تحریک انصاف پر پابندی؟بلوچستان اسمبلی کا شرمناک کارنامہ

فارم 47 کی جعلی اسمبلیاںشرمناک قراردادیں منظور کررہی ہیںاور جعلی وزیراعظم اور حکومت ملک کے اہم فیصلے کررہے ہیں

جمعہ28 نومبر 2024ء کو بلوچستان اسمبلی نے تحریک انصاف پر پابندی کی قرارداد منظور کرلی ہے۔ یہ قرارداد پیپلز پارٹی، مسلم لیگ و اور ’باپ‘ پارٹی کی حکومت کو تفویض کی گئی تھی۔ ظاہر ہے حکم اُن کا تھا جن کی طاقت کے بل بوتے پر فارم45کا نتیجہ سبوتاژ ہوا اور اِنہیں کامیاب کرایا گیا ہے۔ حالاں کہ بلاول بھٹو زرداری نے پیپلز پارٹی کے یومِ تاسیس کے موقع پر تقریر میں قرار دیا کہ پیپلز پارٹی گورنر راج اور کسی پارٹی پر پابندی کی حامی نہیں ہے۔ اس تقریر سے دو دن پہلے بلوچستان اسمبلی میں تحریک انصاف پر پابندی کی قرارداد کی منظوری کا شرمناک کارنامہ انجام دیا گیا۔ اس سیاہ عمل میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے بے ننگ ارکانِ اسمبلی شریک ہیں۔ یعنی قرارداد پیپلز پارٹی کے بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر صادق عمرانی، بخت محمد کاکڑ، مسلم لیگ ن کے پارلیمانی لیڈر سلیم کھوسہ، عاصم کرد گیلو، راحیلہ درانی، ولی محمد نورزئی، برکت رند، زرک مندوخیل کے دستخطوں سے پیش کی گئی۔ باپ پارٹی اس حکومت کی دُم ہے، اسے لازمی حمایت کرنی تھی۔ گویا یہ خالصتاً مقتدرہ کا پیش کیا گیا پراجیکٹ ہے۔ اہم پہلو یہ بھی ہے کہ عبدالغفار خان المعروف باچا خان مرحوم اور عبدالولی خان مرحوم کی جماعت بھی مقتدرہ کی ہدایت پر عمل پیرا دکھائی دی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے ارکانِ اسمبلی انجینئر زمرک اچکزئی، ملک نعیم بازئی اور خاتون رکن نے قرارداد کی حمایت کی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی بلوچستان اسمبلی میں حزبِ اختلاف کا حصہ ہے۔ حزبِ اختلاف کی دوسری جماعتوں جمعیت علماء اسلام، نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) نے قرارداد کی دوٹوک الفاظ میں مخالفت اور مذمت کی۔ نواب اسلم رئیسانی نے جن کا تعلق جے یو آئی سے ہے، کہا کہ اس کام کے لیے بلوچستان اسمبلی کو کیوں چنا گیا ہے؟ یہ گند ہمارے گلے کیوں ڈالا جارہا ہے؟ جے یو آئی کے پارلیمانی لیڈر یونس عزیز زہری نے اگرچہ قرارداد کو رد کردیا، تاہم ان کے مؤقف میں جھول بھی پایا گیا۔ نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے ماضی کی طرف اشارہ کیا کہ ’’نیپ، جماعت اسلامی اور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی لگانے سے ہم نے سبق نہیں سیکھا۔ اس بات پر افسوس ہے کہ ہم نے جس پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے ساتھ مل کر جمہوریت کی بالادستی کے لیے جدوجہد کی آج انہی کی طرف سے ایسی قرارداد لائی گئی‘‘۔ ڈاکٹر مالک نے قرارداد لانے والے افراد پر جملہ کسا کہ ایسا نہ ہو کہ کل آپ لوگوں کو پی ٹی آئی میں جانا پڑے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’سیاست اور تمام ادارے ہائی جیک ہوچکے ہیں، ملک میں آئین معطل اور مکمل آمریت ہے، تو کیا پھر اس آمریت میں بیٹھ کر ہم کہیں کہ مزید آمریت ہونی چاہیے جو ہم کبھی نہیں مانیں گے‘‘۔

جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر مولانا ہدایت الرحمان نے بھی قرارداد کی مخالفت کی اور کہا کہ ’’ہر وقت بلوچستان اسمبلی کا کندھا استعمال ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی کے کسی کارکن نے غلطی کی تو اس کو سزا دی جائے، پوری سیاسی جماعت پر پابندی کا مطالبہ ناانصافی ہے۔ بے نظیر بھٹوکی شہادت کے بعد بھی جلائو، گھیرائوکیا گیا۔ کیا پیپلزپارٹی کی قیادت نے ایسا کرنے کا کہا تھا؟ ایم کیو ایم کے دور میں کراچی سے پشین، چمن اور بلوچستان کے لوگوں کی ہر روز لاشیں آتی تھیں، کیا بلوچستان اسمبلی سے ایم کیو ایم پر پابندی لگانے کی قرارداد پاس کی گئی؟‘‘ مولانا ہدایت الرحمان اور حزب اختلاف کی جماعتوں جے یو آئی، نیشنل پارٹی، بی این پی نے احتجاجاً اسمبلی کے اجلاس سے واک آئوٹ کیا۔ جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی مجید بادینی اجلاس شروع ہونے سے پہلے ایوان میں موجود تھے، جب اجلاس شروع ہوا تو وہ چلے گئے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے رکن اسد بلوچ اجلاس میں شریک نہ تھے وگرنہ وہ بھی مخالفت کرتے۔ حکومتی اتحاد نے تحریک انصاف کے لیے ’جتھہ‘ کی اصطلاح استعمال کی۔ پیپلز پارٹی کے ایک رکن بخت کاکڑ جن کے پاس وزارتِ صحت کا قلمدان بھی ہے، وہ بھی جتھہ جتھہ کہتے رہے۔ یہی بخت کاکڑ پی بی39کوئٹہ پر تحریک انصاف سے ہار چکے تھے لیکن فارم47کے تحت کامیاب کرائے گئے، وہ بھی بھاری رقم کے عوض۔

دیکھا جائے تو بلوچستان میں پیپلز پارٹی، نون لیگ اور باپ پارٹی جتھے ہیں۔ ان کی جیت مقتدرہ کی مرہونِ منت ہے۔ یعنی یہ جماعتیں عوامی رائے پر ڈاکا ڈال کر جتوائی گئی ہیں۔ اصولاً قراردادیں تو پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی حکومتوں کے خلاف منظور کرانی چاہیے تھیں جنہوں نے 26 نومبر2024ء کی رات اسلام آباد کی شاہراہوں کو خون سے رنگین کردیا، احتجاج کرنے والے نہتے لوگوں پر رات کی تاریکی میں بے دریغ گولیاں برساکرکئی لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، متعدد کو زخمی کردیا اور پھر ڈھٹائی سے ہلاکتوں سے انکار کیا۔ بلوچستان کے دو جوان اس رات کی سفاکی کی نذر ہوگئے۔ احمد ولی اچکزئی کا تعلق پشین اور عبدالرشید کاکڑ کا تعلق قلعہ عبداللہ سے تھا۔ احمد ولی اچکزئی کے اہلِ خانہ کو فاتحہ خوانی کے دوران ہراساں کیا گیا۔ فاتحہ خوانی کے دوران پولیس نے مسجد میں گھس کر گرفتاریاں کیں۔ پورے ملک میں بڑی تعداد میں سیاسی کارکنوں کو زندانوں میں ڈالا گیا۔ اسلام آباد اور راولپنڈی میں متعصبانہ کارروائیاں بھی شروع ہوگئیں۔ افغانوں کے نام پر خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے پشتون عوام، مزدوروں، ریڑھی بانوں اور ہوٹلوں پر کام کرنے والوں کو اٹھایا جارہا ہے۔ مصدقہ اطلاعات منظرعام پر آچکی ہیں کہ رینجرز کے لوگ تو اتفاقیہ طور پر گاڑی کی زد میں آکر جاں بحق ہوئے۔ پی ٹی آئی کارکنوں پر شب خون اور ان کے قتلِ عام پر پاکستان کا میڈیا خاموش رہا۔ ٹی وی چینلز کو اربوں روپے کے اشتہارات جاری ہوئے۔ یہ اشتہارات پی ٹی آئی کے خلاف یک طرفہ مہم ہیں، جن میں نو مئی کا نوحہ بھی شامل ہے۔ جنگ اخبار کی شہ سرخیاں بغض اور تعصب پر مبنی تھیں۔ عدالتیں مہر بہ لب ہیں۔ دیکھا جائے تو نو مئی کے واقعات کے دوران پورے ملک میں پچیس سے زائد پی ٹی آئی کارکنان پولیس اور دیگر فورسز کی گولیوں کا نشانہ بنائے گئے۔ کوئٹہ میں بھی ایک نوجوان کارکن فورسز کی فائرنگ سے جاں بحق ہوا تھا۔

26نومبر کی خوں آشامی پر بجائے ندامت کے حکومت اور مقتدرہ نے انسدادِ فساد فورس تشکیل دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ جمہوریت کا راگ الاپنے والی پیپلز پارٹی، نواز لیگ اور ان کے ساتھ وزیر داخلہ محسن نقوی نہ بھولیں کہ ان سے بازپرس کا دن ایک نہ ایک دن ضرور آئے گا۔ جاں بحق افراد کے لواحقین یقیناً ان کے تعاقب میں ہوں گے۔

یہاں جماعت اسلامی کا مؤقف دوسری جماعتوں کی نسبت واضح ہے جس نے نہ صرف بلوچستان اسمبلی کی منظور کردہ قراردادکی مخالفت کی ہے، بلکہ حافظ نعیم الرحمان نے واضح مؤقف اختیار کیا ہے کہ ’’26نومبر کی رات ہونے والے واقعات کی تحقیقات کے لیے بااختیار اور بااعتماد جوڈیشنل کمیشن بنایا جائے‘‘۔ انہوں نے میڈیا پر پابندیوں پر بھی تنقید کی کہ ’’حکومت عوام پر گولیاں چلارہی ہے اور میڈیا پر بھی پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ ڈی چوک پر حکومت نے سفاکی کا مظاہرہ کیا اور گولیاں چلا کر پیغام دیا گیا کہ کوئی فرد فارم47کی جعلی حکومت کے خلاف احتجاج کی جرأت نہ کرے۔ بلوچستان اسمبلی کی پی ٹی آئی پر پابندی کی قرارداد قابلِ مذمت اور شرمناک ہے۔ فارم47کی جعلی اسمبلیوں سے قراردادیں پاس ہورہی ہیں، جعلی وزیراعظم اور جعلی حکومت ملک کے اہم فیصلے کررہے ہیں۔ پی ٹی آئی کارکنوں پر گولیاں برسانے کے بعد معلومات تک رسائی پر بھی پابندی لگائی گئی ہے اور وزیر داخلہ محسن نقوی بڑی ڈھٹائی سے کہہ رہا ہے کہ کوئی مرا ہے تو سامنے لایا جائے۔ یہ شرمناک طرزِعمل ہے۔‘‘

nn