قصہ یک درویش! جیل کی لائبریری منظم کرنے کی مشقت

پہلے دن قصوری چکیوں میں آنے پر معلوم ہوا کہ یہاں خطرناک قیدیوں، جاسوسوں اور منشیات کا دھندا کرنے والے اسیران کو رکھا جاتا ہے۔ ہر چکی میں ایک قیدی ہوتا ہے یا کسی میں تین۔ دو قیدی کسی چکی میں بند نہیں کیے جاتے۔ ایک رات گزرنے کے بعد اگلے روز صبح آٹھ بجے اعلان ہوا کہ سب لوگ اپنی اپنی چکیوں میں چلے جائیں، معائنہ آرہا ہے۔ یہ معائنہ بھی جیل کی خاص اصطلاح ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد جیل پروٹوکول اور ضوابط کے مطابق ’’باملاحظہ باہوشیار‘‘ کی صدا کے ساتھ بیرونی دروازہ کھلا اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل ملک اقبال اور دیگر کارندے تشریف لائے۔ (یہی نام میرے ذہن میں اس وقت آرہا ہے، ممکن ہے کوئی اور نام ہو)۔

بہرحال میری چکی کے باہر آکر افسر موصوف نے میرا نام پوچھا۔ پھر حکم دیا کہ قیدِ بامشقت کے قیدی کی حیثیت سے مجھے مشقت کرنا پڑے گی۔ مشقت یہ تھی کہ پرانے کمبل ادھیڑ کر ان کے دھاگے نکالنے اور ان کے گچھے بنانے ہوں گے۔ میں نے عرض کیا جناب عالی! میں ماسٹر ڈگری ہولڈر ہوں۔ یہ کام مجھ سے نہیں ہوسکے گا۔ مجھے میرے مناسبِ حال مشقت دی جائے تو کرلوں گا۔ انھوں نے سنی ان سنی کردی۔ میری بات سن کر معائنے کے بعض کارندے اور پرانے قیدی تعجب کے ساتھ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ شاید سوچ رہے ہوں گے کہ اب اس نئے ’’مہمان‘‘ کی گت بنے گی۔

اس حکم کے فوراً بعد بوسیدہ اونی کمبل میری چکی کے سامنے رکھ دیے گئے۔ پھر ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ صاحب اور ان کا عملہ آگے بڑھ گئے۔ وہ کمبل وہیں پڑے رہے۔ اگلی شام جیل کے کچھ ملازمین اونی دھاگے حاصل کرنے کے لیے آئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ کمبل تو جوں کا توں وہاں پڑا تھا۔ انھوں نے وجہ پوچھی تو میں نے بتایا کہ میں تعلیم یافتہ فرد ہوں، ایسی مشقت کرنے کے لیے تیار ہوں جو میری تعلیم کے مطابق ہو۔ مثلاً قیدیوں کو پڑھانا، جیل خانے کی لائبریری کو منظم کرنا، یا لکھنے پڑھنے کا کوئی بھی دوسرا کام، جس کی جیل کے اندر ضرورت ہو۔ اس کے علاوہ کوئی مشقت میرے لیے ممکن نہیں۔ مجھے دھمکیاں دی گئیں، مگر مجھے کوئی پروا نہیں تھی۔ آخر جیل کا عملہ کمبل اٹھا کر لے گیا۔

پہلے روز ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے ساتھ آنے والے کارندے اور پرانے قیدی جو منشی کہلاتے تھے، سبھی میرے لیے اجنبی تھے۔ جب بعد میں یہ مجھ سے بہت زیادہ مانوس ہوئے تو اس پہلے دن کے بارے میں مختلف انداز میں اظہارِ خیال کیا کرتے تھے۔ ایک قیدی راجا فضل کریم شاد جو بعد میں میرے لیے اخبار لے کر آیا کرتے تھے، کہنے لگے کہ ملک صاحب کو آپ کے مشقت سے انکار کی اطلاع ملی تو میرا خیال تھا کہ وہ اپنی غضب ناک طبیعت کی وجہ سے آگ بگولہ ہوجائیں گے اور آپ کو سخت سزا دیں گے۔ میں کسی حد تک فکرمند بھی تھا کہ یہ ایک دبلا پتلا سا نوجوان طالب علم ہے، اس بے چارے کی ہڈی پسلی ایک ہوجائے گی، مگر میں حیران رہ گیا جب ملک صاحب نے اپنے عملے سے کہا کہ یہ نوجوان ’’جماعتیہ‘‘ ہے، اسے ڈرانا دھمکانا ممکن نہیں۔ اسے اس کے حال پر چھوڑ دو۔

بعد میں جیل حکام کی طرف سے لائبریری کو منظم کرنے کا کام مجھے سونپا گیا۔ میں نے لائبریری میں حالات کا معائنہ کیا۔ اس کے بعد پندرہ دن میں سب کتب کی عنوانات و موضوعات کے مطابق نئی فہرست مرتب کی اور رجسٹر پر بوسیدہ کتابوں کی تفصیل بھی الگ سے لکھ دی۔ اس عمل کی تکمیل کے بعد روزانہ تو نہیں البتہ میں کبھی کبھار لائبریری میں جاکر چیک بھی کرتا تھا کہ قیدیوں نے مطالعے کے لیے جو کتب حاصل کی ہیں، وہ مقررہ وقت (پانچ دنوں) کے اندر واپس کی ہیں یا نہیں۔ دو قیدی مستقل طور پر یہاں خدمات سر انجام دیتے تھے۔ میں نے کچھ نئی کتب منگوانے کے لیے ایک فہرست مرتب کرکے دفتر میں ارسال کی۔ کچھ عرصے کے بعد اس فہرست کے مطابق چند ایک کتب کا لائبریری میں اضافہ ہوا۔ ان میں ’خطبات‘ اور ’دینیات‘ خاص طور پر قابلِ ذکر تھیں۔

ساہیوال جمعیت اور جماعت کے ساتھی وقتاً فوقتاً مجھ سے ملاقات کے لیے تشریف لاتے تھے۔ اُس زمانے میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم رائو محمد طاہر تھے۔ ان کے ساتھ محمد افضل، معز الدین، (میجر) غلام سرور، شیخ شاہد حمید اور کئی دیگر رفقا بھی جیل میں آتے اور ملاقات کرکے باہر کی بہت سی خبریں سنادیتے۔ رائو محمد طاہر اُس رات لاہور میں تھے جب ہم وائس چانسلر صاحب سے ملاقات کے لیے ان کے گھر گئے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اگلے روز وہ فوراً ساہیوال روانہ ہوگئے تھے۔ جمعیت اور جماعت کے ساتھیوں کی محبت لَوَجہِ اللہ کو یاد کرتا ہوں تو سب کے حق میں دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔

جماعت کے ساتھیوں میں سے ایک مرتبہ پیر محمد اشرف صاحب، چودھری بشیر احمد صاحب اور سید منور بخاری صاحب بھی ملاقات کے لیے تشریف لائے۔ میں نے ان کو بتایا کہ اللہ کا شکر ہے کہ اب جیل میں ماحول خاصا سازگار اور دوستانہ ہوگیا ہے۔ سرکاری کارندوں اور پرانے قیدیوں کے ساتھ نہ صرف دوستی قائم ہوگئی ہے بلکہ ان کو تحریکِ اسلامی سے متعارف کرانے کا کام بھی شروع ہوگیا ہے۔ جماعت اسلامی کا نام تو کئی لوگوں نے سن رکھا تھا، مگر اس کی دعوت سے زیادہ لوگ واقف نہیں تھے۔ بعض قیدیوں کے بارے میں اندازہ ہوتا تھا کہ وہ خاصے ذہین ہیں اور ان پر کچھ کام کیا جائے تو ان کی زندگیاں بدل سکتی ہیں۔

قیدی فضل کریم کا تعلق ضلع جہلم کے ایک گائوں ڈھوک دیدار بخش سے تھا، جو سوہاوہ سے چکوال جاتے ہوئے اس روڈ سے بائیں ہاتھ کچھ فاصلے پر واقع ہے۔ یہ صاحب ڈاکے کے کیس میں چودہ سال قیدِ بامشقت جھیل رہے تھے۔ پرانے قیدی ہونے کی وجہ سے اب منشی بنا دیے گئے تھے۔ سگریٹ نوشی اور وہ بھی چرس کے ساتھ ان کا مشغلہ تھا۔ میرے پاس آتے تو مجھے ان کی سگریٹ نوشی سے شدید اذیت پہنچتی۔ آخر میں نے ان سے کہا کہ آپ سگریٹ چھوڑ دیں۔ موصوف مجھ سے مانوس ہوچکے تھے، مگر میری بات سن کر کہنے لگے کہ میں آپ کے پاس آنا اور آپ کو اخبار پہنچانے کی ذمہ داری چھوڑ دینا تو قبول کرسکتا ہوں، مگر سگریٹ چھوڑنا میرے لیے ممکن نہیں۔ میں نے حکمت کے تحت کہا کہ کوئی بات نہیں، آپ آتے رہیں اور سگریٹ بھی پیتے رہیں۔

سگریٹ کے دھویں سے مجھے ہمیشہ سے شدید نفرت رہی ہے۔ اس دھویں سے میری طبیعت اس قدر خراب ہوتی ہے کہ محسوس کرتا ہوں جیسے الٹی ہوجائے گی۔ بچپن میں بزرگوں کی محفل میں بیٹھتا تھا جس میں حقہ لازمی ہوتا تھا۔ میں حقے سے ذرا فاصلے پر ہی رہتا تھا۔ حقے اور سگریٹ میں فرق بھی بہت زیادہ ہے۔ حقے کا دھواں پانی میں سے ہوکر آتا ہے، گویا کہ وہ دھلا ہوا ہوتا ہے اور اس میں کثافت اور بو بہت حد تک کم ہوجاتی ہے۔ سگریٹ کا دھواں اور وہ بھی چرس سے لتھڑا ہوا، توبہ توبہ! اللہ تعالیٰ نے مجھے اس وقت امام حسن البنا شہیدؒ کی سیرت سے یہ سبق سکھایا کہ اصلاح کے لیے کسی شخص کو اپنے سے دور کرنے کے بجائے اپنے سے قریب کرنا ضروری ہوتا ہے۔ مجھے یقین تھا کہ اصلاح اسی راستے سے ہوگی۔ الحمدللہ! اللہ نے مجھے مایوس نہیں کیا۔

اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ چند ہفتوں کی نشستوں کے بعد ایک روز فضل کریم صاحب آئے تو اُن کے ہاتھ میں سگریٹ نہیں تھی۔ میں نے پوچھا کہ کیا سگریٹ ختم ہوگئیں؟ کہنے لگے: مکمل طور پر ختم ہوگئی ہیں۔ آج کے بعد سگریٹ کو ہاتھ نہیں لگائوں گا۔ پھر واقعی اس مردِ خدا نے اپنے وعدے کا پاس کیا۔ جیل میں بقیہ عرصہ جن قیدیوں سے بہت قریبی تعلق رہا، اُن میں یہ صاحب سرفہرست تھے۔ میری رہائی کے بعد ان سے خط کتابت کے ذریعے رابطہ رہا۔ اپنی بقیہ قید تقریباً تین چار سال، بھگتنے کے بعد یہ رہا ہوئے تو سیدھے جماعت اسلامی ضلع جہلم کے دفتر میں گئے، اپنا تعارف کرایا اور اپنے آپ کو جماعت میں شمولیت کے لیے پیش کردیا، اسی وقت متفق بنا لیے گئے اور رکنیت کا نصاب پڑھانے کے بعد ان کی رکنیت منظور ہوگئی۔

مرحوم آخری دم تک اقامتِ دین کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔ مسلسل رابطہ رہتا تھا، میرے بیرونِ ملک قیام کے دوران باہمی خط کتابت سے حال احوال معلوم ہوتے رہتے تھے۔ میری پاکستان واپسی پر تو بالمشافہ مہینے میں کم از کم ایک بار ملنے کے لیے تشریف لایا کرتے تھے۔ کئی مرتبہ میرے گائوں میں بھی آئے۔ میرے خاندان کے تمام لوگوں سے بہت قریبی روابط قائم ہوگئے۔ میں بھی اُن کی زندگی میں چار پانچ مرتبہ ان کے گائوں گیا اور ان کی مسجد اور مدرسے میں پروگرام بھی کیے۔ منصورہ میں موصوف بارہا تشریف لائے۔ اپنے چھوٹے بیٹے کوثر کریم کو سیکیورٹی میں ملازم بھی کرایا، مگر وہ چند سالوں کے بعد یہ ملازمت چھوڑ کر چلا گیا۔ فضل کریم صاحب چند سال قبل اللہ کو پیارے ہوگئے۔ کوثر کریم بھی بے چارہ مفلوج ہے اور اس کی اہلیہ بھی مستقل مریضہ ہے۔ میاں بیوی اولاد سے بھی محروم ہیں۔ اللہ ان کے لیے آسانیاں پیدا فرمائے۔

مرحوم کے گائوں میں ان کی مسجد اور اس کے ساتھ مکتب انہی کی وجہ سے آباد تھے۔ اب معلوم نہیں ان کی کیا کیفیت ہے۔ اللہ ہمارے مرحوم بھائی کے درجات بلند فرمائے۔ ان کے بچوں سے رابطہ رہتا ہے۔ جیل میں ان کے ایک کزن راجا محمد ابراہیم صاحب بھی انہی کے ساتھ اسی کیس میں سزا بھگت رہے تھے۔ موصوف پیپلزپارٹی کے پکے جیالے اور بھٹو مرحوم کے سچے عاشق تھے۔ دونوں بھائیوں کے نظریات میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ ابراہیم صاحب کے والد کو گگومنڈی کے قریب کسی گائوں میں زمین ملی تھی، اس لیے ان کی رہائش جہلم کے بجائے اب اسی علاقے میں تھی۔ ابراہیم صاحب فضل کریم صاحب کے بہنوئی بھی تھے۔

کچھ دن جیل کی مشکلات میں گزرنے کے بعد آہستہ آہستہ سختیوں میں نرمی آنے لگی۔ اب یہاں قصوری چکیوں میں ایک سہولت ہمیں یہ بھی حاصل ہوگئی کہ احاطے کے اندر صبح طلوعِ آفتاب کے بعد سے غروبِ آفتاب تک قیدی ایک دوسرے سے مل بیٹھ کر گپ شپ کرسکتے تھے، اسی طرح لڈو ٹائپ گیمز بھی کھیل سکتے تھے، مگر یہاں مستقل طور پر ان کی نگرانی پر عملہ موجود رہتا تھا۔ ہم عشا اور فجر کی نماز کے سوا باقی سب نمازیں باجماعت ادا کرتے تھے۔ اس کے لیے ہمیں باہر سے چٹائیاں منگوانے کی سہولت بھی مل گئی۔ ہر روز باقاعدہ درسِ قرآن ہوتا تھا جس میں پچیس سے تیس لوگ شریک ہوتے تھے۔

اس درسِ قرآن کے بعد سوال و جواب بھی ہوتے تھے اور شرکا اپنے تجربات اور مشاہدات بھی بیان کرتے تھے۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے دو بوڑھے قیدی جو قتل کے کیس میں عمر قید کی سزا بھگت رہے تھے، ڈاکٹر نذیر شہیدؒ کے ساتھ مختلف جیلوں میں اپنی ملاقاتوں کا تذکرہ کرتے تو عجیب سماں بندھ جاتا۔ اسی طرح بعض قیدی جماعت کے کچھ دیگر بزرگوں کے بارے میں بھی اپنے خوب صورت تاثرات بیان کرتے تھے جن سے کبھی جیل میں ان کی ملاقات ہوئی۔ جیل میں آدمی کے لیے کئی سہولیات ہوتی ہیں اور کئی مشکلات۔ سہولت تو یہ ہے کہ کہیں جانا آنا نہیں ہوتا، آرام سے اپنے معمولات جاری رکھے جا سکتے ہیں، اور مشکلات یہ ہیں کہ کسی ضروری کام کے لیے آپ جیل کی حدود سے باہر نکلنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔

جیل میں وقت گزر رہا تھا اور مجھے بار بار خیال آتا تھا کہ میرے نانا جان نہ جانے کس حال میں ہیں۔ میں جب یونیورسٹی الیکشن سے قبل ان سے مل کر گھر سے لاہور روانہ ہوا تھا تو وہ شدید بیمار تھے۔ یہ مثالی حافظِ قرآن اب اس عمر اور بیماری میں کبھی اپنے بچوں تک کے نام بھی بھول جاتے تھے۔ عمر بھی بہت زیادہ ہوچکی تھی اور مرض بھی جان لیوا تھا۔ علاج معالجہ بھی بے اثر ثابت ہورہا تھا۔ آپ نے مجھے رخصت کیا تو آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس وقت میری والدہ بھی ان کے پاس بیٹھی تھیں۔ قید کے ان دنوںمیں آخری ملاقات کا منظر بار بار میری آنکھوں کے سامنے آجاتا تھا۔ میں جیل میں بس ان کے لیے دعا ہی کرسکتا تھا جس کا سلسلہ ہر نماز کے بعد اور سوتے جاگتے جب بھی ان کی یاد آتی، جاری رہتا۔(جاری ہے)