مولانا صدرالدین اصلاحیؒ تحریک اسلامی کے اہم فکری رہنما

(مولانا صدر الدین اصلاحی مدرستہ الاصلاح اعظم گڑھ کے عظیم فرزند تھے۔ نامور عالم ِدین، صاحب ِبصیرت مفکر نے 82 سال کی عمر میں 13نومبر 1998ء کو صبح ساڑھے چھے بجے پھول پور اعظم گڑھ میں جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔ مولانا صدر الدین اصلاحی کے سانحہ رحلت پر بھارت کے ممتاز اسکالر اور ششماہی ’’علوم القرآن‘‘ کے مدیر ڈاکٹر اشتیاق احمد ظلی نے تعزیتی اداریہ تحریر کیا تھا۔ ایک عظیم عالم کی یاد میں ہم یہ تحریر شائع کررہے ہیں۔ مولانا صدر الدین اصلاحی کے فرزند رضوان احمد فلاحی نے حاشیے میں بعض واقعات کی اصلاح کردی ہے جس کے لیے ہم ان کے شکرگزار ہیں۔ ادارہ)

مولانا صدر الدین اصلاحی مدرستہ الاصلاح کے ایک عظیم فرزند اور مکتب ِفراہی کے رکنِ رکین نے اس عالم آب و گل کو خیر باد کہہ دیا اور اپنے خالق و مالک کے حضور حاضر ہوگئے۔ دینی، علمی اور دعوتی حلقوں میں یہ خبر بڑے رنج و غم کے ساتھ سنی گئی کہ13 نومبر1998 ء کو صبح ساڑھے چھے بجے پھول پور، اعظم گڑھ میں 82 سال کی عمر میں نامور عالم دین، صاحب ِبصیرت مفکر اور بلند پایہ مصنف مولانا صدر الدین اصلاحی نے جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔ انالله وانا اليہ راجعون۔ ان کے انتقال سے دینی علمی حلقوں میں جو خلا پیدا ہوا ہے اس کا پُر ہونا مشکل ہے۔ قرآنی علوم سے دلچسپی رکھنے والوں کے لىے ایک سال کے مختصر عرصے میں یہ دوسر ا سانحہ ہے۔ یہ احساس اس سانحے کی شدت کو دوچند کردیتا ہے کہ اس قد و قامت کی کوئی اور شخصیت ہمارے درمیان نہیں رہ گئی جس کو ایسا علمی رسوخ اور قرآنی بصیرت حاصل ہو۔

مولانا کا آبائی وطن ضلع اعظم گڑھ کا ایک مردم خیز قریہ سیدھا سلطان پور تھا۔ اس قریہ کے فرزندوں میں بہت سے اہلِ علم و دانش شامل ہیں جن میں مولانا محمد شفیع صاحب بانی مدرستہ الاصلاح کا علمی خانوادہ خاص طور سے قابل ذکر ہے1))۔ مولانا فراہی کے شاگردِ رشید شیدائے قرآن مولانا اختر احسن اصلاحی کا یہاں نانہال تھا لیکن وہ یہیں متوطن ہوگئے، اس لىے اس گاؤں کے فضلاء میں ان کا شمار بھی نامناسب نہیں ہوگا۔ چنانچہ پٹھانوں کی اس بستی میں علم و فضل کی روایت پرانی تھی۔ یہیں 1917ء میں مولانا کی ولادت ہوئی۔ آپ کے والدِ ماجد عبدالجلیل خاں صاحب حافظ قرآن تھے اور زندگی بھر درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ مولانا کا نانہال ہندوستانی مسلمانوں کے معلم اول علامہ شبلی نعمانی کا وطن بندول تھا۔ عہدِ طفولیت بندول میں گزرا اور ابتدائی تعلیم یہیں پرائمری اسکول میں حاصل کی۔ ثانوی تعلیم مڈل اسکول بلریا گنج میں پائی۔ مدرستہ الاصلاح کے ریکارڈ کے مطابق یکم نومبر1929ء کو مدرستہ الاصلاح میں داخلہ لیا اور 1937ء میں فراغت حاصل کی۔ مدرستہ الاصلاح سے فراغت کے بعد دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا لیکن وہاں کسی باعث چند ماہ سے زیادہ سلسلہ تعلیم جاری نہ رہ سکا2))۔ مولانا صدر الدین اصلاحی فضلاء مدرستہ الاصلاح کی اُس پیڑھی سے تعلق رکھتے تھے جن کو مولانا فراہی سے استفادے کا موقع تو نہیں ملا لیکن ان کو دیکھنے کی سعادت ضرور ملی۔ مولانا مدرستہ الاصلاح میں ىکم نومبر1929ء کو وارد ہوئے اور مولانا فراہی نے 11 نومبر1930ء کو اس خاکدانِ ارضی کو خیرباد کہا۔ اس طرح مولانا کے مدرستہ الاصلاح میں داخلہ لینے کے پورے ایک سال بعد تک مولانا فراہی مدرسے سے وابستہ رہے۔ یہ وہ وقت تھا جب مدرسہ مولانا فراہی کی ذاتی نگرانی اور رہنمائی میں ایک انقلابی تجربے سے گزر رہا تھا۔ مولانا فراہی نے جس عظیم الشان اصلاحی مشن کی داغ بیل ڈالی تھی اس كا ایک اہم جزو نظام تعلیم کی اصلاح تھا۔ نظام تعلیم میں وہ نہایت بنیادی اور دوررس اہمیت کی حامل تبدیلیاں کرنا چاہتے تھے۔ اس اہم تجربے کے لىے انھوں نے مدرستہ الاصلاح کو منتخب کیا۔ گو مدرسے سے ان کا تعلق بالکل ابتدا سے تھا اور 1912ء سے وہ حیدرآباد میں رہتے ہوئے اس کی نظامت کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے تھے، لیکن 1920ء میں انھوں نے حیدر آباد اور اس کی بیش قرار ملازمت کو خیرباد کہہ کر پوری یکسوئی سے اپنے آپ کو اس کام کے لىے وقف کردیا اور 1930ء میں اپنے دمِ واپسىں تک پوری تندہی سے اس خدمت میں مصروف رہے۔ انھوں نے اس کے اغراض و مقاصد کا خاکہ تیار کیا۔ اس کا نصابِ تعلیم متعین کیا۔ مختلف علوم وفنون کی تعلیم و تدریس کے لىے اساتذہ کی تربیت کی، اور ان سب سے زیادہ قرآن حکیم کو پڑھنے اور اس پر تدبر کے طریقے سکھائے۔ انھوں نے اپنی عمر کے آخری دس سال اس مدرسے کو وہ رخ دینے اور اس نہج پر چلانے میں صرف کیے جو انھوں نے اس کے لىے متعین کیا تھی۔ اس نئے نظام تعلیم کا سب سے واضح اور اہم پہلو قرآن مجید کی محققانہ تعلیم تھی جسے اصل کا مقام دیا گیا تھا، دوسرے تمام علوم اس آفتابِ عالمتاب کے گرد گھومتے تھے جیسا کہ اس کی اہمیت کا واقعی تقاضا ہے۔ اس نصابِ تعلیم کا ایک اور اہم پہلو یہ تھا کہ حدیث اور فقہ کی تعلیم جماعتی اور مسلکی عصبیت اور تحزب سے پاک ہو، تاکہ طلبہ کے اندر وسعتِ نظر اور رواداری پیدا ہو۔ مولانا صدر الدین اصلاحی نے جب مدرستہ الاصلاح میں داخلہ لیا تو یہ انقلابی مہم اپنے نقطہ عروج پر تھی۔ یہ مولانا فراہی کی عمر کا آخری سال تھا اور اب ان کی انتھک محنت اور کوشش کے ثمرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے تھے۔ جو اساتذہ اُس وقت مسندِ درس و تدریس پر فائز تھے ان میں مولانا شبلی متکلم ندوی، مولانا محمد سعید ندوی، مولانا عبدالصمد ندوی اور مکتبِ فراہی کے خصوصی تربیت یافتگان مولانا اختر احسن اصلاحی، مولانا امین احسن اصلاحی اور مولانا نجم الدین اصلاحی رحمہم اللہ شامل تھے۔ یہ مدرستہ الاصلاح کا عہدِ زریں تھا۔ اساتذہ اور طلبہ سب ایک اصلاحی اور تعمیری جذبے سے سرشار تھے۔ ایک عظیم الشان فکری اور اصلاحی مشن کا حصہ ہونے کا احساس سب کو تھا۔ ایک تڑپ، ایک جذبہ، کچھ کرنے اور بننے کا ولولہ سب کے دلوں میں موجزن تھا۔ ایسے مثبت، تعمیری اور انقلاب آفریں ماحول میں خاص کر اُن طلبہ کے لىے جو اوسط سے اوپر تھے اور جن کو مبدأ فیض سے استعداد و صلاحیت کا وافر حصہ ودیعت ہوا تھا، ابھرنے اور نکھرنے کے بڑے مواsقع تھے۔ مولانا صدرالدین اصلاحی ایک ایسے ہی ذی استعداد اور باحوصلہ طالب علم تھے اور مدرستہ الاصلاح کی وادیِ غیر ذی زرع میں برپا اس خاموش انقلاب کا ایک حصہ تھے۔ اپنی خداداد صلاحیتوں کے باعث وہ اس ماحول سے خوب خوب مستفید ہوئے۔ قرآن مجید سے والہانہ وابستگی، علم کی پیاس، تحقیق کی لگن، غور و فکر کی عادت اور اپنے نتائجِ فکر اور حاصلِ مطالعہ کو دوسروں تک پہنچانے کے لىے قرطاس و قلم کا سہارا لینے کا شوق اسی دور کی یادگار ہے۔ اس کا ایک بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس زمانے میں جب کہ ابھی وہ طالب علم ہی تھے، ان کے مضامین ترجمان القرآن میں شائع ہونے لگے تھے۔ چنانچہ ان کا پہلا مضمون ”نکاح کتابیہ‘‘ مارچ 1937ء میں ترجمان القرآن میں شائع ہوا۔ اس عہد کا دوسرا مضمون ’’مسلمان اور امامت کبریٰ“ جولائى،اگست اور اكتوبر 1937ء میں شائع ہوا تھا جو پچھلے دنوں کتابی صورت میں شائع ہوگیا ہے۔ اس سے دورِ طالب علمی میں ان کی ذہنی و فکری سطح کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ مولانا مودودی سے ان کا رابطہ مدرستہ الاصلاح کے زمانہ طالب علمی میں قائم ہوچکا تھا اور ان کے بعض مضامین ترجمان القرآن میں شائع ہوچکے تھے جو اُن دنوں مولانا کی ادارت میں حیدرآباد سے شائع ہوتا تھا۔ 1938ءمیں جب مولانا مودودی نے پٹھانکوٹ میں ادارہ دارالاسلام کی بنیاد رکھی تو مولانا صدر الدین اصلاحی اس کے پانچ تاسیسی ارکان میں شامل تھے۔ یہ ان کی طالب علمی کے معاًبعد کا زمانہ ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ اپنی آئندہ زندگی کے مقاصد و ترجیحات اور سمتِ سفر کا تعین انھوں نے اپنے زمانہ طالب علمی ہی میں کرلیا تھا اور روز، اول انھوں نے جو راستہ اپنے لىے منتخب کیا تھا پوری استقامت اور پامردی کے ساتھ آخر تک اس پر گامزن رہے اور راہ کی دشواریوں کے باعث ان کے پائے استقامت میں کبھی لغزش نہیں آئی۔ جماعت اسلامی کی تاسیس کے وقت وہ ہندوستان سے دور برما میں تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے، لیکن مولانا مودودی کو تحریک کے مقاصد سے اُن کی وابستگی پر اتنا بھروسہ تھا کہ اُن کی باقاعدہ اجازت کے بغیر ان کی ادارہ دارالاسلام کی رکنیت جماعت اسلامی کو منتقل کردی گئی اور ان کو مطلع کردیا گیا۔ جماعت اسلامی کی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہے۔ 1944ء میں برما سے واپسی3)) کے بعد 1945ء میں وہ پھر پٹھانکوٹ چلے گئے اور وہاں ان کا قیام1946ء تک رہا۔ اسی سال منتظمین مدرستہ الاصلاح کی تحریک پر مولانا مودودی نے انہیں مادرِ علمی کی خدمت کے لىے فارغ کردیا اور وہ یہاں1949ء تک تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ جماعت اسلامی ہند کے قیام کے وقت وہ مدرستہ الاصلاح میں استاذ تھے اور جماعت کے پہلے منتخب امیر مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی بھی اُس وقت وہیں تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی ہند کا پہلا مرکز مدرستہ الاصلاح تھا۔

مولانا صدر الدین اصلاحی جماعت اسلامی ہند کے اہم ترین فکری رہنما تھے۔ عملاً بھی انھوں نے مختلف مواقع پر جماعت کی قیادت کی۔ چنانچہ انھوں نے نہ صرف 1954ء میں چند مہینوں کے لىے امیر جماعت کی حیثیت سے کام کیا بلکہ مختلف اوقات میں قائم مقام امیر کے فرائض بھی انجام دىے اور جب تک صحت نے اجازت دی جماعت کے اعلیٰ ترین فیصلہ ساز اداروں کے رکن رہے۔ ثانوی درس گاہ رام پور کے از اول تا آخر ناظم رہے، اس کے علاوہ ابتدا ہی سے جماعت کے تصنىفی شعبے کے سربراہ رہے۔ جب ادارہ تحقیق و تصنیفِ اسلامی، علی گڑھ کا قیام عمل میں آیا تو اس کی سربراہی کی ذمہ داری بھی مولانا ہی کو تفویض کی گئی اور وہ1983ء تک اس کے صدر رہے، اسى سال خرابیِ صحت کے باعث اس ذمہ داری سے سبک دوش ہوگئے۔

ان سب کے باوجود واقعہ یہ ہے کہ ان کا اصل میدانِ کار تحقیق و تصنیف تھا اور ان کے جوہر اسی میدان میں کھلے۔ تحریکِ اسلامی کے لىے مضبوط فکری اور نظریاتی اساس فراہم کرنے کے سلسلے میں انھوں نے جو بنیادی اہمیت کا کام کیا ہے جماعت اسلامی کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ مزید برآں تحریک کے وابستگان اور کارکنوں کی ذہنی، فکری اور عملی تربیت کے لىے ضروری لٹریچر کی تیاری اور ان کے لىے فکری غذا کی فراہمی کے میدان میں مولانا نے کلیدی کردار ادا کیا۔ نظریاتی تحریکوں کی کامیابی اور ناکامی میں اس عنصر کو جو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے اہلِ نظر اس سے بخوبی واقف ہیں۔ اس مقصد سے انھوں نے بے شمار مضامین کے علاوہ دو درجن کے قریب نہایت وقیع تصنیفات کا گراں قدر سرمایہ یادگار چھوڑا ہے۔ قرآن مجید اور قرآنی علوم سے ان کو خصوصی شغف تھا اور یہ ان کی جملہ تصنیفات کا سب سے نمایاں پہلو ہے۔ وہ پیش آمدہ مسائل کا مطالعہ بنیادی طور پر قرآن مجید کی روشنی میں کرتے ہیں اور ان کا حل خالص قرآنی ہدایات و تعلیمات میں تلاش کرتے ہیں۔ بالغ نظری، فکری پختگی، اعلیٰ تحقیقی معیار، رچا ہوا اسلوبِ نگارش، گٹھی ہوئی تحریر، نپا تلا اندازِ بیان ان کی تصنیفات کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ بسیار نویسی اور طولِ بیان ان كی عادت نہیں۔ مختصر ترین الفاظ میں زیادہ سے زیادہ معانی و مفاہىم کی تفہیم و ترسیل ان کی تحریر کا امتیازی وصف ہے۔ دریا کو کوزے میں سمیٹنے کا فن ان کو خوب آتا ہے۔ مولانا کی تصانیف میں قرآن مجید کا تعارف، دین کا قرآنی تصور، اساسِ دین کی تعمیر، معرکہ اسلام و جاہلیت، حقیقتِ نفاق اور اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ بڑی معرکۃ الآراء کتابیں ہیں اور ان کے مشمولات کا فکری معیار بہت بلند ہے۔ ان کا ایک بڑا کام مولانا مودودی کی مبسوط تفسیر تفہیم القرآن کی تلخیص ہے۔ انھوں نے خود بھی تیسیر القرآن کے نام سے ایک عام فہم تفسىر لکھنی شروع کی تھی جو سورہ بقرہ سے آگے نہ بڑھ سکی۔ یہ تفسیر بالاقساط ماہنامہ زندگی میں شائع ہوچکی ہے۔ بنیادی طور پر یہ تفسیر بھی فراہی مکتبِ تفسیر سے تعلق رکھتی ہے، اور اگر مکمل ہوسکی ہوتی تو تفسیری لٹریچر میں ایک گراں قدر اضافہ ہوتی4))۔

مولانا کی کتابوں کا اگر بہ نظر غائر مطالعہ کیا جائے تو صاف محسوس ہوگا کہ ان کی علمی اور فکری کاوشوں میں چند پہلو بہت نمایاں ہیں۔ ان فکری خصوصیات کے معروضی تجزیے سے ان کی تشکیل میں بعض عوامل کی کارفرمائی واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔ اس امر میں شبہ کی گنجائش کم ہی نظر آتی ہے کہ ان کی فکر کی صورت گری میں دورِ طالب علمی میں ان کی مادرِ علمی میں پائی جانے والی خاص ذہنی اور فکری فضا اور رویوں کا بہت کچھ دخل رہا ہے۔ قرآن مجید سے شغف اور اس پر غور و فکر کی ضرورت و اہمیت کا احساس انہیں اسی دور میں ہوا، اور ان کی فکر کی تشکیل و تعمیر میں اس کا جو غیر معمولی حصہ رہا ہے اس سے اہلِ علم بخوبی واقف ہیں۔ فکرِ فراہی سے وہ یہیں روشناس ہوئے اور قرآن كے فہم اور اس کی تشریح و تفسیر میں ان کے یہاں اس فکر کو جو اہمیت حاصل ہے وہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ شاہ ولی اللہ اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے افکار سے بھی وہ یہیں روشناس ہوئے۔ شاہ صاحب کی شہرہ آفاق تصنیف حجتہ اللہ البالغہ مدرستہ الاصلاح کے نصابِ تعلیم کا ایک اہم حصہ رہی ہے اور اس کے واسطے سے ولی اللہی افکار و نظریات سے طلبہ روشناس اور متاثر ہوتے رہے ہیں۔ اور جب برصغیر کی بیشتر درس گاہوں میں ابن تیمیہ کا ذکر بھی گوارا نہ تھا اُس وقت بھی مدرستہ الاصلاح میں ان کے نام اور کام کا غلغلہ بلند تھا۔ اسی طرح اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ جس فکری اور مسلکی توسیع کی غماز ہے وہ بھی مدرستہ الاصلاح کا نشانِ امتیاز ہے۔ مدرستہ الاصلاح میں فقہ کی تعلیم مسلكی تحزب و تعصب سے بلند ہوکر دی جاتی ہے تاکہ طلبہ کے اندر تکفیر و تفسیق اور فضول مذہبی مناقشات کا کوئی ولولہ نہ ابھرے۔ چنانچہ صاف نظر آتا ہے کہ مولانا کے بنیادی افکار و نظریات کی جڑیں مدرستہ الاصلاح کے علمی اور فکری پس منظر میں پیوست ہیں۔ بعد میں ان کی ذاتی دلچسپی، مطالعہ و تحقیق اور غور وفکر کے نتیجے میں یہ ایک منظم اور مربوط فکر کی صورت میں ان کی تحریروں میں ظاہر ہوئی۔ مزید برآں تحریک اسلامی کے مقتضیات اور اس کے فکر و فلسفے کی چھاپ فطری طور پر ان کی تحریروں میں نمایاں ہے، اس لىے کہ انھوں نے اپنی پوری زندگی اس کے لىے وقف کردی تھی۔ علمی طور پر یہ بات بہرحال بہت اہمیت کی حامل ہے کہ مولانا نے تحریک اسلامی کی فکری اور عملی رہنمائی کے لىے متعدد انہی موضوعات کا انتخاب کیا ہے جن سے دورانِ طالب علمی ان کی مادرِ علمی کے مخصوص فکری پس منظر کے باعث ان کی وابستگی ہوچکی تھی۔ ان موضوعات پر انھوں نے جو وقیع لٹریچر فراہم کیا ہے اس کی واقعی قدر و قیمت کا اندازہ دراصل ان اثرات میں تلاش کرنا چاہىے جو بنیادی طور پر برصغیر میں برپا تحریک اسلامی پر مرتب ہوئے۔ علمی، تحقیقی اور تصنیفی مشغولیات کے ساتھ ساتھ تدریس اور مدارس سے بھی مولانا کا گہرا تعلق رہا ہے اور زندگی کے مختلف مراحل میں انھوں نے متعدد درس گاہوں میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ ان کی تدریسی زندگی کی ابتدا موضع کوہندہ، ضلع اعظم گڑھ کی درس گاہ سے ہوئی جہاں انھوں نے طالب علمی کے بعد کے ابتدائی ایام میں کچھ دنوں بحیثیت استاد کام کیا۔ 1941ء میں مولانا امین احسن اصلاحی کے ایما پر جمعیۃ العلماء برما کے مدرسے میں تدریس کے لىے رنگون کا سفر کیا جہاں ان کا قیام1944ء تک رہا5))۔

1946ء سے1949ء تک مدرستہ الاصلاح میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ اس کے علاوہ ثانوی درس گاہ، رام پور کے قیام کے ابتدائی سالوں میں نظامت کے ساتھ ساتھ تدریس کی ذمہ داری بھی نبھاتے رہے۔ اس طرح مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی کئی نسلوں کو ان کے علم و فضل سے براہِ راست استفادے کا موقع ملا۔ ان کے تلامذہ میں متعدد اصحابِ علم و دانش کے نام شامل ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بہت دنوں جامعۃ الفلاح، بلرىاگنج کے ناظم رہے اور علالت کے باعث ہی اس سے سبک دوش ہوئے۔ مدرستہ الاصلاح کی مجلسِ منتظمہ اور مجلسِ تعلیمی کے بھی مدتوں رکن رہے۔ مولانا کی ذاتی زندگی ان تعلیمات و نظریات کا عکس تھی جن كی نشر و اشاعت کے لىے ان کی زندگی وقف تھی۔ شعائرِ دینیہ کی پابندی، تقویٰ اور معاملات میں غیر معمولی احتیاط وہ عناصر تھے جن سے ان کی زندگی عبارت تھی۔ ان کے یہاں سادگی، تواضع اور وقار کا بڑا خوبصورت امتزاج پایا جاتا تھا۔ حُبِّ شہرت و جاہ ان کی کبھی کمزوری نہیں رہی۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کو وہ اعتراف و شہرت نہیں ملی جس کے وہ اپنے علم و فضل کے باعث بجاطور پر مستحق تھے، لیکن ان کو ستائش کی تمنا تھی نہ صلے کی پروا۔ اسی طرح وہ فتنہ معاصرت سے یکسر آزاد تھے۔ یہ وہ خوبیاں ہیں جو مشکل ہی سے ایک جگہ جمع ہوتی ہیں۔ وہ طویل عرصے سے مختلف بیماریوں کی زد میں تھے جن کی وجہ سے ان کے شب وروز سخت ذہنی اور جسمانی تکلیف میں گزرتے تھے، لیکن ان حالات کا بھی انھوں نے بڑی پامردی اور صبر و شکر کے ساتھ سامنا کیا۔ اپنی زندگی کے ابتدائی ایام میں انھوں نے خدمتِ دین کا جو عہد اپنے پروردگار سے کیا تھا اپنی پوری زندگی اور تمام تر صلاحیتیں اس کی تکمیل میں لگا دیں۔ اس سے بڑی سعادت کا اور کیا تصور کیا جا سکتا ہے! اللہ تعالیٰ ان کو ان سب کا بہترین اجر دے اور انہیں اپنی رحمتوں سے ڈھانپ لے۔ آمین۔

25دسمبر1998ء
حاشیہ
-1 بالخصوص مولانا عبدالرحمٰن پرواز اصلاحى اور اردو دنىا كى معروف شخصىت ڈاكٹر خلىل الرحمٰن اعظمى۔ مولانا محمدشفىع صاحب مولانا اختر احسن اصلاحى كے سگے ماموں تھے۔

-2اس بىان مىں قدرےسقم ہے۔ مرحوم فراغت كے بعد نہىں بلكہ مدرسۃالاصلاح میں تعلىم كے دوران ہى 1932ء مىں دىوبند گئے اور وہاں چھے ماہ تك تعلىم حاصل كى۔ لىكن وہاں كے بىزاركن ماحول سے بددل ہوكر مدرسۃ الاصلاح واپس آگئے اور ىہىں سے 1937ء مىں سندىافتہ ہوئے۔ (رضوان)
-3 مرحوم جون 1941ء مىں رنگون تشرىف لے گئے تھے اور جنگ كى وجہ سے بگڑتے حالات كے سبب اُسى سال دسمبر مىں واپسى ہوگئى تھى۔ (رضوان)
-4ىہ تفسىر مرتب ہوكر 2006ء مىں شائع ہوگئى ہے- (رضوان)
-5 صحىح:دسمبر 1941ء تك۔ (رضوان)