وزیراعظم محمد شہبازشریف کا فرمان ہے کہ مہنگائی 70 ماہ بعد کم ترین سطح پر آگئی ہے۔ اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ مہنگائی کم ترین سطح پر آنا پاکستان کے لیے اچھی خبر ہے، 2018ء میں نوازشریف دورِ حکومت میں مہنگائی 3.5 فیصد تھی جو اب 4.9 فیصد پر آچکی ہے، مہنگائی وہ اہم سبب ہے جو غریب آدمی کی زندگی میں مزید مشکلات یا آسودگی لاتا ہے۔ وزیراعظم کا عزم ہے کہ اجتماعی کوششوں سے مہنگائی میں کمی لانے کے بعد اب وہ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے۔
قبل ازیں وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب بھی اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں یہ ارشاد فرما چکے ہیں کہ معیشت کا استحکام اور مثبت سمت میں سفر جاری ہے، مہنگائی اور شرحِ سود کم ہوئی ہے جب کہ زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے، اور مختصر مدت میں اس شاندار کارکردگی نے بین الاقوامی مالیاتی ادارے کو بھی حیران کردیا ہے۔ اسی طرح کے بیانات وفاقی اور پنجاب کابینہ کے ارکان بھی صبح شام دیتے سنائی دیتے ہیں، تاہم محسوس ہوتا ہے کہ یہ تمام اربابِ اقتدار سرکاری اداروں کے فراہم کردہ اعداد و شمار پڑھ کر خوش فہمیوں کا شکار ہوچکے ہیں جو اس قسم کے بیانات داغنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ اگر وزیراعظم اور اُن کے اقتدار کے ساتھی ایسے بیانات جاری کرنے سے پہلے بازار کا چکر لگا لیا کریں تو انہیں حقائق سے آگاہی میں دیر نہیں لگے گی، اور انہیں معلوم ہوسکے گا کہ غریب کی خوراک آٹا، دال کس بھائو بک رہے ہیں۔ ویسے وہ اگر اپنی حکومت کے اقدامات کا ہی سنجیدگی سے جائزہ لے لیا کریں تو ان کے لیے مہنگائی میں ریکارڈ کمی کے دعوے کرنا اتنا آسان نہیں رہے گا۔ خود وزیراعظم کی منظوری سے، کابینہ کے اس اجلاس سے جس میں انہوں نے کمترین مہنگائی کا دعویٰ کیا ہے، محض دو ہی یوم قبل پیٹرول پونے چار اور ڈیزل سوا تین روپے لیٹر مہنگا کیا گیا ہے، جب کہ گیس کی قیمت بھی بڑھائی گئی۔ بجلی کے نرخ بھی آئے روز بڑھا دیے جاتے ہیں۔ غرض حکومت کے اپنے کنٹرول میں ہر ہر چیز مسلسل مہنگی کی جارہی ہے۔ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں پندرہ روز قبل برقرار رکھی گئی تھیں مگر تیس روز قبل عالمی منڈی میں تیل سستا ہونے کے باوجود پاکستان میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا تھا، یوں حکومت کی جانب سے مہنگائی میں اضافے کا رجحان تسلسل سے جاری ہے۔ پیٹرول، بجلی اور گیس جیسی بنیادی اشیائے کھپت کے نرخ بڑھ رہے ہوں تو دیگر اشیاء بھلا سستی کیسے ہوسکتی ہیں؟ یہ سیدھی سی بات معلوم نہیں ہمارے حکمرانوں کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی، جو عوام کو بے وقوف سمجھ کر حقیقت کے برعکس بیانات جاری کرتے چلے جاتے ہیں۔
ایک صورت شاید ممکن ہے کہ عوام کی آمدن میں مہنگائی کے مقابلے میں زیادہ تیز رفتاری سے اضافہ ہورہا ہو، مگر زمینی حقائق اس مفروضے کی بھی تائید نہیں کرتے، ورنہ لوگ بھوک سے سسک سسک کر مرنے پر خودکشیوں کو ترجیح نہ دیں۔ پاکستان میں خطے کے دیگر ممالک کی نسبت سب سے کم فی کس آمدن ریکارڈ کی گئی ہے جس کے باعث پاکستانیوں کی قوتِ خرید بھی خطے کے دیگر ممالک کی نسبت خاصی کم ہے۔ وطنِ عزیز خطے کے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں اہم اہداف کے حصول میں بھی پیچھے ہے۔ فی کس آمدن، تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی میں ہمارا ملک تمام ہمسایہ ممالک میں سب سے نیچے ہے۔ بین الاقوامی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق 1980ء سے 2000ء تک پاکستان کی فی کس آمدن بھارت اور بنگلہ دیش سے بہتر تھی، مگر اِس وقت بنگلہ دیش کی فی کس سالانہ آمدن 2624 ڈالر، بھارت کی 2698 ڈالر، 2022ء میں دیوالیہ ہونے والے سری لنکا کی 3929 ڈالر اور نیپال کی 4062 ڈالر فی کس سالانہ ہے۔ ان کے مقابل پاکستان میں یہ آمدن شرمناک حد تک کم یعنی صرف 1587ڈالر فی کس سالانہ ہے۔ ہمسایہ ممالک کے مقابل فی کس سالانہ آمدن میں اس قدر زیادہ تفاوت کا نتیجہ ہے کہ ہمارے لوگوں کی قوتِ خرید بھی خاصی کم ہے۔ موجودہ حکومت کے گزشتہ دو ڈھائی برس کے عرصۂ اقتدار میں عوام کی آمدن کے مقابلے میں مہنگائی میں کہیں تیز رفتاری سے اضافہ ہوا ہے جس کی بڑی وجوہ میں خود حکومتی پالیسیاں سرفہرست ہیں، جن کا نتیجہ غربت میں اضافے کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ 3.20 ڈالر سے کم کمانے والی آبادی کا تناسب 2021ء میں 38 فیصد تھا جو گزشتہ برس بڑھ کر 42.8 فیصد تک پہنچ چکا ہے، جب کہ اس عرصے میں خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں ایک کروڑ افراد کا اضافہ ہوگیا ہے۔ ان اعداد و شمار کی روشنی میں حالات کا تقاضا ہے کہ حکمران طبقہ خالی خولی بیانات اور زبانی دعووں کے بجائے ایسے ٹھوس عملی اقدامات روبہ عمل لائے جن کے سبب روزگار کے ذرائع میں اضافہ ہو۔ صنعتی، زرعی اور تجارتی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہو، اور عام آدمی کی آمدن میں اضافہ ہو، تاکہ وہ اپنے بچوں کے لیے دو وقت پیٹ بھر کر کھانے کے علاوہ معیاری تعلیم اور صحت کی سہولتیں بھی فراہم کر سکے۔ اس ضمن میں سب سے اہم قدم، جو دستورِ مملکت کا تقاضا بھی ہے اور وفاقی شرعی عدالت کا حکم بھی… جس پر عمل درآمد کے لیے سال ڈیڑھ سال قبل وزیراعظم نے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی تھی، مگر قیام کے بعد سے آج تک اس کمیٹی کی کارکردگی یا عملی پیش رفت کی کسی کو کوئی خبر نہیں۔ اس کمیٹی کا مقصد اللہ اور رسولؐ سے مملکتِ خداداد پاکستان میں جاری جنگ… سود کا خاتمہ تھا۔ جب تک یہ کام نیک نیتی سے نہیں کیا جائے گا، ہماری معیشت میں بہتری اور معاشی مسائل سے نجات ممکن نہیں۔
(حامد ریاض ڈوگر)