پاکستان کا سیاسی گرداب جمہوری نظام پر غیر جمہوری قوتوں کا قبضہ

ملک کا سیاسی، معاشی اور سیکورٹی مستقبل مخدوش ہے اور جس انداز سے نظام کو چلایا جارہا ہے وہ حالات کو مزید خراب کرنے کا سبب بنے گا۔

اگرچہ پی ٹی آئی کا دھرنا ختم ہوگیا، اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ریاستی و حکومتی نظام نے اپنی انتظامی طاقت کی بنیاد پر پی ٹی آئی کے دھرنے کو کچل دیا ہے یا اسے دیوار سے لگاکر سیاسی پسپائی پر مجبور کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاستی وحکومتی نظام مطمئن ہے اور سمجھتا ہے کہ اب فوری طور پر اُس کے اقتدار کے خاتمے کا خطرہ نہیں۔ حکومت سمجھتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی طاقت ہی ہماری اصل طاقت ہے، اور اِس وقت اسٹیبلشمنٹ کے لیے بڑا خطرہ عمران خان اور پی ٹی آئی ہیں، اس لیے ہمیں کوئی خطرہ نہیں اور بدستور پی ٹی آئی کی مخالفت میں ہمیں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل رہے گی۔ پی ٹی آئی کے دھرنے کو ناکام بنانے کے لیے ریاست اور حکومت نے جس بے دردی سے طاقت کا استعمال کیا اور جس طرح سے پورے ملک کے نظام کو مفلوج کیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان پر پی ٹی آئی اور عمران خان کا خوف بدستور قائم ہے۔ حکومت کو خطرہ تھا کہ اگر پی ٹی آئی کے ہزاروں افراد ڈی چوک اسلام آباد میں دھرنا دے کر بیٹھ گئے تو پھر ان کو اٹھانا آسان کام نہیں ہوگا۔ اس لیے یہی حکمتِ عملی طے تھی کہ کسی بھی صورت میں پی ٹی آئی کو اسلام آباد میں دھرنا نہیں دینے دیا جائے گا۔ یہ الگ سوال ہے کہ اس دھرنے کو ناکام بنانے کے لیے حکومت نے رات کے اندھیرے میں طاقت کا جو استعمال کیا اُس میں کتنے لوگوں کی جانیں گئی ہیں؟ یا یہ محض پی ٹی آئی کی حکومت مخالف مہم کا حصہ ہے؟ کیونکہ یہ خبریں موجود ہیں کہ کچھ نہ کچھ تو رات کے اندھیرے میں ہوا ہے جس پر ریاست یا حکومت بہت کچھ چھپانے کی کوشش کررہی ہے۔ اگر کچھ چھپایا جارہا ہے تو یہ لمبے عرصے تک نہیں چھپ سکے گا، اور اگر یہ تمام باتیں حقائق پر مبنی ہوئیں تو پہلے سے موجود ریاستی اور حکومتی ساکھ پر مزید سنجیدہ سوالات پیدا ہوں گے، اور اس کا شدید ردعمل خیبر پختون خوا کی سیاست میں دیکھنے کو ملے گا۔ ایک بات تو واضح ہے کہ پی ٹی آئی کا احتجاج پُرامن تھا اور وہ کسی مسلح جدوجہد کے لیے نہیں آئے تھے، اور نہ ہی ان کے پاس کوئی اسلحہ تھا۔ کیونکہ ایسا ہوتا تو پھر جوابی کارروائی میں بھی بہت سی جانوں کا ضیاع ہوتا۔ ویسے پی ٹی آئی کو کہا گیا تھا کہ اوّل تو ان کو کسی بھی صورت اٹک پل پار نہیں کرنے دیا جائے گا، اور نہ ڈی چوک آنے دیا جائے گا۔ لیکن پی ٹی آئی کے لوگ تمام تر رکاوٹوں کے باوجود وہاں تک پہنچے، اور یہی ان کی بڑی سیاسی کامیابی تھی۔ لیکن شاید پی ٹی آئی کو اندازہ نہیں تھا کہ ان کے خلاف ریاست یا حکومت کی طاقت استعمال ہوسکتی ہے۔

دھرنے کی اس سیاست میں پی ٹی آئی کا داخلی بحران بھی دیکھنے کو ملا، اور ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حالات میں پی ٹی آئی بہت حد تک تقسیم ہے، اور اس میں موجود لوگ ایک ہی وقت میں مختلف حکمت عملیاں اور سوچ رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی یا عمران خان کے فیصلوں پر پارٹی میں تقسیم ہے۔ خود 24نومبر کے دھرنے پر بھی پارٹی تقسیم تھی اور اکثریت کا خیال تھا کہ ہمیں موجودہ حالات میں دھرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ لیکن عمران خان کے فیصلے پر سب کو اس احتجاج کا حصہ بننا پڑا۔ یہ دھرنا عملی طور پر دو لوگوں کے درمیان ہی قید رہا جس میں وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا علی امین گنڈا پور اور عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی شامل تھیں۔ دھرنے کی ناکامی کا تجزیہ کرنے والے لوگوں کی اکثریت کے خیال میں علی امین گنڈاپور اور بشریٰ بی بی ہی اس کی ناکامی کی ذمہ دار ہیں۔ بشریٰ بی بی کے سیاسی کردار، سیاسی فیصلوں میں اُن کی شمولیت، حتیٰ کہ دھرنے میں اُن کی شرکت اور پارٹی پر بالادستی حاصل کرنے کی سوچ پر پارٹی میں اختلافات کا نمایاں ہونا فطری امر تھا۔ پارٹی کی طرف سے عمران خان کو واضح پیغام دیا گیا کہ بشریٰ بی بی کو سیاسی امور سے مکمل طور پر علیحدہ رکھا جائے اور علی امین گنڈاپور کو بھی وزارتِ اعلیٰ کی حد تک محدود رکھ کر مزاحمت کی سیاست کا اختیار کسی اور کو دیا جائے۔ کیونکہ علی امین گنڈاپور پر سخت تنقید کی جارہی ہے اور اُن کے کردار کو بھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جارہا ہے۔ عمران خان سے ملاقاتوں پر عملاً پابندی ہے، اسی وجہ سے ان کی کسی سے ملاقات نہیں کروائی جارہی اور نہ ہی ان کے بیانات میڈیا تک پہنچ رہے ہیں تاکہ ان کا کوئی نقطہ نظر سامنے نہ آسکے۔ پی ٹی آئی کے لیے یہ صورتِ حال خاصی پیچیدہ ہے، اور خاص طور پر وہ خیبر پختون خوا کے سوا کہیں سے بھی کوئی بڑی موبلائزیشن نہیں کرسکی جس سے اس کی سیاست اور پارٹی معاملات پر سخت تنقید ہورہی ہے۔

دوسری طرف ریاست نے پی ٹی آئی کو ناکام بنانے کے لیے نہ صرف سڑکوں پر طاقت کا استعمال کیا بلکہ میڈیا کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں رکھ کر پی ٹی آئی مخالفت کی بنیاد پر میڈیا مہم چلائی اور لوگوں کو حقایق سے دور رکھا۔ میڈیا کے مجموعی کردار پر سبھی جگہ سخت تنقید ہورہی ہے اور اخبارات میں کام کرنے والے صحافی یا برائے نام ایڈیٹر کا ادارہ مکمل طور پر بے بس ہوچکے ہیں۔ اسی وجہ سے لوگوں کا سارا دھیان سوشل میڈیا پر ہے جہاں جھوٹ اور سچ دونوں بڑی شدت سے بولے جارہے ہیں۔ میڈیا پر حکومت کی مخالفت کی صورت میں صحافیوں کو باقاعدہ ٹارگٹ کیا گیا، اور مطیع اللہ جان اور لاہور میں شاکر اعوان کی گرفتاری ظاہر کرتی ہے کہ حکومت اپنے خلاف کسی بھی قسم کی مخالفت یا متبادل آواز کو سننے کے لیے تیار نہیں، اور نہ ہی میڈیا میں کام کرنے والے صحافیوں کو یہ اجازت دی جارہی ہے کہ وہ اسلام آباد میں ہونے والے واقعات پر سچ بول سکیں۔ اسلام آباد میں جو کچھ ہوا اُس پر پردہ ڈالا جارہا ہے مگر خود حکومت کے اندر سے بھی اس کا اعتراف کیا جارہا ہے کہ کچھ نہ کچھ ضرور ہوا ہے، اور ان کے بقول ہمارے اپنے علاقوں میں مرنے والوں کی لاشیں آئی ہیں۔ حکومتی صفوں کے افراد راناثنا اللہ اور امیر مقام سمیت کئی صحافی بھی اس کا اعتراف کررہے ہیں۔ مگر حکومت بضد ہے کہ وہاں رات ہونے والے آپریشن میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی اور یہ محض پی ٹی آئی کا بیانیہ ہے جو جھوٹ پر مبنی ہے۔ حکومت یہ بیانیہ بنانے کی کوشش کررہی ہے کہ اگر اُس رات آپریشن نہ کیا جاتا تو ممکن ہے پی ٹی آئی اُس رات ایک اور سانحہء 9مئی کردیتی۔ اور اب حکومت پی ٹی آئی کو ایک دشمن اور ریاست مخالف جماعت کے طور پر پیش کررہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسمبلیوں سے پی ٹی آئی پر پابندی کی قرارداد کو بھی منظور کروایا جارہا ہے اور اُس کے لوگوں پر غداری کے مقدمات کے علاوہ عمران خان کے مقدمات کو فوجی عدالتوں میں بھی لے جانے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت ہو یا اسٹیبلشمنٹ… ان کی طرف سے یہ طے کرلیا گیا ہے کہ پی ٹی آئی سے سیاسی طریقے سے نہیں بلکہ طاقت یا بندوق کی بنیاد پر نمٹنا ہے۔ خود پیپلز پارٹی کے سربراہ کو دیکھیں، بلاول بھٹو کے بقول اول تو سیاسی استحکام لایا جائے، اور اگر اس کے لیے پی ٹی آئی سے مفاہمت یا بات چیت نہیں ہوتی تو پھر ڈنڈا چلا کر سیاسی استحکام لایا جائے۔ اگرچہ پیپلزپارٹی نے خیبر پختون خوا میں گورنر راج کی مخالفت کی ہے مگر اس کی بلوچستان میں صوبائی حکومت پی ٹی آئی پر پابندی کی حمایت میں قرارداد پیش کررہی ہے، اور خود عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ ایمل ولی نے بھی پی ٹی آئی پر پابندی کی حمایت کی ہے۔ پیپلز پارٹی اس پوری موجودہ صورتِ حال میں مختلف تضادات کے ساتھ اپنی سیاست کرنے کی کوشش کررہی ہے جس سے اس کی اپنی سیاسی ساکھ متاثر ہورہی ہے۔ لیکن لگتا یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی سہولت کاری میں بہت آگے تک چلی گئی ہے اور اُس کے پاس اِس وقت حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے سوا کوئی آپشن موجود نہیں۔ پیپلز پارٹی اگرچہ حکومت کا براہِ راست حصہ نہیں لیکن حکومتی جرائم میں اُس کا برابر کا حصہ ہے، اور یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی پربھی مجموعی طور پر تنقید ہورہی ہے۔ اسی بنیاد پر یہ بھی کہا جارہا ہے کہ مسلم لیگ ن ہو یا پیپلز پارٹی، ان کے پاس اصل طاقت نہیں، بلکہ ان کی اصل طاقت اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے، اور ان دونوں جماعتوں کا ریموٹ کنٹرول اُنھی کے پاس ہے جنھوں نے اس حکومت کا سیاسی بندوبست کیا تھا۔ عملی طور پر سیاست اور جمہوریت کا کھیل اس ملک میں کمزور بنیادوں پر کھڑا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ جمہوریت اس نظام میں ایک یرغمالی حیثیت کے ساتھ خود بھی تماشا بن رہی ہے اور اس نے ملک کو اور ملک کے لوگوں کو بھی تماشا بنادیا ہے۔

اسلام آباد میں جو کچھ ہوا ہے اُس سے ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی میں جو افراد اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ’کچھ لو اور کچھ دو‘ کی بنیاد پر آگے بڑھنے کی خواہش رکھتے تھے وہ ناکام ہوگئے ہیں۔ ان حالات میں پی ٹی آئی کے اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے ساتھ مذاکرات اور مفاہمت کا امکان بہت زیادہ نہیں، کیونکہ جو کچھ اسلام آباد میں ہوا ہے اس کا سخت ردعمل خیبر پختون خوا اسمبلی میں ہونے والی تقاریر میں سامنے آیا ہے جہاں اراکین نے صرف حکومت ہی نہیں بلکہ پورے ریاستی نظام یعنی اسٹیبلشمنٹ پر بہت سخت تنقید کی ہے اورکہا ہے کہ ہمیں اب محسوس کرنا ہوگا کہ بندوق کا مقابلہ بندوق سے ہی ہوگا۔ پہلے ہی خیبر پختون خوا میں سیکورٹی کے حالات بہت خراب ہیں اور اب جس انداز میں خیبر پختون خوا کو ٹارگٹ کیا گیا ہے اُس کا جوابی ردعمل مزید نفرت کی سیاست کی صورت میں سامنے آئے گا جو مجموعی طور پر پورے ریاستی نظام کے مفاد میں نہیں۔کیونکہ جب آپ لوگوں کو سیاسی بنیادوں پر جدوجہد سے روکیں گے تو اس کا ایک نتیجہ انتشار اور بندوق کی سیاست کی صورت میں نکلے گا، جو اِن حالات میں کسی بھی طور پر ہمارے مفاد میں نہیں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ہو یا حکومت… دونوں پی ٹی آئی کو جھکاکر اور عمران خان کو بڑی طاقتوں کے سامنے سرنڈر کراکے اپنی جیت کو یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ مگر اس کھیل میں عمران خان کی مزاحمت نے طاقت ور طبقے کو مشکل میں ڈالا ہوا ہے، اور اگر عمران خان اسی طرح ڈٹے رہے تو ہمارا سیاسی یا ریاستی بحران مزید گہرا ہوگا،کیونکہ ہم ماضی کی غلطیوں یا طاقت کے کھیل سے کچھ بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں اور یہ سمجھ رہے ہیں کہ طاقت کی بنیاد پر سب کچھ حاصل کرلیں گے۔

پی ٹی آئی کی مزاحمت کی حالیہ ناکامی کو محض ناکامی سمجھ کر کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے، بلکہ جو ریاستی اور حکومتی طاقت پی ٹی آئی کے خلاف استعمال ہوئی ہے اس کا آگے جاکر سخت ردعمل ہوگا، اور اگر حکومت نے پی ٹی آئی پر پابندی یا خیبر پختون خوا میں گورنر راج کی طرف پیش قدمی کی تو بلوچستان کے بعد خیبر پختون خوا میں حالات کی جو بھی خرابی ہوگی اس کے ذمہ دار وفاق کے فیصلے ہوں گے۔ ہم مفاہمت اور بات چیت کے دروازے بند کرکے یا مخالف کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کرنے کے بجائے اپنی طاقت کے گھمنڈ کا شکار ہیں، یہ حکمت عملی ہمیں سوائے بربادی اور ناکامی کے، کچھ نہیں دے گی۔ اس لیے یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ ملک کا سیاسی، معاشی اور سیکورٹی مستقبل مخدوش ہے اور جس انداز سے نظام کو چلایا جارہا ہے وہ حالات کو مزید خراب کرنے کا سبب بنے گا۔ اس لیے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو اس زعم سے باہر نکلنا ہوگا کہ حالات ان کے کنٹرول میں ہیں، کیونکہ عالمی میڈیا یا دنیا میں جو ہماری آج کی تصویر نمایاں ہورہی ہے وہ خاصی خطرناک ہے، اور لوگ ہمارے نظام کی بنیادی نوعیت سے جڑے معاملات پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ عمران خان کے حوالے سے بھی دنیا میں یہ تاثر بڑھ رہا ہے کہ اُن کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور وہ لوگ عمران خان کی رہائی کا مطالبہ شدت سے کررہے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف سیاسی بندوبست کے تحت موجود وزیراعظم شہبازشریف کو دیکھیں تو وہ پورے نظام اور کامیابی کا کریڈیٹ فوج کے سربراہ کو دے رہے ہیں اور یہ تاثر مزید گہرا کررہے ہیں کہ اس نظام میں اُن سے زیادہ آرمی چیف کی حیثیت ہے اور وہی فیصلوں کا اختیار رکھتے ہیں۔ وزیراعظم کمالِ ہوشیاری سے پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ میں مزید دوریاں پیدا کرکے اس تاثر کی حمایت کرنا چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کا راستہ طاقت سے روکنا ہوگا۔اصل میں مسلم لیگ ن کو انداز ہ ہے کہ ہم کسی بھی صورت میںپی ٹی آئی کا سیاسی میدان میںمقابلہ نہیں کرسکتے، اور اسی سوچ کو بنیاد بنا کر وہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی اسی طرف دھکیلنا چاہتی ہے کہ پی ٹی آئی اور عمران خان کا علاج طاقت کا استعمال اور پابندی ہے ۔اسٹیبلشمنٹ کو سمجھنا ہوگا کہ موجودہ حکومت اس پر ایک سیاسی بوجھ ہے، اور مسلم لیگ ن کا ایجنڈا اُس سمیت خود اسٹیبلشمنٹ کو بھی سیاسی طور پر تنہا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔