قبائلی ضلع کرم، فسادات یا دہشت گردی

ّ133 قیمتی جانوں کے ضیاع کے بعد گرینڈ جرگہ کی تشکیل

قبائلی ضلع کرم میں دو ہفتوں کے کشت وخون کے بعد خدا خدا کرکے امید اور خوف کے سائے میں خیبر پختون خوا حکومت نے قیام امن کے لیے 65 نئی چوکیاں قائم کرنے کی منظوری دے دی ہے، جبکہ فرنٹیئر کانسٹیبلری کی پلاٹونز تعینات کرنے کے لیے وفاق سے رابطہ کرنے اور دہشت گرد عناصر کے نام شیڈول فور میں ڈالنے کا بھی فیصلہ کرلیا گیا ہے۔

وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا علی امین گنڈاپور کی زیرصدارت صوبائی کابینہ کا18 واں اجلاس گزشتہ روز پشاور سول سیکرٹریٹ کیبنٹ روم میں منعقد ہوا۔ اجلاس کو کرم کے مسئلے کے حل کے لیے صوبائی حکومت کے لائحہ عمل پر بریفنگ دی گئی اور بتایا گیا کہ کرم میں مختلف واقعات میں اب تک 133 قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ہے جبکہ 177 افراد زخمی ہوئے ہیں، مسئلے کے پُرامن اور پائیدار حل کے لیے گرینڈ جرگہ تشکیل دیا گیا ہے، یہ جرگہ علاقے میں امن کی مکمل بحالی تک وہاں قیام کرے گا۔ اجلاس کو بتایاگیاکہ کرم میں کچھ عناصر فریقین کے درمیان نفرت پھیلاکر حالات کو خراب کررہے ہیں، ایسے عناصر کو دہشت گرد قرار دے کر اُن کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ایسے عناصر کی نشاندہی کرکے انہیں شیڈول فور میں ڈالا جائے گا، کرم میں قائم بنکر مسمار کیے جائیں گے، لوگوں کے پاس موجود بھاری اسلحہ جمع کیا جائے گا، مرکزی شاہراہ کو محفوظ بنانے کے لیے مختلف مقامات پر 65 چوکیاں قائم کی جائیں گی، علاقے میں فرنٹیئر کانسٹیبلری کے پلاٹونز کی تعیناتی کے لیے وفاقی حکومت کو مراسلہ ارسال کیا گیا ہے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ کرم میں جھڑپوں کے دوران شہید ہونے والوں کے ورثاء اور زخمیوںکو مالی امداد فراہم کی جائے گی، علاقے میں املاک کے نقصانات کے متاثرین کو معاوضہ دیا جائے گا۔ کابینہ کو بتایا گیا کہ اس مقصد کے لیے علاقے میں سروے کا عمل جاری ہے، مالی امداد اور معاوضوں کے لیے 38 کروڑ روپے جاری کیے گئے ہیں، ضرورت پڑنے پر مزید فنڈ بھی جاری کیے جائیں گے، علاقے میں بدامنی کی وجہ سے دوسرے اضلاع میں نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کی فوری اور باعزت واپسی عمل میں لائی جائے گی۔

کابینہ نے اس سارے عمل کی حکومتی سطح پر مانیٹرنگ کے لیے صوبائی وزیر قانون، مشیر اطلاعات اور متعلقہ پارلیمنٹیرینز پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے دی۔ کابینہ کو بتایا گیا کہ امن و امان کی موجودہ صورتِ حال کے پیش نظر کرم سمیت تمام متعلقہ اور دیگر حساس اضلاع کی سول انتظامیہ کو بلٹ اور بم پروف گاڑیاں فراہم کی جارہی ہیں، اسی طرح ان حساس اضلاع میں سی ٹی ڈی کو بھی بلٹ پروف گاڑیاں اور دیگر آلات فراہم کیے جارہے ہیں۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا علی امین گنڈاپور نے کہا کہ کرم کا مسئلہ دہشت گردی نہیں، بعض عناصر دو مسلکوں کے لوگوں میں نفرتیں پھیلا رہے ہیں، مقامی عمائدین ایسے شرپسند عناصر کی نشاندہی میں تعاون کریں، ایسے عناصر کے ساتھ دہشت گردوں جیسا سلوک کیا جائے گا، کرم کے مسئلے کو پُرامن انداز میں حل کرنے کے لیے مقامی زعماء پر مشتمل گرینڈ جرگہ جلد ہی علاقے کا دورہ کرے گا۔ علی امین گنڈاپور نے کہا کہ یہ جرگہ تب تک علاقے میں رہے گا جب تک وہاں مکمل امن قائم نہیں ہوتا۔ پائیدار امن کے لیے علاقے میں جنگ بندی انتہائی ضروری ہے، لوگوں کی آمد ورفت کے لیے شاہراہ کو محفوظ بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔ وزیراعلیٰ نے ہدایت کی کہ علاقے میں ضروری ادویہ کی قلت کو دور کرنے کے لیے بذریعہ ہیلی کاپٹر ادویہ سپلائی کی جائیں، نقل مکانی کرنے والے افراد کی فوری اور باعزت واپسی یقینی بنائی جائے۔

یہ بات تسلی بخش ہے کہ صوبائی حکومت کو دیر سے ہی سہی، کرم میں سو سے زائد بے گناہوں کا خون بہنے کا خیال تو آیا، لیکن دوسری جانب صوبے کے دیگر جنوبی اضلاع میں جن سے وزیراعلیٰ کا بھی تعلق ہے، امن کی مستقل بحالی صوبائی حکومت کے ساتھ وفاقی اداروں کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے موصولہ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق وزیراعلیٰ سردار علی امین خان گنڈاپور کا ایک قریبی رشتے دار نامعلوم افراد کی فائرنگ سے جاں بحق ہوگیاہے۔ رپورٹس کے مطابق تحصیل کلاچی میں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے وزیراعلیٰ کے چچازاد بھائی اور تحریک لبیک کے سابق امیدوار فریدون گنڈاپور کے بھائی تقلین خان گنڈاپور کو ہلاک کردیا ہے۔ واقعے کے بعد ملزمان فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ اطلاع پر مقامی پولیس موقع پر پہنچ گئی اور ملزموں کی تلاش شروع کردی۔ مقتول کی نمازِ جنازہ کلاچی کے علاقے رانازئی عیدگاہ میں ادا کردی گئی، جس میں بڑی تعداد میں سیاسی و سماجی شخصیات اور معززینِ علاقہ نے شرکت کی۔

دریں اثناء خیبر پختون خوا کابینہ نے دہشت گردی کے واقعات کے دوران شہید ہونے والے خیبر پختون خوا سے تعلق رکھنے والے سیکورٹی اہلکاروں کے اہل خانہ کے لیے مجموعی طور پر 18 کروڑ 70لاکھ روپے کا پیکیج منظور کرلیا ہے۔ اسی طرح کابینہ نے پشاور ہائی کورٹ کے لیے 10 ججوں کی نئی اسامیاں تخلیق کرنے کی بھی منظوری دے دی ہے۔ اجلاس میں جیلوں میں سیکورٹی آلات، جیمرز، کمیونیکیشن سسٹم اور سی سی ٹی وی کیمروں کی خریداری اور تنصیب کے لیے اضافی فنڈز کی منظوری دی گئی۔ جیل کی لکڑی کی صنعتوں کو منظور شدہ ادارے کا درجہ دیا گیا تاکہ وہ سرکاری اداروں کو براہِ راست فرنیچر اور لکڑی کی مصنوعات فروخت کرسکیں۔ کابینہ نے ضلع مہمند کے 106 خاصہ داروں کو خیبر پختون خوا پولیس میں ضم کرنے کی منظوری دی۔ کابینہ نے سال 25-2024ء کے لیے خیبر پختون خوا شوگر کین اینڈ شوگر بیٹ کنٹرول بورڈ کی تشکیل اور ایبٹ آباد اور کوہاٹ کے واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروس کمپنیز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ناموں کی منظوری بھی دی۔ مزید برآں کابینہ نے خیبر پختون خوا ہاؤسنگ اتھارٹی کے لیے سال 25-2024ء کے بجٹ تخمینے اور 24-2023ء کے نظرثانی شدہ بجٹ کی منظوری دی۔ کابینہ نے پاک پی ڈبلیوڈی کے جاری منصوبے صوبائی حکومت کے دائرۂ اختیار میں لانے، اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی ہری پور کے لیے گرانٹ، اور فرنٹیئر فائونڈیشن کے لیے مالی سال کے دوران گرانٹ میں اضافے کی منظوری دی۔ مزید برآں کابینہ نے متحدہ علماء بورڈ کے اراکین کے لیے اعزازیہ اور لینگ لینڈ اسکول اینڈ کالج چترال کے لیے گرانٹ کی منظوری دی۔ صوبائی کابینہ نے خصوصی تعلیم کے اداروں میں زیرتعلیم خصوصی طلبہ کی آمد ورفت کے لیے گاڑیوں کی خریداری پر عائد پابندی میں نرمی کی منظوری دے دی ہے۔ کابینہ نے خیبر پختون خوا کے دو ہیلی کاپٹرز کے آپریشن اور دیکھ بھال کے لیے پاک فضائیہ کے ساتھ مزید تین سال کا معاہدہ کرنے کی منظوری بھی دی ہے۔ مزید برآں کابینہ نے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی وطن واپسی کے لیے ٹرانزٹ پوائنٹ کو بند کرنے کی منظوری دی۔ کابینہ نے پاسکو کی درآمد کردہ گندم کے لیبارٹری ٹیسٹ کے نتائج کا تجزیہ کرنے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی تکنیکی کمیٹی تشکیل دی ہے اور ناقص معیار کی اس گندم کی خریداری کے معاملے کی مکمل تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ بینک آف خیبر کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں مناسب نمائندگی کے لیے کابینہ نے بینک آف خیبر ایکٹ 1991 میں ترامیم کی منظوری دے دی ہے۔ کابینہ نے سابق معاون خصوصی وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا آنجہانی سردار سورن سنگھ کے قانونی ورثاء کے لیے خصوصی معاوضے کی منظوری دی، جبکہ سالانہ ترقیاتی پروگرام کے تحت ایک اسکیم کو بحال کرتے ہوئے 70 پرائمری اسکولوں کو مڈل سطح پر اَپ گریڈ کرنے کی منظوری دی۔ کابینہ نے ڈی آئی خان میں 1984 کنال اراضی محکمہ تعمیرات سے محکمہ سیاحت کو منتقل کرنے، اور تحصیل پہاڑپور، گائوں ٹھٹھہ بلوچاں میں غیر ترقیاتی اسکیم کے تحت ایم سی ایچ سینٹر کے قیام کی منظوری بھی دی ہے۔

واضح رہے کہ صوبائی کابینہ کا یہ حالیہ اجلاس بہت عرصے بعد منعقد ہوا ہے جس میں صوبے کی تعمیر وترقی اور امن وامان سے متعلق کئی اہم اور بنیادی فیصلے کیے گئے ہیں۔ دراصل صوبائی حکومت پر اسلام آباد کے حالیہ احتجاج اور اسی دوران جنوبی ضلع کرم میں بدامنی کے واقعات اور اس پر صوبائی حکومت کے کمزور اور خاصی دیر بعد رسپانس کے حوالے سے شدید تنقید کے علاوہ صوبے میں گورننس کے ایشوز کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا تھا، جس کے بعد صوبائی حکومت نے نہ صرف کابینہ کا زیر بحث اجلاس بہت عرصے بعد منعقد کیا بلکہ اس میں امن وامان اور صوبے کے دیگر مسائل سے متعلق اہم فیصلے بھی کیے گئے، جس کو صوبے کے عمومی حالات کے تناظر میں ایک بہتر پیش رفت سے تعبیر کیا جارہاہے اور یہ امید بھی ظاہر کی جارہی ہے کہ شاید صوبائی حکومت دیر آید درست آید کے مصداق اگر اب بھی صوبے کے دگرگوں معاملات کی جانب توجہ دیتی ہے تو اس سے صوبے کے لوگوں کو سُکھ کا سانس لینے اور ملک کے دیگر صوبوں کی طرح امن اور ترقی کے مواقع دستیاب ہونے کی امیدیں باندھی جاسکیں گی۔