رہے۔ 24 نومبر کی کال، جسے فائنل کال کا نام دیا گیا، یہ بشریٰ بی بی کا بنیادی خیال تھا، لیکن یہ فائنل کال بہت بری طرح پٹ گئی۔ اس کی ایک وجہ خود تحریک انصاف بھی ہے۔ 24 نومبر کی کال ناکام بنانے کے لیے وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت دونوں ہائی الرٹ رہیں، پنجاب میں بڑے پیمانے پر لاک ڈاؤن لگایا گیا، ایسا لاک ڈاؤن کہ صوبے کی صنعت کا بھٹہ بیٹھ گیا ہے۔ صنعتی اداروں سے پوچھیں ان کا کیا نقصان ہوا ہے؟ حکومت کہہ سکتی ہے کہ اس نے احتجاج پسپا کردیا، لیکن اس کی قیمت کیا ادا کرنا پڑی؟ سب سے پہلے بڑے صوبے کو مکمل طور پر مفلوج کرنا پڑا اور سیاسی کارکنوں کی کمر توڑی گئی۔ اس قبیح عمل سے حکومت مضبوط نہیں ہوئی بلکہ کم زور ہوگئی ہے، اس کے نتائج اسے بھگتنا ہوں گے۔ پنجاب بھرکو مفلوج کرکے دس کروڑ کی آبادی گھروں میں محصور کی گئی۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ملک میں فیک نیوز اور غلط معلومات قابلِ اعتماد سمجھی جانے لگی ہیں۔ قدم قدم پر رکاوٹوں کے باوجود اسلام آباد کے ریڈ زون میں حکومت کو سیاسی کارکنوں نے تگنی کا ناچ نچایا، ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی اور گولی حرکت میں لانا پڑی، مگر عوام کی طاقت اقتدار کی طاقت کو آج نہیں تو کل کسی بھی وقت رگڑ سکتی ہے، عوامی طاقت کے سامنے کوئی حکمران جم کر نہیں رہ سکا۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کو دو انتقام لینے ہیں: ایک حکمرانوں سے اور دوسرا اپنوں سے۔ وہ اپنے، جن کی وجہ سے لانگ مارچ کا تضحیک آمیز اختتام ہوا، اور جو انہیں چھلنی ہونے کے لیے بے یارو مددگار چھوڑ کر آرام دہ قیمتی گاڑیوں میں سوار ہوکر اپنے طویل و عریض گھروں میں جاکر چھپ گئے، اور بلیو ایریا میں غریب سیاسی کارکنوں کی زندگی کی چھت ٹپکتی رہی۔ حکومت کے اپنے دعوے کے مطابق کم و بیش1400 کارکن گرفتار کیے گئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آئندہ دنوں میں پارٹی کو اندرونی اختلافات کا سامنا کرنا پڑے گا جہاں سب ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھیرائیں گے۔ پارٹی کی مرکزی قیادت کو شدید نقصان پہنچا ہے اور انہیں تذلیل کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن تحریک انصاف اس بحران سے باہر نکل آئے گی کیونکہ حکومت پر لوگوں میں عدم اطمینان بڑھ گیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ تحریک انصاف بہت جلد ایک نیا وار کرے۔ خیبرپختون خوا میں گورنر راج اگر نافذ ہوگیا تو یہ فیصلہ مسلم لیگ(ن) کی سیاسی موت کا باعث بنے گا۔