اپنی زندگی کا خاتمے کا حق:برطانوی پارلیمان سے متنازع قانون کی منظوری

برطانیہ اُن ممالک کی صف میں شامل ہوگیا ہے جنہوں نے خودسوزی کو قانونی شکل دے دی ہے۔ برطانوی پارلیمان میں ایک طویل بحث کے بعد 29 نومبر 2024ء کو ہاؤس آف کامنز نے رائے شماری کے ذریعے اس قانون کی منظوری دی، جس کے بعد طبی طور پر بہت زیادہ بیمار افراد کو اب اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کی قانونی اجازت دے دی گئی۔ ایک طویل عرصے سے اس قانون کی حمایت و مخالفت میں بحث برطانوی سماج میں موجود تھی۔ آرچ بشپ آف کٹنبری چرچ آف انگلینڈ کے سابق سربراہ جسٹن ولبائے جوکہ خود بھی ہاؤس آف لارڈز کے رکن ہیں اس قانون سازی کی کھل کر مخالفت کرچکے تھے۔ تاہم پاپولر سیاسی کلچر میں اس بل کے لیے ایک طویل مہم چلائی گئی اور دنیا کی مثالیں اس کے لیے مہیا کی گئیں، بالآخر برطانوی پارلیمان نے رائے شماری کے بعد محض 55 ووٹوں کی اکثریت سے اس بل کی اصولی طور پر منظوری دے دی ہے۔ اس بل کے حق میں 330 جبکہ مخالفت میں 275 ووٹ آئے۔ اس طرح شدید مخالفت کے باوجود اب یہ بل ایک قانونی شکل تو اختیار کرگیا ہے لیکن ابھی اس قانون کے قواعد و ضوابط کی منظوری بھی ہونا ہے، اور ایوانِ بالا یعنی ہاؤس آف لارڈز کو بھی اس پر مہرِ تصدیق ثبت کرنی ہے۔

برطانوی پارلیمنٹ میں اس قسم کی قانون سازی کے لیے کسی بھی سیاسی جماعت کی لائن کی پابندی لازمی نہیں ہوتی، لہٰذا اس بل پر ہر رکنِ پارلیمان نے اپنی رائے کے مطابق ووٹ دیا، اور اس میں دونوں بڑی جماعتوں کنزرویٹو اور حکمران جماعت لیبر پارٹی میں بھی ایک شدید تقسیم دیکھنے میں آئی۔ ورک اینڈ پنشن سیکرٹری لزکنڈل نے اس قانون کی حمایت کی، جبکہ انرجی سیکرٹری ایڈ ملی بینڈ نے اس قانون کو سفاکانہ و ظالمانہ قرار دیا۔ اس قانون کی مخالفت کرنے والوں نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ وہ پارلمان میں ہر سطح پر جبکہ اس کے قواعد کی منظوری بھی ہونی ہے، اس کی مخالفت جاری رکھیں گے۔

اس بل کو بطور پرائیویٹ ممبر پیش کرنے والی خاتون رکن پارلیمان Kim Leadbeater کا کہنا ہے کہ اس بل کو پیش و منظور کروانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ایسے افراد جوکہ ایسی طبی سطح پر آچکے ہیں کہ اب ان کی زندگی میں بہتری ممکن نہیں تو اُن کو اس بات کا حق دیا جائے کہ وہ اپنی زندگی کا خاتمہ کرسکیں۔ جبکہ چرچ آف انگلینڈ کے سربراہ جسٹن ولبائے نے اس کو خطرناک قرار دیا اور کہا کہ اس بل کی منظوری ڈھلوان کا ایک سفر ہے جس کی کوئی حد نہیں ہوگی۔ چرچ آف انگلینڈ نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ چرچ آف انگلینڈ کے سربراہ اور اُن کے ساتھ ہاؤس آف لارڈز میں بطور رکن شریک 25 بشپ اور آرچ بشپ پارلیمان کے ایوانِ بالا میں اس کی مخالفت کریں گے۔

اس بل کو پیش کرنے والی خاتون رکن پارلیمان Kim Leadbeater کا تعلق شمالی انگلینڈ سے ہے جہاں سے وہ رکن پارلیمان منتخب ہوئیں، اور ان کے بارے میں کہا یہ جاتا ہے کہ وہ خود ہم جنس پرست تعلق میں موجود ہیں، تاہم اس بات کی تصدیق ان کے آفیشل اکاؤنٹ سے نہ ہوسکی۔ متضاد میڈیا رپورٹس کے مطابق وہ نہ صرف ہم جنس پرستوں کی پُرزور حامی ہیں بلکہ ان کی کمیونٹی کا بھی حصہ ہیں۔

اس پورے تناظر میں ایک بات جو اہم ترین ہے وہ یہ کہ پے در پے سماجی تبدیلوں کا اثر اب برطانوی سماج پر نمایاں ہے۔ 2021ء کی مردم شماری کے مطابق اب برطانیہ جیسے روایتی مذہبی ملک کہ جس کی بنیاد آج تک عیسائی مذہب پر ہے، وہاں عیسائیت کا بطور اکثریتی مذہب برقرار نہ رہنا روز ایک نئی تبدیلی کا پیش خیمہ ہے۔ 2021ء کی مردم شماری کے بعد یہ بات واضح ہے کہ پچاس فیصد سے بھی کم یعنی 46.2 فیصد اب مذہب کے خانے میں خود کو عیسائی لکھتے ہیں، جبکہ 37.2 فیصد خود کو لامذہب قرار دیتے ہیں۔ یہ وہ بنیادی تبدیلی ہے جو اب نمایاں ہے۔ قانون، قانون سازی، اخلاقیات، تعلیم اور آبادی پر اس کا دیرپا اثر اب اظہر من الشمس ہے۔ موجودہ قانون سازی بھی اس بنیادی تبدیلی کا محض ایک عکس ہی ہے کہ جہاں چرچ آف انگلینڈ کی کھل کر مخالفت بھی اس قانون کو نہ روک سکی، اور چرچ آف انگلینڈ کی یہ کوئی پہلی ناکامی نہیں، اس سے قبل بھی ہم جنس پرستی کو قانونی شکل دینے اور ان کی مابین شادیوں کے معاملے پر بھی چرچ آف انگلینڈ کی ایک نہ سنی گئی۔ اب جبکہ اس قانون کی بھی اصولی منظوری دے دی گئی ہے تو چرچ آف انگلینڈ کے سربراہ جسٹن ولبائے کے اپنے الفاظ میں برطانوی روایتی سماج ایک ڈھلوان پر ہے کہ جہاں پر پرانی روایات و اقدار کا نہ صرف خاتمہ ہوگا، بلکہ چرچ آف انگلینڈ کے ساتھ عیسائیت کی رہی سہی طاقت کو بھی مکمل کچل دیا جائے گا اور نیو لبرازم پر مبنی ایک نئے سماج کی تشکیل کی جائے گی جس کا عمل تاحال جاری ہے۔ اس سب میں سب سے بڑا خطرہ اب بادشاہت کے ادارے کو ہوگا۔ گوکہ خود لیبر پارٹی بار بار اس بات کا عندیہ دے چکی ہے کہ وہ برسرِ اقتدار آکر ہاؤس آف لارڈز کی موجودہ شکل کا خاتمہ کرے گی جو کہ بادشاہت یا شہنشاہیت کے ادارے پر کاری ضرب ہوگی۔ موجودہ صورتِ حال میں معاملات اسی جانب بڑھتے نظر آتے ہیں۔ پوری دنیا میں پاپولر کلچر نہ صرف سیاست بلکہ سماج کو بھی تبدیل کررہا ہے کہ جہاں اب فیصلے و قانون سازی کسی دلیل و حجت کے بجائے محض پاپولرازم کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ اس پوری صورتِ حال میں برطانیہ کو ایک بڑا چیلنج درپیش ہے، کیونکہ برطانیہ کے چار ممالک کو جوڑنے والا سب سے بڑا کردار شہنشاہیت کا تھا، اب اگر یہ کردار روبہ زوال ہوا تو خود برطانیہ کے چار ممالک کو کسی اور بنیاد پر متحد رکھنا شاید ممکن نہ رہے۔ یہ اور ایسی بہت سی قانون سازیاں نہ صرف برطانوی سماج، بلکہ برطانیہ میں طاقت کے محور کو بھی تبدیل کردیں گی، جس کے بعد اب یہ برطانوی اسٹیبلشمنٹ کا امتحان ہوگا کہ وہ اس ملک کو کیسے متحد رکھ سکے گی۔