دل کے موسم

ڈیرے پر پہنچا تو خیال تھا، چند لمحے رکوں گا اور دودھ لیتے ہی چلا جائوں گا۔ فطرت کے حسن نے ایسے جکڑا کہ میں سب کچھ بھول کر وہیں بیٹھ گیا۔ گھڑی کی سوئیاں اپنے معنی کھو بیٹھیں۔ مارگلہ کے پہاڑوں کے دامن میں یہ ایک الگ تھلگ اور پُرسکون سا ڈیرہ ہے۔ سامنے کی طرف چھوٹی سی سڑک ہے جو پہاڑوں میں دور تک جاتی ہے۔ عقبی گیٹ کھولیں تو کھیت ہیں، کھیتوں کے اس طرف ندی ہے، ندی کے پار ساری وادی میں جنگل پھیلا ہے اور پھر پہاڑی سلسلہ ہے۔ گیٹ کھول کر اندر داخل ہوا تو مکمل خاموشی تھی۔ میں نے ایک کرسی اٹھائی اور دھوپ میں بیٹھ گیا۔ یہ ایک کشادہ سی حویلی ہے۔ دو برآمدے ہیں۔ ایک میں بھینسیں قطار میں کھڑی ہیں، دوسری میں گائیں۔ برآمدوں پر ترپال لگی ہے، دن میں اسے اوپر اٹھا دیا جاتا ہے اور جانوروں کو جاڑے کی شدت سے بچانے کے لیے شام کو ترپال گرا دی جاتی ہے۔ ایک جانب بڑا سا کمرہ ہے جس میں جانوروں کے لیے بھوسہ رکھا ہے۔ بھوسے والے کمرے کے ساتھ ایک رہائشی کمرہ ہے، جس میں ڈیرے کی دیکھ بھال کرنے والے ملازمین قیام پزیر ہیں۔ چارپائیوں کے درمیان ایک حقہ رکھا ہے۔ بھینسوں کے باڑے سے پہلے دو چھوٹے سے کمرے ہیں جنہیں سامنے سے پنجرے کی شکل دی گئی ہے، ان میں چار پانچ بکریاں بندھی ہیں جن پر دھوپ پڑ رہی ہے۔ بکریاں دھوپ میں آرام سے کھڑی ہیں۔ دو سفید رنگ کے ’پٹھورے‘ البتہ مجھے دیکھ کر ٹکر مارنے کے انداز میں اچھل رہے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ میں انہیں باہر نکال کر ان سے کھیلوں گا۔ اچھل اچھل کر وہ گویا مجھے چیلنج کررہے ہیں کہ ہمت ہے تو آئو دیکھتے ہیں آج کس کی ٹکر میں دم ہے۔ دل تو میرا بھی چاہ رہا ہے کہ ان کا پنجرہ کھول دوں اور سامنے زمین پر بیٹھ کر ان سے کچھ ’ٹکرو ٹکری‘ ہوجائوں، لیکن مجھے جلدی یہاں سے نکلنا ہے، چند لمحوں کے لیے ہی تو آیا ہوں۔ میں ان کی شوخ ادائیں نظرانداز کردیتا ہوں۔ دودھ کی ’’چوائی‘‘ ہورہی ہے۔ صحن میں ایک بڑا سا ٹب پڑا ہے۔ بالٹیوں میں دودھ لا لا کر اس میں ڈالا جارہا ہے۔ حبیب تازہ دودھ کی چائے بنا لایا ہے، ساتھ گڑ بھی ہے۔ اس نے پیش کش کی ہے کہ اگر میں تھوڑی دیر رکوں تو وہ میرے لیے تنور کی روٹی بنا سکتا ہے۔ اسے معلوم ہے تنور کی روٹی میری کمزوری ہے۔ لیکن آج میں ذرا جلدی میں ہوں، اس لیے شکریے کے ساتھ معذرت کرلیتا ہوں کہ روٹی پھر کسی دن مل کر کھائیں گے، آج کچھ کام ہیں۔ سنہری دھوپ نکلی ہوئی ہے۔ سورج کی حدت وجود میں دھیرے دھیرے اتررہی ہے، چائے کا لطف دوبالا ہوگیا ہے۔ کترے کی مشین کے اوپر چند چڑیاں بیٹھی سستا رہی ہیں۔ عقبی گیٹ سے شکاری کتا لمبی سی دم کو لہراتا ہوا خراماں خراماں چلتا اندر آرہا ہے اور اس کی قیادت میں مرغیوں کا غول بھی رواں دواں ہے۔ معلوم نہیں یہ کون سا معرکہ جیت کر آرہے ہیں، لیکن ان کی چال میں ایک فاتحانہ تمکنت ہے جو بتا رہی ہے کہ یہ کہیں نہ کہیں کوئی واردات ڈال کر آرہے ہیں۔ صحن کے بائیں اطراف سے کٹ کٹ کٹ کی آواز سنائی دیتی ہے، مڑ کر دیکھتا ہوں تو ایک مرغی اپنے ننھے ننھے چوزوں کو لے کر بھاگتی پھر رہی ہے۔ سفید، بھورے اور سیاہ رنگ کے ان چوزوں کو دنیا میں آئے چند ہی دن ہوئے ہیں،یہ اپنی گول گول آنکھوں میں حیرت لیے، ماں کے پیچھے بھاگتے پھر رہے ہیں۔ مرغی کہیں رکتی ہے، پنجوں سے زمین کھود کر وہاں چونچ مارتی ہے، جہاں مرغی چونچ مارتی ہے وہاں بچے لپک لپک کر جاتے ہیں۔ پھر مرغی آگے چل پڑتی ہے۔ کچھ چوزے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ تھوڑا آگے جاکر مرغی انہیں آواز لگاتی ہے۔ ننھے وجود ماں کی طرف بھاگتے ہیں، بھاگتے ہیں تو زمین پر برائے نام ہی پنجے لگاتے ہیں، اڑتے چلے جاتے ہیں۔ مرغی اپنے بچوں کو لیے اِدھر اُدھر دوڑتی پھر رہی ہے۔ چھوٹے ٹیوب ویل کی دوسری طرف، مرغی کے پنجوں سے کھدی زمین پر ایک بلی لیٹ کر دھوپ کا لطف لے رہی ہے، یہ یہاں کی پالتو بلی ہے۔ مرغی اور یہ بلی یہاں ایک ساتھ ہی پلے بڑھے ہیں۔ چلتے چلتے اچانک مرغی کی نظر اس پر پڑتی ہے۔ مرغی اچانک بلی پر جھپٹتی ہے اور اس کا منہ پنجے اور چونچ سے نوچ لیتی ہے۔ بلی جوابی حملہ نہیں کرتی، وہ بھاگ کر دیوار پر چڑھ جاتی ہے۔ وہاں سے وہ حیرت سے مرغی کو دیکھتی ہے جیسے کہہ رہی ہو: کم بخت تُو تو میری پرانی دوست تھی؟ مرغی غصے میں پھنکارتے ہوئے گردن کو لمبا کرکے، پروں کو پھلائے کھڑی ہے جیسے کہہ رہی ہو: دوستی اپنی جگہ لیکن اب میں ایک ماں بھی ہوں۔ مرغی بھاگتی ہے تو بچے ساتھ بھاگ پڑتے ہیں۔ انہیں کچھ پتا نہیں کیسے بھاگنا ہے۔ بس اڑتے پھرتے ہیں۔ مرغی ہی کو احتیاط کرنا پڑ رہی ہے کہ کوئی شریر اس کے پائوں کے نیچے نہ آجائے۔ لیکن پھر بھی کوئی دس بارہ مرتبہ ایسا ہوچکا ہے کہ کوئی نہ کوئی بچہ بھاگتی مرغی کے پیروں کے نیچے آجاتا ہے۔ ماں کے قدموں کے نیچے مگر موت نہیں ہوتی۔ اگلے ہی لمحے وہ اٹھ کر بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ بھینسوں کے باڑے کے ایک کونے سے میاوں میاوں کی آوازیں آرہی ہیں۔ یہ بلی کے چھوٹے چھوٹے تین بچے ہیں۔ سر نکالتے ہیں، میاوں میاوں کرکے واپس بھاگ جاتے ہیں۔ شاید انہیں بھوک لگی ہے۔ بلی جو مرغی سے مار کھا کر سہمی بیٹھی ہے، بچوں کی میاوں میاوں سن کر بھاگی چلی آتی ہے۔ اب اسے بلی کا کوئی خوف نہیں۔ اب وہ بھی ایک ماں ہے۔ میں مرغیوں کو کچھ باجرہ ڈالتا ہوں، مرغی دانہ چگتی ہے مگر چگ کر واپس پھینک دیتی ہے۔ وہی دانہ چوزوں میں سے کوئی کھا لیتا ہے۔ وہ بچوں کی تربیت کررہی ہے۔ انہیں بتارہی ہے کہ دانہ دنکا کیسے چگتے ہیں۔ ندی کی جانب سے چند کوے اڑتے ہوئے آتے ہیں اور ڈیرے کے اوپر سے پرواز کرتے سامنے جھنڈ میں چلے جاتے ہیں۔ مرغی پر پھیلاتے ہوئے کٹ کٹ کرتی ہے، سارے بچے بھاگ کر اس کے پروں میں چھپ جاتے ہیں۔ وہ انہیں پروں میں چھپا کر وہیں بیٹھ جاتی ہے۔ یہ سب کچھ ایک لمحے میں ہوجاتا ہے۔ دو دن کے ان بچوں کو بھی معلوم ہے کہ ماں کی آغوش میں سارے خوف ختم ہوجاتے ہیں۔ اچانک خیال آتا ہے مرغی کے ان چوزوں کی طرح کتنے ہی بچے غزہ کے مقتل میں سہم کر مائوں کی آغوش میں چھپے ہوں گے لیکن انہیں وہاں بھی امان نہیں مل سکی۔ وہ اس عالم میں قتل کردیے گئے کہ ماں کے دودھ کی خوشبو ابھی ان کے ہونٹوں سے جدا نہیں ہوئی تھی۔ سارا منظر دھندلا جاتا ہے۔ دل کا موسم بدلتے ہی باہر کا موسم بدل جاتا ہے۔ مجھے یاد آتا ہے آج تو فلسطین سے یک جہتی کا عالمی دن ہے اور مجھے ٹاک شو میں بھی شریک ہونا ہے۔ میں اٹھ آتا ہوں۔

(آصف محمود۔روزنامہ 92۔ 3دسمبر2024ء)